1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میسور کی تین شہزادیاں اور ویکسین کی ماڈلنگ ۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر سید فیصل عثمان

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    میسور کی تین شہزادیاں اور ویکسین کی ماڈلنگ ۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر سید فیصل عثمان

    انگریزوں کے دور میں خشک سالی اور قحط انڈیا کی پہچان بن گئے تھے، لاکھوں لوگ بھوک اور بیماری سے مارے گئے۔ ہیضہ، چیچک اور ایسی دوسری بیماریاں عام تھیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ ہندوئوں نے چیچک کو بھی اپنا دیوتا مانتے ہوئے اس کی پوجا شروع کر دی ۔ ''چیچک دیوی‘‘ کے نام سے ایک نئے دیوی کے بت بنائے جانے لگے، لیکن چیچک کا مرض پھر بھی قابومیں نہ آیا۔''چیچک دیوی‘‘ کے چڑھاوے بے کار گئے۔
    تاہم مغربی ممالک میں چیچک اور دوسری بیماریوں کی ویکسین کی تیاری پر کام شروع ہو چکا تھا،ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی ویکسین بنا لی تھی، انڈیا میں ویکسین کی پہلی کھیپ 1800میں بھیجی گئی۔جہاز میں ویکسین کو محفوظ رکھنے کا پورا پورا انتظام تھا۔لیکن عوام کو اس علاج سے آگاہ کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ماڈلنگ کے لئے تین شہزادیوں کو چن لیا۔ انہیں بھارت کی اولین ماڈلز بھی کہا جا سکتا ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان تین شہزادیوں کو ماڈلنگ کے لئے راضی کیا ،ان کے اشتہار سے ویکسین کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
    1805ء کی بات ہے۔میسور میں شہزادے کرشنا راجہ کی شادی 12 سالہ لڑکی دیوا جمانی سے ہونے والی تھی، وہ خود بھی 12برس کے ہی تو تھے۔ 1799ء میں میسور کے شیر ٹیپو سلطان کو دھوکے سے شکست دینے کے بعد انگریزوں نے اس خاندان کو حکمران بنایا تھا۔ 30 سالہ جلا وطنی کے بعد انگریزوں نے واڈی یارذ (Wadiyars) خاندان کے اس 12سالہ لڑکے کو بھی تخت نشیں کروا دیا تھا۔حقیقت میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہی میسور کی حکمران تھی۔
    میسور کا یہ شاہی خاندان ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلے سے ہی انگریزوں کا مرہون منت تھا۔ اب انگریزوں کا ساتھ دے کر ان کی ویکسین کو عام کرنا ان پر قرض تھا۔شادی کو تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ میسور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو شہزادی جمانی کی ضرورت پڑ گئی۔
    چیچک کے مرض کی ویکسین تو منگوالی گئی تھی لیکن انڈیا والوں کو کیسے بتایا جاتا کہ دوا بن گئی ہے۔ ایڈورڈ جینر(Edward Jenner) نامی انگریزڈاکٹر نے شہزادی جمانی سے رابطہ کیا اور اسے اہمیت کے بارے میں بتایا۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ویکسین سے فائدہ نہ اٹھایاگیا توآبادی ختم ہو سکتی ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی انڈیا میں دنیا کی پہلی ویکسین متعارف کرانے جا رہی تھی۔اس میں برٹش ڈاکٹروں اور ماہرین کے علاوہ انڈین ویکسینیٹرز بھی شامل کئے گئے تھے۔کمپنی کے مطابق اگر یہ خواتین ماڈلنگ کریں تو دوا کو شہرت مل سکتی ہے۔ نئی نویلی دلہن مان گئی ۔
    میسور کے مسلمان کمپنی کے سخت مخالف تھے۔ ہندو بھی چیچک کی ویکسین کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔لیکن شاہی لباس میں ملبوس ،سونے سے لدی شہزادی اپنے علاقے میں مشہور تھی، اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ساکھ بھی بہتر ہو سکتی تھی،ویکسی نیشن کی مہم چلاتے وقت کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریزوں کا کہنا تھا کہ دایاں بازو کھلا رکھا جائے تاکہ قوم کو بتایا جا سکے کہ ٹیکہ کس جگہ لگے گا۔،لیکن شہزادی مصر تھی کہ وہ پورا جسم کا پردہ کرے گی ، اور ساڑھی میں ملبوس رہے گی،ویکسی نیشن مہم کے دوران وہ اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دے گی۔
    اس طرح تین شہزادیوں نے انڈیا میں ویکسی نیشن کی پہلی مہم میں حصہ لیا۔ان تین میں سے ایک شہزادی راجہ کی بیوی ہے۔ ان تینوں نے سونے چاندی کے زیورات کے ساتھ ماڈلنگ کرائی ۔پہلی ویکسین برطانوی ملازم کی تین سالہ بیٹی اینا ڈشتھیل کو 14جون 1802کو لگائی گئی تھی۔برہمنوں نے ٹیکے کی مزاحمت شرو ع کر دی، وہ ایک ہی ''ٹیکے‘‘ کو مانتے تھے، یہ نیا ٹیکہ کہاں سے آ گیا۔ انگریزوں کو ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ ایک دوسرے سے مل کر چیچک کے پھیلائو کا سبب نہ بن جائیں ،صحت مند افراد سے الگ رکھنا بھی ضروری تھا ، حفظان صحت کے اصولوں کی الگ تشہیر کی گئی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں