1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مستقل گستاخانہ رویہ،لمحہ ء فکریہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏2 ستمبر 2018۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    مستقل گستاخانہ رویہ،لمحہ ء فکریہ
    تحریر : محمد عرفان صدیقی

    مذاہبِ عالم کی تاریخ میںیہ ایک اور بہت ہی افسوس ناک دن تھا جس دن ادیانِ عالم میں سے ایک دینِ الہامی کی عزت کو تار تار کرنے کی غرض سے ’’آزادیء اظہار‘‘کے نام پرایک ملعونِ زمانہ شخص نے اُس دین مقدس کے پیغمبرﷺکے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا۔۔ اور اُن خاکوں کی اشاعت کو آزادی ء اظہار کا نام دیا،شایدایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ آزادیء اظہار کا یہ گھٹیا طریقہ اس خطہء ارض پر بسنے والے تقریباً2بلین مسلمانوں کے جذبات کو کس بُرے طریقے سے مجروح کرے گا۔’’آزادیء اظہار‘‘ کے نام پر اخلاقیات کے بیہودہ ترین ملغوبے سے لتھڑے ہوئے اس’’ اظہار‘‘ نے دُنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس سے کچھ ممالک میں انتقامی کاروائیوں کے کچھ مظاہر دیکھنے میں سامنے آئے۔اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺکے خلاف گُستاخانہ اقدامات کے سلسلے میں یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں کیا جا رہا ، بلکہ دینِ اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی آنحضور ﷺ کی شان میں گُستاخیوں کا سلسلہ دراز ہونا شروع ہو گیا تھا۔کعب بن اشرف کی اُن سنگین گُستاخیوں کو کون بھول سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے اُسے خانہء خُدا سے نکال کر جہنم واصل کیا گیا۔اُسی کعب بن اشرف کی ذُریّت اور اُس کے حواری آج پھرایک نئے انداز میں اُنہی گستاخیوں پر آمادہ ہیں۔ تقریباً 1400 سال کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ دشمنانِ اسلام نے اسلام کے خلاف اپنے شرم ناک پروپگنڈہ کے موقع کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔وہ امور کہ جو مسلمانوں کے لئے غور طلب تھے اُن سے ایسے رائی کے پہاڑ بنائے گئے کہ خُدا کی پناہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈرامائی طور پر اس جنگ کے طریقہ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔چاہے وہ معاشی دُباو کی صورت میں ہو یا میڈیا اور ابلاغِ عامہ سے اُگلے جانے والے زہریلے پروگراموں کے ذریعے۔معاشی دباؤ کا شکارتو وہ بدقسمت مسلم ممالک ہوتے ہیں کہ جو معاشی بدحالی کی وجہ سے کسی بیرونی امداد سے محرومی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن میڈیا کی جنگ ایک ایسی جنگ ہے جو پوری دُنیا کو آناًفاناً اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کہ میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔یہی میڈیا ہے کہ جوہر وقت خبروں کا ایک گاڑھا شیرہ دُنیا کو پلائے جا رہا ہے ، چاہے وہ مصدقہ ہو یا کہ غیر مصدقہ۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس میڈیا کے پاس جانے ایسی کیا گیدڑ بھبھکی ہے کہ لوگوں کے پاس اس کے ذریعے دی جانے والی خبروں پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اسی میڈیا کا مغربی ورژن، کہ جسے بڑی بڑی اسلام مخالف تنظیمات کی حمایت اور امداد حاصل ہے، اسلام کے[خلاف اپنے ] بزعمِ خویش ایک ایسے تحریف شُدہ پہلو سے مغرب کو دانستاً روشناس کروا رہا ہے کہ جسے خود مسلمان بھی قبول نہیں کرتے۔دن اور رات کی دی جانے والی اس مسلسل خوراک کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مغرب کے نزدیک اسلام کا مطلب دہشت گردی بن چکا ہے۔اُن کا اسلام اُسامہ بن لادن سے شروع ہو کر القاعدہ اور دگیر جہادی تنظیموں کی طرف سے کئے جانے والے دھماکوں پر ختم ہو جاتا ہے۔اب شاید وقت آ چکا ہے کہ مغرب کو اس خوابِ خرگوش سے جگا کر اُسے اصل حقیقت سے روشناس کروایا جائے کہ اسلام وہ نہیں جو مغربی میڈیا ۲۴گھنٹے دکھانے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ اصل میں اسلامی دہشت گردی، اوربغاوت کے نام پرکچھ ’’سپیشل رپورٹس‘‘دکھا دکھا کر شاید سیموئیل ہنٹگٹن کے پیش کردہ ’’Clash of Civilizations‘‘ یعنی تہذیبوں کے ٹکراو کے مفروضے کو سچ کر دکھانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان رپورٹس کا مرکز و محور ہمیشہ سے ایسے ’’حقائق ‘‘رہے ہیں کہ جن کا تذکرہ شاید آج سے20 یا30 سال پہلے نہیں ملے گا۔یہ حقائق اصل میں خود اسی مغرب کی ایجاد ہے جو آج اُس کی جان کو آ رہے ہیں۔ انہی ’’حقائق ‘‘کی بنا پر آج ۰۰۶۱ ملین مسلمانوں کو طعن و تشنیع کی جا رہی ہے اور اُن پر مذہبی جنونی اور بنیاد پرست ہونے کا الزام چسپاں کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘، ’’مسلم ٹیررسٹ‘‘ کی اصطلاحات کی بازگشت اکثر سُنی جاتی ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کبھی کسی شخص کے بارے میں یہ سُنا گیا کہ وہ ’’عیسائی دہشت گرد‘‘، ’’صیہونی دہشت گرد‘‘ یا ’’ہندو دہشت گرد‘‘ ہے یا اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے ساتھ دہشت گردی کے منسلک ہونے کی روایت کو طشت از بام کیا گیا ہے؟ کیا دُنیا میں جنگِ عظیم اوّل و دوم مسلمانوں نے چھیڑی تھی؟ کیا برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے انگریزوں پر حملہ کیا تھا؟ کیا انڈونیشیا میں مسلمانوں نے عیسائیوں کا قتلِ عام کیا تھا؟اب یہ بھی کہہ دیجئے کہ یہودیوں کے مفروضہ ہائے ہولوکاسٹ کی بنیاد بھی مسلمان ہی تھے؟ بوسنیا میں بھی 1995 میں مسلمانوں نے ہی ایک ہفتے میں ،12000 مذہبی بنیاد پرست عیسائیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا تھا؟ 2003 میں ہندوستان کی ریاست گجرات میں کھیلی جانے والی ہولی بھی ہندووں کی ہی تھی؟ یہ سب وہ حقائق ہیں کہ جو سب اُلٹ ہیں اورتاریخ کے اوراق کھنگالنے پر ایسی ہزاروں نہیں سینکڑوں مثالیں میسر آ جائیں گی کہ جن میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عیسائی، یہودی ، ہندو قومیں اتنی معصوم اور پوتر نہیں ہیں بلکہ خون کی ہولی کھیلنے میں جو روایات ان اقوام نے قائم کی ہیں ان کا تو شاید کوئی ثانی بھی نہ ہو گا۔جنگی جنونیت جو کہ اب اپنے ملک کی حفاظت سے بڑھ کر دوسرے کمزور ممالک کے وسائل پر قابو کرنے کی حد تک جا چکی ہے ،مغربی اقوام ہی کی تو ایجاد کردہ ہے۔مسلمانوں کو تباہ کرنے کی وہ تجاویز جو کئی دہائیوں پہلے پیش کی گئی تھیں، آج رنگ لاتی نظر آ رہی ہیں۔یہاں بے جا نہ ہو گا اگر حکومتِ برطانیہ کی طرف سے حجازِ مقدس میں تعینات کئے گئے ایک جاسوس ’’ہمفر‘‘ کے چند اعترافات پیش کر دئے جائیں۔ یہ ہمفر وہی شخص ہے کہ جس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لیفٹننٹ کرنل ٹی ۔ای لارنس المعروف بہ لارنس آف عریبیا نے بالآخر اپنی چالاکی سے سلطنتِ حجاز کے قدم اُکھاڑ دئیے۔یہ صاحب کہتے ہیں کہ، ’’ایک ایسے درخت کو اچانک اُکھاڑ پھینکنا بہت مشکل کام ہے کہ جس کی جڑیں زمین کے اندر گہرائی تک پھیلی ہوئی ہوں۔لیکن ہمیں [اپنی]محنت کو [مزید]آسان کرنا اور ان[مسلمانوں ] پر قابو پانا ہو گا۔عیسائیت کو فروغ حاصل ہوا۔ہمارے خداوند مسیح نے ہم سے اس کا وعدہ کیا تھا۔وہ بُرے حالات کہ جن میں مشرق و مغرب مبتلا تھے انہوں نے [حضرت]محمد[ﷺ] کی مدد کی۔وہ حالات، جو کہ اب جا چُکے ہیں، یہ شورشیں[اس کی مراد اسلام سے ہے]بھی اپنے ساتھ ہی لے کر جا چکے ہیں۔آج ہم فخر کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ صورتحال مکمل طور سے تبدیل ہو چکی ہے۔ہماری وزارت اور دیگر عیسائی حکومتوں کے عظیم کاموں اور محنت کی وجہ سے آج مسلمان زوال کا شکار ہیں۔جبکہ عیسائی، دوسرے ہاتھ پر عروج کی طرف گامزن ہیں۔اب وقت آچکا ہے کہ ہم اُن مقامات کو دوبارہ حاصل کریں جو کہ ہم نے صدیوں میں کھو دئیے۔اس مقدس فریضے [یعنی اسلام کے خاتمے]کی ابتداء حکومتِ برطانیہ کرتی ہے‘‘۔اس پوری بات سے اپنے مطلب کی بات سمجھنا آپ پر ہے۔ مقصد صرف یہاں ا س کا اشارہ کرنا تھا۔ بات ضمناً ہوئی تھی لارنس آف عریبیا کی، تو ان صاحب کے بھی ’’کارہائے نمایاں ‘‘سن لیجئے۔ اس کو حکومتِ برطانیہ کی جانب سے تین ذمہ داریاں دی گئیں کہ جن میں سے دو بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
    ۱۔ مسلمانوں کی وحدت کا سبب عشقِ مصطفیﷺٰ ہے، ان کے دلوں سے اس محبت کو ختم کیا جائے۔
    ۲۔ خانہ کعبہ مسلمانوں کی عبادت کا مرکز ہے، اس کو کسی طریقہ سے [نعوذباللہ] منہدم کروا دیا جائے۔
    پہلی ذمہ داری تو اس نے بہت بخوبی نبھائی اور قرآن اور سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سے لوگوں کو گمراہِ زمانہ کیا اور لالچِ مال و متاع اور حکومت دے کر وہاں بزورِ شمشیر و سناں عشاقِ مصطفیٰ ﷺکے خون سے ہولی کھیلی۔البتہ دوسری تجویز کو ماننے سے اُس نے انکار کر دیا کہ یہ تجویز ناقابلِ عمل ہے۔پہلی تجویز پر جو عمل کیا گیا اور کروایا گیا اُسی کی کڑی ہے کہ آج ’’آزادیء اظہار‘‘ توہینِ مذہب کی سب سے بہترین تاویل بن چکی ہے۔بات بات پر اسلام اور آنحضور ﷺ کی عصمت پر حملے ان کا شعار بن چکے ہیں ۔ ان کا یہی شعار ان کے لئے ایک میٹرکا بھی کام دیتا ہے کہ جس سے یہ اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ مسلمانوں کی حمیت و غیرتِ دینی میں کمی پیشی ہوئی یا نہیں۔ ایک تیر سے دو شکار کے مترادف، گستاخیاں کر کے معصوم تاویلیں تو کوئی ان سے کرنا سیکھے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے کہ لارس ولکز نامی ایک ملعونِ زمانہ شخص [اس نے سویڈن کے ایک مقامی اخبار میں گستاخانہ خاکے شائع کروائے]، کہ جس کے چہرے سے ہی گستاخی کی پھٹکاربرستی ہے، پر اُپسالا یونیورسٹی ، برسلز میں آنحضورﷺ کی شان میں گستاخانہ فلم دکھانے پر مسلمان طالبِ علم نوجوانوں نے حملہ کیا اور بعد ازاں یونیورسٹی انتظامیہ کو پوری بات کا علم ہونے پر اس پر لیکچر دینے کی پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی ملعون نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کوئی ان خاکوں کوپسند نہیں کرتا تو انہیں نہ دیکھے اور اگر کوئی دیکھتا بھی ہے تو وہ انہیں ذاتیات کی جانب نہ لے جائے‘‘۔ یعنی ڈھٹائی اور بے شرمی کی حد بھی نہ رہی کہ جس کا خیال رکھا جاتا اور مسلمانوں کے جذبات کو مدنظر رکھ کر بات کی جاتی۔ توقصہ مختصر یہ ملعون"گیرٹ ولڈرز" کی جانب سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروانے کا اعلان،بذریعہ ای میل بھیجے جانے والے خاکوں کی شمولیت اور اُن کو سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اور یہ سب کس بنا پر کیا جا رہا ہے؟ جی ہاں اُسی ’’آزادیء اظہار‘‘ کے فرسودہ اور گھسے پٹے نعرے پر۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ زمین پر موجود دوسرے بڑے مذہب کے پیغمبر ﷺ کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے اور انصاف کے وہ بین الاقوامی ادارے کہ جو انسانی اقدار کے اعلیٰ ترین مقامات پر فائز ہونے کے دعوے کرتے ہیں ،خاموش رہیں؟ واللہ ہم مسلمانوں پر یہ بہت کٹرا وقت ہے کہ آج ناموسِ رسالت ﷺ کے لئے کھڑے نہ ہوئے تو پھر قیامت کے دن اپنے مکرم و محمود نبی ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ سوچئے اس سے پہلے کہ وقت کی ریت ہماری مٹھی سے پھسل جائے اور ہم خالی ہاتھ رہ جائیں۔ کیا مسلم ممالک میں اتنی بھی غیرت و حمیت باقی نہیں کہ جو اس گستاخانہ عمل کے رد میں کوئی مشترکہ مذمت ہی جاری کر دے۔اور دنیا کو بتا دے کہ ہم زندہ قوم ہیں اگر کسی نے ہمارے مذہب پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اُس کو اس عمل کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں