1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مغلوں کے درباری شعراء ۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مغلوں کے درباری شعراء ۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

    غیر ملکی محققین کی آراء کے نزدیک مغل دور اعلیٰ میعار کے لٹریچر کا دور کہا جا سکتا ہے ۔دربا رشاہی میں ادباء و شعراء کو اعلیٰ مقام ملنے سے 1556ء سے ہی اعلیٰ اور معیاری لٹریچر کی تخلیق کو فروغ حٓصل ہونا شرو ع ہو ا جس کے بعد اکبر دور کے اختتام کو ادب و شاعری کے عروج کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ مغل سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی اعلیٰ لٹریچر کی تخلیق کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ،م تخلیقی صلاحیتوں کو گرہن لگ گیا۔اسی لئے 18 ویں صدی میں مغلوں کے زوال کے زمانے کو ادب و شاعری کے انحطاط کا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
    اکبر دور(1556 ء تا 1605) لٹریچر کے ھوالے سے زرخیز دور مانا جاتا ہے،اکبرجنگی حکمت عملی کا ماہر تو تھاہی لیکن علم و ادب سے بھی خاصا شغف تھا۔فن تعمیر، گڈ گورننس اور لٹریچر کے فروغ کیلئے اکبر بادشاہ کی خدمات کی نفی کرنا ممکن نہیں۔ مصوری اور خطاطی کی سرپرستی بھی اسی کے دور میں شروع ہوئی ورنہ یہ قدیم فنون انڈیا میں ناپید ہوتے جا رہے تھے۔ اکبربادشاہی نے اپنے دربار میں بہترین لائبریری قائم کی، کئی ممالک سے نایاب اور قیمتی کتب منگوا کر رکھی گئیں۔سنسکرت زبان میں لکھی جانے والی کتب کے فارسی زبان میں ترجمے سے بھی اکبربادشاہ نے کبھی صرف نظر نہیں کیا۔ مقامی زبانوں اور لہجوں میں لکھی جانے والی کتب پر انعامات کی بارش معمول کی بات تھی۔انگریز مصنف نے ادباء او رشعراء کی سرپرستی کے حوالے سے اکبربادشاہ کے دور کا تقابلی جائزہ ملکہ برطانیہ سے کیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ اکبر بادشاہ کی توجہ لٹریچر پر آ کر ٹھہر گئی تھی ،تاج برطانیہ کے برعکس ہر شعبے پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہے۔ چند ایک شعبوں پر زیادہ توجہ دینے سے دیگر علوم کو زوال آ گیا۔جبکہ ملکہ برطانیہ اور وہاں کی حکومت نے ہر علم کو اہمیت دیتے ہوئے برطانیہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اکبر بادشاہ نے ہندو تعلیمات کی ترویج میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کیا،اور برداشت کی تلقین کی۔ انہوں نے نا صرف مسلمان مصنفین کو اپنے دربار عالیہ میں جگہ عنایت کی بلکہ ہندوئوں کو بھی مسلمانوں کے برابر اہمیت دیتے ہوئے ان پر بھی انعام و اکرام کی بارش کرتے رہے ،خزانہ ان کے لئے بھی وقف تھا۔
    یوں تو اکبربادشاہ خود بھی شاعری فرمایاکرتے تھے، وہ اچھے شاعری ہی نہیں، بلند پایہ ادیب بھی تھے۔'اکبر رئے‘ تخلص فرمایا کرتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی خود نوشت بھی اس دورکے ادب کی شان ہے۔وہ فن موسیقی کے بھی دلداہ تھے ،تان سین کو دربار میں غیر معمولی اہمیت حاصل تھی،دربار اکبری میں کئی وزراء اور محکموں کے سربراہان ادیب اور شاعر تھے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ انہوں نے ادبیوں اور شاعروں کو وزارتیں سونپ دی تھیں۔ اس میں شائددربار اکبری کے راجہ تودار مال کا بھی عمل دخل تھا۔ اردو کو عام زبان بنانے میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ انہوں نے ''بھگاواتا پرانا‘‘ کا ترجمہ فارسی زبان میں کرایا بلکہ کئی دیگر مسودات بھی لکھے۔دربار اکبری سے ان کا گہرا تعلق تھا۔اکبر بادشاہ نے انہیں 'کوی رے‘یعنی اعلیٰ شاعر کے خطاب سے نواز رکھا تھا۔انہیں بار بار ترقیاں ملیں۔ان کی مزاحیہ شاعری کی اپنی شہرت تھی۔ان کا مزاح اکبر کو کافی پسند تھا۔اکبر کا ایک اور وزیر راجہ منوہر داس بھی شاعرتھا۔جے پور کے مہا راجہ مان سنگھ (1535تا 1618) بھی دربار اکبری میں جرنیل کے عہدے پر فائز تھے۔ان کی شہرت بھی ا یک اچھے ادیب اور شاعر کی تھی۔
    ابوالفیض سگے بھائی تھے ابوالفضل کے۔دونوں اکبر بادشاہ کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے، ابوالفیض کا ہندی زبان کا کلام اعلیٰ شہرت کا حامل تھا۔بیرم خان کے سگے بیٹے عبدالرحیم خان خانہ ہندی زبان میں شاعری کیا کرتے تھے، وہ بھی دربار اکبری میں وزیر کے مرتبے پر فائز تھے۔کہا جاتا ہے کہ ابتدائی دور میں بیرم خاں کی مدد سے اکبر اپنی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔گانگ کوی کو بھی اکبری دربار میں فوقیت حاصل تھی، اخلاقی موضوعات پر ان کی شاعری اکبر کو کافی پسند تھی۔ ان کی لکھی گئی کتاب ''رحیم ست سائی‘‘ اعلیٰ شاعری کا نمونہ ہے۔ تان سین ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ اکبر بادشاہ نے ایک مرتبہ خوش ہو کر انہیں دو لاکھ روپے کے برابر انعام دیا تھا۔ دو بھائی کرن اور نارہاری ساہے شاعر تھے ،اور اکبر بادشا ہ کے دربار سے بھی منسلک تھے۔ نار ہاری ساہے کو اکبر نے مہا پترا(بڑا بیٹا) کا خطاب بھی دے رکھا تھا۔ پروین رائے پتاری چھوٹی نظموں اور چھوٹی بحر کی شاعری میں خاص مقام رکھتے تھے، اکبر بادشاہ کو علم ہوا تو انہیں بھی ا پنے دربار میں شامل کر لیا ۔کیسو داس کی اعلیٰ درجے کی شاعری نے انہیں بھی دربار اکبری کاحصہ بنا دیا تھا۔ ان کے سگے بھائی بلبھندرا سندھایا بھی پائے کے شاعر تھے۔انہوں نے بھگاواتا پرانا لہجے میں بھی شاعری کی ہے۔
    شہنشاہ جہانگیر اورشہنشاہ شاہجہاں نے بھی اپنے بزرگوں کی رویت جاری رکھی، ان کے دربار میں بھی صاحب علم کی عزت تھی انہیں خطابات سے نوازہ جاتا تھا۔ سندر (1631ء) نامی برہمن شاعر بھی ان میں سے ایک تھا۔اسے بھی رشہنشاہ شاہجہاں نے اعلیٰ کوی کا خطاب دے رکھا تھا۔ان کی شاعری کتاب ''سندر سپرنگار‘‘ میں محفوظ ہے۔انہوں نے برج بھاشا لہجے میں شاعری کا ایک مجموعہ تخلیق کیا۔
    سینا پتی 1589میں پیدا ہوا،وہ کنائوجی زبان کا ماہر شاعر تھا۔وہ اپنی کتاب'' Kavitta Ratnakar ‘‘ میں شاعری کی باریکیوں کو زیر بحث لائے تھے۔
    اسی دور میں تری پاتھی بھائیوں کی شاعری کابھی چرچا تھا۔ ایک رتناکر تری پاتھی تھے۔ شہنشاہ شاہجہاں کے علاوہ کئی اور حکمرانوں نے بھی اس خاندان کی سرپرستی کی۔ان کا کام کتاب ''چاند بچھڑ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ بھشن تریپا تھی بھی کئی درباروں سے منسلک تھے۔ مغل دربار سب سے اہم تھے۔ راجہ سامبھوناتھ سنگھ(1650ء ) اور ان کے کئی دوست شعراء بھی مغل دربار سے منسلک تھے۔ ان کی کتاب '' Nayika Bhed‘‘ خاصی شہرت رکھتی تھی۔ بنارس سے تعلق رکھنے والے سنسکرت شاعر سراسوتی بھی اہم تھے، تلسی (1655ء ) کو دربار شاہجہاں سے کوی مالا کا خطاب ملا تھا۔ بہاری لال سمیت درجنوں شاعرانکے دربار سے منسلک تھے لیکن ہم نے ان کا ذکر کیا ہے جنہیں اعلیٰ منصب یعنی وزارت یا کوئی دوسرا عہدہ حاصل تھا یا پھر انہیں خطابات سے نوازہ گیا تھا دیگر شعراء کے نام اور ان کے کام بعد مٰں شامل اشاعت کئے جائیں گے ۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں