1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

موبائل فون ضرورت یا لائف اسٹائل ۔۔۔۔۔

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    موبائل فون ضرورت یا لائف اسٹائل ۔۔۔۔۔
    اکیسویں صدی کے بیسویں سال میں رہنے والے انسان کی زندگی میں ٹیکنالوجی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے ۔موبائل ہمارا ایک لائف سٹائل بن چکا ہے اور روزمرہ کے نجی اور پروفیشنل کتنے سارے معاملات اس کی بدولت سرانجام دئیے جارہے ہیں ۔

    یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اپنے ساتھ اتنا وقت نہیں گزاررہا جتنا موبائل کے ساتھ گزارتا ہے ۔جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ موبائل فون آج ایک اہم ترین ضرورت بن چکی ہے اور اس کے بغیر معاملاتِ زندگی کا چلنامشکل ہے تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم اس کا استعمال بھی درست طریقے سے کررہے ہیں یا نہیں؟

    ’’مورس لاء ‘‘ کے تحت ہر اٹھارہ مہینے میں ٹیکنالوجی کی قیمت آدھی اور رفتاردُ گنی ہوجاتی ہے
    مادی ترقی کے بے تحاشا مواقع اور سہولیات صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہیں

    ہر اٹھارہ مہینے میں ٹیکنالوجی کی قیمت آدھی اور رفتاردُ گنی ہو جاتی ہے۔اس فارمولے کوMorse Lawکانام دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ٹیکنالوجی انتہائی تیزی سے ترقی کررہی ہے او ر 2020ء کا انسان جدید ٹیکنالوجی کے کرشمات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ٹیکنالوجی انسان کے لیے بے تحاشا مواقع لے کر آئی ہے۔آج سے کچھ عرصہ پہلے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو وسائل نیویارک میں بیٹھے شخص کے پاس ہیں ، وہ پاکستان میں بیٹھے شخص کے پاس بھی ہوسکتے ہیں! لیکن انٹرنیٹ کی بدولت یہ ممکن ہوچکا ہے ۔آج ہمارے پاس سوشل میڈیا کی شکل میں ایسی ویب سائٹس اور ایپس موجود ہیں جہاں بے تحاشا مواقع اور سہولیات صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہیں ۔
    سب سے پہلے اس بات کا تعین کریں کہ موبائل آپ کے لیے کیا ہے؟آیا یہ آپ کے کاروبار ، روزگار اور پروفیشنل رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے یا پھر فارغ اوقات میں مصروف رکھنے والا آلہ ؟؟عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ موبائل کا استعمال ضرورت کے لیے کم اور انجوائے منٹ کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔فیس بک کو صرف مصروف رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور واٹس ایپ پر غیر ضروری چیٹنگ۔کوئی بھی عقل مندایسا نہیں کرے گا۔وہ موبائل کوفقط ضرورت کی حدتک استعمال کرے گا، نہ کہ نشے کے طورپر ۔آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون سے بنیادی آداب ہیں جن کا ہر موبائل استعمال کرنے والے کو علم ہونا چاہیے ،چونکہ میسج اور پیغام رسانی کے لیے واٹس ایپ کا استعمال بہت زیادہ ہے اور یہ ایپ ایک بڑی ٹرینڈ بن چکی ہے اس لیے آج ہم واٹس ایپ کے متعلق کچھ اہم نکات پیش کریں گے ۔
    ۔(1)بے مقصد میسجز:۔ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو صبح اٹھ کر ہر ایک کو Good Morningکا میسج ضرور بھیجتے ہیں۔اسی طرح بنے بنائےTemplets، تصاویر اور الفاظ بھیجنے کا رواج عام ہوچکا ہے ۔کبھی کبھار تو یہ ٹھیک ہے لیکن روزانہ یہ عمل درست نہیں۔یا د رکھیں ! ہر وہ چیز جوکثرت سے ہو اس کی قدر کم ہوجاتی ہے۔کوئی بھی سنجیدہ اور مہذب انسان اس عمل سے شدید کوفت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ میسج بھیجنے والا آئندہ کوئی بہت ضروری بات بھیج دے لیکن اس کویہ سوچ کر نظر انداز کردیاجائے کہ ’’پھر کوئی غیر ضروری بات بھیجی ہوگی۔‘‘
    ۔(2)بلا تحقیق بات پھیلانا:۔ سوشل میڈیا والے بھی اپنی ’’ریٹنگ‘‘ کے چکر میں کسی بھی چونکادینے والی بات کوپھیلا دیتے ہیں، آج یہ بیماری معاشرے کے عام لوگوں میں بھی سرایت کرگئی ہے اور ہر سنی سنائی بات کوبغیر تحقیق کے آگے بھیج دیا جاتا ہے ، حالانکہ آپ ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ
    ’’ انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جو بات سنے (بغیر تحقیق کے) آگے پھیلا دے ۔‘‘(صحیح المسلم :7)
    لہٰذاکسی بھی بات کوآگے فارورڈ کرنے سے پہلے اس کی تحقیق ضرور کریں۔
    ۔(3)وعظ و نصیحت اور سخت وعیدیں:۔اکثر لوگ آپ کونصیحت کرتے بھی نظر آئیں گے ۔اس بات سے قطع نظر کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں ۔نصیحت کا اصول یہ ہے کہ یہ مناسب موقع پر اور متعلقہ فرد کو کی جاتی ہے ۔جس طرح بن مانگے کی مددضائع جاتی ہے ایسے ہی بلا ضرورت کے الفاظ بھی کسی کام کے نہیں ہوتے۔
    بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن و سنت میں موجود سخت ترین قسم کے وعیدیں بھیجتے رہتے ہیں ،جن کی وجہ سے اچھا خاصا مسلمان بھی کانپ کر رہ جاتا ہے ۔ عرض ہے کہ دین اسلام اس قدر بھی سخت دین نہیں ہے جتنا ان لوگوں کے میسجز دیکھ کر لگتا ہے ۔ یہ بھی معاشرے کو خوف و ہراس اور مایوسی میں مبتلا کرنا ہے ۔آپؐ کا واضح حکم ہے کہ
    آسانیاں دو ، مشکلات نہ پیدا کرو۔خوش کرواور نفرت(خوف وہراس) مت پھیلائو۔(صحیح البخاری :69)
    صوفیاء اور اولیاء کرام اپنی تعلیمات میں ہمیشہ نرمی برتتے ۔وہ انسان کے مثبت پن کو جگاتے، انہیں خوشخبری دیتے ۔ اسی لیے لوگ بھی ان کے قریب ہوئے اور ان سے دین اسلام کا فیض حاصل کیا۔
    ۔(4)غیر ضروری باتیں :۔معروف شخصیات سے جب میں نے ان کے پاس آنے والے میسجز کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ :
    ’’بعض دفعہ ہم کسی فرد کو یہ سوچ کر بات چیت کا موقع دے دیتے ہیں کہ وہ کوئی رہنمائی لے گا یا کام کی بات پوچھے گالیکن وہ غیرضروری اور ذاتی باتیں پوچھنا شروع کردیتا ہے ، جس سے ہمارا اچھا خاصا وقت ضائع ہوجاتا ہے اور اگر انہیں نظر انداز کردیا جائے توپھروہ اکڑ پن اورمتکبر کا الزام لگادیتے ہیں،حالانکہ انہیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ میں جس سے مخاطب ہوں،اس کے پاس میرے میسج کے علاوہ بھی ہزاروں کام ہیں ، جواس نے نمٹانے ہیں۔اگروہ آپ سے گپ شپ لگانے بیٹھ جائے تو پھر اپنا کام کیسے کرے گا؟‘‘
    ۔(5)بلا تعارف بات چیت:۔اکثر لوگ ایک لمبا چوڑا میسج بھیج دیتے ہیں ۔پڑھنے والا ہر جملے پر حیران ہورہا ہوتا ہے کہ یہ آخر ہے کیا۔نہ اس کے سیاق و سبا ق کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی واقعے کے پس منظر کا ۔جب وہ داستان پوری ہوجاتی ہے تو اس کے بعد لکھنے والے کا نام ، اس واقعے کا پس منظراور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مشورہ مانگا ہوتا ہے۔اس عادت سے بھی مسیج پڑھنے والا کوفت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور شایداس کو غصہ بھی آجائے ۔اب ایسی صورت میں کیا وہ مسیج بھیجنے والے کو مخلصانہ مشورہ دے سکے گا۔ہرگز نہیں!
    بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان سے رابطہ کرنے سے پہلے میسج بھیج کراپنا تعارف کرائیں اور پوچھیں کہ میں کس وقت آپ سے رابطہ کرسکتاہوں۔یہ طریقہ ظاہر کرتا ہے کہ میسج بھیجنے والا ایک مہذب شخص ہے۔
    ۔(6)اپنے منہ میاں مٹھو:۔بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی کے پوچھے بغیر ہی اپنے کارناموں کی تفصیل بھیجنا شروع کردیتے ہیں کہ آج میں نے فلاں جگہ تقریر کی ، فلاں شخصیت کے ساتھ فلاں مہنگے ریسٹورنٹ میں ڈنر کیا ، فلاں کے ساتھ سیلفی لی۔اس عادت کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ایک دانا کا کہنا ہے کہ
    ’’ تمہارے قریب ترین دوستوں میں بھی بعض ایسے ہیں جو تمہاری کامیابیوں سے ناخوش ہیں ۔‘‘
    اپنے آپ کو بڑھا چڑھاکر پیش کرکے اپنے ہی دوستوں کو اپنے حاسد بنانا ، کہیں کی بھی عقل مندی نہیں ۔یہ بات یادرکھیں کہ انسان کے کام اور اس کے موادمیں اگر جان ہوئی تو وہ اپنا مقام خود ہی بنالے گا ۔
    ۔(7)شکریہ ادا نہ کرنا :۔کچھ لوگوں میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ وہ کسی فردسے کوئی بات پوچھتے ہیں ، معلوما ت لیتے ہیں یا کوئی چیز منگواتے ہیں اورجب ان کا تقاضا پورا کرلیا جاتا ہے تو پھر وہ اپنی راہ لے لیتے ہیں ۔نہ شکریہ اور نہ ہی مروتاً دوچارالفاظ ۔یہ انتہائی بد تہذیبی ہے جو کہ ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں نہایت برا اثر چھوڑتی ہے۔اس لیے ہر وہ انسان جو آپ کے لیے معمولی سے معمولی کام بھی کردے ، اس کا شکریہ ضرور ادا کریںاور جب کوئی اور فرد آپ کا شکریہ ادا کرے تو اس کوبھی جواب ضرور دیں۔ اردو میں شکریہ کے جواب کے لیے ’’خیر مقدم‘‘ ، انگریزی میں ’’Welcome‘‘ اور عربی میں ’’عفواً‘‘کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
    ۔(8)جواب(Response) نہ دینا:۔آپ نے اپنے کسی دوست کو میسج بھیجا ، دوست نے مسیج کو پڑھالیکن نہ ’’ہاں‘‘ میں جواب دیتا ہے اور نہ ہی ’’ناں‘‘ میں ۔ایسی حالت میں آپ اس شش وپنج میں مبتلا ہو ں گے کہ کروں تو کیاکروں ؟آپ کو ذہنی اذیت بھی مل سکتی ہے اور کئی ساری غلط فہمیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں جو آپ کے تعلقات کو خراب کردیتی ہیں۔
    پچھلے دِنوں میرے ایک دوست کوایک کتاب کی ضرورت تھی۔کتاب جس ادارے نے چھاپی تھی اس میں اس کاایک واقف دوست تھا، اس نے اپنے واقف سے درخواست کی کہ مجھے آپ کے ادارے کی فلاں کتاب چاہیے، میں آپ کے اکائونٹ میں کتاب کی قیمت بھیج دیتا ہوں آپ وہ کتاب مجھے روانہ کردیں۔دوست نے ہاں کردی۔وہ انتظار میں رہالیکن کتاب نہیں آئی ۔اس نے دوبارہ یاددہانی کرائی کہ کتاب بھیج دیں ۔دوست نے میسج پڑھا لیکن کوئی جواب نہ دیا،کچھ دِن اور گزرے لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ میرے دوست نے کہیں اور سے بندوبست کرکے کتاب منگوالی۔چند دِنوں کے بعد پہلے والے دوست کی طرف سے بھی کتاب مل گئی ، جس کی میرے دوست کواب ضرورت نہیں رہی تھی ،چونکہ کتاب کافی مہنگی تھی اس لیے واپس بھجوادی گئی،جس کے جواب میں دوست کی طرف سے کافی ناراضگی کا اظہار کیا گیا ۔اب ایک معمولی کوتاہی سے’’کمیونیکیشن گیپ‘‘آیا اور د و انسانوں کے اچھے بھلے تعلقات خراب ہوگئے۔
    لہٰذا کسی کے بھی پیغام یا مسیج پر اپنا ردِعمل ضرور دیں اور جس قدر ہوسکے باہمی بات چیت میں کوئی خلا نہ چھوڑیں تاکہ تعلقات خراب نہ ہوں۔
    ۔(9)ناکافی الفاظ سے جواب:۔ایک انسان کو جوابی میسج دینے کے لیے ضروری ہے کہ پورے الفاظ استعمال کیے جائیں ۔بعض اوقات آپ کسی کو اچھی خاصی تفصیل بھیج دیتے ہیں او روہ جواب میں فقط ’’اچھا‘‘ یا’’Ok‘‘بھیج دیتا ہے ۔اسی طرح بعض لوگ شکریہ ادا کرتے وقت ’’thnx‘‘کہہ دیتے ہیں ۔یہ طریقہ درست نہیں ۔اگر ہوسکے تو جوابی میسج کرتے وقت پوری بات کرلیں لیکن اگر وقت کی قلت ہو تو پھر ’’ بہتر ہے‘‘ ، ’’اچھا میں کرلیتا ہوں‘‘جیسے پورے جملے بھیجیں۔اسی طرح انگریزی میں ’’Okay Right‘‘’’Okay Done‘‘،’’Thank You‘‘ جیسے مکمل الفاظ بھیجیں۔
    وائس میسج :۔واٹس ایپ وائس میسج آج کل رابطے کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے ۔یاد رکھیں کہ آپ کابھیجا ہوا وائس میسج ایک مستند ثبوت ہوتاہے ،جو آپ کے لیے اچھا یا برا گواہ بن سکتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں مکمل احتیاط کیجیے۔وائس میسج بھیجتے وقت عموماً یہ غلطیاں کی جاتی ہیں:
    ۔1.وائس پیغام ریکارڈ کروانے کے ساتھ ساتھ قریب بیٹھے دوسرے لوگوں سے بھی باتیں ہورہی ہوتی ہیں۔
    ۔2.بعض لوگوں کا فون بج رہا ہوتا ہے اور وہ پیغام بھی ریکارڈ کررہے ہوتے ہیں۔
    ۔3.بعض وائس میسج کے دوران سوچ سوچ کر بول رہے ہوتے ہیں جس سے پیغام لمبا ہوجاتا ہے اور سننے والا بوریت محسوس کرتا ہے۔
    جس قدر ہوسکے اپنا وائس میسج مختصر بھیجیں۔موبائل منہ کے زیادہ قریب نہ رکھیں تا کہ سانس کی آواز ریکارڈ نہ ہواور نہ ہی زیادہ دور،جو سننے والے کو سمجھ ہی نہ آئے۔کسی کو بھی مسیج بھیجتے وقت شائستہ ، نرم اور مہذب الفاظ استعمال کریں ، کیونکہ یہ آپ کی شخصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
    واٹس ایپ گروپ :۔واٹس ایپ گروپ میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں۔
    ۔1۔کوئی بھی گروپ ممبر اگر گروپ میں کوئی پیغام بھیجے تو اس پر اپنا جواب ضرور دیں۔
    ۔2۔کسی بھی اچھے اقدام کی حوصلہ افزائی ضرورکریں ۔اسی طرح آپ کے متعلق کوئی بات ہو تو اس پر شکریہ ادا کریں۔
    ۔3۔گروپ کو بلاضرورت بحث و مباحثہ کی جگہ نہ بنائیں ، کیونکہ ہر انسان کا وقت بہت قیمتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس عمل سے کوئی ڈسٹرب ہوجائے۔
    ۔4۔اگر گروپ میں کسی مخصوص فرد کو مخاطب کرنا ہو تومیسج کے شروع میں اس کانام مینشن کریں۔ مینشن کرنے کے لیے @کی علامت استعمال کی جاتی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ متعلقہ شخص ہی آپ کو جواب دے گا اور باقی لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ بات ہمارے متعلق نہیں ہے۔
    موبائل فقط ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اس کا استعمال آپ کی مکمل شخصیت کو ظاہر کرتاہے ۔ اپنے دوست احباب سے رابطہ کرتے وقت اگرخوش اخلاقی کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالاآداب کا بھی خیال رکھا جائے تو آپ اپنے دوست احباب میں ایک ہر دلعزیز شخصیت بن جائیں گے۔




     

اس صفحے کو مشتہر کریں