1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں؟

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از ہما, ‏14 مئی 2006۔

  1. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    اِسلام کو قابلِ نفرت بنانے کی عالمگیر مہم ۔ ۔ ۔ این کاؤنٹرٹو

    "این کاؤنٹر" ( اسے پیرس ریویو بھی کہتے تھے) دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد دنیا میں کمیونزم کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلو ع ہوا۔ آفسٹ پیپر پر جدید ترین پرنٹنگ سسٹم کے تحت شائع ہونے والا یہ رسالہ پیرس کی بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ریلوے اسٹیشنوں سے نکلتا اور پھر چند ہی روز میں دنیا بھر کے ٹی ہاؤسز، کافی شاپس اور شراب خانوں میں پہنج جاتا، جہاں نہ صرف اس کی ایک ایک سطر کو الہام سمجھ کر پڑھا جاتا بلکہ ایمان کا درجہ دے کر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا۔ یہ سچ ہے کہ اگر ہم مار کسی نظریات، مارکسزم کے پیروکاروں کے حلیوں اور ان کے متشدد نظریات کے تاریخ کھود کر نکالیں تو ہمیں "این کاؤنٹر" ہی ملے گا، جس نے پوری دنیا میں بھوک کو مضبوط ترین فلسفہ بنا دیا۔ یہ این کاؤنٹر ہی تھا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے بال بڑھا لئے، غسل کرنے کے عادت ترک کر دی، مارکسی لٹریچر کو مقدس سمجھ کر ایک ایک لفظ رٹ لیا، بیویوں کو طلاقیں دے دیں اور بچوں کو "ان امیروں کو لوٹ لو" کا درس دینا شروع کر دیا۔

    رسالے کے پیچھے کروڑوں روبل تھے، دنیا کے ذہین ترین مار کسی دماغ تھے، ماہر صحافی تھے، انتہائے زیرک نقاد اور دانشور تھے، لہذا اس دور میں اس سے بڑھ کر معیاری، جامع اور پراثر جریدہ دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سپیڈر، آڈن اور مارلو جیسے دانشور اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک بین الاقوامی مجلس ادارت تھی، جو دنیا بھر سے موصول ہونے والے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا کڑی نظر سے جائزہ لیتی، انہیں مار کسے کسوٹی پر پرکھتی، زبان و بیان کے غلطیوں کی نشاندہی کرتی، اعداد و شمار اور حقائق کی صحت کا اندازہ لگاتی۔ تسلی کے بعد یہ مضامین سیلف ڈیسکوں پر چلے جاتے، جہاں اپنے وقت کے ماہرین ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے، ان کی نوک پلک سنوارتے۔ اس کے بعد ایک اور شعبہ اس ترجمے کا جائزہ لیتا، اس میں پائی جانے والی جھول، سقم اور لفظی کوتاہیاں درست کرتا۔ آخر میں جب اشاعت کا مرحلہ آتا تو انتظامیہ انگریزی ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اصل متن ( جو مختلف زبانوں میں ہوتا) بھی چھاپ دیتی، تاکہ اگر ترجمے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو قارئین اصل مضمون دیکھ کراسے درست کر لیں۔ اس کڑے معیار، انتخاب اور عرق ریزی کے باعث ناقدین "این کاؤنٹر" کو کمیونزم کی ترویج میں وہ مقام دیتے تھے جو شاید کارل مارکس اور لینن کو بھی نصیب نہیں تھا۔

    لیکن قارئین کرام! المیہ دیکھئے "این کاؤنٹر" کی اشاعت کے دس پندرہ برس بعد انکشاف ہوا کہ جسے دنیا کمیونزم کی بائبل سمجھ رہی تھی، دراصل سی آئی اے کا منصوبہ تھا اور امریکی خفیہ اِدارے کے ہیڈ کوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ڈپٹی سیکرٹری رینک کا ایک امریکی، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور کچھ خفیہ ٹیلیفون کالز کے ذریعے برسوں تک پوری اشتراکی دنیا کو بیوقوف بناتے رہے، ان کے نظریات میں زہر گھولتے رہے، یہاں تک کہ کمیونزم کے ٹارگٹ ممالک میں مقامی سطح پر کمیونزم کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔

    عرصے بعد جب این کاؤنٹر پراجیکٹ کا چیف، ثقافتی یلغار کے ایک سیمینار میں شرکت کے لئے پیرس گیا تو شرکاء نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ بوڑھے ریٹائرڈ امریکی نے ہیٹ اتار کر سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر جھک کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پوچھنے والوں نے پوچھا "سر! آپ نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟" بوڑھا امریکی مسکرایا اور پھر مائیک کو انگلی سے چھو کر بولا: "ینگ میں ویری سمپل، ہم نے کمیونزم کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا"۔ ایک اور نوجوان اٹھا اور بوڑھے سے مخاطب ہو کر بولا: "لیکن جریدے کے سارے منتظمیں تو کمیونسٹ تھے اور جہاں تک ہماری معلومات ہیں، سی آئی اے کا ان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا"۔

    بوڑھے نے قہقہ لگایا اور پھر دوبارہ مائیک کو چھو کر بولا: "نوجوان ہاں، ہمارا این کاؤنٹر کی انتظامیہ، اس کے ایڈیٹوریل بورڈ اور اس کے کمیونسٹ ورکرز سے کوئے تعلق نہیں تھا، لیکن دنیا کے مختلف کونوں سے این کاؤنٹر تک پہنچنے والے مضامیں تو ہم لوگ ہی لکھواتے تھے"۔ ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور بوڑھے کو ٹوک کر بولا: "لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟" بوڑھا آہستہ سے مسکرایا اور پھر مائیک چٹکی میں پکڑ کر بولا: "بہت کچھ ہوتا ہے، ینگ مین! تم خود فیصلہ کرو، جو بائبل ایسے احکامات دے جو انسانی فطرت سے متصادم ہوں، جو انسان کو آزادی سے سوچنے، بولنے اور عمل کرنے سے روکتے ہوں، جو لوگوں کو بدبودار کپڑے پہننے، شیو نہ کرنے، دانت گندے رکھنے، اور گالے دینے کا درس دیتی ہو، وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہو گی؟ ہم نے یہی کیا۔ این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کو بے لچک، متشدد اور سخت مؤقف کے حامل افراد ثابت کر دیا جس کے بعد تیسری دنیا میں ان لوگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اٹھیں اور ہمارا کام آسان ہو گیا"۔ یہاں پہنچ کر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بوڑھا نشست سے اٹھا، دوبارہ ہیٹ اتار کر ہوا میں لہرایا، سینے پر ہاتھ رکھا اور سٹیج کے اداکاروں کی طرح حاضرین کا شکریہ ادا کرنے لگا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں جب بھی محفلوں میں "پڑھے لکھے" خواتیں و حضرات کے منہ سے علماء کرام کے خلاف "فتوے" سنتا ہوں، نوجوانوں کو اسلام کو (نعوذ باللہ) قدیم، فرسودہ اور ناقابلِ عمل نظام قرار دیتے دیکھتا ہوں، شائستہ، خاموش طبعہ اورذکر اللہ سے جھکے ہوئے لوگوں کو "مولوی" کے نام سے مخاطب ہوتا دیکھتا ہوں، ہاں! میں جب مسجد کے سامنے کلاشنکوف بردار گارڈ دیکھتا ہوں، مختلف مذہبی رہنماؤں کو کیل کانٹے سے لیس باڈی گارڈز کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ اخبارات، رسائل و جرائد کی پھیلائی ڈس انفارمیشن پرمدرسوں کے معصوم بچوں کو سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے دیکھتا ہوں، تو میں سوچتا ہوں کہیں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے کسی کمرے میں بیٹھا کوئی ڈپٹی سیکرٹری، دو کلرک اور ایک چپڑاسی چند فائلوں، ٹیلکس کے چند پیغامات اور ٹیلی فون کی کچھ کالز کی مدد سے اسلام کو اسلامی دنیا میں اجنبی بنا رہے ہوں، اسے فرسودہ، ناقابلِ عمل اور انسانی فطرت کے خلاف نظام ثابت نہ کر رہے ہوں؟

    قارئین کرام! اگر آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو آپ مجھ سے پورا اتفاق کریں گے کہ اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی، مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا، مدرسے کو مدرسے کے ذریعے جتنا قابلِ نفریں ثابت کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام (نعوذ باللہ) کیا گیا، اتنا پچھلے دو تین سو برسوں میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بیانات، خطبات اور تحریروں نے نہیں کیا۔

    یقین کیجئے، جب کوئی نوجوان بڑی نفرت سے کہتا ہے یہ "مولوی" تو فوراً میرے دماغ میں ایک بوڑھے امریکی کی تصویر اُبھر آتی ہے، جو مائیک کو چٹکی میں پکڑ کر کہتا ہے " ویری سمپل، ہم نے اسلام کو اتنا کڑا، سخت اور غیر لچک دار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہی نہ رہا" اور بوڑھا کہتا ہے: " ہم نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ جس مذہب میں ایک مولوی دوسرے مولوی کے پاس بیٹھنے کا روادار نہیں، وہ مذہب جدید دنیا کے انسانوں کے لئے کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ جو لوگ معمولی سا اختلاف برداشت نہیں کرسکتے، اپنی مسجد میں کسی دوسرے مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے، وہ جمہوری روایات کی پاسداری کیسے کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں، جو ہر سوال کا جواب پتھر سے دیتے ہیں

    ہاں، رات کے آخرے پہر جب گلی کی ساری بتیاں کہر کی چادر اوڑھے سو چکی ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو "این کاؤنٹر پراجیکٹ ٹو" کی فائل پڑھ سکے۔

    (جاوید چودھری)
     
  2. جی ایم علوی
    آف لائن

    جی ایم علوی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 مئی 2006
    پیغامات:
    210
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سادہ لوح مذہبی ذہن کا المیہ

    تحریر بہت عمدہ ہے، انداز مؤثر ہے اور نہایت فکرانگیز مضمون ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سادہ لوح مسلمان اور مذہبی جماعتیں اپنی جہالت، بھولپن اور اسلامی فکر سے دوری کے باعث نادانستہ طور پر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے مذہبی ذہن کے لئے۔
     
  3. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ہما اتنی درد انگیز تحریر نے تو مجھے ہلا کے رکھ دیا ہے۔
     
  4. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    انتہائی پر اثر مضمون ہے جس نے ہمارے ذھنوں کے دریچے کھول دیئے
     
  5. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    اللہ ہمارے اخبارات کو سمجھ دے

    جاوید چودھری نے بڑے ہی پتے کی تحریر لکھی ہے۔ یہ تحریر تو بہت بڑے رازوں سے پردہ سرکاتی نظر آتی ہے۔ اللہ ہماری قوم کے لیڈروں کو شعور دے اور خاص طور پر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو سمجھ دے کہ وہ غیروں کا آلہء کار بننے کی بجائے قومی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں۔
     
  6. ساجد
    آف لائن

    ساجد ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    61
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    Re: مسلمان پتھر کے زمانے کے لوگ ہیں

    کاش کہ آج مسلمانوں کو حقیقت میں ایسے لوگ مِل جائیں جو دین کی تشریح اللّہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق کریں۔عالم یا مولوی بننا شرم کی نہیں فخر اور نصیب کی بات ہے۔
    مولوی کا لفظ آج اگر اتنا بدنام ہوا ہے تو یہ ہم سب کے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔شتر مرغ کی طرح سے ریت میں سر دبانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ہمارے ہزاروں پاکستانی بھائی فرقہ وارانہ تشدد میں اپنی جانوں سے گئے۔وجہ جاننے کے لئے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔جب بھی ایسی قتل و غارت گری کا کوئی ملزم یا مجرم پکڑا جاتا ہے تو اس کی رہائی کے لیے اور قانون کے خلاف جو لوگ جلسے اور جلوس نکالتے ہیں بد قسمتی سے وہ بھی اپنے آپ کو مولوی ہی کہلاتے ہیں۔این کا ؤنٹر نے کمیونزم میں نقب لگائی کیوں کہ کمیونزم ایک انسان کی اختراع تھی (غلطیوں سے بھر پور)۔لیکن اسلام کمیونزم سے بالکل مختلف ہے۔ یہ اللّہ کا دیا ہوا نظام ہے۔ یہ نظام جب تک ہم اللّہ کی مرضی کے مطابق نہیں چلائیں گے ہم ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اپنی خفت مٹانے کے لئیے ہم این کاؤنٹر کے فلسفے کا سہارا لیں یا کچھ اور کہیں۔ لیکن پاکستان کی صورتحال پر یہ مقولہ پوری طرح سے صادق آتا ہے؛ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
    افسانوں اور کہانیوں کی بجائے ہمیں حقیقت کی طرف توجہ دینی چاہئیے۔ان لوگوں کو پہچاننا چاہئیے جو اپنے مفادات کے لئیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ اسلام کو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔اسلام کی تقریبا 1500 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کو اغیار نے جتنا دبانے کی کوشش کی یہ اتنا ہی اُبھرا ہے۔اغیار کی بادِ مخالف تو ہمیں اونچا اڑنے کا موقع دیا ہے۔لیکن ہماری اپنی بد اعمالیوں نے ہمیں رسوا کیا ہے۔
     
  7. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شرکیہ فتوے اور فرقہ واریت

    ساجد صاحب

    آپ کی بات بالکل صحیح ہے کہ آج جتنا نقصان اسلام کو فرقہ ورایت نے پہنچایا ہے۔ اور کسی چیز نے اسے اتنا کمزور نہیں کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے (جس کا مفہوم ہے) میری امت میں اختلاف امت کے لیے رحمت کا باعث ہے۔ لیکن اگر آج ہم اس دور میں دیکھیں تو یہ سراسر زحمت کا باعث نظر آتا ہے۔ کیوں؟ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ حدیثِ مبارکہ کے مطابق ہر کلمہ گو مسلمان ہے اور وہ جنت میں جائے گا۔ ہم اپنے سوا ہر دوسرے نقطہ نظر کے حامل گروہ کو کافر و مشرک قرار دیتے چلے جاتے ہیں۔

    ہر مسلک دوسرے مسلک کو علمی موشگافیوں میں الجھا کر اس پر شرک کا فتوی لگا نے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس کو مشرک صرف اس جرم کی پاداش میں بنایا جاتا ہے کہ اس نے میرے نقطہ نظر سے اختلاف کیوں کیا۔ آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ اسلام (جو کہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ پیغام ہے) پر عمل کیا جائے تو اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر گروہ اور فرقہ اسلام کی اپنی من مانی تعبیر کرتا ہے۔

    فرقہ واریت کا یہ عفریت مغرب کی طرف سے اسلام کی خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے اور ہم اسلام کی خدمت کا نظریہ اپنے دل و دماغ میں بٹھا کر کے انتہا پسندی کے ساتھ اسلام کے جڑیں کھوکھلی کرتے جا رہے ہیں۔ اور اس کا علم ہمیں خود بھی نہیں۔

    مسلمان معاشروں میں برداشت کا جذبہ مغربی دنیا کی نسبت بہت کم ہے۔ ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہو کر بازاروں، گلیوں، بس سٹاپوں پر ٹائر جلانا، دکانوں، کارخانوں اور بنکوں کو نذرِ آتش کرنا ہمارا روز کا معمول ہے۔ ہر طرف ایک دھینگا مشتی مچی نظر آتی ہے۔ اور مذہبی طبقہ جس کا کام عوام اور معاشرے کی رہنمائی کرنا ہے جو مولوی کے نام سے مشہور ہیں ان کی برداشت سوسائٹی کے عام لوگوں سے بھی بہت کم ہے۔ اور مغربی میڈیا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسی مذہبی طبقے کو عوام کی نظروں میں گراتا چلا جا رہا ہے۔ اور اس مغربی میڈیا کی پیروی میں ہمارا اپنا میڈیا اور صحافتی حلقہ ان کی اندھا دھند تقلید کرتا نظر آتا ہے۔ اور یہ بھی اپنے مشاہیر و علماء کو بدنام کرنے میں کسی طور بھی مغربی میڈیا سے کسی طور پیچھے نہیں۔

    قوم اپنے رہنماؤں کے تابع ہوتی ہے۔ جب رہنماؤں کا یہ حال ہو گا کہ ان حکمت عملی اور برداشت سرے سے ہوگی ہی نہیں تو معاشرے مزید انتہا پسندی، ہلاکت و بربادی اور ذہنی پستی کی عمیق گہرائیوں کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔

    یہی مغربی میڈیا کے سارے پروپیگنڈے کا مقصد ہے، جسے ہم (ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے داغتے ہوئے) پورا کرتے نظر آتے ہیں۔

    بات بڑی گہرائی اور گیرائی سے سوچنے کی ہے کہ آج جب اسلام پر چاروں طرف سے طاغوتی طاقتیں حملہ آور ہیں‌ تو اسلام کا دفاع کیسے کیا جائے؟؟؟ اور آج کی اس بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پر کس طرح قابو پایا جائے؟؟؟؟ برداشت اور تحمل پسندی کو کس طرح فروغ دیا جائے؟؟؟؟؟ اسلام میں جو اس وقت عالمی سطح پر لیڈرشپ کا بحران اور فقدان ہے اس سے کیسے عہدہ برآہ ہوا جائے؟؟؟؟
     
  8. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    Re: شرکیہ فتوے اور فرقہ واریت

    فرقہ واریت کی جڑ میں ہے۔ جبکہ شرفِ انسانیت "میں" کی نفی کرتا ہے۔ اختلافِ امت تو رحمت ہے مگر وہی اختلاف جب اختلاف برائے مخالفت اور دوسروں کو نیچا دکھاتے ہوئے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔ ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتاوی لگتے ہیں۔

    تاریخ پر نظر ڈالنے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہلاکو خان کا لاکھوں کی آبادی پر مشتمل بغداد میں چن چن کر ایک ایک ذی نفس کو قتل کر دینے کا باعث اس دور کی فرقہ واریت (شیعہ سنی مناظرے اور فتوی بازی) اور امت میں اتحاد و اتفاق کا خاتمہ تھا، جس کی وجہ سے دشمن ہمیں تقسیم کر کے کچلنے میں کامیاب ہوا اور لاکھوں کتابوں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی لائبریریاں دجلہ کے پانی کی نظر ہو گئیں۔

    اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فتوے باز علم اسلام کی خدمت نہیں تباہی کا باعث بنتا ہے۔ مگر اس کے باوجود دین کی تبلیغ کے نام پر مسلمانوں کو گروہوں اور فرقوں میں بانٹنے کا وطیرہ جاری ہے۔

    توجہ طلب بات جسے سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیا اب بھی کسی ہلاکو خان کی آمد ہے، جس کا راستہ آسان کرنے کے لئے یہ دین کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیا جا رہا ہے؟
     
  9. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    لمحہءِ فِکریہ !!!

    لمحہءِ فِکریہ !!!
    اپنے بزرگ دینی راہنماؤوں کی ہدایات کو راہنماءِ کامِل کی سچی ہدائیت کی روشنی میں دیکھنے ،،، برداشت اور تحمل کے کیساتھ اپنے ہر قول و فعل کو قرآن و احادیث کی کسوٹی کیساتھ پرکھنے کے بعد صحیح و غلط کے فیصلوں کے تحت قائم پزیر معاشرہ ہی بیرونی اثرات سے پاک اسلامی معاشرہ کہلا سکتاہے !!!
    دیکھنا یہ ہے کہ ؛؛ ہم ؛؛ خود کو کب اسکا اہل ثابت کرتے ہیں ؟
    قرآن و احادیث کے نام پر بتائی گئی ہر بات (روز مرّہ مصروفیت کی مجبوریوں کے باوجود) کب ؛؛ اپنی آنکھ سے ؛؛ دیکھنے کی خواہش اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ؟
     
  10. فاروق
    آف لائن

    فاروق ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مئی 2006
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    فتووں کی بوچھاڑ

    دین اسلام کے احکام اور اوامر و نواہی کا منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم، سنت و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیماتِ صحابہ ہیں۔ ایک صالح اسلامی معاشرے میں فرزندان اسلام اصل منابع و مراجع سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔ تاہم دین کی اصل تعلیمات سے دوری اور بےعملی و بےعلمی کی وجہ سے بہت سے حقائق پردہ اِخفاء میں چلے گئے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسروں پر کفر و شرک اور بدعت کے فتووں کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے قرآن و سنت اور ان سے اخذ فیض کرنے والے صحابہ و ائمہ کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تاکہ اصل صورت حال تک رسائی ہو۔ وگرنہ غلط فتوے صادر کرنے والوں کا انجام یہ ہوگا:
    لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بے دریغ فتوے صادر کرتے ہوئے معاشرے میں انتشار کی دیواریں بلند کرنے اور دشمنانِ دین کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بجائے دین اسلام کی اصل روح کو سمجھیں۔
     
  11. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    شرک کے خاتمے کی بشارت

    اس لڑی میں حصہ لینے والے تمام صارفین کا شکریہ جنہوں نے اتنے مثبت انداز میں انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف اپنی آراء دیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کفر و شرک کے فتوے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

    میری نظر سے ایک حدیث گزری تھی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے دوبارہ کبھی اپنی امت میں شرک کے نہ آنے کی ضمانت دی تھی۔ اگر فاروق بھائی اس حدیث مبارکہ کی عربی عبارت بمع حوالہ یہاں درج کر دیں تو فرقہ واریت کے حوالے سے جاری اس گفتگو میں ایک جان پڑ جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ بات بات پر شرک کا فتوی لگانے والوں کو اس سے ہدایت ملے اور وہ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کریں۔
     
  12. فاروق
    آف لائن

    فاروق ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مئی 2006
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    منتظم اَعلیٰ کی حسب خواہش حدیث مبارکہ کا متن درج ذیل ہے:
    حدیث مبارکہ:
    حوالہ جات:
    اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ پوری اُمت یا اس کا اکثر حصہ شرک میں مبتلا ہو جائے گا، البتہ بعض بدبخت لوگوں کا مرتد ہوکر کوئی اور مذہب اختیار کرلینا یا ملحد و بے دین ہوجانا اِس حدیث مبارکہ میں کی گئی پیش گوئی کے خلاف نہیں۔
     
  13. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    میں اس لڑی میں کچھ لکھ نہیں سکتی مگر مجھے اس لڑی سے بہت بہت کچھ پتا چلا
    آپ سب کا بہت شکریہ
     
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    اگر مسلمانوں‌کے فرقوں پر تھوڑا سا غور کیا جائے تو تمام فرقوں کی بنیادی تعلیمات یکساں ہیں۔ تمام فرقے اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد کو پیغمبر آخر زماں تسلیم کرتے ہیں۔باقی رہ گئی معمولی باتیں کہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑہیں یا کھول کر، تو یہ کوئی ایسا سنگین اختلاف نہیں‌جس پر ہم ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں یا ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں۔
    اس تمام اختلاف کی جڑ پر جائیں تو آپ کو لوگ اپنے ذاتی مفاد کے حصول میں‌کوشاں نظر آئیں‌گے۔میں‌آپ کے لئے ایک سچا واقعہ بیان کرتا ہوں۔(ذاتی وجوہ کی بنا پر میں‌کسی کا نام ظاہر نہیں‌کروں گا):-
    ایک اسکول میں‌تعینات اسلامیات کے استاد اور اسکول کی مسجد کے امام پر یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ بچوں میں‌فرقہ وارت کو ترویج دے رہے ہیں۔ اسکول کے پرنسپل نے استاد کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا۔استادِ محترم نے اپنے مفاد کے حصول کے لیے پرنسپل پر جھوٹا الزام لگایا کہ پرنسپل صحابہ کی شان میں‌گستاخی کرتا ہے۔ اس بات کا چرچا اس نے قرب وجوار کی مساجد میں کیا اور اپنے ہم خیال مولویوں کو بعد از نماز جمعہ اسکول پر جلوس کی شکل میں‌حملہ کر کے گستاخِ اصحاب کو کیفر کردار تک پہنچانے پر راضی کر لیا۔ یہ پرنسپل کی خوش قسمتی تھی کہ اسے بروقت ان عزائم کی خبر ہو گئی اور اس نے متانت کے ساتھ اس معاملے پر نہ صرف قابو پا لیا بلکہ استاد کو برخاست بھی کر دیا۔
    اگر آپ اسلام کے نام پر جمع ہونے والے کسی بھی جلوس یا توڑ پھوڑ کے پس منظر پر نگاہ کریں‌تو آپ کو کسی نہ کسی کا ذاتی مفاد پورا ہوتا نظر آئے گا۔
     
  15. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    اہل بیتِ اطہار اور صحابہ کرام (رض)

    آپ کی بات صد فیصد درست ہے۔ اسلام کی خیرخواہی سے زیادہ اہم ہماری اپنی خیرخواہی ہوتی ہے، اسی چیز نے مسلمانوں کو برباد کر رکھا ہے۔ فرقہ واریت کا عفریت اسلام کے لئے زہرِقاتل ہے، جو جاہل ملاؤں اور فرقہ واریت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے والوں کی وجہ سے پنپ رہا ہے۔ کسی مسلک کی تعلیمات میں ایک دوسرے کو کافر و مشرک قرار دینے کی کوئی تعلیمات موجود نہیں ہیں۔

    اہل بیتِ اطہار اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علیکم اجمعین) آپس میں بھائیوں کی طرح شیر و شکر تھے۔ ان کے نام سے فرقہ واریت پھیلانے والے اپنی تقریروں میں انہیں ایک دوسرے کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین
     
  16. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اہل بیتِ اطہار اور صحابہ کرام (

    ع س ق نے بہت پتے کی بات کی کہ جاہل ملا فرقہ واریت میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر کچھ بحث اس بات پر بھی ہو کہ آج جاہل ملاوں کی بہتات کیوں ہے؟

    میرے خیال میں ملا کی جہالت کی وجہ ہم خود ہیں۔ فرض کریں کے ایک شخص کے چار بیٹے ہیں (وہ ایک شخص آپ بھی ہو سکتے ہیں)۔ اس سے پوچھیں کہ وہ اپنے بیٹوں کو کیا بنانا چاہے گا؟ یقیناً اس کا جواب یہی ہو گا کہ ڈاکٹر، انجنیر، کمپیوٹر پروگرامر یا اسی قسم کا کوئی شعبہ۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں‌کہے گا کہ میں‌اپنے بچوں کو مولوی یا استاد بنانا چاہتا ہوں۔
    اب تھوڑا اور اگے چلتے ہیں۔ اس کے دو بیٹے اچھے نمبر لے کر ڈاکٹر یا انجیر بن جاتے ہیں اور دو نالائق نکلتے ہیں اور میرٹ پر نہیں آتے۔ ان کو کسی عام شعبے میں مذید تعلیم دلائی جاتی ہے۔ فرض کرتے ہیں‌کہ ان کو بی اے میں داخل کروایا جاتا ہے۔ ان میں‌سے ایک بی اے کر لیتا ہے اور اسکول میں استاد لگ جاتا ہے اور دوسرا بی اے میں بھی اپنی نالائقی ثابت کرتا ہے اور گزراوقات کے لیے مسجد میں موذن بن جاتا ہے اور کچھ عرصہ میں‌مولوی بن جاتا ہے۔
    اس مفروضہ کہانی پر توجہ دیں تو یہ بات اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں‌کہ جو بچہ کسی بھی دنیاوی میدان میں‌کامیابی حاصل نہیں‌کر سکتااسے مولوی بنا دیا جاتا ہے۔
    آپ نے بھی اکثر والدین کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ یہ بچہ اسکول میں‌بہت ڈھیلا ہے اسے حافظ بنا دیتے ہیں یا مدرسہ بھیج دیتے ہیں۔
    اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کا خام مال فیکٹری میں‌جائے گا اسی قبیل کی مصنوعات فیکٹری سے نکلیں‌گی۔ کمپیوٹر کا GIGO (Garbage in Garabge out)والا کلیہ ہر جگہ درست ہے۔
     
  17. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اہل بیتِ اطہار اور صحابہ کرام (

    ع س ق نے بہت پتے کی بات کی کہ جاہل ملا فرقہ واریت میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر کچھ بحث اس بات پر بھی ہو کہ آج جاہل ملاوں کی بہتات کیوں ہے؟

    میرے خیال میں ملا کی جہالت کی وجہ ہم خود ہیں۔ فرض کریں کے ایک شخص کے چار بیٹے ہیں (وہ ایک شخص آپ بھی ہو سکتے ہیں)۔ اس سے پوچھیں کہ وہ اپنے بیٹوں کو کیا بنانا چاہے گا؟ یقیناً اس کا جواب یہی ہو گا کہ ڈاکٹر، انجنیر، کمپیوٹر پروگرامر یا اسی قسم کا کوئی شعبہ۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں‌کہے گا کہ میں‌اپنے بچوں کو مولوی یا استاد بنانا چاہتا ہوں۔
    اب تھوڑا اور اگے چلتے ہیں۔ اس کے دو بیٹے اچھے نمبر لے کر ڈاکٹر یا انجیر بن جاتے ہیں اور دو نالائق نکلتے ہیں اور میرٹ پر نہیں آتے۔ ان کو کسی عام شعبے میں مذید تعلیم دلائی جاتی ہے۔ فرض کرتے ہیں‌کہ ان کو بی اے میں داخل کروایا جاتا ہے۔ ان میں‌سے ایک بی اے کر لیتا ہے اور اسکول میں استاد لگ جاتا ہے اور دوسرا بی اے میں بھی اپنی نالائقی ثابت کرتا ہے اور گزراوقات کے لیے مسجد میں موذن بن جاتا ہے اور کچھ عرصہ میں‌مولوی بن جاتا ہے۔
    اس مفروضہ کہانی پر توجہ دیں تو یہ بات اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں‌کہ جو بچہ کسی بھی دنیاوی میدان میں‌کامیابی حاصل نہیں‌کر سکتااسے مولوی بنا دیا جاتا ہے۔
    آپ نے بھی اکثر والدین کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ یہ بچہ اسکول میں‌بہت ڈھیلا ہے اسے حافظ بنا دیتے ہیں یا مدرسہ بھیج دیتے ہیں۔
    اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کا خام مال فیکٹری میں‌جائے گا اسی قبیل کی مصنوعات فیکٹری سے نکلیں‌گی۔ کمپیوٹر کا GIGO (Garbage in Garabge out)والا کلیہ ہر جگہ درست ہے۔[/quote:233ab1ze]

    السلام علیکم

    بھائی صاحب بات تو آپ دونوں‌صاحبان کی بالکل درست ہے

    لیکن ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہے نا ۔۔۔۔ کیا خیال ہے ؟
     
  18. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    لگتا ہے ساتھی بہت مصروف ہو گئے ہیں‌

    خوش رہیں
     
  19. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    میرے خیال میں‌ جواب نہ آنے کی وجہ مصروفیت نہیں۔ جب بھی میں‌نے انفرادی عمل کی بات کی یہی خاموشی میری منتظر تھی۔
    یا تو ہم اپنے گریباں میں‌جھانکنے سے ڈرتے ہیں‌یا ہمارا تعلیمی نظام ہماری سوچوں پر پابندی لگا رہا ہے۔ سوچیں۔۔۔
     
  20. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    بالکل صیح ورنہ تمام مسلمانوں کی بنیادی تعلیمات تو ایک سی ہیں
     
  21. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    السلام علیکم
    ماشاء اللہ جتنے اچھے طریقہ سے اس اہم اور سلگتے ہوئے موضوع پر یہاں اظہارِ خیال کیا گیا وہ لائقِ تحسین ہے۔
    ہر نظام جب بگاڑ کی طرف جاتا ہے تو اس کا سبب کچھ غلطیاں، کوتاہیاں، خامیاں ہوتی ہیں جن پر نظر کرنے کی‌ضرورت ہوتی ہے۔
    جہاں تک عام لوگوں کا مولوی صاحبان پر طنز کرنا ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ اکثریت نے اپنے ذہن میں مولوی کی ایک خیالی تصویر بنالی ہے۔ اس تصویر میں مولوی ایک ایسا شخص ہے جو ہم میں سے نہیں، ہم چاہے جتنی غلطیاں کریں، کوئی روک ٹوک نہیں لیکن مولوی سے کوئی غلطی صادر ہو تو ہزار طعنے۔ ہم کسی کو جتنی نصیحتیں کریں، نہیں پروا لیکن اگر مولوی نصیحت کے دو بول بول دے تو ہم بیزاری سے کہیں کہ یار ان لوگوں کا تو کام ہی نصیحتیں کرنا ہے۔ ہم کسی کی غلط بات پر اسے جتنا ہی برا کہیں، گالیاں دیں، وہ کچھ نہیں لیکن اگر مولوی کسی کے خلاف شرع کام پر کچھ کہہ دے تو ہم تحقیرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ان کا تو کام ہی فتوے تھوپنا ہے۔
    ہم نے یہ خیالی تصور بدلنا ہے۔ اس خیالی تصویر کے بننے میں صرف عام افراد کی نہیں، دانشوارانِ قوم اور خود بہت سے مولوی حضرات کی بھی غلطی ہے۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو دنیا سے ایسا جدا کیا کہ لوگ انہیں اپنے سے الگ سمجھنے لگے۔ ہم نے دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ نہ حد سے زیادہ انتہا پسندی درست ہے نہ حد سے زیادہ روشن خیالی۔ اسلام ہمیں معتدلانہ چال روا رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
    بڑے بڑے مضامین لکھنے سے یا اپنی آراء کا اظہار کرتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں، حقیقی فائدہ تب ہے کہ جب ہم ایک قدم آگے بڑھائیں، خود عملی کوششیں شروع کریں۔
    اللہ ہمیں سیدھی راہ چلائے۔ آمین
     
  22. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    مولوی تو صرف ایک استعارہ ہے۔ کل جیو ٹی وی پر دو علامہ صاحبان یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔ معلوم نہیں‌ایک مسلماں‌کن عوامل تحت ایسی بحث کے حق میں بات کر سکتا ہے۔
     
  23. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے
     
  24. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ہم جتنی بھی بڑی بحث کرلیں، یہ سب تب تک لاحاصل ہے جب تک اس کا کوئی عملی نتیجہ برآمد نہ ہو۔ ہمارے خیالات نیک سہی، لیکن اس سے معاشرے پر کس طرح اثرات ڈال سکتے ہیں۔ کوئی اس طرف بھی توجہ کرے گا؟
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نتیجہ کی طرف چلتے ہیں تو ایک رائے میں دے سکتا ہوں۔۔۔
    اکیلے اکیلے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ دو ہی طریقے ہیں۔
    نمبر 1----- یا تو خود قائد بن کر اوروں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔۔۔ اور اگر ہم اس قابل نہ ہوں تو پھر۔۔
    نمبر 2 ----کسی مخلص قیادت کے پیغام پر لبیک کہتے ہوئے متحد ہو کر جد و جہد میں شامل ہونا ہو گا۔۔

    آئیے ! آئیے ! آئیے !آیئے ۔۔۔
    غیر جانبداری سے ، کشادہ دلی سے اور پوری درد مندی سے پاکستان میں بالخصوص اور عالمِ اسلام میں بالعموم جاری اقامتِ دین کے لیے جاری تحریکوں کا تجزیہ کریں۔ اور دیکھیں کہ کونسی قیادت اور تحریک :
    اہلیت کے ساتھ
    جدیدیت کے ساتھ
    ترقی پسندانہ انداز میں
    امن پسندی کے ساتھ
    روشن خیالی کے ساتھ
    اتحاد و اتفاق کی علامت بن کر
    محبت کی پیامبر بن کر
    علمی و فکری سطح پر
    عملی و تحریکی سطح پر
    سائنسی و روحانی سطح پر
    تحریر کے میدان میں
    تقریر کے میدان میں
    کردار کی پختگی کے ساتھ
    گفتار کی اثرآفرینی کے ساتھ
    بات کی شیرینی کے ساتھ
    مجددانہ انداز میں
    قرونِ اولی کی فکر کے ساتھ
    زمانہ حال کے تقاضوں کے مطابق
    مستقبل کی درست منصوبہ بندی کے ساتھ
    ہر گوشہء حیات کو اپنے دائرہء عمل میں لیتے ہوئے
    دیہی، شہری، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر
    اسلام کے احیاء و اقامت کے لیے پرسرِ پیکار ہے
    جہاں دل گواہی دے کہ یہ تحریک ، یہ قیادت اور تحریک سب سے مخلص، اہل، اعلیٰ دکھائی دیتی ہے۔۔۔ اس کا دست و بازو بن کر اپنی مقدور بھر توانائیاں دینِ اسلام کے احیاء و بحالیء اقدارِ اسلام کے لیے وقف کر دیں۔
    پھر ہی ایسی گفتگو کا کوئی فائدہ ہے۔۔۔
    ورنہ بقول اقبال
    گفتار کا غازی بن تو گیا
    کردار کا غازی بن نہ سکا​
     
  26. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب نعیم بھائی! بالکل درست کہا آپ نے، مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دیکھا بھائیو اور دوستو !!!

    اس سلگتے ہوئے موضوع پر ہو کوئی اظہارِ خیال کر رہا تھا۔ اور بقول واصف بھائی جب بھی عمل کی بات ہو گی۔ وہ نقطہء آغاز جہاں سے خود ہمیں قدم اٹھانا ہوگا

    وہاں پر خاموش ہو جاتے ہے۔ کنی کھسکا کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور سنی ان سنی کر جاتے ہیں۔

    اور بلند و بانگ دعائیں کرتے ہیں یا اللہ امریکہ کو نیست و نابود کر دے۔
    یا اللہ اسرائیلیوں کو شکست اور فلسطینیوں کو فتح سے ہمکنار کر دے
    یا اللہ ملک پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا دے۔
    یا اللہ ملک پاکستان کو غداروں، ظالموں، لٹیروں اور دین دشمنوں سے محفوظ کر دے۔
    یا اللہ اسلام کو عالمی سطح پر سربلند کر دے
    وغیر ہ وغیرہ۔۔۔۔۔

    اور جہاں‌عمل کی بات ہوگی وہاں چپ

    دلچسپ بات ہے کہ کافی ماہ قبل ایک لڑی شروع کی گئی تھی۔

    “آئیے کوئی رہنما تلاش کریں“ ۔​

    لنک: http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=1268

    یہ بہت پیاری لڑی اور صحت مند موضوع تھا ۔ ہر پاکستانی کو اس میں حصہ ڈالنا چاہیئے تھا۔ لیکن ایک آدھ پیغام کے سوا وہاں کسی سینئر ممبر کو بھی ایک لفظ لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

    اور پھر ہم حب الوطنی اور بیدارئ شعور کے نعرے بھی لگاتے ہیں

    اب پتہ نہیں ماشاءاللہ کہوں یا انا للہ
     
  28. م س پاکستانی
    آف لائن

    م س پاکستانی ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جولائی 2006
    پیغامات:
    23
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ہان ہم سب پتھر کے زمانے میں‌ ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟

    وٹ آ فنٹیسٹک شاٹ آف مسٹر جاوید چوہدری
    لیکن ہم تو واقعی پتھر کے زمانے میں‌ رہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
    اگر ہم میں‌ یہ ملی غیرت بیدار ہو جائے تو پھر ہمارے دانشور اور ملک کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے لکھاری ایسا کالم نہ لکھیں
    ‌یقینا یہ ہماری سب کی اجتماعی بدقسمتی ہے۔
    آج ہم مولوی کو گالیاں بھی دیتے ہیں لیکن یہی مولوی صاحب ہی ہیں‌ جس کے بغیر ہمارا مرنا جینا بھی مکمل نہیں‌ ہوتا۔ سو “ہم تو پتھر کے زمانے کے ہی لوگ ہیں“
     
  29. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    امید ہے کہ سب ساتھی خیریت سے ہونگے

    اسی آرٹیکل کو اپنے اذہان میں لے کر
    جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے واقعات کا جائزہ لیں تو

    یہ سب سچ معلوم ہو گا

    خوش رہیں
     
  30. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت زبردست لکھا ہے۔۔۔
    لیکن ایک چیز ایڈ کرنا چاہتا ہون
    کہ سب لوگ بھیڑون جیسا رویہ کیوں اخیتار کرتے ہو
    ہم میں سے بہت سے لوگ پڑھے لکھے ہین جو کہ مذہب کو اتنا سمجھتے ہین جتنا کہ سمجھنے کا حق وہ سب لوگ فرقہ پرستی سے آزاد ہین فیر بھی اگر کوہی کہتا ہے فلاں گلظ ہے تو سب کہنا شروع ہو جاتے ہین وہ غلط ہے
    دیکھو جی ۔۔۔
    مولویوں کو برا بھلا کہنے سے بہتر ہے اپنے گربان مین جھانکووو

    قرآن آپ پڑھ سکتے ہو۔۔۔اس سے ہداہت لو باقی سب سے بڑا ہادی تو رب ذلجلال ہے ہدایت دینا اسکا کام ہے
    اللہ تعالی آپ کو مجھے ہداہت دے آمین نبی کریم صلم کے طریقہ پر چلنے کی توفیق دے آمین
    نبی کریم صلم کو آہیڈیل بناوو جیسے نبی کریم صلم اپنے آپکو مسافر سمھتےتھے دنیا کا ہمیں بھی ویسے ہی سمجھنا چاہے۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں