یہ دل میرا، مجھے اپنا نہیں لگتا ہے جانے کیوں!! کہ اس دل نے محبت میں جو سب آزار جھیلے ہیں انہیں برداشت کر نے سے بہت کچھ رنگ بدلے ہیں وہ آرائش در و دیوارِ دل کی بھی نہیں باقی یہاں جو پھول، تتلی، جگنئووں کا دور دورہ تھا، و ہ سب جانے کہا ں بھٹکے ہوئے ، پھرتے ہیں اندر ہی میرے جذبات، احساسات کے نازک دریچوں میں حیا کے اور وفا کے جو ملائم ، نرم پردے تھے وہ سب ، کچھ اس طرح الجھے جفا کی خار تاروں سے کہ اب دیکھو تو لگتے ہیں بوسیدہ چیتھڑوں جیسے.. دل آنگن میں میرے خوابوں کی جو اک بیل چڑھتی تھی اسے بھی سرد مہری نے کچل ڈالا، مسل ڈالا! درِ دل پر منقش طاق میں تھی آس کی شمع اسے کتنا بچایا بے حسی کی آندھیوں سے تھا مگر سب یاس کے کالے گھنیرے بادلوں نے اس کو نگلا ہے منڈیروں پر چراغاں روز ہی ، ہر شام ہوتا تھا مگر انتظار کی شب جو طوالت لے کے آئی ہے وہ کاٹے سے نہیں کٹتی!!! کہ کب سے ہو گئے گُل وہ چراغ، نصف شب میں ہی! اسی درماندگی میں ... دل میرا!! مجھے اپنا نہیں لگتا ہے جانے کیوں؟؟؟
رحمۃ اللعالمینﷺ ہے تیریؐ عنایات کا ڈیرا میرے گھر میں سب تیراؐ ہے کچھ بھی نہیں میرا میرے گھر میں جاگا تیریؐ نِسبت سے یہ تارِیک مُقدّر آیا تیرےؐ آنے سے سویرا میرے گھر میں مِدحت نے تیریؐ مجھ کو یہ اعزاز دیا ہے ہے سارے اُجالوں کا بسیرا میرے گھر میں دروازے پہ لکھا ہے تیراؐ اسمِ گِرامی آتا نہیں بُھولے سے اندھیرا میرے گھر میں مُدّت سے ہے اس دل میں ارمانِ زیارت اے قاسم نعمت! کوئی پھیرا میرے گھر میں خالدؔ کو تیرے ذکر سے اعزاز ملا ہے سب کچھ ہے یہ اِحسان ہے تیراؐ میرے گھر میں خالد محمود خالدؔ
ہے یہ میری ذات کا اک بایں ملے اس میں مجھ کو میرا نہاں میرے ذوق کا، میرے شوق کا میرے درد کا، میرے چین کا میری ہر خوشی، میرا کوئی دکھ وہ ہے اس کے ورق پر عیاں کبھی اس کو کھول کے دیکھوں تو یہ ملاتی ہے میری ذات سے میں نے کب لکھا؟ میں نے کیوں لکھا؟ یہ ملاتی ہے اسی یاد سے کوئی اس کو اپنی سکھی کہے کوئی یہ کہے، میری رازداں مگر میں تو بس اسے یہ کہوں "میری ڈائری، میرا آئینہ"
یہ جو عین, یہ جو شین, یہ جو __قاف کرتا ہے یہ لاحق جسکو ہو جاۓ___ اسے بےباک کرتا ہے ریاضی دان بھی حیران ہیں اس بات پر اب تک یہ کس کلیےکی نسبت جفت کو یوں طاق کرتا ہے!
جب اللہ تعالی کسی کے دل کے تخت پر جلوہ گر ہوتا ہے تو دل سے بتان باطل کے نقوش تک مٹا دیتا ہے پھر بابِ دل پر رب کی رحمت کے کے سوا کو کوئی دستک نہیں دیتا دل کا محل رب کے نور سے ایسا منور ہوتا ہے کہ اس کے در پر آنے والے کو غافل نہیں رہنے دیا جاتا اور ان کا دامن بھی نورِ رحمت سے بھر دیا جاتا ہے کسی بھی منزل کے دو قدم بہت مشکل ہوتے ہیں پہلا قدم کیوں کہ یہ رب کی توفیق اور عطاِ خاص ہے اِس کے بنا منزل محض خام خیالی ہے اور آخری قدم ! کیوں کہ منزل کے قرب میں صبر و استقامت سے چلتے رہنا بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔۔۔
ایک بزرگ کسی چرواہے کے پاس سے گزرے تو اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کوئی علم بھی ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس پانچ عمل ہیں اگر آپ ان میں اپنے پانچ اچھے اعمال کا اضافہ فرما دیں گے تو میری کشتی پار لگ جائے گی ! بزرگ نے کہا وہ کونسے اعمال ہیں کہ جن میں میری طرف سے اضافہ ھو تو وہ خزانہ بن جائیں گے ؟ چرواہے نے کہا ؛؛؛ 1 ۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا ، جبکہ سچ موجود ہے ! 2 ۔ میں کبھی حرام کو استعمال نہیں کرتا جبکہ حلال موجود ہے ! 3 ۔ میں کبھی لوگوں کے عیوب کا ذکر نہیں کرتا اس حال میں کہ خود میرے اندر عیب موجود ہیں ! 4 ۔ میں کبھی اللہ کی معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا ،اس ایمان کے ساتھ کہ وہ مجھے دیکھ رھا ھے ! 5 ۔ میں کبھی کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا جبکہ وہ مجھے کفایت کرتی ہے ۔ اس پر اس حکیم نے کہا کہ تم نے تو اولین اور آخرین کے علم کا احاطہ کر لیا ہے ، ان پر جمے رھو ، اس پر مزید کچھ نہیں ہے
اس سے پہلے کہ۔۔۔ اس سے پہلے کہ چاندنی ہو سیاہ اس سے پہلے کہ آس بھی ہو تباہ اس سے پہلے کہ آرزو کھو جائے اس سے پہلے کہ سانس گُم ہو جائے اس سے پہلے کہ ہو ملال تمام برف ہو جائیں یہ خیال تمام اس سے پہلے کہ ہو دمِ فریاد راہیِ کوچۂ عدم آباد صبر کا سینہ چاک ہو جائے قصۂ ہست پاک ہو جائے نگۂ التفات و ناز کرو درِ اثبات ذات باز کرو رات کے آخری پہَر آ جاؤ ہے محبت میں گر اثر، آ جاؤ (فاتح الدین بشیرؔ)
ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺁﺝ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﺲ ﭘﺸﺖ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻼﺗﻤﮩﯿﺪ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ، ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺟﺬﺏ ﺳﮯ ﺩُﻋﺎ ﺩﯼ: "ﺍﻟﻠﮧ پاک ﺗﺠﮭﮯ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ" ﺩﻋﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ: "ﺣﻀﺮﺕ! ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﮨﻢ ﻣﺎﻝ ﭘﺎﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮬﺮ ﺳﺎﻝ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺯﮐﺎۃ ﻧﮑﺎﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﻼﺅﮞ ﮐﻮ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﺴﺐِ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺻﺪﻗﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ، ﷲ پاک ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭧ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ." ﺩﺭﻭﯾﺶ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ: "ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ! ﺳﺎﻧﺲ، ﭘﯿﺴﮯ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ... ﯾﮧ ﺳﺐ ﺗﻮ ﺭﺯﻕ ﮐﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ! "ﺭَﺍﺯِﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﺮَّﺯَّﺍﻕ" ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻧﮩﯿﮟ. ﺗﻢ ﺟﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ، ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﺗﻮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ." ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻻ: "ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ! ﺁﺅ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅﮞ ﮐﮧ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ... - ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﺩﺍﺱ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ، ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻦ ﻻﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﭩﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻣﻘﺼﺪ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﺎ ... ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﺍﭘﻨﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﻮﮦ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺗﮓ ﻭﺩﻭ ﮐﺮﻧﺎ .... ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﺻﺒﺢ ﺩﻓﺘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻟﯿﻨﺎ... ﯾﮧ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﯾﺎ ﺑﮩﻨﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺹ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻀﻞ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ... ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﭙﮭﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﯼ ﮐﺴﯿﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻂ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ... ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﭼﺎﮰ ﮐﮯ ﮐﮭﻮﮐﮭﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﻭﺋﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑُﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑُﻼﻧﺎ ... ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﮔﻠﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﻠﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﻣﺒﺎﺣﺜﮯ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮐﺮ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ... ﯾﮧ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻓﺘﺮ، ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﯾﺎ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﮐﮯ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ کم آمدن والے ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ چھوٹا نہ سمجهنا، انہیں ﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻞ ﮐﺮﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﻡ ﺟﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ، ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺭﮎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ... ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﺴّﻠﯽ ﺩﯾﻨﺎ... ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! - ﭨﺮﯾﻔﮏ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮨﺎﺭﻥ ﻧﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ ... ﺳﻤﺠﮭﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!" ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮐﻼﻡ ﺟﺎﺭﮮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ: "ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ! ﺗﻢ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ؟ - ﺁﺝ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﮬﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐُﮭﻠﻨﮯ ﺗﮏ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ، - ﺁﺝ ﺳﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﮈﺍﻧﭧ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻨﻨﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﮔﺎﻧﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ، - ﺁﺝ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﻥ ﮐﮯ پاسﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﻧﺎ، ﺍﺏ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﻧﻮﺑﺖ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ، - ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮ دﯾﺎ ﮐﺮﻭ، - ﺁﯾﻨﺪﮦ ﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ، - ﺳﺎﻟﻦ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﺮﻑِ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﻠﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، - ﮐﺒﮭﯽ ﮐﭙﮍﮮ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮﻟﯿﻨﺎ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ! ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻧﮩﯿﮟ، ﺗﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮ، ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﭼﮭﻮﮌﻭ، ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺁﺳﺎﻥ ﺑﻨﺎﺅ، ﺍﻥ ﺷﺎﺀﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ !!!"
یا الرحمن ، یا الرحیم ! یا رب اللعالمین! میں الجھ گیا ہوں باتوں میں سمجھا دے مجھ کو راتوں میں ان راتوں کے ان لمحوں میں جب ہوتا ہے تو پہلے پے اتر کے آسمان ساتوں سے جب ہر سو ہوتی خاموشی بستا ہے پھر تو سانسوں میں محسوس ہوتا ہے تیرا جلوہ آنکھوں سے لے کر ساعتوں میں یہی وقت ہے تیری قربت کا اس قربت میں تو سلجھا دے میری بے چینی کو مٹلا دے میرے سارے مسئلے سنتا جا سب بند رستوں کو کھولتا جا ان رستوں میں پھر جو رستہ تیری کرسی تک جو آتا ہو اسی رخ پہ مجھ کو لگا دینا پھر پیار کی تھوڑی تھپکی سے میرے حوصلہ کو بڑھا دینا جب خوشی کے مارے رو لوں میں تو میٹھی نیند سلا دینا! مجھے سارے غم بھلا دینا! آمین
میری ڈائری کا ایک ورق چھوئی مُوئی نے کہا "میں اتنی شرمیلی ہوں کہ کوئی مرد مجھے ہاتھ لگائے تو میں شرم سے سُکڑ جاتی ہوں۔" عورت نے تصور میں کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا اور شرما گئی۔ چھوئی مُوئی حیران رہ گئی۔
جانتے ہو صاحب... ہم اپنے ماں باپ پے سب سے بڑا ظلم کیا کرتے ہیں۔..؟ ہم ان کے سامنے"بڑے" بن جاتے ہیں ... "سیانے" ہو جاتے ہیں ... اپنے تحت بڑے "پارسا نیک اور پرہیزگار" بن جاتے ہیں ... وہی ماں باپ جنہوں نے ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔. انھیں "سبق" پڑھانے لگتے ہیں ... ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔. آماں جی یہ آپ نے کیا کِیا .. آپ کو نہی پتا ایسے نہیں کرتے ... ابا جی آپ یہاں کیوں گیے۔. اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے .. سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ .. اب کیسے سمجھاوں آپ کو ... جانتے ہو صاحب ... ہمارا یہ "بڑا پن یہ سیانا پن" ہمارے اندر کے "احساس" کو مار دیتا ہے ... وہ احساس جس سے ہم یہ محسوس کر سکیں ... کہ ہمارے ماں باپ اب بلکل بچے بن گئے ہیں۔ وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی گنجلگوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں ... چھوٹی سے خوشی ... تھوڑا سا پیار... ہلکی سی مسکراہٹ ... انھیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ... انھیں "اختیار" سے محروم نہ کرو صاحب .... "سننے" کا اختیار ... "کہنے" کا اختیار ... "ڈانٹنے" کا اختیار ... "پیار" کرنے کا اختیار ... یہی سب انکی خوشی ہے .. چھوٹی سی دنیا ہے ... ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں ... یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں ک اب وقت انکا نہیں رہا ... وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں ... اور بلآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں ... اس لئے صاحب ... اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے .. تو ان کے سامنے زیادہ "سیانے" نہ بنیں ... "بچے" بن کے رہیں .. تا کے آپ خود بھی "بچے" رہیں ۔۔۔
غریبوں کی بستی ٹاٹ کے جھونپڑے ٹوٹی پھوٹی گلیاں گلیوں میں نالیوں کا بہتا ہوا پانی ایک چھوٹی سے بچی روتی ہوئی ایک خیمے کے پاس آئی، خیمے کا پردہ ہٹا، اندر سے آواز آئی، "اری کیا ہوا سہزادی؟" "مجھے سہنساہ نے مارا ہے۔" بچی نے جواب دیا۔
یااللہ اس دشت کے صحرا کو سمندر کر دے یا میری آنکھ کے اشک کو پتھر کردے یااللہ میں اور نہیں کچھ تجھ سے مانگتی، میری چادر کو میرے پاؤں کے برابر کردے، مجھے گھیر نہ لے یہ آتش دنیا کہیں ، مجھ پر اپنی رحمت کا سایہ کر دے، مجھے خاک نہ کر دے میری ہستی کا غرور مجھے میرے نفس سے معتبر کر دے یااللہ میری دعاؤں میں وہ اثر کردے مانگوں میں تجھ سے قطرہ اور تو سمندر کر دے.... !! آمین ...
پنڈی سے ہمیں پیار ہے۔ ایک تو اس لیئے کہ اس کے نام میں نسائیت ہے۔ لاہور اور پشاور بہت مذکر کاٹھ کے شہر ہیں۔ نام کے لحاظ سے کراچی بھی اتنی ہی مؤنث ہے، بلکہ ایک شادی شدہ کنیت بھی رکتی ہے یعنی عروس البلاد کہلاتی ہے۔ لیکن جو شیوہ تُرکانہ دوشیزہ پنڈی کا ہے، وہ اس عروسِ ہزار داماد کا نہیں۔ (کرنل محمد خان “بسلامت روی“)
یاد رکھو اگر ___ اُٹھ گئ اِک نظر جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے فِدَاكَ اَبِی وَاُمِّی وَرُوحِی وَقَلبِی یَاسَیِّدِی یَارَسُول اللہ ﷺ❤
ﺟﺐ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯿﻮﮞ !!... ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ !!.... ﮐﯽ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ... ﮐﯿﺴﮯ !!.. ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﺭﮎ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯽ ﮐﻞ ﺷﺊ ﻗﺪﯾﺮ !. ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ !!..
کیوں زیاں کار بنوں خُود فراموش رہُوں؟ فکرِ فردا نہ کروں ، محوِ غمِ دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں ، اور ہمہ تن گوش رہوں ہمنوا ! میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں