1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مولانا حالیؔ اور حقوقِ نسواں

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا حالیؔ اور حقوقِ نسواں
    upload_2019-11-27_1-46-12.jpeg
    ڈاکٹر صغرا مہدی
    مولانا الطاف حسین حالی نے 1874ء میں مراۃ العروس سے متاثر ہو کر عورتوں کی تعلیم کے موضوع پر ایک ناول ’’مجالس النسا‘‘ لکھا جس میں انہوں نے یہ بتایا کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے۔ انہوں نے ابواب کو ’’مجلس‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس طرح یہ ناول نو مجلسوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی مجلس میں علم کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری مجلس میں تعلیم کو دلچسپ بنانے کے طریقے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ناول دو حصوں میں ہے۔ پہلے میں زبیدہ کی تعلیم و تربیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں سید عباس کی تعلیم و تربیت کا ذکر ہے۔ آتو جی کے ذریعہ حالی نے یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ لوگ لڑکوں کو پڑھانا ضروری سمجھتے ہیں لڑکیوں کو نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جاہل رہ جانے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کر سکتی ہیں، اس طرح مردوں کی تعلیم سے قوم کو اس وقت تک فائدہ نہیں پہنچ سکتا جب تک مائیں تعلیم یافتہ نہ ہوں۔ اس کی مثال انہوں نے مجالس النسا میں پیش کی۔ دوسری مجلس سے پانچویں مجلس تک زبیدہ کی ماں کی ان کوششوں کا بیان ہے جو وہ زبیدہ کی تعلیم و تربیت کے لیے کرتی ہیں۔ مجالس النسا میں حالی آتو جی کی زبان سے کہلواتے ہیں ’’بچوں کی مائیں اگر اس قابل ہوں کہ اپنے بچوں کو آپ تعلیم دیا کریں تو اس ملک کے دن ہی نہ پھر جائیں، شاید تم نے سنا نہیں کہ فرنگیوں کے ملک میں ان پڑھ آدمی کہیں نام کو ڈھونڈے نہیں ملتا… یہ بات ہے کہ ان کے یہاں لڑکیوں کے پڑھانے کا دستور قدیم سے چلا آتا ہے۔ وہی لڑکیاں جب بیاہی گئیں اور صاحب اولاد ہوئیں، انہوں نے اپنی اولاد کو تعلیم دینا شروع کیا۔ یہی بات ہے جو ان کے یہاں …عورتوں اور مرد سب ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں… میرے نزدیک بیٹا یا بیٹی کیا بغیر ماں کی تعلیم کے کسی کو آدمیت نہیں آ سکتی۔‘‘ یہی نہیں حالی کا یہ خیال تھا ’’تاوقتیکہ عورتوں میں زمانۂ حال کی تعلیم رواج نہ پائے اور واعظین زبانی مجلسوں میں قرآن و حدیث کی رو سے بیہودہ فضول رسموں کی برائیاں ذہن نشیں نہ کریں، بہت ہی کم امید ہے کہ ہماری طرزِ معاشرت میں کوئی معتدبہ اصلاح ہو سکے۔‘‘اپنی مشہور نظم ’’چپ کی داد‘‘ میں وہ تعلیمِ نسواں کے سلسلے میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، اس طرح ان کی ہمت بڑھاتے ہیں۔ اے بے زبانوں کی زبانو بے بسوں کے بازوؤ تعلیمِ نسواں کی مہم جو تم کو اب پیش آئی ہے یہ مرحلہ ہے پہلے تم سے جن قوموں کو پیش منزل پر گاڑی ان کی استقلال نے پہنچائی ہے ’’چپ کی داد‘‘ اردو شاعری میں اپنی طرز کی منفرد نظم ہے جس میں حالی نے عورت ذات کی خوبیوں کو دل کی گہرائیوں سے سراہا ہے اور جس عزت بلکہ عقیدت سے ذکر کیا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ واقعی خواتین کا ان کے دل میں کس قدر احترام تھا اور ان کے ساتھ مردوں نے جو زیادتیاں کی تھیں، ان کو اس کا شدید احساس بھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے کتنے پتے کی باتیں کہی ہیں۔ دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب تم پر مبادا علم کی پڑ جائے نہ پرچھائیں کہیں ایسا نہ ہو مرد اور عورت میں رہے باقی نہ فرق تعلیم پا کر آدمی بننا تمہیں زیبا نہیں بیسویں صدی کی ابتدا میں جب جدید تہذیب کے اثر سے قوم کے ہمدرد، خاص طور سے مسلمانوں میں بیداری پھیلا رہے تھے۔ ان کو جدید تعلیم حاصل کرنے اور مغربی تہذیب و تمدن کو اختیار کرنے پر اکسا رہے تھے اور ایک طبقے کو یہ کہہ کر نظرانداز کیا جا رہا تھا کہ جب اس سے ارفع اور اعلیٰ طبقہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہو جائے گا تو اس کی طرف بھی توجہ کی جائے گی۔ حالی کی یہ آواز گونجتی ہے جو سرتاسر ان خیالات کی تردید کرتی ہے۔ اے ماؤ بہنو بیٹیو دنیا کی زینت تم سے ہے ملکوں کی بستی ہو تمہیں قوموں کی عزت تم سے ہے تم گھر کی ہو شہزادیاں شہروں کی ہو آبادیاں غم گیں دلوں کی شادیاں دُکھ سُکھ میں راحت تم سے ہے نیکی کی تم تصویر ہو عفت کی تم تدبیر ہو ہو دیں کی تم پاسبان ایمان سلامت تم سے ہے فطرت تمہاری ہے حیا طینت میں ہے مہرووفا گھٹی میں ہے صبرورضا ایمان عبارت تم سے ہے عورت بچے کی ماں بنتی ہے اور اس کی پرورش میں جو صعوبتیں خوشی خوشی اٹھاتی ہے جس طرح وہ دن رات ایک کر کے اولاد کی پرورش کرتی ہے، کتنے مردوں کو احساس ہے! مگر حالی کہتے ہیں تھا پالنا اولاد کا مردوں کے بوتے سے سوا آخر کو اے دکھیاریو جو خدمت تمہارے سر پڑی پیدا اگر ہوتیں نہ تم بیڑا نہ ہوتا پار یہ چیخ اٹھتے دو دن میں اگر مردوں پر پڑتا بار یہ پھر کس درد سے عورتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم کا ذکر کرتے ہیں افسوس دنیا میں بہت تم پر ہوئے جوروجفا حق تلفیاں تم نے سہیں بے مہرباں جھیلیں سوا اکثر تمہارے قتل پر قوموں نے باندھی ہے کمر دیں تاکہ تم کو یک قلم خود لوحِ ہستی سے مٹا گاڑی گئیں تم مدتوں مٹی میں جیتی جاگتی حامی تمہارا تھا نہ کوئی بجز ذاتِ خدا زندہ سدا جلتی رہیں تم مردہ خاوندوں کے ساتھ اور چین سے عالم رہا یہ سب تماشے دیکھتا بیاہی گئیں اس وقت تم جب بیاہ سے واقف نہ تھیں جو عمر بھر کا عہد تھا وہ کچے دھاگے سے بندھا گزاری امید و بیم میں جب تک رہا باقی سہاگ بیوہ ہوئیں تو عمر بھر چین قسمت میں نہ تھا جو علم مردوں کے لیے سمجھا گیا آبِ حیات ٹھہرا تمہارے حق میں وہ زہرِ ہلاہل سربسر ’’چپ کی داد‘‘ میں حالی نے بہت خوبی کے ساتھ ایک طرف عورت کے رتبہ سے لوگوں کو واقف کرنا چاہا ہے، دوسری طرف اس کی زندگی کے مختلف ادوار میں اس کے رول کو ابھارا ہے۔ اسی کے ساتھ اس پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے اور ساتھ میں اصلاح کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں