1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مشال خان، الشریعہ اور سیکولرازم

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏1 جون 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مشال خان، الشریعہ اور سیکولرازم

    یہ اپریل 2017ء کی بات ہے، گوجرانوالہ کی ایک معروف یونیورسٹی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس ہوئی، مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا، اس طرح کی کسی کانفرنس میں شرکت کا میرا یہ پہلا موقع تھا، حالانکہ میرا انجمن ترقی پسند مصنفین سے دور کا بھی تعلق نہیں لیکن محض اس غرض سے کہ کچھ دوست احباب سے ملاقات ہو جائے گی، میں اس میں شرکت کے لیے چلا گیا۔ مختلف سیشن ہوئے، دانشوروں نے مختلف موضوات پر اپنی ’’دانش‘‘ کے موتی بکھیرے اور خاص کر مذہب اور اہل مذہب کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ویسے جس محفل کی صدارت محترم ڈاکٹر مہدی حسن اور محترم وجاہت مسعود صاحب جیسے دانشور کر رہے ہوں، وہاں مذہب کو کس طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا ہوگا، یہ انداز ہ کرنا البتہ مشکل نہیں۔ اس ساری دانش کا لب لباب یہ تھا کہ ہم زندگی کے ہر پہلو کو مذہب کی نظر سے کیوں دیکھتے ہیں، پھر اس پر چند شواہد پیش کیے گئے۔ مثلا کہا گیا کہ ہمارے سکولوں میں اردوزبان پہلی سے بارھویں تک ایک لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھائی جاتی ہے، چونکہ اردو ایک زبان ہے اور اس کو زبان سمجھ کر ہی پڑھانا چاہیے لیکن ہم نے یہاں ہر کتاب کے شروع میں پہلے حمد، پھر نعت اور اس کے بعد اسوہ حسنہ کے مضامین کو شامل کر دیا ہے، یہ سراسر انتہا پسندی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں بندہ اس دانش کا کیا جواب دے؟ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’’ میں ایک کالج میں لیکچرار ہوں، ایک دن ایجوکیشن کی کتاب پڑھا رہا تھا، اس میں لکھا تھا کہ حدیث نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی پڑھانی شروع کر دی گئی تھی، پورے ہال میں تمسخرانہ انداز میں قہقہے بلند ہوئے اور ’’ہمیں ہر چیز میں مذہب کو گھسیڑنے کی عادت ہے، نبی کی زندگی میں حدیث پڑھانے کے کیا معنی؟‘‘ ایک مزید قہقہے کے ساتھ بات ختم ہو گئی۔


    سیشن کے آخر میں، میں ان صاحب کے پاس گیا اور عرض کیا ’’کیا آپ مجھے وہ کتاب دکھا سکتے ہیں تاکہ اس میں مصنف یا پبلشر کی اگر غلطی ہے تو اسے اس طرف متوجہ کیا جا سکے‘‘

    ان کا جواب تھا ’’ کتاب اس وقت میرے پاس موجود نہیں، میں کل آپ کو دیکھ کر حوالہ دے دوں گا‘‘ ہم نے موبائل نمبرز کا تبادلہ کیا اور بات ختم ہوگئی۔ اگلے دن میں نے فون کر کے یاد دہانی کروائی تو موصوف نے ایک دن اور مانگا، میں نے ہاں کہہ کر فون بند کر دیا۔ اگلے دن پھر فون کیا جواب ندارد، تقریباً دو ماہ ہونے والے ہیں، موصوف مجھے ابھی تک وہ کتاب نہیں دکھا سکے۔

    اسی طرح ریاست کے سیکولر یا مذہبی ہونے کی بات چلی، اکثر دانشوروں کا بنیادی استدلال قائداعظم کی چند تقاریر اور ان کے اقتباسات سے تھا۔ شرکاء کی اکثریت چونکہ انجمن ترقی پسند سے وابستہ افراد کی تھی، اس لیے خوب واہ واہ ہوئی۔ آخر میں سوالات کا سیشن ہوا تو میں نے عرض کیا: ’’پہلی بات یہ کہ اب یہ بات ریکارڈ میں آ چکی ہے کہ قائد اعظم کی دو تین تقاریر میں سیکولر ریاست کی بات ہوئی ہے اور ان کو بھی اگر سیاق وسباق اور موقع و محل کی مناسبت سے دیکھا جائے تو اصل بات کی تفہیم ہو جاتی ہے، جبکہ اس کے برعکس اسلامی ریاست کے حوالے سے ان کی تقاریر اور اقتباسات کی ایک طویل فہرست موجود ہے، ان سب کا کیا کیا جائے؟

    اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ وہ سیکولر ریاست کے داعی تھے تو کیا قائداعظم ہمارے لیے حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں؟

    کیا ایک مسلمان معاشرے میں عملی احکام کے نفاذ میں انہیں فائنل اتھارٹی کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس بحث کے ضمن میں ہمیں قائد اعظم کو فائنل اتھارٹی کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبار صحابہ کرام کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنی رائے پیش کرتے وقت کہہ دیتے تھے کہ اگر ہماری طرف سے تمہیں کوئی بات پہنچے تو پہلے اسے قرآن و حدیث پر پیش کرو، اگر ہماری بات خلاف ثابت ہو جائے تو اسے رد کر دو۔ تو پھر ہم اسلام اور سیکولرزم کی بحث میں قائد اعظم کو فائنل اتھارٹی کا درجہ کیوں اور کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘

    میرا سوال اسٹیج پر موجود دانشوروں سے تھا، کافی غوروخوض کے بعد ایک صاحب بولے
    ’’دیکھیں اسلام سمیت کوئی بھی مذہب جب ریاستی سطح پر نافذ ہوا تو اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلے۔

    آپ تاریخ کا مطالعہ کریں، یورپ میں جب تک عیسائیت رائج رہی اور بادشاہ پاپاؤں کے زیر اثر رہے تو کیا کچھ نہیں ہوا،

    قرون وسطیٰ کا یورپ اس کی بہترین مثال ہے، نئے افکار اور نئے نظریات کا گلا گھونٹ دیا گیا، سائنس دانوں کو پھانسیاں دی گئیں اور بائبل کی تشریح صرف پادریوں کا حق قرار پائی۔

    خدا کے نام پر جنگیں لڑی گئیں اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہ سب کچھ ریاستی سطح پر مذہب کی بالادستی سے ہوا۔

    آپ ماضی قریب کی مثالیں دیکھ لیں، افغانستا ن میں ریاستی سطح پر اسلام کو نافذ کرنے کی کوششوں میں لاکھوں مسلمان جان سے چلے گئے، آپ مصر کو دیکھ لیں وہاں اس طرح کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا ‘‘۔

    موصوف نے تو یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ جنگ جمل اور صفین بھی ریاست کے اسلامی ہونے کا شاخسانہ تھیں۔ میں نے موصوف کے استدلال کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کی لیکن اسٹیج سے ’’وقت کی کمی‘‘ کا راگ الاپ دیا گیا۔

    ہمارے سیکولر احباب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مذہب کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق دیکھتے ہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کی سوچ ان کی مخصوص دانش کے تابع ہوتی ہے اور ان کی یہ دانش صرف تاریخ اسلام تک محدود ہے، وہ یہ تو دیکھتے ہیں کہ تاریخی تناظر میں مسلمانوں نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں لیکن اسلام بذات خود اپنا تعارف کیا کرواتا ہے اور قرآن و سنت میں اسلام کا جو تعارف کروایا گیا ہے، اس تک ان احباب کی پہنچ نہیں ہوتی، اور یہ مسلمانوں کی غلطیوں کی بھی اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ سردست ہم مشال خان کے واقعے کو لیتے ہیں، مشال کا قتل بلاشبہ ہماری اجتماعی بےحسی اور ہماری اجتماعی اخلاقیات کا جنازہ تھا جسے مسلمانوں کے ایک گروہ نے سر انجام دے کر ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ ہمیں اس واقعے پر تجزیہ کرنے سے پہلے چند باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے تھا۔ دراصل ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، یہ ایک اوسط درجے کا معاشرہ ہے اور ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اوسط درجے کے معاشروں میں شعور، آراء کا اختلاف اور نئی بات کہنے والوں کے لیے اسپیس بہت کم ہوتی ہے، ایسے معاشروں میں نئی روایات، نئی فکر اور نئی بات کے لیے اسپیس بدتریج بنتی ہے۔ معاشرے کا اجتماعی فہم اور شعور چونکہ اس جگہ پر نہیں ہوتا، اس لیے کوئی بھی نئی بات خواہ وہ کتنے ہی مضبوط استدلال کے ساتھ کیوں نہ کہی جائے، وہ معاشرے کے اجتماعی فہم اور شعور سے بالاتر ہوتی ہے، اور اس پر مزاحمت ایک لازمی امر ہے۔ ارسطو اور سقراط سے لے کے گلیلیو اور نیوٹن تک پوری انسانی تاریخ اس پر شاہد عدل ہے۔

    مشال خان کا قتل بھی اسی اوسط درجے کے معاشرے کا ایک فعل اور اقدام تھا لہذا ہمیں اس کا تجزیہ کرتے وقت معاشرے کی نفسیات، اس کا اجتماعی فہم اور معاشرے کے سیاق و سباق کو لازمی طور پر ذہن میں رکھنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم لٹھ لے کر مذہب کے پیچھے پڑ جائیں، ہمیں ان زمینی حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، اس کے ساتھ یہ امر بطور خاص ذہن میں رہے کہ افراد اور اقوام کی طرح معاشروں کا شعور بھی بتدریج کمال کو پہنچتا ہے، مغربی معاشرے، جنھیں ہمارے ہاں آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، سینکڑوں سال کا سفر طے کر کے اپنے موجودہ مقام تک پہنچے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا اجتماعی فہم اور شعور اس قابل نہیں کہ انہیں بطور مثال پیش کیا جا سکے، تو اس لحاظ سے ہمارے معاشرے کی تو عمر ہی ابھی ستر سال ہے، اس لیے مشال خان سمیت دیگر مذہبی اور سیاسی معاملات میں تجزیہ کرتے وقت معاشرے کی ان بنیادی نفسیات اور عوامل کو ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے، ان عوامل کو مدنظر رکھے بغیر جو بھی تجزیہ پیش کیا جائے گا وہ ناقص اور ادھورا ہو گا۔


    مشال خان کے واقعے پر ہمارے اکثر احباب، دانشوروں اور کالم نگاروں نے جو تجزیے اور تبصرے پیش کیے ہیں، میرے ناقص فہم کے مطابق ان میں مذہب کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور اصل عوامل کو نظرانداز کر کے سارا ملبہ مذہب اور اسلام پر گرا دیا گیا ہے۔ میں یہاں سب اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس کا حوالہ تو نہیں دے سکتا، البتہ الشریعہ کے حوالے سے ہی اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ مشال خان کے حوالے سے الشریعہ کے مدیر محترم عمار خان ناصر کی یہ تحریر پہلے ایک ویب سائٹ پر شائع ہوئی اور بعد میں مدیر محترم نے اسے الشریعہ کے اداریے کے طور پر شائع کر دیا۔ الشریعہ جیسے مؤقر رسالے میں اس تحریر کا بطور ادارتی نوٹ چھپنا اور محترم عمار خان ناصر کے نام سے چھپنا کہ جو بذات خود صاحب علم اور مضبوط استدلال کے مالک ہیں، کم از کم میرے لیے حیران کن تھا۔ مدیر محترم نے اپنی تحریر کا عنوان یہ رکھا ہے ’’اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے ‘‘ اور تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں:

    ’’ہمیں سیکولر ریاست اور سیکولر معاشرے سے اصولی اور نظریاتی طور پر شدید اختلاف ہے لیکن اگر ’’مذہبی معاشرے‘‘ کا نقشہ یہی ہے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اب سیکولرزم کی ضرورت ہے ‘‘۔

    میرے ناقص فہم کے مطابق یہ استدلال کئی پہلوؤں سے ناقص اور کمزور ہے۔ سب سے پہلے اس تحریر کا عنوان ہی غلط ہے اور استدلال کی غلطی عنوان سے ہی واضح ہے۔ مثلا موصوف نے اس واقعے کا سارا ملبہ ’’مذہبی معاشرے‘‘ پر گرا دیا ہے کہ اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے، دوسرے لفظوں میں وہ اس سارے واقعے کا ذمہ دار مذہب کو سمجھتے ہیں کہ مذہب کی وجہ سے یا مذہب کے نام پر یہ سب کچھ ہوا، میرا ماننا یہ ہے کہ یہاں وہ جس معاشرے کو مذہبی معاشرہ کہہ رہے ہیں، وہ سرے سے مذہبی معاشرہ ہے ہی نہیں بلکہ موزوں ترین لفظوں میں آپ اسے uncivilized (غیر مہذب) معاشرہ کہہ سکتے ہیں۔ یعنی یہ کام ایک ایسے معاشرے اور اس میں رہنے والے افراد نے کیا ہے جنہوں نے مذہب کو ٹھیک طرح سمجھا ہی نہیں، جو اخلاقی طور پر پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور داخلی طور پر وہ تہذیب سے ناآشنا ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ معاشرہ مذہبی ہوتا تو مشال کے ساتھ ایسا کبھی نہ ہوتا کیونکہ مذہب تو احترام انسانیت سکھاتا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

     
    Last edited: ‏1 جون 2017
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اس استدلال کا دوسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں سیکولر معاشرے کو ایک آئیڈیل معاشرے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر معاشروں میں اس طرح کے جرائم نہیں ہوتے؟

    وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو پچھلی ایک صدی میں سیکولر معاشروں نے جن کروڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے، مذہبی معاشروں میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ماضی قریب میں سیکولر معاشروں نے جو روش اپنائے رکھی، کیا وہ واضح نہیں؟

    افغانستان سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے مخالفین کی لاشوں کی بے حرمتی، مروا الشربینی کی بھری عدالت میں شہادت، عافیہ صدیقی پر ہونے والا ظلم، عراق و افغانستان میں نہتے نوجوانوں کا قتل اور ان کی لاشوں پر بول و براز اور اس کے علاوہ انسانیت کی تذلیل و تحقیرکے ایسے بیسیوں واقعات، سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سیکولر معاشرے کے کس پہلو کو اسلامی معاشرے کے لیے آئیڈیل قرار دیا گیا ہے۔

    اس استدلال کا تیسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں چند مسلمانوں کی غلطی کا سارا ملبہ مذہب اور اسلام پر ڈال دیا گیا ہے۔ مشال خان کا قتل چند مسلمان جو کہ اخلاقی طور پر کمزور تھے، یہ ان کا فعل تھا اور اس پر ان کی مذمت کرنی چاہیے، اور میری معلومات کی حد تک، سب اہل مذہب نے اس کی مذمت کی بھی ہے لیکن مدیر محترم یہاں تھوڑا سا پھسل گئے ہیں اور انہوں نے ان چند افراد کو تو کچھ نہیں کہا بلکہ الٹا مذہب اور مذہبی معاشرے کو ہی نشانے پر رکھ لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ معاشرے کی پست اخلاقیات کا نوحہ پڑھتے، ان افراد پر تنقید کرتے اور ان کی بہتری کے لیے کوئی تجویز دیتے، انہوں نے مذہب پر ہی طبع آزمائی شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے تجزیے میں ان افراد کے اجتماعی شعور، معاشرے کے ارتقائی مراحل اور سیاق و سباق کو یکسر نظرانداز کر دیا اور مشال کے قتل کا سارا ملبہ مذہب پر گرا دیا۔

    آپ ان کی یہ عبارت دیکھیں
    ’’یہ بھی اب واضح ہو چکا ہے کہ توہین مذہب کا الزام بےبنیاد تھا۔ قتل کے اصل محرک کے متعلق بعض واقفان حال کی رائے یہ ہے کہ مشال خان متعلقہ یونیورسٹی کے نظام، تعلیم کے معیار، اساتذہ اور انتظامی عملہ کی تقرری میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی اقرباء نوازی کا ناقد تھا اور انتظامیہ و اساتذہ اس کے سوالوں کا جواب دینے سے خود کو عاجز پاتی تھی، چانچہ اس سے نمٹنے کے لیے توہین مذہب کے الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا‘‘

    اس عبارت میں وہ خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ قتل کے اصل محرکات کچھ اور ہیں، اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا، لیکن حیرت ہے کہ اس اقرار کے باوجود وہ مذہب کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ خود اس بات کے داعی ہیں کہ اس سارے واقعے میں مذہب مظلوم ہے اور اسے استعمال کیا گیا اور دوسرے طرف مذہب کو ہی اپنی تحریر میں آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیتے ہیں، کیا ان کی یہ تحریر داخلی تضاد کا ملغوبہ نہیں؟

    یہاں مدیر محترم نے وہی غلطی کی ہے اور اسی اعتراض کو دہرایا ہے جو ہمار ے اکثر سیکولر احباب کرتے ہیں۔ ہمارے سیکولر احباب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو اپنے مخصوص ذہنی سانچے اور مخصوص زاویہ فکر کے تحت ہی دیکھتے ہیں، چونکہ مذہب کی اپنی ایک تعبیر اور اپنا ایک مزاج ہے اور وہ کسی انسانی ذہن کی تخلیق نہیں، اس لیے ہمارے سیکولر احباب اسے سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہمارے ان سیکولر احباب کا فہم اسلام صرف ثانوی مصادر تک محدود ہوتا ہے، اور وہ اسلام کو اس کے اصل مصادر قرآن وسنت سے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ معاصر دنیا میں اسلام کے نام پر، کچھ گروہوں کی طرف سے اسلام کی جو غلط تشریخ کی جا رہی ہوتی ہے، اسی کو اسلام سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر ان چند گروہوں کی غلط تشریحات کی نشاندہی اور ان کی مذمت کے بجائے اصل اسلام کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی غلطیوں کو اسلام کے سر تھوپ دیتے ہیں اور تاریخی طور پر اسلام کی تفہیم و تبیین میں لوگوں نے جو غلطیاں کی ہیں، وہ بھی مذہب کے کھاتے میں ڈال کر کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہے اسلام۔ یہ ہے اسلام جو لوگوں کے گلے کاٹنے کی دعوت دیتا ہے یا جو عوامی مقامات پر تباہی پھیلانے میں ملوث ہے۔ موصوف نے بھی یہی کیا ہے کہ چند بدتہذیب اور اخلاقی طور پر پست مسلمانوں کی غلطی کو اسلام کے کھاتے میں ڈال کر کہتے ہیں کہ اگر یہ اسلام ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے، کیا موصوف اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گے کہ انہوں نے اسلام کی یہی تشریح پڑھی ہے اور کیا وہ اسی اسلام سے واقف ہیں؟
    اور اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو وہ چند مسلمانوں کی غلطی کی سزا اسلام کو کیوں دے رہے ہیں؟
    حیرت ہے کہ مدیر محترم تو اسلام کا کافی گہرا فہم رکھتے ہیں اور ان کی زندگی اسلامی فقہ و شریعت اور اجتہادی مسائل کے بارے میں غور و فکر سے مزین ہے لیکن اس کے باوجود انہیں نے اتنی سطحی بات کیسے کر دی اور اسے اپنے ادارے کی پالیسی کے طور پر اداریے میں کیسے شائع کر دیا۔

    خیر ہمارے سیکولر احباب کہ جنہیں اسلامی فقہ و شریعت سے براہ راست استفادے کا دور سے بھی تعلق نہیں اور وہ صرف ماضی و حال میں اسلامی کی تفہیم و تبیین کے ضمن میں کی جانے والی غلطیوں اور تاریخی اسلام کی بنیاد پر اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں، ان سے عرض ہے کہ اصل مذہب اور اسلام وہ نہیں جس کو وہ جانتے ہیں بلکہ اصل مذہب اور اسلام وہ ہے جو قرآن و سنت میں مذکور ہے اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیا اور خلفاء راشدین نے اسے نافذ کے کے دکھایا تھا۔ نہ کہ وہ مذہب کہ جس کی ہردور کی طرح، مشال خان کے واقعے میں مسلمانوں کے ایک خاص گروہ نے تعبیر پیش کی ہے۔ ہم جس ہذہب کی بات کرتے ہیں اور جس کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، ہم اسے دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اگر ہم نے اسے اپنی زندگیوں سے دیس نکالا دیا، جیسا کہ ہمارے سیکولر احباب چاہتے ہیں تو ہم دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑ جائیں گے اور ہماری دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی۔ اور اگر کوئی فرد ٹھیک طرح اسے اپنی زندگی میں نافذ کر لے تو اس کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس مذہب کو معاشرتی سطح پر اپنایا جائے تو ہمارا یہ وحشیانہ پن کہ جس کا مظاہرہ ہم ہر دوسرے روز دیکھتے ہیں، مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ ہمارے سیکولر احباب مسلمانوں کے صرف خارجی اعمال کو بنیاد بنا کر اصل مؤقف اور اصل بات سے پھر جاتے ہیں اور سرے سے مذہب ہی کی اہمیت کا انکار کر دیتے ہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ماضی کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام کی غلط تشریح اور اس پر عمل کی صورت میں جو غلطیاں مسلمانوں نے کی ہیں یا کر رہے ہیں، اس کا بوجھ اسلام پر نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار وہ مسلمان ہیں جو یہ غلط تعبیر پیش کر رہے ہیں۔ آج داعش، طالبان اور جناب جاوید احمد غامدی اسلام کی جو تعبیر و تشریح پیش کر رہے ہیں، اس کا وبال اسلام پر نہیں اور نہ اسلام ان سب کا ذمہ دار ہے۔ مسلمانوں کی غلطیوں کا ملبہ اسلام پر ڈالنے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک مجمع میں جائے جہاں چند طاقتور مسلمان کمزور مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہوں اور یہ بھی ظالموں کے ساتھ شامل ہو کر ان کا دست و بازو بن جائے اور اگر لوگ پکڑ کر اسے پوچھیں کہ تم کیا کر رہے ہو تووہ کہے کہ ہمارا اسلام کہتا ہے کہ ہمیں مسلمانو ں کی مدد کرنی چاہیے، اور آپ لٹھ لے کر اسلام کے پیچھے پڑ جائیں، حالانکہ اس میں اسلام کا کوئی قصور اور غلطی نہیں بلکہ اس بندے کا اپنا فہم ناقص ہے کہ وہ یہ موٹی سی بات نہیں سمجھ سکا کہ مدد سے مراد مظلوم مسلمانوں کی مدکرنا ہے نہ کہ ظالم کی۔

    مذہب اسلام اپنی ذات میں باالکل سچا، واضح اور دو ٹوک ہے اور وہ خود ہر ایسی غلط روش کی سخت مذمت کرتا ہے جس کی نسبت ہمارے سیکولر احباب اور مدیر محترم نے اس کی طرف کی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ احباب یہاں یہ سوال اٹھائیں کہ آج کل اصل اسلام صرف کتابوں تک محدود ہے اور مسلمانوں کی عملی روایت قطعا اس سے مختلف ہے یا یہ کہ یہ صرف ایک آئیڈیل صورت ہے اور مسلمانوں کی عملی روایت میں کہیں اس کا وجود نہیں ملتا۔ گویا ان احباب کا کہنا یہ ہے کہ جب اسلام اپنا تعارف کروائے یا ہم اس کے نفاذ کی بات کریں تو اس کو اصل ماخذات سے پیش نہ کریں، اللہ اور اس کے رسول کے بیان کردہ اسلام کی بات نہ کریں بلکہ ہم اس اسلام کا تعارف کروائیں جس کی نمائندگی خارجیوں، حجاج اور اکبر نے کی ہے یا جس کی نمائندگی، طالبان، داعش اور جاوید احمد غامدی کر رہے ہیں، فیا للعجب۔ ہم اس اسلام کو تعارف کے طور پر کیسے پیش کر سکتے ہیں جس کا اصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں اور جسے تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے اپنے غلط نظریات کے طور پر معاشرے میں رائج کر دیا ہے۔ ہم اس اسلام کی تشہیر کیوں کریں اور اس کی طرف دعوت کیوں دیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول نے نازل ہی نہیں کیا بلکہ وہ چند مسلمانوں کے اپنی ناقص فہم کا شاخسانہ ہے۔ اور جہاں تک یہ بات ہے کہ ہم جس اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، وہ ایک آئیڈیل صورت ہے تو عرض ہے کہ دنیا میں ہر انسان جب کسی نظریے کی دعوت دیتا ہے یا اس کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو اس کی آئیڈیل صورت کو ہی سامنے رکھتا ہے اور اسی کی طرف بلاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی انسان کسی نظریے کی دعوت دے اور اس کی بدترین صورت اپنے مخاطب کے سامنے رکھے اور دعوت کے عمل کے دوران اس بدترین صورت کو پیش کرے۔ ذرا آپ بتائیں جب آپ سیکولرزم اور جمہوریت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کے نفاذ کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے دلائل کے انبار لگا تے ہیں تو کیا آپ اسی آئیڈیل صورت کو سامنے نہیں رکھتے، کیا آپ نے کبھی وہ تصویر بھی سامنے رکھی جو ان دونوں اداروں نے پچھلی ایک صدی میں دنیا کے منظر نامے پر پینٹ کی ہے۔ اسی طرح سوشلزم اور کیپٹل ازم کا تصور جب دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا تو ان کی آئیڈیل صورت ہی دنیا کے سامنے نہیں پیش کی گئی تھی؟ تو پھر اسلام پر یہ اعتراض کیوں کہ اس کی اصل تصویر چھوڑ کر آئیڈیل صورت پیش کی جاتی ہے۔ پھر یہ بات عقل اور حکمت کے بھی خلاف ہے کہ آپ جس چیز کی طرف دعوت دیں اس کی ناقص تفہیم، اس کی کم تر صورت اور بدترین تصویر اپنے مخاطب کے سامنے رکھیں اور پھر اس سے یہ امید رکھیں کہ وہ آپ کی بات نہ صرف سنے گا بلکہ دل وجان سے من وعن اسے قبول بھی کر لے گا۔

    یہ ہیں وہ اصل حقائق جو سیکولر احباب اسلام کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہی بات مدیر محترم نے مشال خان کے واقعے پر اپنے ادارتی نوٹ کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں کسی بھی واقعے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تجزیہ کرنے سے قبل زمینی حقائق، سماجی نفسیات اور معاشرتی سیاق و سباق کو کسی صور ت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اور میڈیا سے متاثر ہونے کے بجائے اصل حقائق اور موزوں استدلال کو اپنے تجزیے اور تبصرے کی بنیاد بنانا چاہیے۔ بسا اوقات ایک چیز بدیہی طور پر بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتی ہے لیکن مخاطب اسے اس لیے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کے مخصوص ذہنی سانچے کے مطابق فٹ نہیں بیٹھتی اور اس کا ذہن اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ذہن اپنے مخصوص ماحول اور اپنے فہم کی بنیاد پر ایک مخصوص ڈھانچہ تیار کر لیتا ہے اور کوئی بھی استدلال خواہ کتنا ہی مضبوط اور محکم کیوں نہ ہو، وہ اسے قبول نہیں کرتا۔ ہمارے سکولر دوست بھی چونکہ اکیسویں صدی کے مخصوص ماحول، تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کی طرف سے اسلام کی تفہیم و تبیین کے ضمن میں کی جانے والی غلطیوں اور سیکولر معاشروں کی مادی ترقی کو دیکھ کر ان کے ذہن کا ایک مخصوص ڈھانچہ بن چکا ہے، اب آپ انہیں قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں یا احادیث سے استدلال کریں، یہ کبھی نہیں مانیں گے اور ان کا کوا ہمیشہ سفید رہے گا۔

    تحریر: محمد عرفان ندیم
    31/05/2017
     

اس صفحے کو مشتہر کریں