1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معاشروں کی تباہی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏17 جنوری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    انسان نے یقیناً ہر دور میں کوشش کی ہے کہ اس کی معاشرتی زندگی مستحکم رہے۔ ہم جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ہمیں اِس کا رُخرہے۔ ہم جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ہمیں اِس کا رُخ اجتماعیت کی طرف نظر آتا ہے۔ تاریخ انسانی نے مختلف معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا۔ ’’قرآن کریم‘‘ نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے۔

    قومِ نوح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”واغرقنا الذین کذبوا باٰیٰتنا “ ہم نے اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا۔ (اعراف۷: آیت ۶۴)

    ایک جگہ ارشاد فرمایا: ” أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛوَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ“

    کیا تمہیں ان کی خبر پہنچی جو تم سے پہلے تھے؟ قومِ نوح، عاد اور ثمود کی اور جو لوگ ان کے بعد ہوئے۔ (ابراھیم ۱۴: آیت ۹)

    ہدایت کو بھلا کر متکبرانہ رویہ اختیار کرنے والے معاشروں کو پیوند خاک کیا گیا۔ چنانچہ قارون اور فرعون کے ذکر میں قرآنِ پاک میں یوں وضاحت کی گئی ہے: وقارون وفرعون وھامن ولقد جآئھم موسٰی بالبینٰت فاستکبروا فی الارض وما کانوا سابقین۔ فکلا اخذنا بذنبہ من ارسلنا علیہ حاصبا ومنھم من اخذتہ الصیحۃ ط ومنھم من اغرقنا ج وما کان اللہ لیظلمہم ولٰکن کانوآ انفسھم یظلمون۔

    اور ہم نے قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کیا اور ان کے پاس موسیٰؑ کھلی دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان لوگوں نے زمین میں سرکشی کی اور بھاگ نہ سکے تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی سزا میں پکڑ لیا ۔سو ا ن میں سے بعضوں پر ہم نے تند ہوا بھیجی اور ان میں سے بعض کو ہولناک آواز نے آ دبایا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں بعض کو ڈبو دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن یہی لوگ اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے۔ (العنکبوت ۲۹ : آیت ۳۹)

    پچھلی قوموں کی تباہی پر غور کرنے کے ضمن میں فرمایا:
    اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین کانوا من قبلھم کانوا ھم اشد منھم قوۃ واٰثارا فی الارض فاخذھم اللہ بذنوبهم وما کان لہم من اللہ من واق۔ (سورۃ الغافر ۴۰ : آیت ۲۱)

    کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں، پس دیکھیے ان کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے، وہ قوت میں اور زمین میں نشانیاں چھوڑنے میں ان سے بڑھ کر تھے، سو اللہ نے انہیں گناہوں کی وجہ سے پکڑا، اور کوئی انہیں اللہ تعالیٰ (کی سزا) سے بچانے والا نہ تھا۔

    معاشرے کی تباہی کے اسباب

    معاشرہ کے بگاڑ اور بناؤ کے ذکر سے قبل دو باتیں بیان کرنی بہت ضروری معلوم ہوتی ہیں:



      • فردِ معاشرہ کا خالق کائنات سے کیا تعلق ہے؟



      • فرد کا دوسرے افرادِ معاشرہ کے ساتھ اور معاشرے کی اجتماعی حیثیت سے کیا ربط ہے؟
    کسی معاشرے کا تجزیہ کرنے کے لئے ان دو اصولوں کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ان دو اصولوں کی بنا پر انسان کی انفرادی سیرت کا تعین اور اجتماعی کردار کا مفہوم واضح ہو گا۔ ہم سب سے پہلے دیکھیں گے کہ افراد کے ذہنوں میں خدا کا تصور ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ناقص ہے یا صحیح؟ اس کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ افراد کا باہمی تعلق، ہمدردی، ایثار اور محبت و عفو کا ہے یا کینہ و عناد، انتقام اور سخت گیری کا؟ یہ وہ تجزیہ ہے جس سے معاشرے کے امراض کا پتہ چلتا ہے۔ پھر اس میں ایک اور بات کا اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی سیرت و کردار کی تکمیل کے لئے خدا کے کامل تصور کی ضرورت ہے۔ اگر خدا کا تصور ناقص ہو تو اس سے سیرت و کردار کی تکمیل بھی ناقص ہوتی ہے۔ پھر اصلاحِ احوال کی تدبیر بھی یہیں سے کی جا سکتی ہے۔ اس سے اصلاح کا تصور واضح ہوتا ہے کہ مرض اور بگاڑ کہاں ہے؟ اور اس کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔ بنیادی طور پر اس کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:




      • فکر و نظر کا بگاڑ
      • قول و فعل کا بگاڑ
    1. فکر و نظر کا بگاڑ
    انسانی زندگی چونکہ بنیادی طور پر نظریات پر استوار ہے، اس لئے نظریات و افکار میں بگاڑ انسان کی پوری سیرت و کردار کو متاثر کرتا ہے۔ جب ہم کسی معاشرے کا تجزیہ اس پہلو سے کرتے ہیں تو اس میں افراد کی نظریاتی و فکری کیفیتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

    فکری بگاڑ میں سب سے پہلی زد انسان کی اپنی شخصیت پر پڑتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کبھی تو وہ اپنے متعلق غلط فہمی کا شکار ہو کر ’’انا ربکم الاعلٰی‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے۔ اور کبھی اپنے آپ کو مرتبۂ انسانیت سے بھی گرا کر، اپنی ہی جیسی مخلوق کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے (قرآن پاک نے انسان کی اس ذہنی کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ ’’اولئک کالانعام بل ھم اضل۔یعنی یہ لوگ انسان ہونے کے باوجود حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ جنہیں اپنی حیثیت کا احساس تک بھی نہیں)‘‘

    انسان کی یہ روش اس کے غلط طرزِ فکر کا ہی نتیجہ ہے جس میں انکارِ خدا، شرک، انکارِ آخرت، خیر و شر کی تمیز سے انکار، بامقصد زندگی سے انکار اور انسان کی اصل حیثیت اور مرتبہ سے انکار سب شامل ہیں۔ فکر و نظر کے اس بگاڑ سے انسانی زندگی کے جملہ احوال متاثر ہوتے ہیں اور اس کا اثر معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر غالب ہوتا ہے۔

    اب ہم مختصر طور پر فکر و نظر کے بگاڑ کی مندرجہ بالا صورتوں کا جائزہ لیں گے:
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    أ‌. انکارِ خدا
    ایک غلط طرزِ فکر کا حامل ذہن جب کائنات اور اپنی زندگی کے متعلق سوچتا ہے۔ تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ تخلیق کائنات کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی کائنات کا کوئی خالق ہے اور اگر ہے تو بھی انسانی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس بیہودی و بے راہ ذہن کی نظر میں انسان کی حیثیت ایک جاندار مخلوق سے زیادہ نہیں جس کی پیدائش کسی خاص حادثہ کا نتیجہ ہے اور جس کا نظامِ یات بھی کسی حادثہ ہی کا شکار ہو کر ختم ہو جائے گا۔

    اس کے خیال میں انسان کا کوئی مالک، مختار اور حاکم نہیں جس کے سامنے وہ جواب دہ ہے اور نہ ہی اس کی نظر میں انسانیت کے لئے کوئی سرچشمہ ہدایت موجود ہے، لہٰذا قانون بنانا، اپنی قوتوں کا مصرف تجویز کر کے انہیں بروئے کار لانا اور اپنے لئے راہِ عمل متعین کرنا اس کا اپنا کام ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان جب اس طرزِ فکر کو اپنا کر اپنی عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو لا محالہ غلط طرزِ عمل اختیار کرے گا اور یہ چیز لازمی طور پر ایک غلط معاشرہ کی تشکیل و تعمیر پر منتج ہو گی۔

    نظریہ انکار خدا کا اگر ہم تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس کی وجہ سے انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ، اس کی اجتماعی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ انفرادی زندگی میں جب انسان خود ہی اپنے لئے راہِ عمل اختیار کرے گا، خود ہی قوانین مرتب کرے گا، خود ہی اصولِ زندگی وضع کرے گا۔ اور اپنی خواہشاتِ نفسانی اور مقتضائے جسمانی کا حل اپنے ہی ذہن سے تلاش کرے گا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ایک خود غرض، مادہ پرست، ابن الوقت اور عملی طور پر بالکل ایک شتر بے مہار کی طرح ہو جائے گا کہ جو راہ چاہے اپنے لئے متعین کرے اور جو بھی طرزِ عمل چاہے اختیار کرے۔

    چنانچہ جب ایسی انفرادی زندگی، اجتماعی طرزِ حیات کا رنگ اختیار کرے گی، تو نتیجہ یہ ہو گا کہ سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر ہو گی، تمام اصول و قوانین، خواہشات اور تجرباتی مصلحتوں کی بنا پر وضع کئے جائیں گے۔ بااختیار و اقتدار وہی لوگ سمجھے جائیں گے، جو طاقتور اور چالاک ہوں گے۔ سوسائٹی کی راہ نمائی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو گی جو مکار، جھوٹے، دغاباز، سنگدل اور خبیث النفس ہوں گے۔ جن کی کتابِ آئین میں طاقت کا نام حق و صداقت اور کمزوری، محرومی اور بیچارگی کا نام باطل ہو گا۔ غرض معاشرت اور طرز تمدن کا پورا نظام نفس پرستی پر قائم ہو ا اور اجتماعیت چند آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک منظم چراگاہ ہو گی۔


    ب‌. شرک
    انکارِ خدا کے بعد فکری بگاڑ کی دوسری وجہ شرک ہے۔
    ایسے لوگ یقیناً کم ہوں گے جو خالقِ عالم اور قادرِ مطلق کے وجود کے منکر ہوں گے لیکن ایسے لوگ بکثرت مل جائیں گے جو شرک کی بھول بھلیوں میں سرگردان ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ کو مبعوث فرما کر مشرکین کے خلاف حجت قائم فرما دی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ کچھ وجود، خدا کی صفات و اختیارات میں کسی نہ کسی طرح شریک ہیں، باوجودیکہ قرآن مجید نے شرک کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا ہے۔

    شرک کے تصور کے زیرِ اثر انسان جو طرزِ عمل اختیار کرتا ہے۔ اس سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ انسان کی پوری زندگی اوہام کی آماجگاہ بن جاتی ہے وہ اچھے اثرات کی موہوم امیدوار برے اثرات کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنی بہت سی قوتیں لا حاصل طریقے سے ضائع کر دیتا ہے۔

    کبھی کسی قبر سے امید لگاتا ہے، کبھی بتوں پر بھروسہ کرتا ہے، کبھی کسی برے شگون سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے اور کبھی خیالی قلعے تعمیر کرتا ہے، غرضیکہ شرک انسان کو فطری طریقے سے ہٹا کر غیر فطری راستے پر لا ڈالتا ہے اور انسان کی زندگی میں پوجا پاٹ، نذر و نیاز اور دوسری غیر شرعی رسموں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں الجھ کر انسان کی سعی و عمل کا ایک حصہ بے نتیجہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ چالاک لوگ مشرکانہ توہم پرستی کے جال میں لوگوں کو پھانس کر لوٹ کھسوٹ شروع کر دیتے ہیں، شرکیہ عقیدے کی بدولت عام انسانوں کی گردنوں پر شاہی خاندانوں، روحانی پیشواؤں اور مذہبی عہدہ داروں کی خدائی کا جواء مسلط ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ تو علوم و فنون ہی ترقی پاتے ہیں اور نہ ہی درست فلسفہ، صالح ادب اور تمدن و سیاست کے لئے فضا ہموار ہوتی ہے۔ انسانیت گمراہی اور دھوکے کا شکار ہو کر خود اپنے ہی خلاف جنگ کرنا شروع کر دیتی ہے، اور بالآخر انہی راہوں پر گامزن ہو جاتی ہے جن کا ذکر انکارِ خدا کے ضمن میں کیا گیا ہے۔


    ت‌. انکارِ آخرت
    انکارِ آخرت بھی، انکارِ خدا اور شرک ہی کی ایک کڑی ہے۔

    آخرت اصل میں نام ہے اعمال و افعال کے اس نتیجے کا جو اس دنیا میں ہم کر رہے ہیں اور اگر جزا و سزا کا تصور سرے سے ذہن میں موجود ہی نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ نیکی صرف دنیاوی فوائد اور برائی صرف دنیاوی نقصانات تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ ان حالات میں انسان کی حالت دو حال سے خالی نہ ہو گی۔

    حالات ناموافق ہوں گے۔ تو نیکو کاری کے نتائج ظاہر نہ ہونے پر اس کی قوتِ عمل سرد پڑ جائے گی اور وہ برائی کی طرف مائل ہو جائے گا اور سازگار حالات کی صورت میں انسان نفس پرست بن جائے گا۔ اور دنیاوی خواہشات و لذات حاصل کرنے کے لئے جائز و ناجائز ذرائع کا استعمال شروع کر دے گا۔
    اور یہ دونوں صورتیں انسانیت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ تو رہا انفرادی زندگی کا معاملہ اور اگر کہیں پوری سوسائٹی کے افعال و اعمال کا دارومدار اسی اعتقاد پر ہو تو پورا معاشرہ خود غرضی اور نفسانیت کی لپیٹ میں آئے گا۔ اور ایسے معاشرہ کے انجام کا تصور کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔


    ث‌. بامقصد زندگی سے انکار
    جب تک انسان کے سامنے کوئی واضح لائحہ عمل اور نصیب العین نہ ہو گا۔ انسان کا کوئی عمل بھی تنظیم و انضباط سے ہمکنار نہ ہو سکے گا۔ اور اس کی زندگی صرف کھانے پینے اور خواہشات سے متمتع ہونے سے عبارت ہو کر رہ جائے گی۔ اور یا پھر کوئی انتہا پسند یا کوئی سر پھرا انسان جو اپنے آپ کو پیدائشی مجرم تصور کرتا ہے، اس جرم کی سزا بھگتنے کے لئے خواہشات و لذّات سے بالکل ہی کنارہ کش ہو جائے گا۔ اور ایک با مقصد زندگی گزارنے کی بجائے بیابانوں اور ویرانوں کی خاک چھانتا نظر آئے گا۔ لیکن اسلام کا تصورِ حیات ان ہر دو صورتوں سے بیزار ہے۔ وہ تو انسان کو صحیح مقصدِ حیات سے ہمکنار کرنے کی خاطر ایک مبنی بر اعتدال و توازن راست پر چلنے کے لئے زور دیتا ہے۔ وہ انسان کو ایک ایسا اچھوتا نظامِ حیات بخشتا ہے جو انسانیت کے لئے ہر طرح سے اطمینان و تسکین کا حامل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں ایک مقام پر اپنے نیک بندوں کی پسندیدہ حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ:
    قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین۔ (یعنی میری نماز قربانی اور یات و ممات سب اللہ ہی کے لئے ہیں)

    وہیں ایک دوسرے مقام پر یہ بھی ارشاد فرما دیا ہے کہ:
    ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف فان اصابہ خیرن اطمأنّ بہ وان اصابتہ فتنۃ ن انقلب علی وجھہ خسر الدنیا والاخرہ ذالک ھو الخسران المبین ’’کچھ آدمی اللہ کی بندگی کنارے پر کرتے ہیں پھر اگر وہ بھلائی سے ہمکنار ہوئے تو اطمینان پاتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش آپڑی تو منہ کے بل پلٹ گئے۔ یہ تو دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا ہے اور صریح نقصان۔‘‘

    آپ انسان کی ان ہر دو حالتوں کو جائز لیجئے اور اس کے بین بین ایک راہِ اعتدال متعین کر لیجئے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی نظر میں بامقصد زندگی کا شعور اور اعلیٰ اور ارفع معیارِ حیات کا تصور کیا ہے۔ اور پھر اس بات کا سمجھنا بھی کچھ مشکل نہ ہو گا کہ اس معیارِ حیات کے تصور سے منحرف ہونے والے افراد یا معاشرہ کبھی پنپ نہیں سکتے۔


    ج‌. خیر و شر کی تمیز سے انکار
    خیر کے معنی بھلائی کے ہیں اور شر اس کی ضد ہے، خیر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے لئے انفرادی یا اجتماعی افادیت کی حامل ہو۔ یہ افادیت مادی بھی ہو سکتی ہے اور روحانی بھی، دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ اور شر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے لئے انفرادی یا اجتماعی رنگ میں ضرر رساں ہو، جس معاشرہ میں خیر و شر کی تمیز مٹ جائے (خیر اور شر کا معیار وحی الٰہی اور احکام قرآنی پر رکھا جائے گا) وہ ضلالت اور گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ افراد کی نظر میں نیکی نیکی اور بدی بدی نہیں رہتی اور لوگ صرف ظاہری منفعتوں کے زیر اثر کام کرتے ہیں۔ ایسی قوم اور ایسے معاشرے کا زوال یقینی اور حتمی ہو جاتا ہے۔

    معاشرے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اگر اس میں ایسے لوگ بچ بھی جائیں۔ جو خیر و شر میں تمیز کر سکتے ہوں تو بھی شر کے غلبے، معاشی لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی اقدار کو مٹتے دیکھ کر ہمت ہار بیٹھیں اور کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ ایسے حالات میں اصلاح کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہتی اور بالآخر معاشرہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو جاتا ہے۔

    یہ ہیں وہ محرکات اور وجوہات جو فکر و نظر میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ایسی کیفیت سے معاشرے کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان کا مقصدِ زیست تعمیری اور اخلاقی ہو۔ وہ خدا، آخرت اور بامقصد زندگی پر ایمان رکھے۔ اور شرک سے اپنا دامن ملوث نہ ہونے دے۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قول و فعل کا بگاڑ
    فکر و نظر کا بگاڑ قول و فعل کے بگاڑ کی بنیاد ہے کیونکہ انسان کا کردار نظریات کے خمیر سے اُٹھتا ہے۔ ماحول اور حالات اسے پختہ کر دیتے ہیں اور انسان کی اپنی کوشش اسے پائیدار بنا دیتی ہے۔ قول و فعل کے بگاڑ میں بے شمار چیزیں گنوائی جا سکتی ہیں لیکن قرآن پاک نے خیر شر کے جملہ پہلوؤں کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
    ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربٰی وینھٰی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون
    ’’بیشک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قریبیوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور فحشاء، منکر اور بغی سے روکتا ہے، اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے، تاکہ تم نصیحت مانو‘‘
    مندرجہ بالا آیت میں تین قسم کی برائیاں بیان کی گئی ہیں اور وہ ہیں۔ الفحشاء، المنکر اور البغی، اب ہم تھوڑی سی بحث اس بات پر کریں گے، کہ فحشاء، منکر اور بغی میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں۔


    أ‌. الفحشاء
    یہ لفظ فحش سے نکلا ہے۔ الفواحش اس کی جمع ہے۔ جس کے معنی حدود فراموشی کے ہیں۔ زیادتی کر بیٹھنا، کسی بات سے تجاوز کرنا، گفتگو میں ادب و احترام کی حدود کو پھلانگ جانا (وغیرہ) بھی شاء ہی کے ضمن میں آتا ہے۔
    قرآن کریم میں فحشاء کے مقابلے میں عدل کا لفظ آیا ہے۔ لہٰذا فحش کے معنی حدودِ خداوندی سے تجاوز اور سرکشی کے ہیں، سورۃ الانعام میں ہے: ولاتقربوا الزنٰی انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا۔ ’’ اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔‘‘
    عورتوں کے ضمن میں فاحشہ کا لفظ زنا کے لئے استعمال ہوا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
    ولا تقربوا الفواحش ما ظہر منھا وما بطن ’’تم فواہش کے قریب نہ جاؤ خواہ وہ کھلے ہوں یا ڈھکے چھپے‘‘
    غرض قرآن پاک میں فحش کا لفظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آیا ہے۔ نیز لفظ فواہش اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فاحشہ صرف زنا ہی نہیں بلکہ دوسرے بے حیائی کے کام بھی فاحشہ میں شامل ہیں۔ ساء کے ساتھ اس کا اطلاق فحش گوئی اور فحش کاری پر ہوتا ہے جس کی ہر نوع سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو باز رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔


    ب‌. المنکر
    فحشاء کے بعد جس چیز سے باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے وہ منکر ہے۔ اس کے لغوی معنی ناشناسا کے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں معروف (شناسا) کا لفظ آیا ہے۔ جو کام ہر طبقہ میں ناپسند کیا جاتا ہے اور جس کا مرتکب سب کی نگاہوں میں گر جاتا ہے اس کو منکر کہا جاتا ہے۔
    رزائل کے لئے قرآن پاک میں سب سے عام لفظ منکر ہے۔ چنانچہ سورۃ المائدہ میں جن برائیوں سے روک ٹوک نہ کرنے پر بنی اسرائیل کو ملامت کی گئی ہے ان کو اسی لفظ منکر سے تعیر کیا گیا ہے۔
    کانوا لایتنا ھون عن منکر (المائدہ: ۷۹) ’’وہ ایک دوسرے کو برائی سے منع نہ کرتے تے۔‘‘
    شیطان کی پیروی کو بھی فحشاء اور منکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
    یا ایھا الذین آمنوا لا تتبعوا خطٰوت الشیٰطن ومن یتبع خطٰوت الشیٰطن فانہ یامو بالفحشاء والمنکر (النور: ۲۱)
    ’’اے ایمان والو شیطان کے نقش قدم پر مت چلو اور جس نے ایسا کیا بیشک وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘
    عرض المنکر ایک ایسا وسیع لفظ ہے جو ہر قسم کی برائیوں، بے حیائیوں، ناپسندیدہ اور غیر مانوس افعال کو محیط ہے اور اس سے بھی اجتناب کرنے کی قرآن مجید نے پرزور تاکید فرمائی ہے۔


    ت‌. البغی
    ابن کثیر بغی کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ فاما البغی فھو عدوان علی الناس (ابن کثیر ج ۲ ص ۸۲)
    ’’یعنی لوگوں پر ظلم و زیادتی ’’بغی‘‘ ہے۔‘‘
    قرآن مجید میں ہے:
    خصمان بغٰی بغضنا علی بعض ’’ہم دو جھگڑنے والوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کی ہے‘‘
    ابن فارس نے اس کے دو معنی بیان کئے ہیں۔

    1۔کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے بڑھنے کی کوشش کرنا۔

    2۔بگڑ جانا۔ مطلق طلب کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے ابتغاء رحمۃ۔

    ’’فئۃ باغیۃ‘‘ اس جماعت کو کہتے ہیں جو حدود شکنی کرے اور نظامِ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔

    سورہ مریم میں ’’بغیّا‘‘ کا لفظ بدکاری کے معنوں میں آیا ہے۔

    قالت انٰی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا ’’بولیں کہ میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہو گا مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ میں بدکار ہوں۔‘‘

    ان یکفروا بما انزل اللہ بغیا (البقرہ: ۹۰)

    ’’یعنی جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس سے انکار کرتے ہیں، ضد کی وجہ سے۔‘‘

    مذکورہ بالا آیات سے البغی کے جو معانی علم میں آتے ہیں وہ ہیں، لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا، میانہ روی کی حد سے بڑھنے کی کوشش کرنا، کسی چیز کی طلب کے لئے انتہائی کوشش کرنا۔ حدود شکنی کرنا، بغاوت کرنا، بدکاری کرنا، ناجائز ضد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی تمام ایسی چیزیں ہیں جن سے مجتنب رہنے کی قرآن مجید نے تلقین فرمائی ہے۔

    ان قرآنی اصطلاحات سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فحشاء میں جس برائی کا ذِکر کیا گیا ہے۔ وہ صرف ایک فرد کی ذات تک محدود ہے۔ مثلاً زنا، برہنگی، جھوٹی تہمت، شراب نوشی، چوری وغیرہ، انہیں حدیث شریف میں بھی فواہش کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔

    منکر میں پوری جماعت کی معاشرتی زندگی شامل ہوتی ہے۔ ایسی زندگی جو ناپسندیدہ افعال، غیر مانوس حرکات، ظلم و ستم، سنگدلی، برائیوں اور بے حیائیوں سے عبارت ہو۔ ’’بغی‘‘ میں ایسی برائیاں شامل ہیں جو جماعت سے بھی آگے بڑھ کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ مثلاً چوری، قتل، ڈاکہ، بدکاری وغیرہ اور اس نوع کے دوسرے افعال جن سے اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فحشاء کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، فعل قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا، اور بد کلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر اُبھارنے والے افسانے اورڈرامے، فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا۔ علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا، تھرکنا اور جسم کی نمائش کرنا وغیرہ منکر سے مراد ہر وہ برائی ہے جس انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔

    بغی کے معنی ہیں، حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر ست درازی کرنا خواہ وہ خالق کے ہوں یا مخلوق کے ۔(تفہیم القرآن ج ۲ ص ۶۷۔۵۶۶)

    مندرجہ بالا بحث سے قول و فعل کے بگاڑ کی (الفحشاء، المنکر، البغی کے ضمن میں آنے والی) تمام صورتیں سامنے آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ بالا خرابیاں ایسی ہیں جن کی بدولت افرادِ انسانی اور جماعتوں کو ہر وقت مادّی اور روحانی نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ جب یہ افعال کسی قوم میں جڑ پکڑ لیں اور ان پر گرفت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پوری قوم اس کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور سارا معاشرہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قوم کی دینی اور دنیوی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور سعادت و اقبال کا دروازہ اس پر اس وقت تک کے لئے بند ہو جاتا ہے جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کر لے۔


    اصلاح
    جب ہم نے بگاڑ کا تعین کر لیا اور اس کے تفصیلی عناصر سے بھی واقفیت حاصل کر لی تو اب ہمارے لئے اصلاحی اقدام کا تعین بھی نہایت آسان ہے، مضمون کے آغاز میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اصلاح نام ہے، دوستی یا ازالہ فساد کا۔ لہٰذا معاشرے میں جہاں جہاں بھی فساد ہو گا۔ اس کو درست کرنے کا نام اصلاح ہو گا۔

    سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام جہاں جماعتی فلاح کا ضامن ہے۔ وہاں افراد کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ بلکہ فرد کی اصلاح کو اصلاح کا نقطۂ آغاز قرار دیتا ہے۔ کیونکہ فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ لہٰذا فرد کی اصلاح دراصل معاشرے کی اصلاح ہے۔

    ہمارےے نزدیک اصلاح کے لئے درج ذیل اقدام نہایت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

    1۔سب سے پہلے افراد کے ذہنوں میں خدا کا صحیح تصور اور عقیدۂ آخرت کی اہمیت پر زور دیا جائے۔ نیز شرک سے اجتناب کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ تاکہ لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے افعال میں خداوند کریم کے سامنے جواب دہی کے تصور کو مردہ نہ ہونے دیں اور صحیح نصب العین اور اعلیٰ و ارفع اقدارِ حیات کے حصول کی خاطر کوشاں رہیں۔

    2۔معاشرے کے اندر کسی ایسے ادارہ کی تشکیل کی جائے جو اصلاح و فساد کا تعین کرے اور ان تدابیر کو قابلِ عمل بنائے جن سے بگاڑ کی روک تھام ہو سکے۔ دینی نقطۂ نظر سے اس کو ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ امت مسلمہ کی خصوصیت میں یہی بات بیان فرمائی گئی ہے۔
    کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر (آل عمران: ۱۱۵)’’تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘

    امت کے ایک گروہ کیلئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو فریضہ قرار دیا ہے۔

    ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون۔ (آل عمران: ۱۰۴)

    ’’تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے، اچھے کاموں کا حکم دے اور برائی سے روکے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

    اس طرح اگر امت مسلمہ اپنے فریضہ کو پہچانے، اس کا صالح عنصر مجتمع ہو جائے اور اس کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستبازی، انصاف، حق پسندی، خلوص اور دیانت پر مضبوطی سے قائم ہو جائے تو منظم نیکی کے سامنے منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت کے باوجود شکست کھا جائے گی اور اگر خیر کے علمبردار سرے سے میدا ن میں ہی نہ آئیں تو میدان لا محالہ علمبردارانِ شر کے ہاتھ میں رہے گا۔

    3۔حکومت کو ان صالح لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہئے جو خیر کو قائم کریں اور شر کو روک سکیں۔ ’’النَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ ایک پرانا مقولہ ہے اور غالباً حدیث نبوی سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:

    اَلْاِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ اَخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلُحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا اِلَّا بِصَاحِبِہ فَالْاِسْلَامُ اُسٌّ وَالسُّلْطَانُ حَارِسٌ وَّمَا لَا اُسَّ لَہُ ھَادِمٌ وَّمَا لَا حَارِسَ لَہ ضَائِعٌ (کنز العمال)
    اسلام اور حکومت و ریاست، دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے جس عمارت کی بنیاد نہ ہو ،گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔

    ایک اور حدیث ہے:
    اِنَّ اللہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالْقُرْآنِ (تفسیر ابن کثیرؒ ج ۳ ص ۵۹)
    ’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں ہو سکتا۔‘‘
    حدیث میں قوم کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ داری اس کے علماء اور امراء پر رکھی گئی ہے۔ کیونکہ زمامِ کار انہی لوگوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔ اگر فرمانروا خدا پرست اور صالح ہوں تو زندگی کا سارا نظام خیر و صلاح پر چلے گا۔ اور حکومتِ وقت ‘‘ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی سفارشات پر غور کرے گی۔

    4۔معاشرے کا اجتماعی شعور بیدار کیا جائے کہ کوئی شخص بھی بگاڑ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس کے شعور کی تعمیر و ترقی کے لئے ’’ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ مندرجہ ذیل طریق اختیار کر سکتا ہے۔

    (الف) تعلیم و تبلیغ کے زریعے وہ تمام صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ جو دورِ حاضر میں نشر و اشاعت کے کام میں لائی جاتی ہیں۔ مثلاً اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن مذاکرات وغیرہ کے ذریعہ سے دینی اقدار اور اسلامی طرزِ حیات کی تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ دورِ حاضر میں یہ ذرائع عوامی رجحانات کو بدلنے اور نیا رخ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرے کے اندر غلط رجحانات کی ترویج میں ان اداروں کا بڑا حصہ ہے۔

    (ب) یہ ادارہ معیاری معاشرت کے لئے عمدہ نمونہ اور مثال پیش کرے جس کی نہج پر پورے معاشرے کو ڈھالا جا سکے۔ نبی کریم ﷺ نے جن اصولوں کو بیان کیا تھا، ان اصولوں پر مبنی ایک سوسائٹی مدینہ طیبہ میں تشکیل دی تھی اس معاشرہ کا ہر فرد ان اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔ لہٰذا اصلاح معاشرہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ نمونے کے چند افراد پر مشتمل ایک ایسی وحدت قائم ہونی چاہئے جس کو سامنے رکھ کر پورے معاشرے کو استوار کیا جا سکے۔

    5۔معاشرے میں مسجد کی دینی اور سماجی حیثیت کو اجاگر کیا جائے اور اصلاح معاشرہ کے لئے مسجد کو مرکزی حیثیت دی جائے کیونکہ نظمِ اجتماعی کے لئے ایک مرکز کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک مسلم سوسائٹی مسجد سے اپنا تعلق مضبوط نہیں کرتی اور مسجدیں پورے معاشرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیتوں کی حامل نہیں بن جاتیں، اس وقت تک اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

    6۔تعلیمی ادارے معاشرے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ معاشرے کے اجتماعی شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقاء کا دارومدار تعلیمی اداروں پر ہے جہاں اساتذہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس لئے ایسے اساتذہ کا انتظام کیا جائے جو طالب علموں میں اسلامی اقدار کو راسخ کر دیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں نصابات کی بھی جانچ پڑتال کی جائے اور ایسی تمام چیزیں جو روحِ دین کے منافی ہوں، ان کو پڑھاتے وقت تنقیدی طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ طالب علم ان کی حقیقت سے واقف ہو جائیں، نیز ان داروں میں بنیادی دینی تعلیمات کا انتظام کیا جائے تاکہ طلباء اسلام کی اصلیت اور اس کی روح سے مکمل واقفیت حاصل کر سکیں۔

    7۔دولت اور وسائلِ دولت پر تصرف اس طرح ہو کہ معاشرے میں معاشی نا انصافی، اسراف، بتذیر، بخل و ظلم اور ارتکازِ دولت نہ ہونے پائے۔ حکومت ان تمام ذرائع پر پابندی عائد کر دے جو عوامی بہبود کے لئے ضرر رساں ہیں۔ معاشی نظام میں سود، احتکار و اکتناز، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کی تمام صورتیں قانوناً اور حکماً بند کر دی جائیں تاکہ معاشرہ طبقاتی معاشرت کا شکار نہ ہو۔

    8۔معاشرے کی اصلاح کی خاطر حدود و تعزیرات کا نظام بھی قائم کیا جائے۔ جن کے ذریعے معاشرہ کو ان افراد سے محفوظ کیا جائے جو تعلیمی ترغیبات اور اخلاقی ذرائع سے اصلاح قبول نہ کریں اور معاشرے کے قانون کی خلاف ورزی کریں۔ حدود و تعزیرات کے نفاذ سے سماجی جرائم کا انسداد ہو گا اور معاشرہ غیر صالح عناصر کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رہے گا۔
    9۔سب سے آخر میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کا پورا نظام اسلامی ہو جس میں افراد اور معاشرہ روحِ دین سے سرشار ہو اور غیر اسلامی نظریات سر نہ اُٹھا سکیں۔ نظام کی تشکیل اس طرح ہو کہ غیر اسلامی نظریات کی بجائے اسلامی تعلیمات کی گرفت مضبوط ہو۔

    لیکن اس کے ساتھ اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہر فرد ’’اپنی اصلاح آپ‘‘ کے اصول کو اپنائے اور دوسروں کی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کرے۔ اصلاح معاشرہ کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوا ہے۔ اس سے وہ پیچیدگی دور ہو جائے گی جو دوسروں کی اصلاح کرنے کی صورت میں پیش آتی ہے۔ ’’اپنی اصلاح آپ‘‘ کے اصول کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ افراد کے سامنے معیار کا تصور واضح ہو گا اور ہر شخص اس معیار کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا چلا جائے گا۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    تخلیق و ایجاد کے ا غراض ومقاصد ،،،،
    کوئی موجد جب کسی چیز كو ایجاد کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں مقصد ایجاد ہوتا ہے۔ اپنے علم و ارادہ کے مطابق اس کا متعین کرنا اسی کا کام ہے۔ کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی صنعت و ایجاد کی غرض و غایت کے بارے میں دخل اندازی کرے، جب مقصد ایجاد میں غیر موجد کا دخل نہیں تو ضروریات و طریق کا اور اس کے اصول و ضوابط میں شرکت ِ غیر کا تصور کیونکر پیدا ہوسکتا ہے اور اگر اس کے برخلاف غیر موجد نے مقصد ایجاد اور اس کے ماتحت ضروریات اور ان کے طرق کار کے قواعد و ضوابط میں دخل دیا تو ان کی اقدار میں خلل واقع ہوگا، جو انسانی ایجاد کی تقدیر پر معاشرہ کا اصل معیار ہیں۔
     
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    تخلیق اِنسانی کا مقصد عظیم ،،،
    چونکہ انسان کا خالق و موجد اللہ تعالیٰ ہے اس لئے اس کا مقصد تخلیق بھی صرف اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ میں ہونا چاہئے جس کی تعیین کا حق اسی کے لئے محفوظ ہونا ضروری ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ انسان کی پیدائش اور اس کی حیات و بقا کے مقصد کی تعیین میں دخیل ہو یا اس کی ضروریات کے طریق کار اور اس کے قواعد و ضوابط میں خدا تعالیٰ کے خلاف اپنے علم و ارادہ کو دخل دے۔
    اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانی کا مقصد متعین فرمادیا (کہ میں نے انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے) اس کی انسانی ضرورتوں کے تمام طریق کار اور ان کے جملہ اصول و ضوابط انبیاء علیہم السلام اور شرائع و احکام کے ذریعے واضح فرما دیئے، اُن میں خلل اندازی یقینا انسانی معاشرہ کی تباہی کا موجب ہوگی۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    انسانی معاشرہ کا قوام
    اس میں شک نہیں کہ خالقِ کائنات نے ہر چیز کے مقصد تخلیق کی جھلک اس کے حالات و کیفیات اور اوصاف و خصوصیات میں پیدا کردی ہے، لیکن اس کو بالکل صحیح طور پر سمجھ لینا عقل سلیم کا محتاج ہے جس کا سرچشمہ صرف نبوت و رسالت ہے۔ لہٰذا انسانی معاشرہ کا قوام اس کے فطری تقاضوں کی بنیاد پر صرف تعلیمات نبوت کی روشنی میں ہی ہوسکتا ہے، اس کے بغیر اس کی صحیح تشکیل بالکل ناممکن ہے۔
    انسان دست قدرت کا وہ شاہکار ہے جس کے دامن میں حقائقِ کائنات کی تمام لطافتیں پائی جاتی ہیں وہ خلافت ربانی کا حقدار عزت و کرامت کا تاجدار اور احسن تقویم کا علمبردار ہے۔ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کا سب سے پہلا فطری تقاضا اُنس ہے جو اجتماع کو چاہتا ہے اور اجتماعیت ہی معاشرہ کا سنگ بنیاد ہے۔ گویا معاشرتی یا تمدنی زندگی انسانی فطرت کا اولین تقاضا ہے جس کی بنیاد پر اس کی حیات و بقا کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اگر اس کی حدود میں انسان کی عزت و کرامت محفوظ نہ رہے تو اسے حیوانی خواہشات کے پورا ہونے کا طریقہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن انسانی معاشرہ وہ کسی صورت میں نہیں کہلا سکتا۔
    اجتماع بر بنائے ضرورت ہوتا ہے اور ہر ضرورت مند کی ضرورتیں اس کے حسب حال پیش آتی ہیں۔ انسان کی جامعیت کے پیش نظر اس کے دامن خواہشات کی وسعتوں کا حال ظاہر ہے اور اس کی ضرورتوں کے میدان کا وسیع تر ہونا بھی اظہر من الشمس ہے، ضرورت کی بنا پر اجتماع کا ترتب اور اجتماع کی وسعتوں کے پیش نظر معاشرہ کا پھیلاؤ ایک لازمی اور بدیہی امر ہے۔
    معاشرہ کی ابتدا گھریلو زندگی سے ہوتی ہے، ایک گھر میں ماں، باپ، میاں، بیوی، بہنیں، بھائی، بیٹا، بیٹی، خادم، خادمہ کارہنا اور ہر ایک کے ساتھ اس کے حسب حال تعلقات قائم ہونا، ہر ایک کے حقوق کی نگہداشت اور ایک دوسرے کے اجتماع سے ہر فرد کی متعلقہ ضرورتوں کا پورا کرنا اور پھر ان تمام ضرورتوں کا اس مقصد تخلیق کے ماتحت ہونا نہایت ضروری ہے جس کا تذکرہ ابتداء ً کیا جاچکا ہے اور قرآنی اصطلاح میں اس کا نام عبادت ہے۔ اس مقصد تخلیق کے بغیر ضرورتوں کا انقضاء باطل ایسا ہوگا جیسے سر کے بغیر جسم اور اصل کے بغیر فرع کا وجود ہو۔
    انسانی زندگی کے اجتماع کا دوسرا مرحلہ گھریلو زندگی اور تدبیر منزل سے نکل کر ہمسایہ تعلقات سے شروع ہوتا ہے اور ہمسائیگی کے قرب و بعد سے اس کے مراتب میں تفاوت نمایاں ہونے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ شہر کی پوری آبادی کو اپنے احاطہ میں لینے کے بعد دوسرے مرحلہ سیاست مدنیہ سے تیسری منزل (سیاست ملکی) تک جا پہنچتا ہے اور پھر ملک سے آگے چل کر علی الترتیب اقوامِ عالم سے جا ملتا ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔
    یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ اس وسیع اجتماع کی بنیاد انسانی ضرورتیں ہیں اور چونکہ انسان خلیفۃ اللہ ہونے کی حیثیت سے اپنی ضرورتیں اپنے شایانِ شان رکھتا ہے اس لئے اس کی عظیم ضرورتوں کی بنیاد پر جب اس کے وسیع تعلقات کا پھیلاؤ ہوگا تو اس کے نظامِ زندگی میں انسانی طبقات کی تشکیل ان کے مختلف کارناموں کی تجدید اور ان کے مطابق انسانی طبقات کی ذہنیت اس کے تاثرات اور اس کے ماتحت انسانی اخلاق و اعمال تہذیب و تمدن کا ایک وسیع ترین نظام برپا ہوگا۔
    ہر اجتماعی اور ترکیبی نظام کا حسن و قبح، صلاح و فساد اجزاء ترکیبیہ کی صحیح ترکیب پر موقوف ہے اور ترکیب صحیح دو چیزوں کے بغیر ممکن نہیں۔ سب سے پہلے اجزاء ترکیبیہ کا قابل ترکیب ہونا، دوسرے اصول ترکیب کے مطابق ایک جزو کو دوسرے جزو سے جوڑ دینا۔ یہ ترکیب ان ہی ضوابط کے تحت ہوگی جن کا ذِکر پہلے کیا گیا ہے اور جن کا وجود انقضاء ضرورت کے طریق کار کے لئے لازمی ہے۔
    اس مقام پر یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ طریق کار اور اس کے اصول میں مناسبت کا ہونا ضروری ہے اور طریق کار چونکہ انقضاء ضرورت کے لئے ہیں اس لئے ان دونو ںکا بھی ایک دوسرے کے مناسب ہونا لابدی ہے، پھر ضرورت اصل مقصد کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذامقصد و ضرورت کا ہم آہنگ ہونا بھی لازمی امر ہے۔
    بیان سابق کا اجمال جن تفصیلات کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اس کا خاکہ حسب ذیل ہے۔ تہذیب(۱) اخلاق۔ تدبیر(۲) منزل۔ سیاست (۳) مدنیہ۔ سیاست (۴) ملکیہ۔ بین الاقوامی (۵) تعلقات۔ ان پانچ عنوانات کے تحت انسانی معاشرہ کا پورا نظام ہے جس میں حقوق اللہ، حقوق العباد سب داخل ہیں۔ اسی کے ذیل میں تمام انسانی کردار اور اس کے جملہ متعلقات شامل ہیں۔ تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، مزدوری، ملازمت، حکومت، سیاست کوئی چیز اس سے باہر نہیں۔ یہ بات پہلے معلوم ہوچکی ہے کہ انسانی زندگی اور اس کا پورا اجتماعی نظام اس کے مقصد تخلیق کے ماتحت ہے، جس کی تعیین کا حق اس کے خالق و موجد کے سوا کسی دوسرے کو نہیں۔ اس کی تکمیل کے لئے تمام ضروریات اسی مقصد کے ماتحت ہوں گی۔ ضروریات کے پورا کرنے کا طریق کار اور اس کے اصول و ضوابط کی تدوین و ترتیب کا حق بھی اسی خالق و موجد کے لئے محفوظ ہوگا۔ مختصر یہ کہ انسانی معاشرہ کی بہتری کا دارو مدار اسی ترتیب پر ہے۔ انسان کے نظام حیات اور اس کے معاشرہ میں اگر یہ ترتیب باقی نہ رہے تو یقینا اس میں فساد رونما ہوگا، موجودہ معاشرہ کی تمام برائیاں اسی طبعی ترتیب کے فقدان کے باعث ہیں جس کا مختصر بیان ذیل کی سطور میں ملاحظہ کریں۔
    مقصد تخلیق کا انکار یا اس سے تغافل، یا اپنی طرف سے اس کی غلط تعیین ضررتوں کو اصل مقصد سے غیر متعلق کردینا اور ان کو پورا کرنے کے طریق کار کے اصول و ضوابط سے جہالت یا اس میں ردو بدل یہی چیزیں معاشرہ کی خرابی کا موجب ہیں۔ موجودہ دور میں فساد معاشرہ کے ان تمام اسباب و علل کا سنگ بنیاد یہ امر ہے کہ مفسد اور مضر عناصر نے اپنی بداعتدالیوں سے انسانی طبقات کے فطری اعتدال میں ایسا خلل پیدا کردیا ہے جس کے اثرات سے ہر طبقہ شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہوا اور اس کے تاثرات لازمی طور پر فساد معاشرہ کے اسباب و علل پر منتج ہوئے۔
    جہالت، رشوت، ظلم و تعدی، سود خوری، مکاری،دغا بازی، حق تلفی، کذب و افترا، چوری، شراب خوری، قمار بازی، زِنا، لوٹ کھسوٹ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص و بداخلاقیاں اسی فطری اعتدال کے فقدان کا نتیجہ ہیں۔
    ان تمام خرابیوں کا انسداد اور معاشرہ کو صحیح معیار پر لانا اصلاحِ افراد کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ معاشرہ کی اصل اجتماع ہے اور اجتماع کی اصل افراد، لہٰذا افراد کی درستی کے بغیر معاشرہ درست نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں حکومت ارباب اقتدار لیڈران قوم، امراء علماء سب کے ذمہ الگ الگ فرائض عائد ہوتے ہیں، لیکن چونکہ میرے مضمون کا تعلق صرف علماء کے فرائض سے ہے اس لئے میں بادل ناخواستہ سب سے قطع نظر کرکے صرف علماء کرام کے فرض منصبی پر کچھ عرض کرتا ہوں۔
    یہ حقیقت ناقابل فراموش ہے کہ ہر طبقہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اصلاح معاشرہ میں کوشاں ہیں۔ چنانچہ علماء کے طبقہ میں بھی باخبر حضرات اپنی بساط کے موافق اپنے فرائض کی انجام دہی سے غافل نہیں، اگر ایک طرف وہ خالص دینی اور اسلامی عصبیت لئے ہوئے عقائد اسلامیہ اور مسائل مذہبیہ کے تحفظ کی خاطر دین و مذہب کے دشمنوں سے برسر پیکار ہیں تو دوسری طرف معاشرہ کی خرابیوں اور مسلمانوں کے اخلاق و اعمال کی برائیوں کے خلاف بھی وہ مصروف جہاد ہیں لیکن چونکہ اس فرض میں دوسرے گروہ بھی علماء کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اس لئے جب تک پوری مشینری کام نہ کرے اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
    ہاں! اس میں بھی شک نہیں کہ غفلت شعار علماء کے گروہ نے اپنے لئے ایک محدود دائرہ عمل اختیار کرلیا ہے۔ کتاب و سنت کی تعلیمات کا ایک جزو خاص ان کے پیش نظر ہے، چند مخصوص عقائد اور مخصوص طریق ہائے عبادت اور بعض فقہی مسائل ان کے دین اور علم دین کا کل سرمایہ ہیں، انہوں نے قرآن و حدیث کو چند وقتی معلومات کا مجموعہ قرار دے کر ان ہی میں سارے دین کو منحصر سمجھ لیا جس کی وجہ سے ان میں ایک خاص قسم کا تعصب پیدا ہوگیا اور اس کی وجہ سے وہ تنگ نظری کا شکار ہوکر رہ گئے۔ نہ دین کی وسعتوں کا تصور اُن کے ذہن میں آیا نہ دنیا کے حالات سے باخبر ہوئے۔ اس کمی کے باعث وہ بصیرت نظر اور وسعتِ نگاہ سے یکسر محروم ہوکر رہ گئے۔
    مذہبی عقیدت اور تنگ نظری مسلمانوں میں فسادات کا سبب ہوئی۔ مذہبی جھگڑوں کا دروازہ کھل گیا۔ مختلف الخیال لوگ مذہبی مسائل میں ایسے الجھے کہ جدال و قتال تک نوبت پہنچی اور معاشرہ بد سے بد تر ہوتا چلا گیا۔
    ایسے علماء کا اولین فرض ہے کہ وہ دین کی وسعتوں کو اپنے سامنے لائیں اور مقصد تخلیق انسانی سے اپنے اذہان کو آشنا کرتے ہوئے اپنے دِل میں اس امر کا احساس پیدا کریں کہ دین چند مخصوص طرق عبادت میں منحصر نہیں بلکہ انسان کی تمام زندگی اس کے سارے حالات اور کل معاملات میں دین کا دخل ہے، کتاب و سنت کی پوری تعلیمات کو پیش نظر رکھیں، دنیا کے حالات سے باخبر ہوں، معاشرہ کی خرابیوں اور ان کے اسباب و علل کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور اپنے دائرہ عمل کو وسیع کریں۔
    پوری ہمت و بصیرت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اسلامی معاشرہ کو اس کے اصلی خدو خال کے ساتھ نمایاں کریں اور عوام کو جن کی عقیدتوں کا دامن ان کے ساتھ وابستہ ہے اس طرف لانے کی سعی بلیغ فرمائیں، اپنے طرزِ تعلیم اور اندازِ تقریر و تحریر کو بدل دیں اور اپنی بے جا عصبیت اور تنگ نظری کو بالائے طاق رکھ کر فراخدلی اور اسلامی رواداری سے معاشرہ کی اصلاح کریں۔
     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    علماء کا کردار بہت اہم ہے
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    سچ
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    علماء ہمیشہ سوتے ئیں ،،
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی آنکھوں پر پردہ ہے بغض کا حسد کا
    علماء کے بارے میں ایک پوسٹ کرونگی پڑھ لینا
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے انتظار ہے
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  14. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا پاکستانی معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے؟
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم صاحب اگر آپ مشاہدہ کریں تو ہمارے معاشرے میں باہمی تعلق، ہمدردی، ایثار اور محبت و عفو کی بجائے کینہ و عناد، انتقام اور سخت گیری کا عنصر زیادہ ہے ایسے میں ہم کیسے اس بات سے متفق ہو جائیں کہ ہمارا معاشرہ تباہی کی طرف نہیں جا رہا.

    میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ ایک دور تھا کہ چاقو چھری سے کوئی قتل ہوتا تو پورے علاقے میں خوف کی فٖضا ہوتی اور ہم اس گلی سے گزرتے ہوئے بھی خوف زدہ ہوتے تھے کہ یہاں ایک قتل ہوا ہے اور اب آکر دیکھو کہ سڑکوں پر لاشیں پڑی ہیں حِس ختم ہوئے جا رہے ہیں انسانیت ختم ہورہی ہے .

    میرے بابا کہتے تھے کہ پہلی بار نادانی میں شیو بنائی تھی تو کئی دن منہ پر رومال باندھ کر گھر والوں کے سامنے جاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی تھی اور اب بیہودہ فلمیں فوری فیملی کے ساتھ دیکھتے ہوئے احساس تک نہیں ہو رہا کہ حیا بھی دنیا میں ایک چیز ہے. اسی طرح نشہ پان سگریٹ اور دوسری بری عادات والدین کے سامنے کرتے ہیں.
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بدقسمتی سے یہی کڑوا سچ ہے
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    متفق ہوں آپ سے
     
  19. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    پوری ،،،،
     

اس صفحے کو مشتہر کریں