1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میں اداسی کی اک حکایت ہوں ۔۔۔ اصلاح طلب

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏6 فروری 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میں اداسی کی اک حکایت ہوں
    اور غربت کی اک شکایت ہوں
    گل ہوں کانٹے لیےہیں دامن میں
    اک عطا ہوں میں اک عنایت ہوں
    مرے لب پر ہے ساختہ مسکان
    میں نگاہوں کی اک تراوٹ ہوں
    میرا سودا جو کرنے آتے ہیں
    جیسے میں چیز ہوں سجاوٹ ہوں
    تولنا چاہتے ہیں قیمت میں
    جہاں میں طرہ ءِ ِ ذلالت ہوں؟
    وہ سجاتے ہیں مجھ کو سینے پر
    جیسے میں تمغہ ءِ بسالت ہوں
    تہی دامن ہوں گل نگاہوں میں
    کیوں مگر قابل ِ عداوت ہوں

    زنیرہ گلؔ
     
  2. ارشد چوہدری
    آف لائن

    ارشد چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏23 دسمبر 2017
    پیغامات:
    350
    موصول پسندیدگیاں:
    399
    ملک کا جھنڈا:
    زنیرہ بیٹی ، بہت اچھے الفاظ ہیں سارے مصرعے بحر میں ہیں مگر قافئے میں غلطی ہے۔ جیسے شکایت ،حکایت، عداوت وگیرہ ایک قسم کے قافئے ہیں اسی طرح رکاوٹ ،سجاوٹ وغیرہ دوسری قسم ہے، دونوں اکٹھے نہیں آتے۔ یا سارے الفاظ (ت) والے لیں یا (ٹ) والے۔(جس طرح میں چیز ہوں سجاوٹ ہوں ) اس کو اس طرح کر لیں (جس طرح میں برائے فروخت ہوں ) اسی طرح تراوٹ والا مصرع بھی کچھ اور سوچیں۔ شکریہ
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں