ہوائے شوق کے رنگیں دیار جلنے لگے ہوئی جو شام تو جھکڑ عجیب چلنے لگے نشیبِ در کی مہک راستے سجانے لگی فرازِ بام کے مہتاب دل میں ڈھلنے لگے وہاں رہے تو کسی نے بھی ہنس کے بات نہ کی چلے وطن سے تو سب یار ہاتھ ملنے لگے ابھی ہے وقت چلو چل کے اسکو دیکھ آئیں نہ جانے شمسِ رواں کب لہوُ اگلنے لگے منیر پھول سے چہرے پہ اشک ڈھلکے ہیں کہ جیسے لعل سمِ رنگ سے پگھلنے لگے (منیر نیازی)
شکریہ لاحاصل جی ۔ ایک اور غزل ہیں آباد لاکھوں جہاں میرے دل میں کبھی آؤ دامن کشاں میرے دل میں اترتی ہے دھیرے سے راتوں کی چپ میں ترے روپ کی کہکشاں میرے دل میں اُبھرتی ہیں راہوں سے کرنوں کی لہریں سسکتی ہیں پرچھائیاں میرے دل میں وہی نور کی بارشیں کاخ و کو پر وہی جھٹپٹے کا سماں میرے دل میں زمانے کے لب پر زمانے کی باتیں مری دکھ بھری داستاں میرے دل میں کوئی کیا رہے گا جہانِ فنا میں رہو تو رہو جاوداں میرے دل میں (منیر نیازی)