1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میرے لیئے یہی کافی ہے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    میرے لیئے یہی کافی ہے


    چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی انسان کو خوش رکھنے کے لئے کافی ہوتی ہیں، اس بارے میں سوچنے کی ہم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ ایسے ہی ایک دولت کے رسیا‘ کاروباری سیاح کو امریکہ کے کسی ساحلی گائوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ دریا کی سیر کیلئے کشتی میں سوار ہوا‘ کشتی گہرے پانی میں پہنچی تو ملاح نے کشتی روک کر ایک چھوٹا سا جال نکالا‘ اسے کھولا اور پانی میں اچھال دیا۔ سیاح بڑے انہماک سے اُسے ایسا کرتے دیکھ رہا تھا‘ بولا ''یہ کام بہت محنت طلب ہے‘ تم اس سے حاصل کیا کرتے ہو؟‘‘ ملاح مسکرایا اور بولا ''بہت کچھ‘ اتنا کچھ کہ تم اندازہ نہیں کر سکتے‘‘۔ سیاح نے ملاح کے میلے کچیلے کپڑوں کی جانب نگاہ ڈالی اور حیرانی سے پوچھا ''مجھے نہیں لگتا کہ تم بہت زیادہ کما لیتے ہو‘‘۔ سیاح بولا ''یہ درست ہے کہ میں بہت زیادہ مچھلیاں ساتھ نہیں لے جا پاتا لیکن میں جتنا بھی کماتا ہوں‘ یہ میری اور فیملی کی ضروریات کے لئے کافی ہے‘ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں، یہ خوشیاں پانے کیلئے میرا اتنا ہی وقت کافی ہے جتنا میں دے رہا ہوں‘‘۔ سیاح کے ماتھے پر حیرانی کی لہریں سر اٹھا رہی تھیں‘ ملاح بولا ''میں سورج نکلنے سے پہلے اٹھتا ہوں‘ جال اٹھاتا ہوں اور پانی میں نکل جاتا ہوں‘ مچھلیاں پکڑتا ہوں اور بازار جا کر فروخت کر دیتا ہوں‘ ہم گھر میں ہر روز لذیذ تازہ مچھلی بھون کر کھاتے ہیں‘ اس کا ذائقہ اور خوشبو للچا دینے والے ہوتے ہیں‘ شام کو ہم گائوں میں نکلتے ہیں‘ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گٹار بجاتا ہوں‘ ہم ہر مرتبہ نئی دھنیں بجاتے ہیں‘ رات کو ہم پانی کی دلکش لہروں کو دیکھتے ہیں‘ ان کی آوازیں مسحور کر دینے والی ہوتی ہیں‘ ہم دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں‘ کافی کے سِپ لیتے ہیں اور تاش کھیلتے ہیں‘ اتنی دیر میں ہمارے بیوی بچے بھی آ جاتے ہیں‘ ہم سب مل کر خوشی کے گیت گاتے ہیں اور پھر گھر جا کر سو جاتے ہیں‘ ہماری یہی چھوٹی سی زندگی ہمارا سب کچھ ہے‘‘۔ سیاح بولا '' میرا مشورہ مانو تم مچھلیاں پکڑنے کے لئے دوگنا وقت لگائو‘ اپنے ساتھ دیگر لوگوں کو ملا کر کمپنی بنائو اور پھر مچھلیوں کی ایکسپورٹ شروع کر دینا اور کاروبار پوری دنیا میں پھیلا دینا، یوں تم ایک کامیاب بزنس مین بن جائو گے‘‘۔ ملاح سر جھکا کر سنتا رہا‘ کچھ دیر خاموش رہا اور بولا ''لیکن اس میں وقت کتنا درکار ہو گا؟‘‘ سیاح بولا '' کوئی بیس پچیس سال‘‘ ملاح نے پوچھا '' اور اس کے بعد کیا ہو گا‘‘ سیاح ہنستے ہوئے بولا '' تمہاری کمپنی کے شیئرز جاری ہوں گے‘ تم ارب پتی بن جائو گے‘‘ ''ارب پتی؟‘‘ ملاح نے چیخ کر پوچھا۔ سیاح بولا ''ہاں! اس کے بعد تم ریٹائر ہو جانا اور کسی دریا کے پاس کسی چھوٹے سے پُرسکون گائوں یا سمندر کنارے رہائش اختیار کر لینا‘ جب مرضی سونا‘ بچوں کو وقت دینا‘ آئوٹنگ کرنا اور لائف کو بھرپور انجوائے کرنا‘‘ ملاح بولا ''تو تمہارا کیا خیال ہے میں اس وقت کیا کر رہا ہوں؟‘‘ یہ سن کر سیاح کا جوش ماند پڑ گیا‘ ملاح بولا ''جو کچھ مجھے بیس پچیس سال بعد ملے گا‘ وہ آج بھی میرے پاس ہے تو پھر میں پچیس سال کیونکر ضائع کروں؟‘‘



     

اس صفحے کو مشتہر کریں