1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

:::معیت اللہ،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کے طریقے::: پہلا حصہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏24 دسمبر 2012۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
    سب محترم قارئین کرام سے گذارش ہے کہ میرے مضامین میں عربی عبارات کو درست طور عربی فونٹس میں دیکھنے اور پڑھنے کے لیے درج ذیل ربط میں موجود فونٹس ڈاون لوڈ کیجیے اور اپنی مشینز میں انسٹال کر لیجیے ،جزاکم اللہ خیرا۔
    http://bit.ly/V1u3FK
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
    ::::::: معیت اللہ یعنی اللہ کا ساتھ ہونا،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کے طریقے:::::::
    [FONT=Al_Mushaf]بسّم اللہِ الذی احاط مخلوقاتہ کلھا بعلمہ و بقُدراتہِ ، و الحمد للہ الذی لا یخفی علیہ شیءٌ فی السَّماواتِ و الارض ِ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیَ مَن لا نبی بعدہ ُ[/FONT]

    اللہ کے نام سے آغاز ہے جِس نے اپنی ساری ہی مخلوق کو اپنے عِلم اور اپنی قدرتوں کے احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے جِس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ، اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں

    اللہ جل و علا کی ذات مبارک کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی وحی میں جو کہ خود اللہ کے کلام مبارک میں قران حکیم کی صُورت میں ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کی صُورت میں ہم تک پہنچی ، اُس وحی میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ جلّ جلالہ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ، جُدا اور بلند ، اپنے عرش کے اوپر ہے ،
    الحمد للہ ، کہ اللہ ہی کی توفیق سے میں نے اسلامی عقیدے کے اس أہم اور بنیادی عقیدے کی وضاحت کے بارے میں ایک کتاب بعنوان """ اللہ کہاں ہے ؟ """ تیار کی جو برقی میڈیا پر نشر کی جا چکی ہے ،
    آن لائن مطالعہ کے لیے درج ذیل روابط دیکھیے :::
    http://bit.ly/Wa59Gj
    اور برقی نسخہ ڈاون لوڈ کرنے کے لیے درج ذیل ربط :::
    http://bit.ly/WdOB00
    اِس کتاب میں ، میں نے لکھا تھا :::
    """"""" ( 7 ) اللہ الکریم کا فرمان ہے :::
    ((((( [FONT=Al_Mushaf]هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ[/FONT]::: اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی پھر عرش پر قائم ہوا وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ))))) سورت الحدید(57)/آیت 4 ۔
    ings'">ings'">×ings'">×ings'">×اس مندرجہ بالا آیت مُبارکہ میں ہمارے اِس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ، جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ، اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالی کی "" معیت "" یعنی اُس کا ساتھ ہونا ،جس کے بارے میں عموماًٍ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی ذات مُبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے ، جو کہ دُرُست نہیں ہے کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ نے خود ہی اپنی """ معیت """ کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ((((([FONT=Al_Mushaf]وَاللَّہ ُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ[/FONT]::: اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ))))) یعنی اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت، سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ، نہ کہ اُس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے، اِن شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔"""""""
    گو کہ اس وضاحت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ( یعنی اُس کے اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے )کے ذِکر کی بنا پر اس شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ کا ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کا ساتھ ہونا ہے ،
    لیکن پھر بھی قارئین کرام کی طرف سے ایسے سوالات یا شبہات کا اظہار ہوا ہےجو اُن آیات مبارکہ سے ، جِن میں اللہ تعالیٰ کے اپنی کسی مخلوق کے ساتھ ہونے کا ذِکر ہے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساتھ ہونا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کا ساتھ ہونا ہے ،
    جسے """ معیت اللہ """ کہا جاتا ہے ،
    اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ میں اُن آیات مبارکہ کی تفسیر پیش کروں گا جِن آیات مبارکہ میں اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کا ذِکر ہے ، جِس سے اِن شاء اللہ یہ واضح ہو جائے گاکہ اللہ کی معیت اُس کی ذات کا ساتھ ہونا نہیں ،
    بلکہ اللہ عزّ و جلّ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے سے مُراد اُس مخلوق کا ، اور اُس کے ظاہری اور باطنی افعال و اقوال کا اپنے عِلم ، سماعت ، بصارت ، حِکمت ، قُدرت اور تدبیر کےذریعے احاطہ کیے رکھنا ہے،
    اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق کے ساتھ ہونا ، دو بنیادی اقسام میں ہے ، یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دو بنیادی انداز میں ہوتا ہے ،
    ::::::: (1) :::::::: عمومی معیت ،
    ::::::: (2) ::::::: خصوصی معیت ،
    اِن شاء اللہ ، کوشش کروں گا اِن دونوں اقسام کا مختصر لیکن کافی و شافی تعارف اِسی مضمون میں ذِکر کر سکوں ،
    اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی اِس صِفت یعنی ‘‘‘‘‘معیت ، ساتھ ہونا’’’’’ کی کیفیت کو دُرُست طور پر سمجھنے میں لوگوں کو دو اسباب سے غلط فہمی ہوتی ہے :::
    ::::::: (1) ::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کو اللہ ہی کی دی ہوئی خبر کے مطابق نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ کی معیت کی صِفت کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے ،
    وہ اللہ کی مخلوق کی صِفات کے مطابق ، اللہ کے بارے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کا کسی جگہ پر موجود ہوئے بغیر اُس جگہ پر ہونے والی حرکات و سکنات کو جاننا ممکن نہیں ، جب کہ ہمارے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو کچھ برقیاتی آلات مہیا کروا دیے ہیں اُن کی موجودگی میں اِس قسم کا کوئی خیال نہیں آنا چاہیے ،
    ::::::: (2) ::::::: اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کی کیفیت سمجھنے میں غلط فہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے لوگ """ [FONT=Al_Mushaf]معھُم[/FONT] ، یا ،[FONT=Al_Mushaf] معکُم[/FONT]، یا ، [FONT=Al_Mushaf]معہُ [/FONT]،یا ، [FONT=Al_Mushaf]معک[/FONT] """ یعنی """ اُن سب کے ساتھ ، یا ،تُم لوگوں کے ساتھ ، یا ، اُس کے ساتھ ، یا ، تمہارے ساتھ """ وغیرہ قسم کے الفاظ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک شخصیت یا چیز کا کسی دوسری شخصیت یا چیز کے ساتھ ہونے کے ذِکر سے یہ لازم ہوتا ہے دونوں اپنی اپنی ذات کے وجود کے ساتھ ، ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، جبکہ ایسا سمجھنا دُرُست نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے قران کریم میں فرمائے گئے فرامین مبارکہ کے مطابق ہی دُرُست نہیں ، اِس کا ذِکر بھی اِن شاء اللہ آگےہوتا چلے گا ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے کا ذِکر اپنی کتاب کریم میں کئی مقامات پر ، اور ایک سے زیادہ انداز میں فرمایا ہے ،
    اِن شاء اللہ اِس مضمون میں ، ہم اُن یات کریمہ کا مطالعہ کریں گے جن آیات مبارکہ کو نا دُرُست طور پر سمجھنے کی وجہ سے سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے ، اور معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، کچھ تو ایسے بھی ہوئے اور ہیں جو ان آیات مبارکہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اُس کے مخلوق میں، مخلوق کے اندر ، مخلوق کے ساتھ مختلط ہونے کا کفریہ عقیدہ اپنانے کی دلیل بناتے ہیں، اور اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر ہُو ، ہُو کے کفر میں گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں، اور اسے اللہ کا ذِکر سمجھتے ہیں ،
    اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر مدارج کی بلندی کے بعد ہُو ، ہُو نامی ، خود ساختہ باطل عقیدے پر مبنی شور شرابہ کسی بھی طور اللہ کا ذِکر نہیں ہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین کے انکار کا اعلان ہیں ، کیونکہ نہ تو اللہ پاک ہر جگہ موجود ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اِس دُنیا میں کسی کو نظر آتی ہے ،
    اِس موضوع پر اِن شاء اللہ کسی اور وقت بات کروں گا ، فی الحال تو اپنے اِس رواں مضمون کے موضوع یعنی‘‘‘ اللہ کی معیت ، اللہ کا ساتھ ہونا ’’’ کی طرف واپس آتا ہوں ، اورقران کریم ہی کی روشنی میں اُن آیات کریمہ کو دُرُست طور سمجھتے ہیں جن آیات شریفہ کی بنا پر لوگ """ معیت اللہ """ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بذاتہ اُس کی مخلوق میں موجود ہونا سمجھتے ہیں ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ::::::: پہلی آیت :::::::
    اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا [/FONT][FONT=Al_Mushaf]هُوَ مَعَهُمْ[/FONT][FONT=Al_Mushaf] أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[/FONT]::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے ،(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں ، پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے)))))سُورت المُجادلہ(58)/آیت 7،
    اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بارے میں اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اُس کے عِلم کے ذریعے ہے کہ ، وہ لوگوں کے بارے میں اُن کی ہر ایک بات اِس طرح جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ،
    جی ہاں ، غور کیجیے کہ اِس آیت کریمہ کا آغاز اُس کے عِلم کے ذِکر کے ساتھ فرمایا ہے اور اِختتام بھی اُس کے عِلم کے ذِکر پر فرمایا ہے ،
    اللہ تعالیٰ نے اُس کے عِلم کے ذِکر سے کیا ہے بارے میں اِس خبر کے ساتھ فرمایا ہے کہ((((([FONT=Al_Mushaf]أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ[/FONT]::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے)))))
    اور پھر اِس عِلم کی وسعت اور کیفیات میں سے ایک کیفیت کا بیان فرمایا ہے کہ((((([FONT=Al_Mushaf]مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا[/FONT]:::(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں)))))
    اور پھر اپنے اُسی عِلم کے مطابق لوگوں کو اُن کے اعمال کی خبر دینے کا ذِکر فرمایا ((((([FONT=Al_Mushaf]ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[/FONT]:::پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے)))))
    پس اِسی آیت مبارکہ میں سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اِس اللہ تبارک و تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اللہ کے عِلم کے ذریعے ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ، اپنی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتا ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اللہ کی ذات پاک اُس کی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔
    سُورت المُجادلہ کی اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کی یہی تفسیر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام الضحاک بن مزاحم الہلالی رحمہُ اللہ ، امام سُفیان الثوری رحمہُ اللہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے منقول ہے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مضمون جاری ہے ، قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اپنے ملاحظات یا سوالات کو مضمون کی تکمیل تک روکے رکھیے ، تا کہ مضمون کا تسلسل برقرار رہے اور عین ممکن ہے کہ آپ کے سوال یا اشکال کا جواب اگلے حصوں میں موجود ہو ، جزاکم اللہ خیرا ، والسلام علیکم
     
  2. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    :::معیت اللہ،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کے طریقے::: دوسرا حصہ

    گذشتہ سے پیوستہ :
    ::::::: دوسری آیت ::::::نماز میں قِبلہ کی سِمت (جہت)کے ذِکر کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا موجود ہوناسمجھنا:::::::
    اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ [/FONT]::: اور اللہ کے لیے ہی ہے مشرق اور مغرب ، لہذا تُم لوگ جِس طرف بھی اپنے چہرے پھیرو گے اُسی طرف کو اللہ کی طرف توجہ والا(قِبلہ) پاؤ گے ، یقیناً اللہ بہت وسعت والا (اور)بہت عِلم والا ہے)))))سُورت البقرہ(2)/آیت 115،
    یہ آیت مبارکہ دوران سفر اد کی جانے والی نفلی نماز کے بارے میں نازل ہوئی تھی ، ایسی نفلی نماز جس میں کوشش کے باوجود قِبلہ کی طرف رخ نہ ہو سکے ،
    اس آیت مبارکہ میں بھی ایسی کوئی بات نہیں جو یہ سمجھنے کی طرف مائل ہی کر سکے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہر جگہ موجود ہے ، اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے عِلم کی وسعت کا ہی بیان فرمایا ہے ، اور اِسی بیان پر اِس آیت شریفہ کو اختتام پذیر فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دِیا ہے کہ اِنسان مشرق یا مغرب یا کسی بھی اور طرف توجہ کرے ، ہر طرف ، ہر سمت میں وہ اللہ تعالیٰ کے عِلم کی وسعت میں محیط ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے عِلم سے کسی بھی جہت میں خارج نہیں ہو پاتا ، پس وہ جِس طرف بھی اپنا چہرہ پھیرے گا اللہ کے عِلم میں اسی طرح ہو گا جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بالکل سامنے ہے ، اور اگر اُس کی جہت بالکل دُرُست طور پر قِبلہ کی طرف نہ بھی ہو سکی تو بھی اللہ تعالیٰ اُس کی توجہ کو اسی طرح قبول فرمائے گا کہ جیسے وہ قِبلہ کی بالکل دُرُست جہت اختیار کرتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوا ہو ،
    خیال رہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ فرمائی جا چکی ہے ، اِس کی تفصیل تقریباً تفسیر کی ہر ایک معتبر کتاب میں مذکور ہے ،
    اس آیت مبارکہ کے نزول کا سبب یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خواہش تھی کہ مُسلمانوں کا قِبلہ کعبۃ اللہ ہو ، پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خواہش کو شرفء قبولیت عطاء فرماتے ہوئے مسلمانوں کا قِبلہ تبدیل فرما نے کا حکم صادر فرما دِیا ((((([FONT=Al_Mushaf]قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ[/FONT]:::(اے محمد)ہم نے آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف (اٹھنااور)پلٹنا دیکھ لیا ہے، لہذا ہم آپ کو وہی قِبلہ عطاء کرتے ہیں جو آپ کی خواہش کے مطابق ہے ، پس آپ اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجیے ، اور تُم لوگ جہاں کہیں بھی ہو (نماز کے لیے)اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف پھیر لیا کرو ،اور جنہیں (تُم لوگوں سے پہلے ) کتاب دِی گئی وہ ضرور یہ جانتے ہیں کہ (قِبلہ کی تبدیلی کا)یہ ( حُکم)اُن کے رب کی طرف سے حق ہے، اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ اُس سے لاعِلم نہیں)))))سُورت البقرہ(2)/آیت 144۔
    لہذا ((((([FONT=Al_Mushaf]فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ[/FONT]::: لہذا تُم لوگ جِس طرف بھی اپنے چہرے پھیرو گے اُسی طرف کو اللہ کی طرف توجہ والا(قِبلہ) پاؤ گے )))))سُورت البقرہ(2)/آیت 115، میں اِس خیالی بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بذاتہ ہر جگہ موجود ہے ۔
    اور یہاں ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا چلوں کہ اِس دوسری آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ یاد دھانی کروائی ہے کہ وہ اُن کے تمام اعمال کا خوب عِلم رکھتا ہے ، توجہ فرمایے کہ پھر اللہ عزّ و جلّ اپنے عِلم کی وسعت کے ذِکر پر اپنی اِس بات شریف کو اختتام پذیر فرمایا ہے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    :::::تیسری اور چوتھی آیات ::: اللہ کا اپنی مخلوق کے قریب ہونے کے ذِکر والی آیات مبارکہ :::::::
    اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے((((([FONT=Al_Mushaf]وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ[/FONT]::: اور یقیناً ہم نے اِنسان کو تخلیق کیا ، اور جو کچھ اُس کا نفس اُسے وساوس ڈالتا ہے ہم اُس کا عِلم رکھتے ہیں اور ہم اُس کی شہ رگ سےبھی زیادہ اُس کے قریب ہیں)))))سُورت ق(50)/آیت 16،
    [[[ ایک تنبیہ ::: اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِنسان کو اور دیگر ساری ہی مخلوقات کو تخلیق فرمایا ہے ، پیدا نہیں کیا ، ہمارے ہاں عموماً یہ لکھا ، پڑھا ، کہا سنا جاتا ہے کہ سب کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے ، یہ بات دُرست نہیں کیونکہ پیدائش دینا ، پیدا کرنا ، الگ عمل ہے اور تخلیق کرنا الگ اور دونوں میں بہت دُور کی دُوری ہے اور پیدائش دینا ، پیدا کرنا اللہ جلّ و عزّ کی توحید کے عین خِلاف ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]و لم یُولَد[/FONT]::: اور اللہ نے کسی کو پیدا نہیں کیا)))))کسی غلطی کو دُرُست دِکھانے کی کوشش میں لفاظی اور اِدھر اُدھر کی تاویلات میں وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر اور خیر والا کام یہ ہے کہ ہم لوگ اُس غلطی کی اصلاح کرلیں]]]
    اللہ جلّ جلالہ ُ نے اِرشاد فرمایا ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ[/FONT]::: اور ہم تُم لوگوں کی نسبت اُس (مرنے والے)کے زیادہ قریب ہوتے ہیں)))))سُورت الواقعہ(56)/آیت 85،
    اِن دونوں مذکورہ بالا آیات شریفہ سے بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنی ذات پاک کے ساتھ اِنسانوں کے پاس موجود ہونے کی خبر ہے ،
    جب کہ یہ دونوں ہی آیات مبارکہ اِس قسم کی کوئی خبر مہیا نہیں کرتی ہیں ،
    پہلی آیت شریفہ میں یہ بیان ہے کہ اللہ عزّ و جلّ نے اِس آیت کریمہ میں بھی اپنے عِلم کے بارے میں یہ خبر عطاء فرمائی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بھی اِنسان کے اندر پائے جانے والے وسوسوں کو اُس اِنسان سے بھی زیادہ جانتا ہے کیونکہ اللہ کا عِلم اُس انسان کے اندر تک اُس اِنسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ داخل ہوتا ہے لہذا وہ اُس اِنسان کے نفس کے اعمال کا اُس اِنسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ عِلم رکھتا ہے ،
    خیال کیجیے کہ قارئین کرام کہ اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اپنے عِلم کا ذِکر اسی لیے فرمایا ہے کہ اُس کے بندے یہ جان لیں کہ اُن کا اکیلا حقیقی سچا معبود اللہ اُن کے نفوس کے اندر کی خبر اِس قدر باریک بینی اور تفصیل سے جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے اپنے اندرونی أعضاء سے بھی زیادہ اُن کی شخصیات کے قریب ہے ،
    اور اس قُرب کے اسباب بھی اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے بعد والی دو آیات مبارکہ میں بتائے ہیں ، اِن کا ذِکر ابھی اِن شاء اللہ آگے آئے گا ،
    مذکورہ بالا دوسری آیت مبارکہ میں بھی اللہ جل ّ و علا نے یہی خبر فرمائی ہے کہ جِس انسان پر نزع کی حالت طاری ہوتی ہے اور اس کی روح سلب کی جا رہی ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ اُس کے حال سے بے خبر ہو بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے حال کو اُن لوگوں سے زیادہ جانتا ہے جو لوگ اُس وقت اُس کے قریب ہوتے ہیں ،
    یہ مذکورہ بالا تفسیر تو آیات مبارکہ کے ظاہری الفاظ کے ظاہری معانی کے مطابق سمجھ میں آتی ہیں ، لیکن اگر ہم دیگر آیات کریمہ کو بھی سامنے رکھیں تو ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونا ، اور کسی مرنے والے کے احوال کو اُس مرنے والے کے پاس موجود لوگوں سے بھی زیادہ جاننے کا سبب اللہ کا اُس کی ذات شریف کے ساتھ وہاں موجود ہونا نہیں ، بلکہ ، ،،
    اِس کا سبب ، اور اِس کا ذریعہ اللہ تعالٰیٰ کا سننا اور دیکھنا بھی ہے ، اور اللہ کے فرشتوں کے ذریعے لوگوں کے احوال کی خبر حاصل کرنا بھی ہے ، کیونکہ اِنسانوں اور مخلوقات کےظاہری اور باطنی احوال کی خبر محفوظ کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے ،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ[/FONT] ::: جو مکاریاں تُم لوگ کرتے ہو ، یقیناً ہمارے رُسول (فرشتے) وہ سب کچھ لکھتے ہیں)))))سُورت یُونُس(10)/آیت 21،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ [/FONT]::: کیا وہ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم اُن کی خفیہ باتیں اور شرگوشیاں نہیں سُنتے ، بلکہ ہمارے رُسول (فرشتے)اُن لوگوں کے پاس لکھ رہے ہوتے ہیں))))) سُورت الزُخرف(43)/آیت 80،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ [/FONT]o[FONT=Al_Mushaf]كِرَامًا كَاتِبِينَ [/FONT]o[FONT=Al_Mushaf]يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ[/FONT]::: اور یقیناً تُم لوگوں پر محافظ (مُقرر) ہیں o عِزت اوربزرگی والے لکھاری oجو کچھ تُم لوگ کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں))))) سُورت الانفطار(82)/آیات 10 تا 12 ،
    سُورت ق کی جو آیت رقم 16 اوپر لکھی گئی ہے ، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ[/FONT]o[FONT=Al_Mushaf] مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [/FONT]::: جب کہ (اِنسان جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ، لکھ لیتے ہیںoوہ جو کوئی بات بھی زُبان پر لاتا ہے تو ایک چاک و چوبند نگران اُس کے پاس تیار ہوتا ہے)))))سُورت ق(50)/آیات 17، 18،
    اور اسی طرح مرنے والے کے پاس مختلف فرشتوں کو حاضر ہو کر اُس کے احوال کی خبر جمع کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ رکھی ہے ، اور روح سلب کرنے کی ذمہ داری بھی ملک الموت اور فرشتوں کو دے رکھی ہے ، ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ[/FONT] ::: بے شک وہ لوگ جنہیں ہمارے فرشتے (روح قبض کر کے)موت دیتے ہیں ))))) سُورت النِساء(4)/آیت 97،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ[/FONT] ::: یہاں تک کہ جب تُم لوگوں میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے فرشتے(روح قبض کر کے) اُسے موت دیتے ہیں اور فرشتے (اپنے کام کی ادائیگی میں ) ذرا سی بھی کوتاہی نہیں کرتے))))) سُورت الانعام(5)/آیت61،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ[/FONT] ::: اور اگر آپ دیکھیے کافروں کو اُس وقت دیکھیے جب ہمارے فرشتے(روح قبض کر کے) انہیں موت دیتے ہیں))))) سُورت الانفال(8)/آیت 50،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ [/FONT]::: (اے محمد) فرمایے کہ تُم لوگوں کو وہ ملک الموت موت دیتا ہے جسے تمہاری طرف ذمہ داری دی گئی ہو ، پھر تُم لوگ اپنے رب کی طرف ہی پلٹائے جاؤ گے ))))) سُورت السجدہ(32)/آیت 11،
    [[[ ایک تنبیہ ::: موت کے فرشتے کا نام قران کریم اور صحیح احادیث شریفہ میں ملک الموت بیان ہوا ہے ، اُس کا نام عزرائیل ہونا قران حکیم اور صحیح احادیث میں ثابت نہیں ]]]
    اور اب یہ بھی دیکھیے کہ ان ہی کاموں کو اور کئی دیگر کاموں کو جو کہ اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ، اور فرشتوں نے کیے ، اُن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات شریف سے بھی منسوب فرما کر ذِکر فرمایا ہے ،
    اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے درج ذیل فرامین مبارکہ پر غور فرمایے :::
    ((((([FONT=Al_Mushaf]وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ[/FONT]:::اور اللہ ہی تُم لوگوں کو رات میں موت دیتا ہے اور جو کچھ تم لوگ دِن بھر کرتے ہو اُس کا بھی عِلم رکھتا ہے ، پھر تُم لوگوں کو دِن کے وقت میں دوبارہ اِرسال کرتا ہے تا کہ(تم لوگوں کی موت کا)مقرر شدہ وقت پورا ہو جائے، پھر تُم لوگوں نے اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے پھر اللہ تم لوگوں کو اُس کی خبر کر دے گا جو کچھ تُم لوگ کیا کرتے تھے))))) سُورت الانعام (6)/آیت 60،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ[/FONT]::: اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت(پورے کا پورا) قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی (اسی طرح قبض کرتا ہے )جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں)))))سُورت الزُمر(39)/آیت 42،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ[/FONT] ::: اور اللہ ہی ہے جِس نے تم لوگوں کو تخلیق کیا ، پھر وہ تُم لوگوں کو موت دیتا ہے ، اور تُم لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جسے ذلت والی عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے تا کہ وہ علم پانے کے بعد پھر سے جاھل بن جائے ، بے شک اللہ سب سے زیادہ اور مکمل علم والا ، قدرت والا ہے))))) سُورت النحل (16)/آیت 70،
    ان سب ہی آیات مبارکہ میں انسانوں کو موت دینے ، اُن کی جان نکالنے ، اُن کی ارواح قبض کرنے کے کام اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک سے منسوب فرما کر ذِکر کیے ہیں ،
    جب کہ اِن سے پہلے ذِکر شدہ آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ اِنسانوں کی جان نکالنا ، اُن کی روحیں قبض کر کے انہیں موت دینا ، اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ،
    پس اللہ تعالیٰ کے اپنے فرامین مبارکہ سے ہی یہ ثابت ہوا کہ ایسے کئی کام ہیں جو کہ اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ، اور فرشتوں نے کیے ، لیکن اُن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات شریف سے بھی منسوب فرما کر ذِکر فرمایا ہے ،
    اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرشتوں کے افعال کو اُس کی اپنی ذات مبارکہ سے منسوب کر کے ذِکر فرمانے کی مزید چند مثالیں ملاحظہ فرمایے :::
    ((((([FONT=Al_Mushaf]تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ[/FONT]:::یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم بالکل ٹھیک ٹھیک آپ پر تلاوت کر رہے ہیں اور بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں)))))سُورت البقرہ(2)/آیت 252،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ[/FONT]::: اور جب ہم قران کی قرأت کریں تو(آپ اُس کو توجہ سے سنیے او رپھر) اُس قرأت کی پیروی (کرتے ہوئے اُس کے مطابق قرأت)کیجیے )))))سُورت القیامہ(75)/آیت 18،
    جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بذات خود ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کچھ تلاوت کر کے نہیں سنایا ، اور نہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قران قرأت کر کے سنایا ، یہ دونوں کام اللہ کے فرشتے جبرئیل علیہ السلام کیا کرتے تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو اپنی ذات سے منسوب فرما کر اپنے کام کے طور پر ذِکر فرمایا ہے ،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى ٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ[/FONT]::: بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کریں گے،اور جو کچھ اُنہوں نے آگے بھیجا ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑا وہ ہم لکھتے ہیں، اور ہم نے ہر ایک چیز کو واضح کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے))))) سُورت یٰس(36)/آیت 12،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ[/FONT]:::یہ ہماری کتاب ہے جو تُم لوگوں کے سامنے(تمہارے سب کاموں کے بارے میں ) سچ سچ بول دے گی ، جو کچھ تُم لوگ کرتے تھے ہم سب ہو بہو لکھ لیا کرتے تھے))))) سُورت الجاثیہ (45)/آیت 29،
    اِن مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اقوال و اعمال لکھنے کا عمل اپنا عمل بیان فرمایا ہے جبکہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی یہ بھی واضح فرما دِیا ہے کہ انسانوں کے افعال و اقوال کو اللہ تعالیٰ خود بذاتہ نہیں لکھتا ، اور نہ ہی بذاتہ اُن کے اعمال و اقوال کے نسخے تیار فرماتا ہے ، بلکہ ،،،،،ابھی ابھی جو آیات مبارکہ ذِکر کی گئی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دِیا ہے کہ انسانوں کے افعال و اقوال لکھنے کا کام اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے :::
    ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ[/FONT] ::: جو مکاریاں تُم لوگ کرتے ہو ، یقیناً ہمارے رُسول (فرشتے) وہ سب کچھ لکھتے ہیں)))))سُورت یُونُس(10)/آیت 21،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ [/FONT]o[FONT=Al_Mushaf]كِرَامًا كَاتِبِينَ [/FONT]o[FONT=Al_Mushaf]يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ[/FONT]::: اور یقیناً تُم لوگوں پر محافظ (مُقرر) ہیں o عِزت اوربزرگی والے لکھاری oجو کچھ تُم لوگ کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں))))) سُورت الانفطار(82)/آیات 10 تا 12 ،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ[/FONT]o[FONT=Al_Mushaf] مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [/FONT]::: جب کہ (اِنسان جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ، لکھ لیتے ہیںoوہ جو کوئی بات بھی زُبان پر لاتا ہے تو ایک چاک و چوبند نگران اُس کے پاس تیار ہوتا ہے)))))سُورت ق(50)/آیات 17، 18،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ [/FONT]::: کیا وہ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم اُن کی خفیہ باتیں اور شرگوشیاں نہیں سُنتے ، بلکہ ہمارے رُسول (فرشتے)اُن لوگوں کے پاس لکھ رہے ہوتے ہیں))))) سُورت الزُخرف(43)/آیت 80،
    یعنی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے رسول فرشتے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں اور اس قدر پاس ہوتے ہیں کہ لوگوں کے راز اور سرگوشیاں تک جانتے ہیں اور لکھتے ہیں ،
    پس فرشتوں کے کاموں کو اپنی ذات پاک کے کام کے طور پر ذِکر کرنے کی مثالوں میں سے یہ بھی ہے،
    ((((([FONT=Al_Mushaf]وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ[/FONT]::: اور ہم اُس کی شہ رگ سےبھی زیادہ اُس کے قریب ہیں)))))سُورت ق(50)/آیت 16،
    اور یہ بھی ((((([FONT=Al_Mushaf]وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ[/FONT]::: اور ہم تُم لوگوں کی نسبت اُس (مرنے والے)کے زیادہ قریب ہوتے ہیں)))))سُورت الواقعہ(56)/آیت 85،
    پس اللہ تعالیٰ کے فرامین مبارکہ کے ہی مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان دو آخر الذکر آیات مبارکہ میں مذکور قُرب عِلم پر مبنی ہے اور فرشتوں کے ذریعے ہے نہ کہ بذاتہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہے ،
    تو حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کسی کے قریب ہونا ، کسی کے ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کے ذریعے نہیں ہوتا ، بلکہ اُس کی صِفات ، فرشتوں ، قوتوں ، قدرتوں ، حِکمتوں، کے ذریعے ہوتا ہے،
    اور یہ ہی حق ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کے بے شمار فرامین اس کی دلیل ہیں ، اور یہ ہی حق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ ، جُدا ، اور بلند اپنے عرش سے اوپر ہونے کی خبروں کے عین مطابق ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مضمون جاری ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں