1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

منقبت، سلام، مرثیہ بحضور امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏29 اکتوبر 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
    سید الشہدا، آلِ نبی :drood: ، فرزندِ علی:rda:، امامِ عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت بھرا سلام کہنا، شہادتِ حسین کی عظمتوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا، مظلومین کربلا کے غم میں مرثیہ نگاری وغیرہم صرف ایک مذہبی موضوع ہی نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کے اعتبار سےاردو شاعری میں ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ قدیم و جدید اردو شعراء نے بلا تفریقِ مذہب و ملت و عقیدہ، امام عالی مقام کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کیے ہیں۔

    واقعۂ کربلا، امام حسین علیہ السلام کی اولوالعزمی، شجاعت، استقامت، آپ کے رفقا کی وفاداری و جان نثاری، آپ کے اہلِ بیت کے مصائب، حُر کی حق شناسی، نہ صرف مرثیہ اور سلام کے اہم موضوع ہیں بلکہ اردو شاعری میں استعارہ اور علامت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور قریب قریب سبھی مشہور شعراء نے اپنی اپنی فکر کے مطابق ان کو استعمال کیا ہے۔

    اس دھاگے میں جملہ اہل محبت کو امام حسین علیہ السلام کے حضور ہدایہ ہائے عقیدت پیش کرنے کی دعوتِ عام ہے۔ جزاکم اللہ خیر
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    شاہ است حُسین، بادشاہ است حُسین
    دیں است حُسین، دیں پناہ است حُسین
    سر داد نداد دست در دستِ یزید
    حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین


    سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
    السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

    السّلام اے داستانِ بے کسی
    السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

    السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
    السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

    السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
    السّلام اے افتخارِ عارفاں

    السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
    السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

    السّلام اے بوترابی کی دلیل
    السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

    السّلام اے ساجدِ بے آرزو
    السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

    السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
    السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

    السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
    السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

    السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
    السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

    السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
    السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

    السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
    السّلام اے معدنِ علمِ رواں

    السّلام اے گوہرِ عینِ علی
    دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی


    حضرت واصف علی واصف رح​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
    یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

    ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
    ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

    روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
    جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

    جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے
    سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

    مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
    ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

    جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز
    اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا


    مولانا محمد علی جوہر​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے
    کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

    برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا
    تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

    وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں
    جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

    یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں
    یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

    بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے
    سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

    خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
    ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

    تُو سر بریدہ ہوا شہرِ ناسپاساں میں
    زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

    پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز
    بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے



    احمد فراز​
     
    پاکستانی55 اور سعدیہ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے
    تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین
    خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف
    مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

    نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر
    حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی
    بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی
    کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

    کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی
    فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن
    برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار
    خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

    ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں
    خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر
    نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا
    زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر



    کوثر نیازی​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
    ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
    مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
    مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
    تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
    یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

    دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
    پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
    ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
    یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
    رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
    تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

    اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
    اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
    تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
    اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
    مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
    ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

    کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
    ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
    ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
    ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
    پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
    پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

    الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
    الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
    بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
    وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل
    بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
    باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

    پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
    اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
    نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
    شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
    دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
    خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

    پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
    تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
    ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
    یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
    کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
    خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

    فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو
    حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
    واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
    معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
    کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
    معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

    سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
    اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
    زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
    جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
    سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
    اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

    طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
    باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
    انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
    ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار
    جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
    جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

    تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
    تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
    جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
    جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا
    نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
    نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

    کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
    پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
    قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
    خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
    مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
    اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا



    فیض احمد فیض ​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
    حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

    انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
    انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں

    میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
    کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

    مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات
    سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

    نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر
    جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں

    میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں
    جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

    شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب
    جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں



    حفیظ تائب​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین
    نشانِ حق و صداقت ہے آستانِ حُسین

    حدیثِ صدق و صفا، داستانِ صبر و رضا
    بنائے شوقِ شہادت ہے آستانِ حُسین

    جہاں میں مسکن و ماوا ہے اہلِ ایماں کا
    دیارِ حُسنِ عقیدت ہے آستانِ حُسین

    زمانہ کہتا ہے جس کو جمالِ لم یزلی
    اسی جمال کی حجّت ہے آستانِ حُسین

    نظر گئی مگر اب تک نہ لوٹ کر آئی
    وہ برجِ اوجِ امامت ہے آستانِ حُسین

    جو دیکھنا ہو تو میری نگاہ سے دیکھو
    گناہ گاروں کی جنّت ہے آستانِ حُسین

    یہیں سے جلتے ہیں اعظم حقیقتوں کے چراغ
    ضیائے شمعِ نبوت ہے آستانِ حُسین



    محمد اعظم چشتی رحمۃ اللہ علیہ​
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ
    بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ

    اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے
    یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ

    بکھیر صفحہء قرطاس پر لہو کے حروف
    قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ

    سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری
    جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ

    علی کے سجدہء آخر سے حلق اصغر تک
    ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ

    وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن
    انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ

    مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح
    پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ

    سلام و مرثیہ و نعت لے کے حاضر ہوں
    اُنہیں کا بندہ سمجھ اپنی بارگاہ میں رکھ

    ترا یہ شاعر نقاش تو ہے ذرہء خاک
    اسے غبار بنا کہ مہر و ماہ میں رکھ

    شاعر ۔۔ نقاش کاظمی
     
    نعیم، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  12. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  13. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
  14. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    آں امامِ عاشقاں پورِ بتول
    سروے آزادے زبستانِ رسول
    بہر آں شہزادہِ خیر الملل
    دوشِ ختم المرسلین نعم الجمل
    موسٰی و فرعون و شبیر و یزید
    ایں دو قوت از حیاتِ آید پدید
    زندہ حق از قوتِ شبیری است
    باطل آخر داغِ حسرت میری است
    تا قیامت وطع استبداد کرد
    موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
    رمزِ قرآن از حسین آموختیم
    زآتش او شعلہ ہا اندوختیم
    شوکتِ شام و فرِ بغداد رفت
    سطوتِ غرناطہ ہم از یاد رفت
    تارِ ما از زخمئہِ اش لرزاں ہنوز
    تازہ از تکبیرِ او ایماں ہنوز
    اے صبا اے پیکِ دورِ افتادگاں
    اشک، ما بر خاکِ پاکِ او رساں

    (علامہ اقبال)

    وہ جو عاشقوں کا امام و پیشوا اور فاطمہ کا فرزند اور رسولِ پاک کے باغ کا سروِ آزاد تھا۔امتِ مسلمہ کے اس بہترین شہزادے کیلئے رسول کریم کے مبارک شانے سواری تھے۔ موسٰی و فرعون، شبیر و یزید یہ زندگی کی دو متضاد قوتیں روزِ اول سے ہی چلی آ رہی ہیں۔ حق شبیر کی طاقت ہی سے زندہ ہے۔ اور باطل کا انجام حسرت و ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔امام حسین نے قیامت تک کیلئے جبرو استبداد کی جڑیں کاٹ دیں۔ آپ کی موجِ خوں نے ایک تازہ چمن ایجاد کیا۔ قرآں کے اسرارو رموز ہم نے حسین سے سیکھے۔آپ ہی کی آگ سے حرارتِ ایمانی کے شعلے چُنے۔ شام کی شان و شوکت اور بغداد کی عظمت جاتی رہی، غرناطہ کی سطوت و شوکت بھی ہماری یادوں سے محو ہو گئی لیکن ہماری زندگی کے تار آج بھی اسی مضراب کی وجہ سے لرزاں ہیں، اسی نعرہِ تکبیر کے سبب ہمارا ایمان آج تک زندہ ہے۔ اے بادِ صبا ! اے دُور کی بستیوں کے مکینوں کی نامہ بر ! میرے آنسو اُس کی قبر کی خاکِ پا تک پہنچا دے۔
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. آغا دانش کاطمی
    آف لائن

    آغا دانش کاطمی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2018
    پیغامات:
    4
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    #_15رمضان ولادت کریم اہلبیت امام حسن علیہ السلام

    چمکتا ہے کہاں افلاک پر مہرِ مبیں ایسا
    کہاں ہوگا ولایت کی انگوٹھی میں‌ نگیں ایسا

    خدا محفوظ رکھے چشمِ بَد سے حسن حیدر ع کو
    بڑی مشکل سے پایا ہے نبی ص نے جانشیں ایسا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں