1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مصر کا وہ شہر جو عظیم فاتح صحابیؓ نے تعمیر کرایا

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏4 جولائی 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مصر کا وہ شہر جو عظیم فاتح صحابیؓ نے تعمیر کرایا
    مگر ایک خاص وجہ سے اسکو جلا دیا گیا تو آگ 45 دن تک جلتی رہی

    [​IMG]
    لاہور (نظام الدولہ) مدینہ سے مصر تک مسلمان فاتحین نے بہت سے نئے شہر آباد کئے جو آج بھی تہذیب وثقافت کے آئینہ دار ہیں۔ اگرچہ کچھ شہروں اور ملکوں کے نام تبدیل کر دئے گئے اور امتداد زمانہ کے بعد ان پر کڑا وقت بھی آیا لیکن ابھی تک ان شہروں میں قدیم مسلمانوں کے آثار نظر آتے ہیں ۔ آج کے مصری شہر قاہرہ سے ملحقہ ایک پرانا قاہرہ بھی موجود ہے جس کو عظیم القدر صحابی رسولؓ فاتح اسکندریہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ شہر مسلم مصر میں الفسطاط کے نام سے معروف تھا۔ مسلمانوں کے عہد میں یہ مصر کا دارلحکومت تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح اسکندریہ کے بعد حضرت عمروؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو لکھا کہ کیا ہم یہاں رہائش رکھ سکتے ہیں؟
    امیر المومنین نے جواب بھیجا ”مسلمانوں کو ایسی جگہ مت ٹھہراﺅ کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی دریا یا سمندر حائل ہوتا ہو“،
    حضرت عمروؓ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا ”اے امیر! آپ کے خیمے (فسطاط) کے پاس ہی ٹھہرانا چاہیے، وہاں پانی بھی ہے اور صحرا بھی ہے“
    [​IMG]
    عمروؓ نے لشکر کو حکم دیا اور وہ دریائے نیل کے مشرقی کنارے فسطاط (خیمے) کی جگہ آ گئے اور وہ آپس میں کہتے تھے ”میں فسطاط کے دائیں جانب ہوں“ اور ”میں فسطاط کے بائیں جانب ہوں۔“ اسی سے اس شہر کا نام فسطاط پڑ گیا۔ فتح مصر کے بعد نیا صدر مقام بابلیون کے نزدیک بسایا گیا جس کی نوعیت خالص عسکری تھی۔ یہ نیا شہر دریائے نیل کے ساتھ ساتھ تقریباً تین میل تک پھیلا ہوا تھا۔ بابلیون کے شمال میں گورنر مصرحضرت عمرو بن عاصؓ کی قیام گاہ تھی جس کی نشان دہی مسجد عمروؓ کرتی ہے۔ 254ھ/868ء میں احمد بن طولون کی خود مختاری سے تاریخ مصر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کی یادگار جامع ابن طولون آج بھی موجود ہے۔ آخری فاطمی خلیفہ العاضد کے عہد (555ھ۔567ھ) میں صلیبی جنگجو مصر آئے تو مورچہ بند قاہرہ کے برعکس فسطاط کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا، لہٰذا اس پر عیسائیوں کے ممکنہ قبضے کے پیش نظر وزیر شاور نے 19صفر567ھ/ 22 نومبر 1168ء کو اسے نذر آتش کرنے کا حکم دیا۔ 20 ہزار سے زائد نقطہ (آتش گیر مادہ ،یعنی پٹرولیم وغیرہ) کے ظروف سارے شہر میں جگہ جگہ رکھوا دیئے گئے اور آگ 45 دن جلتی رہی۔ اس کے بعد قاہرہ (تعمیر شدہ358ھ/969ئ) تجارت کا مرکز بن گیا۔ بچے کھچے فسطاط کو اب مصر العتیقہ یا قدیم قاہرہ کہا جانے لگا،چنانچہ اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں حملہ آور فرانسیسیوں نے اسے Le Vieux Kaire کا نام دیا۔
    [​IMG]
    خلیج امیر المومنین نہر فسطاط کے شمال میں دریائے نیل سے نکلتی اور قدیم عین الشمس (Heliopils) میں سے گزرتی تھی اور (شرقی ) میدان عبور کر کے .... سویس (سویز) کے قریب سمندر(خلیج قلزم) میں جاگرتی تھی۔ یہ نہر گاد اور مٹی سے اٹ گئی تھی۔ اسے عمرو بن عاصؓ نے صاف کرایا تاکہ اس کے ذریعے سے فسطاط اور حجاز کے درمیان مقامات مقدسہ کو اناج کی رسد پہنچائی جائے۔ اب اسے ”خلیج امیر المومنین“ کا نام ملا۔ بعد میں اس کے مختلف قطعوں کے الگ الگ نام ہو گئے۔ آخری صدیوں میں سمندر تک جانے کے بجائے یہ نہر قاہرہ کے شمال میں برکة الجب پر ختم ہو گئی تھی۔ اس کی گزر گاہ اب تک قابل شناخت ہے۔


    03 جولائی 2017
    ح
     
    Last edited: ‏4 جولائی 2017
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں