1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مقالہ زندگی !!

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از سید جہانزیب عابدی, ‏25 اکتوبر 2011۔

  1. سید جہانزیب عابدی
    آف لائن

    سید جہانزیب عابدی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
    اسباب کی فراوانی انسان کے اندر بے فکری و کاہلی پیدا کرتی ہے اور اسباب کی کمی سے انسان کے اندر فکری مندی اور چستی کا جذبہ عمل ابھرتا ہے اس اعتبار سے دیکھئے تو وہ شخص زیادہ خوش قسمت نظر آئے گا جو اسباب کی کمی کی وجہ سے چوکنا رہتا ہے۔ رکاوٹیں آدمی کیلئے زینہ ہیں بشرظیکہ وہ ان کو زینے کے طور پر استعمال کرے۔ انسان کو اپنے وجود کو ہمیشہ ثمر آور رکھنے کیلئے ہمیشہ جدوجہد اور سعی و کاوش میں مصروف رکھنا چاہیے۔ لہذا ہر وہ عمل جو انسان کو غیر سنجیدگی، سستی، کاہلی، عیش کوشی اور عافیت طلبی کی ترغیب دے وہ طاغوت/شیطان ہے۔
    "جو بھی مثبت عمل کرے گا وہ اپنے فائدہ کیلئے کرے گا اور جو منفی عمل کرے گا وہ اپنے لئے ہی نقصان کرے گا اس کے بعد تم سب کو اپنے پروردگار کی طرف پلٹنا ہے۔ " (۱۶/ سورہ جاثیہ)۔
    انسان کی بنیادی ضرورت سامان نہیں ہے بلکہ اطمینان ہے اور یہ باتیں صرف اقتصادی خوشحالی سے حاصل نہیں ہوسکتیں ہیں جب تک اس کی پشت پر صحیح نظریات و عقائد موجود نہ ہوں اور یہ عقائد و نظریات معاشی نظام میں نہیں ملتے بلکہ مذہب میں ملتے ہیں اور اسلام معاشی، معاشرتی، ثقافتی، علمی، اور سیاسی اصلاح کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اصلاح کے عناصر کو اپنانے کی تلقین بھی کرتا ہے وہ تقسیم دولت کے ساتھ تزکیہ نفس کے اسباب بھی مہیا کرتا ہے اس کے دامن میں زندگی کے سدھار کو بندگی کے قاعدے میں ادا کرنے کیلئے تیار کرتا ہے۔
    چھیننے والا ہمیشہ آپ کی کوئی چیز چھیتا ہے نہ کہ خود آپ کو ! آپ کا وجود اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ پھر بھی آپ کو حاصل رہتا ہے اس حاصل شدہ متاع نعمت خدا وندی کو استعمال کیجیے اور پھر ہر محرومی کے بعد آپ اپنی ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں ساتھ ہی اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو فورا اپنے سے باہر کسی کو تلاش کرتے ہیں جس پر حادثہ کی ذمہ داری ڈالی جائے۔ اس دنیا میں حالات سے صرف وہ بچ سکتا جو اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ انسان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ خارجی عوامل ہی سب کچھ نہیں ہوتے بلکہ سب سے زیادہ اہمیت اس کے اندرونی عوامل اندرونی ہمت پر ہے اور ھدف کی بلندی پر موقوف ہے۔
    جب بھی انسان کو یہ محسوس ہو کہ اس کے پاس سرمایہ یا متعلقہ مادی وسائل یا سازوسامان کی کمی ہے تو اس کو چاہیے کہ اپنی دماغی محنت بڑھائے اور عقل کی ریاضت کرے۔
    اتحاد کی سب بات کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رہنی بھی چاہیے جو عمل سے ثابت بھی ہو کہ اس دنیا میں اخلاص کے باوجود لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا ہے ایسی حالت میں اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی پہلوؤں کو بھلا دیں۔ بڑی چیز اور بلند ھدف کی خاطر چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کریں۔ مشترکات پر اتحاد بنائیں اور بلند مقصد کیلئے اور اس کے حصول کی خاطر اپنی ذات کے تقاضوں کو اس کوشش و ہمت و سعی کی بنیادوں میں دفن کردیں۔ بلند حوصلگی اور اعلی ظرفی کے ساتھ ہی خدا کی طرف سے خلافت کی عطا کے بعد کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے پاس انبیاء علیھم السلام و اھلیبیت علیھم السلام کی زندگیاں روشن دن کی طرح عیاں ہیں۔ اسلام کا فقہی نظام جو خالصتا عملی نطام ہے خواہ سیاست میں ہو خواہ معیشت میں خواہ ثقافت میں ہو خواہ معاشرت میں یا دنیا کا کوئی بھی نظام ہو ایک منفرد اور انسان کی روحانی و مادی ضروریات کی تکمیل کیلئے آب گوارا ہے۔ تشیع اسلام سے جدا کوئی اور چیز نہیں ہے، تشیع اسلام ،قرآن کی انسانیت، عدالت، اور عبدیت کے بارے میں جس نکتہء نظر کا حامل ہے وہ ایک درست، منطقی، عادلانہ او رعاقلانہ نکتہء نظر ہے
    ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم ہی قرآن میں اس آیت کا مصداق ہیں جس کو "مفلحون" (فلاح پانے والے) کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ ایک فلسفی کہتا ہے کہ "اگر کسی دن تمھارا سابقہ کسی مشکل سے نہ پڑے تو سمجھ لو کہ تم غلط راستے پر چل رہے ہو۔" کیوں کہ خدا نے اس دنیا میں آزمائش کی جگہ بنا کر ریہرسہل کیلئے بھیجا ہے تاکہ ہم جو اس قانون زندگی کے فلسفہ سے حاصل ہوتا ہے، اگلی بڑی ذمہ داریوں کیلئے خود کو تیار کریں اور جو اس لیبارٹری کے ٹیسٹ میں کامیاب ہورہا ہے وہ اگلی زندگی میں اس سے بڑی ذمہ داریوں کیلئے خود کو تیار کررہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب زندگی کی مشکلیں انسان کو چیلنج کریں تو ہم اپنی استعدادوں کو ظاہر کریں۔ جب حالات کا پہلا ہی جھٹکا لگے تو خود کو متحرک اور چوکنا کرلیں کیونکہ یہی بیداری کسی انسان کی زندگی میں اس کی ترقی(خواہ مادی ہو یا اخلاقی) کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اصل ترقی کا راز دو چیزوں میں ہے ایک خارجی مواقع دوسرے اندرونی امکانات ! اگر خارجی مواقع میسر نہ ہوں تو اندرونی امکانات یعنی فطر استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں جو ہمارے ذہن میں ہمارے جسم میں خدا تعالی نے رکھ دی ہیں۔ ہر بڑی کامیابی چھوٹی چھوٹی کامیابوں کا مجموعہ ہوتی ہے چھوٹی کامیاں جس نے حاصل کرنا شروع کردیں ایک دن وہ بڑی کامیابی یعنی دنیا پر ایک دولت کریمہ یعنی الہی حکومت بھی حاصل کرلے گا۔
    نہ صرف حکومت بلکہ معاشرہ کے ہر شعبہ زندگی میں سرخرو و بلند رہے گا۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مقالہ زندگی !!

    بہت خوب جناب


    آپ کا شکریہ
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مقالہ زندگی !!

    ماشاءاللہ جی ۔۔۔بہت اچھا مضمون ہے
    شکریہ
     
  4. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مقالہ زندگی !!

    عمدہ شیئرنگ ہے :flor:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں