1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مشال خان سے یاد آیا

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏19 اپریل 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مشال خان سے یاد آیا
    APRIL 17, 2017

    لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عارف اقبال بھٹی کو اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے دو بے گناہ عیسائی لڑکوں کو (ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی) موت کی سزا سے بری کر دیا۔ لڑکوں پر الزام تھا کہ انہوں نے نازیبا کلمات” لکھ“ کرنبی مکرم کی شان میں گستاخی کی، جبکہ ان کی وکیل محترمہ عاصمہ جہانگیر نے کئی مسلمانوں کی گواہی سے یہ ثابت کیا کہ جن لڑکوں کو گستاخانہ کلمات تحریر کرتے ہوئے ”دیکھا گیا“ وہ لکھنا پڑھنا ہی نہیں جانتے۔ لڑکوں کے حوالے سے اس قسم کی باتیں بھی منظرِ عام پر آئیں کہ کسی نے اپنی اُس شرمناک حرکت پر پردہ ڈالنے کے لیے انہیں توہینِ رسالت کے کیس میں پھنسایا جس کے وہ چشم دید گواہ بن چکے تھے۔


    نامور سکالر مولانا وحید الدین خان کا خیال یہ ہے توہین رسالت کے حوالے سے مسلمانوں کا موجودہ رویہ بذاتِ خود توہین رسالت کے مترادف ہے؟ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیے کہ اس ضمن میں حضورِ اکرم کی اپنی سنت کیا ہے؟

    اس بڑھیا کا معاملہ تو نصاب میں بھی شامل ہے جس نے حضور پر دیوار کے پیچھے سے کوڑا کرکٹ پھینکنا بند کر دیا توآپ پریشان ہو گئے کہ کہیں بیمار نہ پڑ گئی ہو اور ایسا ہی تھا۔ آپ تیمارداری کے لئے چلے گئے اور جب پتہ چلا کہ اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تو اس کے گھریلو کام کاج تک کرنے شروع کر دیئے، بڑھیا نے آپ کا چہرہ مبارک کبھی نہ دیکھا تھا اس لئے پہچان نہ سکی، پھر جب وہ ٹھیک ہو گئی تو اس نے حضور سے کہا کہ تم بہت اچھے لڑکے ہو بس محمد سے دور رہنا، حضور نے فرمایا کہ اور اگر میں یہ کہوں کہ میں ہی محمد ہوں؟ تو بڑھیا بولی کہ پھر میں تم پر ایمان لے آﺅں گی اور وہ مسلمان ہو گئی۔

    طائف کے نمرودوں اور فرعونوں کو یاد کیجئے جنہوں نے دعوتِ حق کے جواب میں نبی اکرم سے انتہائی ہتک آمیز اور حقارت انگیز گفتگو کی، یہی نہیں بلکہ جب آپ واپس آ رہے تھے تواوباش اور بازاری قسم کے لوگ راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے اورآپ پر پتھروں کی بارش شروع کر دی یہاں تک کہ آپ کے جوتے لہو سے بھر گئے، آپ زخموں سے نڈھال ہو کر بیٹھتے تو آپ کو پکڑ کر کھڑا کر دیتے اور پھر پتھر مارنے لگتے، اس کے ساتھ ساتھ (نعوذ باللہ) گالیاں بکتے، تالیاں بجاتے اور شور مچاتے لیکن آپ نے کیا ان کے حق میں ہدایت کی دعا نہیں مانگی؟ اور پھر جب یہ موقع آیا کہ آپ کے ایک اشارے پر طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی تو کیا آپ نے انہیں معاف نہیں کر دیا؟

    کیا ہمیں مکہ بھی یاد نہیں جہاں اس وقت جو لوگ آباد تھے ان سے بڑا گستاخِ رسول کیا آج تک کہیں پیدا ہوا؟ لیکن فتح مکہ کے بعد آپ نے ”توہین رسالت“ کا قانون نافذ کر کے لوگوں کو سولی پر لٹکانے کے بجائے عام معافی کا اعلان کر دیا اور فرمایا کہ ”آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، جاﺅ تم سب آزاد ہو“؟

    کیا ہم لوگ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر نبی اسلام کے ناقدین کو قتل کروا دیتے، اپنی بات تلوار کی نوک پر منواتے اور خدا کی عزت ڈنڈے کے زور پر کرواتے تو کیا اسلام کو وہ عزت و رتبہ نصیب ہوتا جس نے ابو سفیان جیسے بدترین دشمنوں کے دل بھی موم کر دیئے اور وہ پوری رضا و رغبت کے ساتھ اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے؟ طائف اور مکہ کے لوگوں کو معاف کرنے سے اسلام کی جڑیں کتنی مضبوط ہوئیں، یہ استحکام کیا ان کافروں پر ویسے مظالم ڈھانے سے حاصل ہو سکتا تھا جیسے انہوں نے مسلمانوں پر ڈھائے تھے؟

    نبی اکرم نے تمام عمر قرآنِ کریم کی پیروی کی اور دین کی دعوت و تبلیغ میں ہمیشہ خدا کے وضع کردہ اصول ”لا اکراہ فی الدین(256البقرة) یعنی دین میں زبردستی کی گنجائش نہیں، کو مدنظر رکھا کیونکہ آپ کی زندگی کا مقصد دلوں کو خدا کے حضور جھکانا تھا جو ڈنڈے کے زور پرنہیں جھکائے جا سکتے۔ خدائے بزرگ و برتر کی ہدایت یہ تھی کہ


    (اے پیغمبر) اگر یہ منہ موڑتے ہیں تو ہم نے تمھیں کوئی نگران بنا کر نہیں بھیجا (کہ زبردستی انہیں راہِ حق پر لے آﺅ)، تمھارے ذمہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم (پیغامِ حق کو) ان تک پہنچا دو(48الشوری)


    چناچہ تم یاد دہانی کراتے رہو کیونکہ تم یاد دہانی کرانے والے ہی ہو، تمھیں لوگوں پر داروغہ مقرر نہیں کیا گیا(21،22الغاشیہ)۔


    نبی اکرم کی حیثیت ایک ڈاکٹر کی تھی جسے اپنے نسخے پر زبردستی عمل نہیں کروانا ہوتا بلکہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کیا فائدہ اور عمل نہ کرنے سے کی کیا نقصان ہو سکتا ہے، اس کے بعد کوئی اس کی ہدایت پر عمل کرے نہ کرے یہ اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔
    اسی لیے قرآنِ کریم میں آپ کو ”بشیر“ یعنی قرآنِ کریم پر عمل کرنے کے اچھے نتائج کی خوشخبری سنانے والا
    اور ”نذیر“ یعنی احکامِ الہٰی پر عمل نہ کرنے کے نقصانات سے تنبیہ کرنے والا کہا گیا۔ آپ اپنی ذاتِ اقدس یا فرقانِ حمید یا خدائے بزرگ و برتر کے بارے میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب ہمیشہ بڑی خندہ پیشانی وخوش اخلاقی کے ساتھ علمی و فکری سطح سے دیا کرتے تھے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ

    ”(اے محمد) ان سے کہو کہ میں بصیرت کی بنیاد پر خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میری پیروی کرنے والے بھی بصیرت کی بنیاد پر ہی خدا کی طرف دعوت دیں گے(108یوسف)۔


    ایک طرف تو یہ حالت تھی کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثاروں کو بڑی سے بڑی تکلیف پہنچانے کا چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اور دوسری طرف یہ عالم تھا آپ (اپنے لیے نہیں بلکہ) ان دشمنوں کے لیے فکر مند رہتے تھے، وہ بھی اسقدر کہ خدا نے یہاں تک کہا کہ


    ”(اے پیغمبر) شاید تم اس رنج و غم میں اپنی جان ہی کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان لانے والوں (یعنی فلاح پانے والوں) میں سے کیوں نہیں ہو جاتے(3الشعرا، 6الکھف)



    دیکھو ان لوگوں پر غم کھانے سے تمھاری جان ہی نہ چلی جائے(8فاطر)۔


    تو کیا حضور اکرم کے نقشِ قدم پر چلنا ہمارا اولین فریضہ نہیں؟ اور جو شخص کسی ذاتی مفاد یا عناد کے لئے توہینِ رسالت کو ڈھال بنائے، کیا اس سے بڑا گستاخِ رسول بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ جبکہ مشال خان کا معاملہ تو اس سے بھی گھمبیر ہے کہ اس پر تو کوئی کیس بھی نہیں چلایا گیا بلکہ ازخود ہی سزا بھی دے دی گئی، سزا بھی ایسی جو کوئی درندہ ہی کسی کو دے سکتا ہے۔

    خدا کی قسم اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ توہین رسالت کے نام پر لوگوں کے قتل ہونے اور ولی خان یونیورسٹی جیسے بہیمانہ و انسانیت سوز واقعات کے رونما ہونے سے ”رحمتہ للعالمین“ کو کتنا دکھ پہنچے گا تو ہمارا دل دہل جائے، ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جائے اور ہماری باقی کی تمام زندگی خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور معافیاں مانگتے گزر جائے۔
    ٭٭


    تحریر: اسرار ایوب….قوسِ قزح
     
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    جب میں مشال خان بنتے بنتے بچا

    “90ء کی دہائی میں، میں لاہور آیا۔ گوجرانوالہ سے بی اے اور درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خوش قسمتی سے لاہور آتے ہی مجھے ایک مسجد میں خطابت مل گئی جہاں میں نے تقریباً 3 سال تک فرائض انجام دیے اور پھر بعد وہاں سے نکال دیا گیا۔

    ہوا کچھ یوں کہ شعبان المعظم کے مہینے میں، میں شبِ برات کے موضوع پہ گفتگو کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران میں نے حاضرین کو بتایا کہ یہ وہ رات ہے جس رات تمام مسلمانوں کے اعمال اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میرا نامہ اعمال بھی پیش ہوتا ہے‘‘۔

    میری تقریر کے دوران ہی مجمع میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ پھر کچھ ہی دیر میں، ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور غصے میں کہنے لگے”مولانا! آپ نے گستاخی کی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے رسول اللہ ﷺ کا نامہ اعمال پیش ہو۔” بہت ہی مشکل سے جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے، اس کے بعد مجمع اکٹھا ہو گیا۔ ان صاحب نے اپنے حامیوں کی موجودگی میں ایک شاندار اور جذباتی تقریر کی۔ لوگ مجھے خونخوار آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اس کا حوالہ پوچھا گیا تو میں نے بتایا کہ یہ بات غنیتہ الطالبین میں لکھی ہے۔ یہ کتاب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے۔ میں بہت پریشان تھا اور ایک مجرم کی طرح انتظار میں تھا کہ یہ مجمع میرے بار ے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آخر کار لوگوں نے مجھ سے تجدید ایمان کا مطالبہ کیا جو میں نے اسی وقت کلمہ پڑھ کر تجدید ایمان کیا۔ میں اس وقت شادی شدہ نہیں تھا ورنہ تجدید نکاح بھی ہوتا۔ انتظامیہ سے اختلاف کے باعث، جب میں نے مسجد چھوڑی تو اس وقت بھی ایک شخص نے مجھے ’’گستاخِ رسول‘‘ کا طعنہ دیا جس میں واضح دھمکی تھی کہ چپ کر کے نکل جاؤ ورنہ ہمارے ترکش میں یہ تیر ابھی تلک موجود ہے۔ وہاں سے میں بوریا بستر سمیت بھاگا۔”

    ایک صاحب کا بتایا ہوا یہ واقعہ مجھے آج مشال خان کی وجہ سے یاد آیا ہے۔ وہ صاحب مجھے اپنے بچ جانے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں:

    1۔ میں نے محلے میں کسی سے بگاڑی ہوئی نہیں تھی میری سب سے اچھی سلام دعا تھی۔ اگر میری کچھ لوگوں سے ان بن ہوتی تو آج وہ مجھے سنگسار کرنے اور موت کے گھاٹ اتارنے میں پیش پیش ہوتے۔

    2۔ میں نے (اس بات کے علاوہ) کبھی ایسی بات نہیں کہی تھی اور نہ ہی کبھی میں ایسے نظریات زیر بحث لایا تھا۔ جو لوگوں کے معیار سے بلند اور ان کی سوچ سے ماوراء تھے۔ اس لئے لوگ مجھے کسی کا ایجنٹ، دشمن ِدین اور غدارِ وطن خیال نہیں کرتے تھے۔

    3۔ میں نے کبھی مذہبی اور سیاسی تقسیم میں خود کو تقسیم نہیں کیا تھا ورنہ مخالف سیاسی جماعت اورمذہبی دھڑے کے لوگ مجھے مذہبی اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اپنا راستہ صاف کر لیتے۔

    4۔ میں لوگوں کے مروجّہ تصور دین کا ایک عالم اور خطیب تھا۔ میرا مسئلہ معاشی تھا، میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مجھے 1500 کی ضرورت تھی اور میں جلد تعلیم مکمل کر کے کوئی روزگار حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں سوشلزم، کمیونزم، مابعد جدیدیت، الحادیت اور علم الکلام وغیرہ کی جگالی نہیں کرتا تھا۔ میں ایک سیدھا سادہ مولوی تھا۔ میں تقریر میں جس بات کا حوالہ دے کر معتوب ٹھہرا۔ اس حوالے سے ہی اندازہ کر لیں میرا’’مصدرِ علم‘‘ کیا تھا اور کتنا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے، اسی دوران ایک مولانا کو بلایا گیا۔ انہوں نے بھی میری آزادی میں اپنا کردار ادا کیا اور میری اس بات کے حوالے سے فرمایا ’’یہ خاصوں کی بات تھی جوانہوں نے عامیوں کے سامنے کر دی، لوگوں نے ان کی اس بات کا بُرا منانے کے بجائے، واہ واہ کرنا شروع کر دی۔ مجھے حضرت صاحب کی بات اب بھی یاد ہے میں سوچتا ہوں ’’جو بات کتابوں میں آئی وہ خاصوں کی بات کیسے رہی، اگر خاصوں کی بات تھی تو عامیوں کے پاس کیسے آ گئی‘‘۔
    بہرحال میں حضرت صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس موقع پہ میری بے عزتی اور توہین کر کے تجدید ایمان کے ذریعے میری خلاصی کروائی۔ وہ صاحب بتاتے ہیں کہ “میں جب اس واقعے کا تصور کرتا ہوں تو آج بھی کانپ اٹھتا ہوں اگر وہ جذباتی شخص تقریر کے بعد یہ کہہ دیتا ’’مسلمانو! آج تمہارے ایمان کا امتحان ہے، یہ گستاخ آج بچ نہ پائے‘‘ لوگ ڈنڈے، چھرے، راڈ، سلاخیں، اینٹیں، پتھر اورریوالور لے کر میری طرف دوڑ پڑتے یا صرف گھونسوں، مکوں اور لاتوں سے ہی مجھے مارنا شروع کر دیتے تو میں آج آپ کو اپن احال نہ بتا رہا ہوتا۔ یہ سب تکلیف او ر اذیت اس تکلیف اور اذیت سے زیادہ نہ ہوتی کہ دوسرے روز میری لاش کی تصویر کے ساتھ یہ سرخی اخبار میں لکھی ہوتی کہ ’’گستاخ رسول‘‘ کو قتل کر دیا گیا اور میرا جنازہ بھی کوئی پڑھنے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ میرے لیئے ہر اذیت سے بڑھ کر یہ عنوان تکلیف دہ ہے کہ ’’مجھے گستاخ رسول سمجھ لیا جاتا‘‘۔

    مشال خان کی فیس بک پہ موجود تمام پوسٹوں میں سے ایک پوسٹ قابل اعتراض تھی لیکن 99 پوسٹیں لکھنے والے نوجوان سے کسی نے ایک پوسٹ کے بارے پوچھنا بھی گوارہ نہ کیا کہ آپ ایک سلجھے، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ نوجوان ہو آپ کی پوسٹیں آپ کے علم، مطالعہ اور سنجیدگی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں، یہ ایک پوسٹ کیسے لکھ دی جبکہ مشال خان یہ بھی کہہ چکا تھا کہ میری آئی ڈی سے کوئی غلط پوسٹیں لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ ہم فیس بک یہ اپنے دوستوں کو Inform کرتے رہتے ہیں کہ اگرمیرے نام سے کوئی پوسٹ پیغام یا ریکوئسٹ آئے تو وہ ہماری نہیں ہو گی۔ اس مشاہدے اور تجربے کے باوجود، ایک پوسٹ کی بنیاد پر اس کی جان لے لی گئی اور اس کی 99 پوسٹوں کو درخور اعتنانہ سمجھا گیا۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے بقول’’ اس کی ہلاکت کے بعد اس کا اکاؤنٹ استعمال ہو رہا ہے‘‘۔ انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخواہ صلاح الدین خان محسود نے اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں بتایا کہ مشال خان پہ توہین رسالت کا الزام غلط ثابت ہوا ہے اور یہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے مرکزی کردار گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

    ایک واقعہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کا ہے اور یہ واقعہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ہے۔ وہ واقعہ ایک مسجد کا ہے اور یہ واقعہ ایک یونیورسٹی کا ہے۔ وہ واقعہ عوام کی عدالت کا ہے اور یہ واقعہ خواص (تعلیم یافتہ افراد) کی عدالت کا ہے، وہ واقعہ بھی ایک طالب علم کا ہے اور یہ واقعہ بھی ایک طالب علم کا ہے۔ اُس واقعہ میں بھی لوگوں کا فیصلہ کن کردار تھا۔ اِس واقعہ میں بھی لوگوں نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اُس واقعہ اور اِس واقعہ کے درمیان بھی بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

    میں فیصلہ اور نتیجہ آپ کے سپرد کرتا ہوں بس یہ دیکھ لیجئے 1990 ء اور 2017ء ……27 سالوں کا فرق ہے۔ ان 27 سالوں میں ہمارا سماج اقدار، برداشت، قانون کی بالادستی، عقل و ہوش اورتحقیق وتفتیش کے اعلیٰ اخلاقی معیار کی طرف بڑھا ہے یا اُس کا سفر ترقی معکوس کا سفرہے۔

    صاحبزادہ محمد امانت رسول
    26 اپریل 2017
     
    حنا شیخ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں