1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہے بھی نہیں بھی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏9 نومبر 2017۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہے بھی نہیں بھی
    میرے لیے ہونٹوں پہ دعا ہے بھی نہیں بھی
    مدت ہوئی اس راہ سے گزرے ہوئے اس کو
    آنکھوں میں وہ نقش کفِ پا ہے بھی نہیں بھی
    منہ کھول کے بولا نہیں جاتا کہ شفا دے
    اس پاس مِرے دل کی دوا ہے بھی نہیں بھی
    کہتے تھے کبھی ہم کہ خدا ہے تو کہاں ہے
    اب سوچ رہے ہیں کہ خدا ہے بھی نہیں بھی
    رکھے بھی نظر بزم میں دیکھے بھی نہیں وہ
    اوروں سے یہ انداز جدا ہے بھی نہیں بھی
    گو زیست ہے مٹتی ہوئی سانسوں کا تسلسل
    قسطوں میں یہ جینے کی سزا ہے بھی نہیں بھی
    یا دل میں کبھی یا کبھی سڑکوں پہ ملیں گے
    ہم خانہ خرابوں کا پتا ہے بھی نہیں بھی
    وہ موم بھی ہے میرے لیے، سنگ بھی آزرؔ
    کہتے ہیں کہ اس دل میں وفا ہے بھی نہیں بھی

    راشد آذر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں