1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مغرب کے بدنام سیریل کِلر

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مغرب کے بدنام سیریل کِلر
    upload_2019-12-11_3-33-53.jpeg
    ٹم نیوکومب
    اگر درست تعریف کی جائے تو دو افراد کو مختلف وقتوں میں قتل والے کو سیریل کِلر کہا جائے گا۔ ’’سیریل کِلر‘‘ اس وقت ذرائع ابلاغ میں جگہ پاتے اور عوام کے شعور میں راسخ ہوتے ہیں جب ان کے قتل کا انداز بھیانک ہو۔ ذیل میں سات بدنامہ زمانہ سیریل کِلرز کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ جیک دی رِپر اسے ’’جیک دی رِپر‘‘ کہا جاتا ہے لیکن دراصل اس نسبتاً پرانے اور بدنام قاتل کا نام معلوم نہیں۔ قاتل لندن کے ضلع وائٹ چیپل میں 1888ء میں نمودار ہوا اور پانچ عورتوںکو قتل کر دیا۔ وہ تمام جسم فروش تھیں۔ اس نے ان کی لاشوں کے اعضا کاٹ دیے۔ پولیس کے مطابق قاتل سرجن، قصائی یا ایسا فرد تھا جو گوشت کاٹنے کا ماہر تھا۔ قاتل نے اپنی کارروائی کے بارے میں خط لکھ کر پولیس اور لوگوں کا مذاق بھی اڑایا۔ اگرچہ قتل کے شبے میں بہت سے لوگوں کا نام لیا گیا لیکن قاتل کا پتا کبھی نہ چل سکا۔ جیفری ڈامر جیفری ڈامر نے 1978ء میں قتل کرنا شروع کیے۔ اس وقت وہ صرف 18برس کا تھا اور اسے 1991ء تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ ایک فرد جسے وہ قتل کرنا چاہتا تھا بچ نکلا اور اس نے امریکی ریاست وسکونسن کے مقام ملواوکی میں اس کے گھر کے بارے میں پولیس کو بتا دیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس نے کس بھیانک انداز میں یہ کام کیا تھا۔ وہاں کٹی ہوئی لاشیں اور ان کی تصاویر موجود تھیں۔ وہ ان لاشوں کو تیزاب سے گلایا بھی کرتا تھا۔ اس نے کل 17 افراد کا قتل کیا جن میں سے زیادہ تر سفید فام نہیں تھے اور نوجوان تھے۔ وہ دو بار قید ہوا۔ ایک باربدسلوکی اور دوسری بار قتل پر۔ 1994ء میں اسے اس کے ساتھی قیدی نے قتل کر دیا۔ ہارولڈ شپمین ہارولڈ شپمین کو ’’ڈاکٹر ڈیتھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے کم از کم 218 مریضوں کو قتل کیا، تاہم کل تعداد 250 کے قریب ہو سکتی ہے۔ یہ ڈاکٹر لندن میں 1972ء سے 1998ء تک پریکٹس کرتا رہا اور اس نے دو مختلف دفاتر میں کام کیا اور اس دوران وہ قتل کرتا رہا۔ اسے تب پکڑا گیا جب بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ ان میں ایک تجہیزوتکفین کرنے والا بھی شامل تھا جو موت کے ان سرٹیفکیٹس کی تعداد سے حیران ہوا جن میں شپمین کا نام آتا تھا۔ مقتولوں میں سے زیادہ تر بوڑھی عورتیں تھیں جو رات کے بجائے دن کے وقت بستر پر مر جاتیں۔ پولیس نے اپنی تفتیش درست طور پر نہ کی اور شپمین مریض مارتا رہا۔ وہ لالچ میں آ کر پکڑا گیا۔ اس نے ایک مریض سے اپنے حق میں وصیت لکھوانے کی کوشش کی۔ اس سے مریض کی بیٹی کو شک پڑ گیا۔ اسے بالآخر 2000 ء میں سزا مل گئی۔ 2004ء میں اس نے جیل میں خودکشی کر لی۔ جان وین گیسی وہ مضافاتی علاقوں میں تعمیراتی مزدور تھا اور ہمسائیوں کے مطابق خوش مزاح انسان تھا۔ وہ (امریکی) سیاست میں بھی سرگرم رہا اور برتھ ڈے پارٹیوں پر مسخرہ بن کر اداکاری بھی کرتا رہا۔ لیکن وہ مسخرہ تھا نہیں۔ 1978ء میں اس کے ساتھ آخری بار دیکھے جانے والے ایک 15 سالہ لڑکے کے سبب اس پر شک کا آغاز ہوا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب غائب ہونے والے نوجوانوں کے والدین نے اس پر انگلی اٹھائی تھی لیکن اس بار حکام نے معاملے کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔ ایک وارنٹ سے پولیس کو اس کے گھر تک رسائی کی اجازت مل گئی۔ اس کے گھر کے زیریں خانے میں 30 لاشوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اسے 33 قتل کرنے پر سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ اسے ریپ اور اذیت رسانی کا مجرم قرار دیا گیا۔ 1994ء میں زہریلے انجکشن سے اس کی سزائے موت پر عمل کیا گیا۔ ایچ ایچ ہومز شکاگو میں کئی قاتل گزرے ہیں لیکن ایچ ایچ ہومز جیسا ہولناک کوئی نہیں۔ وہ ایک دواساز تھا جس نے ایک ہوٹل کو تشدد کے قلعے میں بدل دیا تھا۔ 1893ء میں کرسٹوفر کولمبس کی امریکا آمد پر ہونے والے میلے سے قبل وہ شکاگو منتقل ہو گیا اور ایک تین منزلہ عمارت میںہولناک چیزیں مثلاً گیس کی لائنیں، خفیہ راستے، چور دروازے، بند راستے، تہ خانے میں پھسلنے کے راستے، آواز کو باہر سے جانے سے روکنے والی چادریں، اذیت رسانی کے آلات کی تنصیب شروع کر دی۔ گیس پھینک کر ہومز آنے والے ’’مہمان‘‘ کو حواس باختہ کر دیتا تھا۔ اس کے بعد عموماً سرجیکل میز پر اس سے مزید برا سلوک ہوتا۔ وہ لاشوں کو عمارت کی بھٹی میں جلا دیتا، ڈھانچوں کو میڈیکل سکولوں میں بیچ دیتا اور لائف انشورنس کے جعلی پروگرام چلاتا۔ اس نے 30 سے زائد قتل کیے لیکن پھر جعل سازی میں اس کے ساتھی نے مالی معاہدے کی خلاف ورزی پر اسے پکڑوا دیا۔ 1896ء میں اسے پھانسی دے دی گئی۔ پیڈرو لوپز یہ دنیا کے سب سے ماہر سیریل کِلرز میں شمار ہوتا ہے۔ پیڈرو لوپز نے اپنے ملک کولمبیا کے علاوہ ایکواڈور اور پیرو میں 300 سے زیادہ قتل کیے۔ اس کے ہاتھوں قتل ہونے والی کم از کم ایک تہائی قبائلی عورتیں تھیں۔ 1980ء میں لوپز کی گرفتاری کے بعد پولیس نے اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے 50 نوعمر افراد کی قبریں تلاش کیں۔ بعدازاں اسے ایکواڈور میں 110 لڑکیوں کے قتل پر سزا ہوئی اور اس نے کولمبیا اور ایکواڈور میں مزید 240 قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ قید میں 20 برس بھی نہ رہا، اور اچھے رویے کی بنیاد پر اسے رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ٹیڈ بنڈی ٹیڈ بنڈی کو اس توجہ کی چاہ تھی جو قتل کرنے پر حاصل ہوتی ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بہت سے لوگ اسے یہ توجہ بخوشی دیتے تھے۔ اس کا بچپن مشکلات میں گزرا۔ اس نے پہلا قتل سیاٹل میں 1966ء میں یونیورسٹی آف واشنگٹن سے گریجوایٹ کرنے کے بعد کیا۔ مغربی امریکا اس کی شکار گاہ تھا، اس نے نامعلوم کتنے قتل کیے۔ واشنگٹن سے اوریگان اور یوٹاہ سے کولوریڈو تک کالج جانے کی عمر کی لڑکیاں اس کا ہدف ہوتیں۔ بنڈی کو کولوریڈو میں اغوا کرنے پر سزا ہوئی لیکن وہ قید سے فرار ہو گیا اور فلوریڈا چلا گیا، جہاں اس نے کہیں زیادہ قتل کیے۔ بالآخر بنڈی کو پکڑ لیا گیا اور پورے کی ملک کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی کیونکہ اس نے اپنی وکالت خود کی اور غالباً قتل کا یہ پہلا مقدمہ تھا جسے ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔ 1989ء میں اسے الیکٹرک چیئر پر سزائے موت دے دی گئی۔ (ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا)​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں