1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مہنگائی کا سلسلہ، بجلی کے بعد گیس

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    مہنگائی کا سلسلہ، بجلی کے بعد گیس

    بجلی کے بعد اب گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کی اطلاعات ہیں۔ ایک خبر کے مطابق گیس ڈسٹری بیوٹر کمپنیوں کی جانب سے گیس کے نرخوں میں 97 فیصد اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ‘ جو پچھلے کچھ عرصے سے جاری ہے‘ کہاں جا کر رکے گا‘ اس حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ حیران کن طور پر حکومت سستی توانائی کے ذرائع کی جانب توجہ دینے اور انرجی مکس میں سستے وسائل کا حصہ بڑھانے کے بجائے بدستور اُنہی مہنگے ذرائع پر تکیہ کئے ہوئے ہے جنہیں توانائی کی مہنگائی کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جبکہ ٹیکسوں میں اضافے اور توانائی کے ضیاع کی روک تھام میں ناکامی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ‘ جس کی شرائط کی تعمیل میں یہ سب کیا جا رہا ہے‘ بظاہر پاکستان کے توانائی سیکٹر کو خود مختار بنانے کے نام پر یہ کروا رہا ہے مگر اس نام نہاد خود مختاری کا نتیجہ ہمارے عوام‘ صنعت اور خود انرجی سیکٹر کیلئے بے پناہ منفی اثرات سے بھرپور ہوگا۔ یہ حقیقت کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں کہ معیشت کی نمو کیلئے توانائی ڈرائیونگ فورس ہے؛ چنانچہ سستی اور وافر توانائی ہر ترقی پذیر ملک کی بنیادی ضرورت ہے‘ مگر ہم اس معاملے میں اپنی مثال آپ ہیں کہ توانائی کی قیمتوں میں دُہرا‘ تہرا اضافہ کرکے یہ چاہتے ہیں کہ صنعتکاری ترقی کرے اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ برآمدات بڑھانے کیلئے پیداواری لاگت کم کرنا ضروری ہے تاکہ مصنوعات عالمی منڈی میں مدمقابل مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں‘ مگر توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہماری مصنوعات کو اس قدر سے محروم کررہا ہے اور آنے والے وقت میں بالکل اس قابل نہیں چھوڑے گاکہ یہ عالمی منڈی میں مسابقتی قوت کی حامل رہ سکیں۔ ہمارے ہاں پیداواری لاگت پہلے ہی خاصی زیادہ ہے اور حکومت اس بات کو نوٹ کر چکی ہے کہ پیداواری لاگتوں کا کم کیا جانا ضروری ہے‘ ٹیکسٹائل سمیت بعض شعبوں کیلئے حکومت کی جانب سے خصوصی مراعات کا اعلان بھی کیا گیا‘ مگر بجلی کی قیمتوں میں رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران ہونے والے اضافوں نے عام آدمی اور صنعت کو ایک ساتھ دم بخود کردیا ہے۔ اب گیس کی قیمتوں میں اضافے کا جو سن رہے ہیں یہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔

    بھلے یہ اضافے آنے والے مالی سال ہی کیلئے کیوں نہ تجویز کیے گئے ہوں‘ مگر وہ وقت بھی دور نہیں‘ تین ماہ ہی کی تو بات ہے۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ان اضافوں کے بعد ملک میں معاشی اور سماجی اطمینان باقی رہے گا؟ کورونا کی عالمگیر وبا کے تیسرے مرحلے میں حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی ہدایت پر لیے گئے فیصلے معیشت کے پر کترنے کے مترادف ہیں۔ گزشتہ برس سے صنعتکاری اور روزگار کے مواقع پہلے ہی نمایاں حد تک کم ہو چکے ہیں‘ اب توانائی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی صورت میں معیشت کی کمر پر جو زوردار ضرب لگائی گئی ہے اس کے بعد سنبھلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں