1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

موجودہ دور کے کئی شاعروں کے یہاں خدا سے بغاوت

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏13 جنوری 2017۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    موجودہ دور کے کئی شاعروں کے یہاں خدا سے بغاوت اور اس کی بارگاہ میں بے ادبی اور گستاخی دکھائی دیتی ہے ۔
    جیسے:
    او میرے مصروف خدا
    اپنی دنیا دیکھ ذرا
    ۔۔۔۔ ناصر کاظمی
    ہمیں پیار سے دیکھتا ہی نہیں
    وہ جیسے ہمارا خدا ہی نہیں
    ۔۔۔۔۔۔ مظفر حنفی
    دعا کے ہاتھ پتھر ہوگئے ہیں
    خدا ہر ذہن میں ٹوٹا پڑا ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔ ندا فاضلی
    قیامت کی دھمکی عذابوں کا ڈر
    ابھی تک خدا سے ہو اکچھ نہیں
    ۔۔۔۔ ارتضیٰ نشاط
    کون جانے گا اب خدا کو
    جس کی ہر بات آدمی کی سی ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال حیدر

    ان کے اس طرح کے اشعار پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاذاللہ خدا عظیم کائنات کا عظیم خدا نہیں ہے ۔ بے بس ہے ، مجبور ہے ، بے خبر ہے، بے وفا ہے ، نظام کائنات پر اس کا کنٹرول نہیں ہے ، شاعری کے فن سے ناآشنا ہے ، تخلیق کائنات کے بعد ملول ہے ، صرف دھمکی دینے والا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
    عقل کے سہارے خدا کی خدائی اور اس کی مشیت اور قدرت کا اندازہ لگانے والے شعراء نے اسی قسم کے گمراہ کن اشعار کہے ہیں ۔ اقتصادی بد حالی اور مالی بحران کا شکار ہونے والے یا مذہب بے زار دانشوروں کے خیالات سے متاثر ہونے والے شعرا ء نے اس خالق کائنات اور مدبر ہستی پر جس کی عظمت وبرتری انسان کے حدود عقل سے باہر ہے ، بے ہودہ تنقید کی ہے اور اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے ہیں ۔

    اس قسم کے خیالات بے انتہا گمراہ کن ہیں ، ان سے سوائے نقصان کے مطلق فائدہ نہیں ۔ چونکہ الوہیت کا مقام اور خدا کی قدرت ومشیت کی تفہیم انسان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہے اور اس راہ میں اس کی عقل کی کوتاہی حائل ہے ، جس کا نتیجہ بقول اکبر الہ آبادی یہ نکلتا ہے :
    جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں
    عقیدے ، عقل ، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں

    اس لیے اس میں عقل کھپانا جہالت و گمراہی کو فروغ دینا ہے ۔ خدا کے سامنے انسان بے انتہا کم درجہ ہے لہذا بے مایا انسان کے لیے یہی سزا وار ہے کہ وہ اس خدا کے سلسلہ میں جس کا علم سب پر حاوی ہے اور جس کی طرف کائنات کی ہر شئے کو بہرحال لوٹنا ہے ، جب اپنی زبان کھولے تو ادب و شائستگی کا پورا خیال رکھے اور مولانا اسمٰعیل میرٹھی کی طرح حقیقت کا اس طرح اعتراف کرے:

    اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
    آگے حواس گم ، خرد نا ساز کے ہیں

    بحوالہ : مضمون "اردو شاعری میں خدا" ( روزنامہ اعتماد)
    مضمون نگار : ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں