1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میں اور میرا اگلو (Igloo)

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏12 اپریل 2012۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    میں اور میرا اگلو (Igloo)

    میرے ایک دوست پاک فوج میں افسر ہیں۔ یہ کہانی ان کے سیاچن میں ایک پوسٹ پرتین ماہ رہنے دوران کے تجربات ہیں۔افراد اور جگہوں کے نام چونکہ سرکاری راز ہیں اس لیے ان کو حذف کر دیا گیا ہے۔اس کہانی سے آپ کو پوسٹ پر فرائض سرانجام دینے والے بہادروں کے محسوسات کا اندازہ ہو گا۔

    نومبر کا مہینہ تھا جب مجھے حکم ملا کہ سیاچن کی ایک پوسٹ جوکہ 24000 فٹ کی بلندی پر جانے کے لیے میرا انتخاب کیا گیا ہے۔ دل میں خوشی اور تشویش کے ملے جلے جذبات تھے۔ خوشی کہ آخرکار مجھے وہ کام سونپا جا رہا تھا جس کے لیے میں اتنا عرصہ قوم کا پیسہ وصول کر رہا تھا اور تشویش کہ نجانے اگلی پوسٹوں پر زندگی کیسی ہو گی۔صبح مجھے پوسٹ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اپنی تیاری میں نے پہلے ہی مکمل کر لی تھی۔ اگلے موچوں پر استعما ل ہونے والی کٹ میں نے پہلے ہی لے لی تھی جس میں مخصوص لباس، جوتے، ٹوپی، عینک ، چھڑی اور دیگر اشیاء شامل تھیں۔
    علی الصباح آنکھ کھلی تو میں نے اپنی تیاری کو حتمی شکل دی۔ شیو کی، کٹ پہنی،اپنا پیک کاندھے پر ڈالا اور اس مقام کا رخ کیا جہاں سے ہماری ٹیم نے روانہ ہونا تھا۔اگرچہ نومبر کا مہینہ تھا اور برفباری کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا مگر اس کٹ میں گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ خیر باہر نکلا تو موسم صاف تھا اور ٹیم روانگی کے لیے تیار تھی۔ایک سپاہی میرے قریب آیا اور کہنے لگا اپنا پیک مجھے دے دیں۔ میں نے کہا تو پھر تمھارا پیک کون اٹھائے گا۔ کہنے لگا سر میں دو پیک اٹھا لوں گا۔میں نے جواب دیا "ہم جنگ کے میدان میں جا رہے ہیں اور گولی اور موسم افسر اور سپاہی میں تمیز نہیں کرتے" سو ہماری ٹیم میں بھی افسر اور سپاہی کی تمیز نہیں ہو گی۔ ہر کوئی اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور ہر کام برابر تقسیم ہو گا۔
    مختلف کیمپوں سے ہوتے ہوئے ہماری ٹیم آگے بڑھتی رہی۔ ہر کیمپ پر کچھ ساتھی اپنے جداراستے پر ہو جاتے اور کچھ نئے ساتھی ہمارے ساتھ ہو جاتے۔اب اس کٹ کی افادیت کا اندازہ ہونے لگا کہ بیس کیمپ میں جو کٹ گرمی کا احساس دلا رہی تھی اب وہ ناگیزیر ضرورت تھی۔
    بیس کیمپ کے بعد ہم دن کو آرام کرتے اور رات کو سفر کرتے تاکہ دشمن کو ہماری حرکت کا پتہ نہ چل سکے۔یوں کئی دن کی مسافت اور ہمسفر بدلتے بدلتے میں اپنی پوسٹ سے نیچے آخری کیمپ میں پہنچ گیا۔اگلی رات سفر کا سب سے مشکل مرحلہ تھا کہ اب اس پہاڑ پر چڑھنا تھا جس کی چوٹی پر ہماری پوسٹ تھی۔اللہ کا نام لے کر سفر کا آغاز کیا۔بہت سی جگہوں پر اوپر چڑھنے کا واحد راستہ لٹکتی ہوئی رسیاں تھیں۔آدھے راستہ میں ہمیں پوسٹ کی طرف سے آنے والی ٹیم ملی۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی مدت پوری کر کے واپس جا رہے تھے۔ہمارے ساتھ آنے والے گائیڈوں نے ان کو ساتھ لیا اور ان کے ساتھ آنے والے گائیڈ ہمیں ساتھ لیکر آگے بڑھے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ اب ہم ایسے علاقے سے گزرنے لگے ہیں جو دشمن کی نظر میں ہے اس لیے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔رسی کو ہاتھوں میں پکڑے ہم تھوڑی سے چڑھائی چڑھے تو ایک ساتھی کا پیر پھسل گیا۔ چونکہ ہم سب ایک رسی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے پھسلنے والا ساتھی چند فٹ گرنے کے بعد رسی کے سہارے سنبھل گیا مگررات کی خاموشی کو اس کے گرنے کی آواز نے چیرا۔ چند ثانیے بعد دوسری چوٹی پر نصب دشمن کی مشین گن نے آگ اگلنا شروع کر دی۔دشمن کا اندازہ ہماری موجودہ جگہ کے بارے میں غلط ثابت ہوا اور گولیاں ہم سے 100 فٹ دور برف میں پیوست ہو گئیں۔ہم سب بالکل ساکت ہو گئے۔ پھر ایک اور برسٹ آیا اور پہلے والی ہی جگہ پڑا۔اب ہماری پوسٹ پر سے دشمن کی پوسٹ پر فائرنگ ہونے لگی۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دشمن کی توجہ بٹ گئی اور ہم نے آگے کا سفر شروع کر دیا مگر بہت احتیاط سے کہ کوئی آواز نہ پیدا ہو۔چند قدم ہی چلے ہیں گے کہ کان پھاڑ دینے والے دھماکے ہونا شروع ہوئے۔ ہماری پوسٹ والوں نے توپخانے کا فائر منگوا لیا تھا۔ہم تقریباً دس منٹ تک یوں ہی برف پر لیٹے رہے مگر مذید کوئی آواز نہ آئی۔ توپخانے کا ایک سالوSalvo دشمن کے لیے پیغام تھا کہ مذید نہ چھیڑا جائے۔ جب خاموشی قائم رہی تو ہم نے پھر چلنا شروع کیا۔اور آخرکار اپنی پوسٹ پر پہنچ گئے۔پوسٹ پر موجود سنتری نے ہمیں روک لیا۔ کوڈ ورڈ کی پہچان کے بعد ہم پوسٹ کی حدود میں داخل ہوئے۔
    اس پوسٹ پر ہم کل 10 لوگ تھے جن میں دو افسران اور باقی آٹھ سپاہی تھے جن میں کک اور نرسنگ کا سپاہی بھی شامل تھے۔ہم سب بڑے اگلو میں داخل ہوئے اور سب سے دعا سلام اور تعارف ہوا۔ پھر ہمیں انرجائیل ملا پانی پیش کیا گیا۔یہاں چونکہ پانی بھی برف پگھلا کر بنایا جاتا ہے جس کو پینا ایک مشکل کام ہے اس لیے پینے کےلیے پانی میں انرجائیل ملایا جاتا ہے۔رات کا کھانا تو ہم آخری کیمپ سے کھا کر نکلے تھے اس لیے پانی کے بعد چائے کا دور چلا اور ہم سب کو ہمارے آرام کی جگہ دکھائی گئی۔ رہنے کا بندوبست یہ تھا کہ ایک بڑا اگلو جس میں آٹھ آدمیوں کی گنجائش تھی سپاہیوں کے زیر استعمال تھا اور ایک چھوٹا اگلو جس میں دو افراد کی گنجائش تھی افسران کے لیے مختص تھا۔
    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    بہت خوب واصف بھائی ۔۔پاکستان کے اُس حصے کی کہانی جہاں ہم جیسوں کا جانا تو ممکن نہیں لیکن اس کو پڑھ کر تو آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے نا۔۔
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    2
    ہماری پوسٹ کا کل رقبہ 20 مربعہ فٹ کے قریب تھا جس میں دو اگلو رہنے کے لیے تھے۔ایک پرانا اگلو جو پہلے کسی وقت میں رہنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہو گا مگر بعد میں دشمن کے فائر سے اس کا آدھا حصہ ٹوٹ اور جل گیا تھا۔اس اگلو کا آدھا حصہ برف کی دیواروں سے بنا کر اس کو یوں رکھا گیا تھا کہ اس کا 2 فٹ حصہ کھائی کے اوپر معلق تھا جس کے نیچے ایک سوارخ کیا گیا تھا۔ یہ اگلو ہمارے رفع حاجت اور غسل خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ان تین اگلووں کے درمیان 4 فٹ کا علاقہ تھا۔ پوسٹ کے اگلی طرف یعنی جس طرف دشمن تھا سینکڑوں فٹ گہری کھائی تھی۔ یہ وہی کھائی تھی جس پر ہمارا رفع حاجت والا اگلو لٹکا ہوا تھا۔ دوسری طرف بھی کھائی ہی تھی مگر یہ کوئی ساٹھ فٹ گہری تھی جس پر اترنے چڑھنے کے لیے رسیاں لٹکی ہوئی تھیں۔
    ہمارا ذیادہ وقت بڑے اگلو میں ہی گزرتا تھا اور چھوٹے اگلو میں صرف سونے کے لیے جاتے تھے۔بڑے اگلو میں کھانا پکانا، گپیں، تاش، نچلے کیمپ کے ساتھ ٹیلی فون کا رابطہ، وایرلس سیٹ پر کال غرض سب کچھ ہوتا تھا۔ یوں کہنا چاہیے کہ یہ بڑا اگلو ہماری تمام چیزوں کا محور تھا۔ یہ ہمارا ڈائینگ روم بھی تھا اور اپریشن روم بھی، یہ ہمارا پلے گراونڈ بھی تھا اور کچن بھی، یہ ہمارا کمیونیکشن روم بھی تھا اور مسجد بھی۔ذیادہ وقت یہاں چولہا اور پیٹرومیکس لیمپ جل رہا ہوتا تھا جس کی وجہ سے اگلو کا اندونی درجہ حرارت معقول رہتا تھا۔
    یہاں آئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ سب لوگوں سے اچھی واقفیت ہو گئی۔اچھی گپ شپ رہتی، تاش کھیلے جاتے اور رات گئے تک ریڈیو سنا جاتا۔فوجیوں کا فرمائشی پروگرام ریڈیو پاکستان پر سنا جاتا اور اندازے لگائے جاتے کہ فرمائش کرنے والا کس پوسٹ پر ہو گا۔ پھر انڈین ریڈیو اسٹیشن پر گانوں کا پروگرام لگ جاتا تو وہ سننے لگتے۔ بی بی سی کی اردو سروس کے بعد اردو زبان کے پروگرام ختم ہو جاتے تو سونے کا ارادہ کیا جاتا۔ ہم اپنے اگلو میں آ کر کچھ انگریزی پروگرام تلاش کرتے اور سنتے اور رات کے آخری پہر میں ریڈیو چین کی اردو سروس سے لطف اندوز ہوتے جس میں اگرچہ پروگرام تو کچھ خاص نہیں ہوتے تھے مگر چینیوں کا اردو لہجہ لطف دیتا تھا۔
    رمضان کا مہینہ قریب تھا اور ہم رعیت ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔اعلان ہوا کہ چاند نظر آ گیا ہے اور کل پہلا روزہ ہو گا۔نماز تراویح تو کجا یہاں تو باجماعت نماز کا بھی بندوبست ممکن نہ تھا۔ اگلو اگر آپ میں سے کسی نے دیکھا ہو تو وہ میری بات کی توثیق کرے گا کہ اگلو میں سیدھا کھڑے ہونے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ سو نماز بیٹھ کر ہی پڑھی جاتی تھی۔رمضان کی روٹین یہ رہی کہ ہم جلد اپنے اگلو میں آ جاتے تاکہ باقی لوگوں کو عبادت اور نیند کا وقت میسر آ سکے۔ خود ہم ساری رات جاگتے اور اکثر رات کے سنتری کے فرائض بھی بجا لاتے۔ سحری کر کے ہم اپنے اگلو میں ہی فجر کی نماز ادا کرتے اور سو جاتے۔اب سوائے ہنگامی حالات یا ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات کے ہمیں کوئی نہیں جگاتا تھا۔ افطار کے وقت اٹھ کر افطاری کی جاتی۔ پھر عشاء تک مختلف کام اور عشاء کے بعد ہم واپس اپنے اگلو میں صبح تک جاگنے کے لیے۔
    پوسٹ پر کھانے کے لیے ڈبہ بند خوراک ملتی ہے جس کو معمولی تڑکا لگا کر کھانے کے لیے تیار کر دیا جاتا ہے۔گوشت کے لیے بکرے زبح کر کے رکھے جاتے ہیں جن کو محفوظ رکھنے کے لیے بوری میں بند کر کے برف میں دبا دیا جاتا ہے اور حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ سردیوں میں برفانی طوفان عام ہیں اور راستے بند ہو جاتے ہیں تو ضرورت کا سامان گرمیوں کے موسم میں پوسٹ پر لا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ پہرے پر موجود سنتری دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ اس جگہ پر بھی نظر رکھتا ہے جہاں گوشت دبایا گیا ہو کیونکہ برفانی لومڑیاں گوشت اڑانے کی ٹوہ میں رہتی ہیں۔ عام طور پر جس جگہ گوشت دبا کر رکھا گیا ہو اسے فریزر کے نام دیا جاتا ہے۔
    کھانا پکانے میں سب سے مشکل مرحلہ گوشت کو گلانے کا ہوتا ہے۔ گھنٹوں پریشر ککر میں رکھنے کے بعد بھی گوشت نہیں گلتا کیونکہ اتنی بلندی پر ہوا کا دباو بہت کم ہوتا ہے اور پریشر ککر مطلوبہ پریشر نہیں بنا سکتا۔اور اکثر اوقات اد گلا گوشت ہی کھانا پڑتا ہے۔اسی طرح سیاچن میں دال بھی نہیں گلتی۔
    سو بات رمضان کی ہو رہی تھی۔ہماری پوسٹ پر موجود نرسنگ کا سپاہی حافظ قران بھی تھا۔ سو ہم نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرنا کہ کوئی ایک آیت پڑھنی اور حافظ صاحب سے کہنا کہ اس سے آگے سنائیں۔ یوں رمضان کے بابرکت مہینے میں ہمیں قران سننے کا موقع بھی ملتا۔
    ہفتے میں ایک ادھ دن مشین گنوں کے استعمال کی بھی ضرورت پیش آ جاتی تھی۔ کبھی ہم دشمن کی کسی پارٹی کو حرکت کرتے دیکھ کر فائر داغنا شروع کرتے تو کبھی دشمن کے فائر کے جواب میں ۔یوں ہی دن گزر رہے تھے۔تیرھواں یا چوھواں روزہ تھا جب رات کا سنتری ہمارے اگلو کے باہر آیا اور کہنے لگا کہ سر سامنے دشمن کی پوسٹ کے پاس آگ لگی ہوئی ہے۔
    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    Last edited: ‏23 ستمبر 2014
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    3​

    ہم دونوں باہر نکلے تو دیکھا کہ سامنے جس پہاڑی پر دشمن کی پوسٹ تھی اس پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔چوٹی کے پچھلی طرف اس آگ کا مرکز تھا اور برف پر سرخی خوب چمک رہی تھی۔ بادلوں اور دھند کی لکیر جو اس چوٹی پر تھی وہ بھی سرخی آمیز تھی۔میرے ساتھ کے افسر نے کہا کہ سر اس کو فوراً رپوٹ کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھہرو پہلے دوربین نکالو اس کا باریکی سے مشاہدہ کرتے ہیں تاکہ آگ کا اصل مقام رپورٹ کیا جا سکے۔دوربین سے مشاہدہ کرنے کے بعد بھی وہ آگ ہی نظر آ رہی تھی۔ چند منٹ گزرنے کے بعد ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ آگ نہیں تھی بلکہ پہاڑی کے پیچھے سے چاند نکل رہا تھا۔ برف کی چمکدار سطح اس کی روشنی کو منعکس کر کے اتنا بڑھا رہی تھی کہ آگ لگی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ طلوع و غروب آفتاب کے وقت آپ نے دیکھا ہو گا کہ شفق پر سرخی پھیل جاتی ہے مگر چاند کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ چاند کی روشنی سورج کی نسبت کم ہے مگر سیاچن کی برف کی چمک اس روشنی کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے اس لیے پورا چاند نکلتے وقت شفق پر سرخی پھیل جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آگ لگی ہے۔
    اسی طور سے رمضان کا مہینہ گزرا اور ریڈیو پر اعلان ہوا کہ کل عید ہو گی۔عید کا دن اور ہم دس ساتھی اپنوں سے اتنی دور کہ کوئی بھی سبیل ہمیں اپنوں کے پاس نہیں لے جا سکتی تھی۔ ہم دس لوگ ہی ایک دوسرے کے دوست، رشتہ دار ، احباب اور مونس و غمخوار تھے۔اسی لیے فوج کے ساتھی آپس میں سگے بھائیوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں کہ کہ لاتعداد ایسے مقامات ہیں جہاں ان کا واحد سہارا یہی دوست ہیں کہ کسی مصیبت میں سگے بھائی اور خاندان کے دوسرے افراد کی جگہ یہی پرخلوص دوست ہماری کل کائنات ہوتے ہیں۔
    عید کا دن شروع ہوا تو برف پگھلا کر پانی گرم کیا گیا اور سب لوگوں نے باری باری غسل کیا۔میٹھی عید تھی تو میٹھے میں کچھ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ دل تو سب کا سویاں کھانے کا کر رہا تھا مگر سویاں آئیں کہاں سے۔ تمام راشن کا معائنہ ہوا مگر سویاں راشن میں نہ تھیں سو کسٹرڈ بنانے پر سب کا اتفاق ہوا۔اگلو میں بیٹھے سب کسٹرڈ تیار ہونے کے انتظار میں گپ شپ کر رہے تھے۔ کوئی اپنے گاوں میں منائی گئی پچھلی عید کا قصہ سنا رہا تھا اور کوئی خاموشی سے اپنے بیوی بچوں کی تصاویر دیکھ کر ان کو یاد کر رہا تھا۔ سب ہی کسی نہ کسی کو یاد کر رہے تھے مگر اوپر سے دوسروں کا ہمت اور حوصلہ بڑھا رہے تھے۔آخر کسٹرڈ تیار ہوا مگر تھوڑا پتلا۔ سب کو ایک ایک پلیٹ میں پیش کیا تو معلوم ہوا کہ پوسٹ پر چمچ تو ہیں ہی نہیں۔ ہاتھ سے کھایا نہیں جا سکتا تھا کہ پتلا تھا اور ہاتھوں سے بہہ جاتا تھا۔ پلیٹ سے پیا نہیں جا سکتا تھا کہ اتنا پتلا بھی نہیں تھا ۔ اب سب مل کر سوچنے لگے کہ اس کو کھایا کیسے جائے۔سو کسٹرڈ کے ڈبے کو پھاڑ کر چوکور ٹکڑے کیے گئے جن کو موڑ کر بطور چمچ استعمال کیا گیا۔یوں 24000 فٹ کی بلندی پر ہم دس ساتھیوں نے عید منائی۔
    پوسٹ پر لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جس کسی کا بھی پوسٹ پر ڈیوٹی کا وقت مکمل ہوتا تھا وہ واپس چلا جاتا اور اس کی جگہ نیا ساتھی آجاتا۔ یہ آمد و رفت پوسٹ پر رہنے والوں کی ضرویات پورا کرنے کا بھی ذریعہ تھی۔ جب بھی کوئی نیا ساتھی آ رہا ہوتا تو ٹیلی فون پر اس سے رابطہ کر کے اپنی فرمائش بتائی جاتی جوکہ بیس کیمپ پر واقع کینٹین سے ادھار لائی جاتی تھی اور جب آپ واپس جاتے تو کنٹین والے کا حساب چکتا کر دیتے۔ان فرمائشوں میں سب سے اہم سگریٹ تھے۔سگریٹ نوشی کرنے والے ساتھی اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کوئی آنے والا ان کے سگریٹ لیتا آئے۔جب موسم ذیادہ خراب ہوتا تو سگریٹ کی کمی ہو جاتی اور جس کے پاس سگریٹ کا اسٹاک موجود ہوتا وہ ایک اہم شخصیت بن جاتا۔عید کے بعد موسم سخت خراب ہو گیا اور برفانی طوفان نے ہمارے سیکٹر کو گھیر لیا۔ دو ہفتے تک مسلسل برفباری رہی اور کوئی بھی پارٹی نہ تو بیس کیمپ کی طرف گئی اور نہ ہی کوئی چیز پوسٹ پر پہنچ سکی۔اس سے پہلے رمضان کی وجہ سے بھی آمد و رفت کم رہی تھی سو تمباکو نوش حضرات کا سگریٹ کا اسٹاک ختم ہو گیا۔موسم کی خرابی نے آمد و رفت موقوف کی ہوئی تھی سو مذید اسٹاک کی فراہمی موسم کے ساتھ مشروط تھی۔ایک دوست کو کہ بلا کا سموکر تھا سوچنے لگا کہ سگریٹ کا بندوبست کیسے کیا جائے۔اس نے یوں کیا کہ چائے کی استعمال شدہ پتی کو چولہے پر خشک کیا اور ایک کاغذ میں لپیٹ کر سگریٹ تیار کیا۔تمام تمباکو نوش حضرات نے اس سگریٹ سے گزارہ کیا۔ یوں جب تک نیا اسٹاک نہ آیا پتی برانڈ سگریٹ ہماری پوسٹ پر کافی مقبول رہا۔
    ایک دن جی میں آئی کہ انڈا کھایا جائے سو ٹیلی فون پر انڈوں کی فرمائش نوٹ کروائی گئی۔روزانہ انڈہ بنانے کی مختلف ترکیبوں پر غور ہوتا۔آخر کاردس دن بعد ایک پارٹی کے ہاتھ انڈے پہنچ گئے۔ بہت خوشی سے انڈے وصول کیے۔جب پیکٹ کھول کے دیکھا تو آدھے سے زیادہ انڈے ٹوٹے ہوئے تھے مگر اپنی اصل شکل میں موجود تھے۔ سخت سردی اور انتہائی کم درجہ حرارت کی وجہ سے انڈے جم کر برف کی شکل اختیار کر گئے تھے ان لیے ٹوٹنے کے باوجود اصل شکل میں قائم تھے۔ پکانے کے تمام طریقے بےکار ثابت ہوئے کہ برف بنے انڈے کو صرف ابالا جا سکتا تھا سو ہم نے انڈے ابال کر کھائے۔ یقین جانے کہ ان ابلے انڈوں نے جو مزہ دیا وہ کسی بھی پرتکلف ناشتے میں رکھے گئے انڈوں سے زیادہ تھا۔
    ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
     
    پاکستانی55، سید شہزاد ناصر، ملک بلال اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائی !
    جب بھی لکھتے ہیں بہت خوب لکھتے ہیں۔ باقی حصے کا انتظار ہے۔
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائی آپ کے جملوں سے جو احساس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ بہت ہی نایاب ہے دل کھنچ سا جاتا ہے مزید انتظار رہے گا
     
  7. عزیزامین
    آف لائن

    عزیزامین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2008
    پیغامات:
    301
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    اگلی قسط کا انتظار ہے
     
  8. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    [​IMG]
     
    پاکستانی55، سید شہزاد ناصر اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    [​IMG]
     
    پاکستانی55، سید شہزاد ناصر اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. عزیزامین
    آف لائن

    عزیزامین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2008
    پیغامات:
    301
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    یہاں کی جنگلی حیات کیا ہیں؟
     
  11. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائی، ہم اگلی قسط کے منتظر ہیں
    [​IMG]
     
    پاکستانی55 اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائی ۔ بہت خوب منظر کشی ہے۔
    اتنی خوبصورت تحریر کے لیے بہت سی داد اور بہت سا شکریہ قبول کریں۔ :n_TYTYTY:
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائ بھت زبردست تحریر لکھی آپ نے

    پڑھ کر دلی خوشی ہوئ

    مجھے آپ کی اگلی قسط کا شدت سے انتظار ھے
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    برفانی چیتے اور اللہ کے شیر
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. عزیزامین
    آف لائن

    عزیزامین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2008
    پیغامات:
    301
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    اور پرندے؟
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    اتنی خوبصورت تحریر کے لیے بہت سا شکریہ
    پتی برانڈ سگریٹ اور برفانی انڈے کھانے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔اگلی قسط بھی تو لکھیئے سبھی منتظر ہیں بلکہ آپ چاہیں تو آصف حسین جی کی منتظر حالت دیکھ بھی سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اگلی قسط کا انتظار ہے
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    کو ے
     
  18. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    کچھ مصروفیات کی وجہ سے لکھنے کا سلسلہ التوا میں ہے۔ جلد ہی اگلی قسط پوسٹ کر دوں گا۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. فیصل سادات
    آف لائن

    فیصل سادات ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,721
    موصول پسندیدگیاں:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    آپکی اگلی قسط ابھی تک نہیں آئی واصف بھائی۔۔
    بے چینی سے انتظار ہے اس کا۔۔
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائی اگر مجھے غصہ آگیا تو پنڈی دور نہیں ہے
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    ہندکو محاورہ ہے کہ بھوتوں سے غزنی کون سا دور ہے
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    نہیں اب میں آپ کو بھوت کہوں تو اچھا نہیں لگتا
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    اچھی شئیرنگ کا شکریہ
     
  24. محمد نبیل خان
    آف لائن

    محمد نبیل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2012
    پیغامات:
    656
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں اور میرا اگلو (Igloo)

    واصف بھائ بھت زبردست تحریر لکھی آپ نے

    پڑھ کر دلی خوشی ہوئ
     
    واصف حسین نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    واصف بھائی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟:mad::mad::mad::mad::mad::mad::mad::mad::mad:
    [​IMG]
     
  26. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    سب سے پہلے تو معذرت کہ میں آپ سب سے سخت شرمندہ ہوں کہ اس کو مکمل کرنے میں اتنا عرصہ لگا دیا۔ دراصل اب اس مضمون کا وہ حصہ لکھنا رہ گیا تھا جس میں زہنی کفیت کا بیان تھا اور یہ فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ کیا بیان کروں اور کیا حذف کروں۔ سو فیصلہ یہی ہوا کہ قلم جو کچھ اپنی روانی میں لکھ دے اس پر نظر ثانی کیے بغیر یہاں ڈال دوں۔ سو آپ سب کے لیے اس مضمون کا چوتھا اور آخری حصہ لے کر حاضر ہوں۔
     
    سید شہزاد ناصر، ھارون رشید، تانیہ اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    4

    انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور اس کے لیے سب سے کٹھن کام تنہائی کا مقابلہ کرنا ہے۔تنہائی کی بہت سے شکلیں ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا

    ہر طرف بھیڑ ہے اور عالم تنہائی ہے​

    اگر کبھی آپ کسی انجانے شہر یا بیرون ملک گئے ہوں تو شہر و بازار میں ہجوم ہونے کے باوجود آپ کو اس تنہائی کا احساس ضرور ہو گا۔اجنبیت بھی تنہائی کی ایک قسم ہے۔سیاچن میں اگرچہ آپ تنہا نہیں ہوتے کہ ہر پوسٹ پر کم از کم چھ سے دس لوگ ہوتے ہیں جو صرف افراد ہی نہیں بلکہ آپ کے مونس و غمخوار ہوتے ہیں مگر عالم تنہائی کا احساس ہر ایک کو ہوتا ہے۔کسی وقت یہ ہلکی کسک کی صورت میں سلگھتا ہے تو کسی وقت دیوانگی کا دورہ بن کر ظاہر ہوتا ہے۔سیاچن کی مشکلات میں یہ سب سے زیادہ سخت اور تکلیف دہ ہے۔جب یہ احساس خود کو آشکار کرتا ہے تو انسان عقل وفہم سے کوسوں دور ہوتا ہے اور غالب کا یہ شعر اس شخص کی حالت پر صادق آتا ہے کہ

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
    میرے ایک دوست پر ایسے ہی کچھ لمحات طاری تھے۔ روٹی کے کچھ ٹکڑے برف پر بکھیر کر رائفل لے کر ایک پتھر کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے ۔برفانی کوے ان ٹکڑوں کو حاصل کرنے کے لیے آ رہے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا بھائی کیا ہو رہا ہے۔ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور سرگوشی میں بولے "شش ۔۔ کبوتر شکار کر رہا ہوں"۔ وقت تو گذر گیا مگر "کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی" کے مصداق آج پندرہ سال گذرنے کے بعد میں ہم ان کو کبوتر کے شکار پر چھیڑتے ہیں۔

    اس دیوانگی کو نکلنے کا راستہ دینے کی ازحد ضرورت ہوتی ہے اور اس کا آزمودہ حل لکھنا ہے۔ اس دورےکے آغاز کی اولین نشانیوں میں ایک نشانی اداسی ہے۔سو جب بھی اداسی اور چپ کا دورہ شروع ہوتا میں کاغذ قلم نکال کر لکھنا شروع کر دیتا۔کبھی اپنی کسی محبوبہ کے نام خط، کبھی کسی قریبی دوست کو خط اور بہت کم اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو خط۔آپ شاید حیران ہوں کہ والدین یا بہن بھائیوں کو بہت کم کیوں۔اس لیے کہ ان خطوں میں جو تحریر رقم ہوتی تھی اور آپ کے اندر کے جذبات تھے اور یہ وہ شئے ہے جو ہوش و حواس میں انسان خود اپنے آپ کو بھی نہیں بتاتا۔اور یہ وہ خطوط ہیں جو کسی نے بھی نہیں پڑھے کیونکہ نہ تو ان کو ارسال کیا گیا اور نہ ہی ان کو ساتھ لایا گیا۔ ان کا آخری انجام یہ ہوا کہ پوسٹ سے اترنے سے ایک دن پہلے کاغذوں کا ایک پلندہ جوکہ تین مہینے میں رقم ہوا تھا پھاڑ کر سامنے والی کھائی میں پھینک دیا گیا۔یہ نسخہ وہاں پر بہت سے لوگ استعمال کرتے ہیں اور سیاچن کی برفیلی چوٹیاں نامعلوم کتنے لوگوں کے رازوں کے پھٹے ہوئے اوراق کا مدفن ہیں۔

    سیاچن اگرچہ موسمی سختی، جسمانی نڈہالی اور زہنی آزار سے پر ایک سخت ترین محاذ جنگ ہے مگر ہماری فوج کے با ہمت جوان ناصرف وہاں موجود ہیں بلکہ آج بھی جی ایچ کیو میں ان افسران اور جوانوں کی درخواستوں کا انبار لگا ہوا ہے جو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد دوبارہ اسی محاذ پر جانے کے لیے بیتاب ہیں۔سیاچن سے واپسی پر ہر شخص ایک چیز ساتھ لاتا ہے اور ایک وہیں چھوڑ آتا ہے۔اپنے ساتھ وہ یادیں لے کر آتا ہے اور اپنا دل انہی پہاڑوں میں کہیں گم کر آتا ہے۔

    ---جاری ہے---
     
    Last edited: ‏23 ستمبر 2014
    نعیم، پاکستانی55، سید شہزاد ناصر اور 5 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ واصف بھائی ۔ Igloo کی چند واضح تصاویر اگر میسر ہوں یہاں شئیر کردیں۔ شکریہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔۔۔۔۔۔احساسات کو بیان کرنا بہت مشکل ۔۔۔۔اور اگر بیان ہوں تو۔۔۔۔کسی کو بتانے کا ڈر۔۔۔۔اس سے زیادہ ۔
     
    واصف حسین اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب:tfy:
    زبردست اور دل کو چھو لینے والی تحریر خاص آخری الفاظ ٹچنگ
    اچھی تحریر کے لیے بہت سا شکریہ :dilphool:
     
    غوری اور واصف حسین .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں