1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مذہب سے متعلق ہمارے مختلف عوامی رویّے

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏8 اگست 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مذہب سے متعلق ہمارے مختلف عوامی رویّے

    مذہب کے ساتھ لگاؤ ہر انسان کا فطری خاصہ ہے البتہ اس لگاؤ کی کیفیت اور مقدار میں واضح فرق ہے۔ اسی کی بنیاد پر انسان کا ایک خاص رجحان اور رویّہ پنپتا ہے جس کا اظہار شعوری و لاشعوری طور پر صادر ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے ہاں مذہب سے متعلق مختلف قسم کے رویّے دیکھنے میں آتے ہیں جن کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے۔

    ان رویوں کی بنیاد پر عوام الناس کو مندرجہ ذیل طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:


    1. عام مسلمان
    2. فرقہ پرست جنونی
    3. "ملنگنی داتا دی"
    4. اعتدال پسند
    5. لبرل
    عام مسلمان
    سب سے پہلا اور واضح طور پر نظر آنے والا رویّہ عام مسلمانوں کا ہے۔ عام مسلمان سے میری مراد ایک ایسا شخص ہے جسے عرف عام میں "دنیا دار" کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کے پاس دین کی بنیادی باتوں کا علم بھی بس گزارے لائق ہی ہوتا ہے۔ یعنی یہ لوگ اگرچہ نماز روزہ اور حج زکٰوۃ وغیرہ کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن ان عقائد و عبادات وغیرہ کے علمی پس منظر سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ہٹ دھرم نہیں ہوتے بلکہ سادہ لوح بھولے بھالے مسلمان کہلاتے ہیں جنہیں خود اپنے مسلک کے بارے میں بھی کچھ خاص معلومات نہیں ہوتی۔ یہ لوگ بنیادی اور لاشعوری طور پر "حسنِ ظن"کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ کون سا مسئلہ کس قسم کے عالم یا کس مکتب فکر کے عالم سے پوچھنا ہے۔ بلکہ یہ تو اپنے مسلک سے ہمدردی کے باوجود دیگر مسالک کے حوالے سے بھی دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور "سبھی کو اور سبھی کی" سن لیتے ہیں۔ اس کو مثال سے سمجھنا چاہیں تو سنیں، میں نے اپنے ایک عزیز سے کہا کہ ہم حنفی ہیں، جواباً اس نے کہا کہ "لو یہ حنفی کیا ہوتے ہیں، ہم تو مسلمان ہیں، تم نے کب سے مذہب بدل لیا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ "افطاری کے وقت ٹی وی پر ایک سلائیڈ لکھی آتی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق روزہ فلاں ٹائم پر کھلے گا اور فقہ جعفریہ کے مطابق فلاں ٹائم پر" تو صاحب کہنے لگے کہ "ہاں ہم تو روزہ فقہ حنفیہ کے مطابق کھولتے ہیں"، عرض کی "تو بھائی ہم حنفی ہوئے ناں؟"

    مولانا طارق جمیل صاحب اس طبقے کے "فیورٹ" عالم دین ہیں۔ اور عموماً ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے سیاست میں آنے پر سب سے زیادہ یہی طبقہ تنقید کرتا ہے کیونکہ ان کی "دوڑ" یہیں تک ہے۔ ایسے لوگ سرکار ی و نجی دفاتر، ہر گلی محلے، بازار، کھوکھے، کریانے، بلکہ ہر گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

    فرقہ/ مسلک پرست جنونی

    دوسرا رویّہ مسلک پرست جنونیوں کا ہے۔ مسلک پرست جنونی دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی نمایاں ترین علامت یہ ہے کہ ان کے پاس جنت اور جہنم کے ٹکٹ ہوتے ہیں۔ یہ ایک منٹ میں کسی بھی شخص کو جہنم کا پروانہ بھی جاری کر سکتے ہیں اور کسی بھی بات پر جنت الفردوس کے نظارے بھی کروا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو جنت الفردوس کا ٹکٹ مل چکا ہے اور کسی بات پر آپ ان جنونیوں سے اختلاف کر بیٹھے ہیں یا کوئی صحیح بات، جو آپ کے منہ سے نکل گئی اور جو ان کی سمجھ میں نہ آئی، تو مت سمجھیے کہ ابھی تک آپ جنت کے حقدار ہیں۔ لگے ہاتھ یہ بھی بتا دوں کہ یہاں مسلک اور فرقہ کو میں نے ہم معانی الفاظ اور متبادل کے طور پر استعمال کیا ہے، مجھے فتویٰ نہیں لگوانا۔عموما یہ لوگ اپنے مسلک کی کسی نمایاں شخصیت کے گرویدہ ہوتے ہیں اور اس ہستی کے خلاف کسی جائز بات کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے چہ جائے کہ آپ کی بات پر غور فرمائیں۔ یعنی ان کے مزاج میں اپنے مسلک کی حمایت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ذہن میں دین کا ایک امیج سیٹ کر رکھا ہے، جو ان کی ذاتی ایجاد ہے، جو رنگ بھی اس امیج میں جچتا نہیں، یہ لوگ اسے فورا مٹا دینا چاہتے ہیں۔ان کے ساتھ اگر دوسرے مسالک کی کسی شخصیت کے حوالے سے بات کی جائے تو اس شخص کے خالصتاً ذاتی افعال کو بھی اس کے مسلک کی تعلیم قرار دے کر اس کے اور اس کے مسلک کے خلاف بھرپور جہاد کرتے ہیں، لاشعوری طور ان کے اذہان پر یہ وہم حاوی ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے اپنے فرقے کے بڑے علماء جو اس دنیا سے کوچ فرما چکے، ان کو براہ راست دیکھ رہے ہیں، خوش ہو رہے ہیں اور آخرت میں ان کو بخشوا کر اپنے ساتھ جنت الفردوس میں لے جائیں گے۔ان کے پاس مخالف مسلک کے خلاف اتنا زیادہ مواد ہوتا ہے کہ اگر اتنا مطالعہ یہ کسی تعمیری موضوع پر فرما لیتے تو آج امت کہا ں سے کہاں ہوتی؟

    تیسرا رویّہ ملنگ طبیعت تصوّف پرستوں کا ہے

    تصوّف کے حوالے سے مجموعی طور پر قوم میں چار طرح کے رویّے پائے جاتے ہیں:

    پہلے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو تصوّف کی ابجد تک سے واقف نہیں، البتہ وہ صوفیاء اور اولیا ء اللہ کی تہہ دل سے عزت اور احترام کرتے ہیں اور ان کے دامن سے وابسطہ رہنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے رویّے کے تحت کیا گیا ہے۔


    دوسرے وہ لوگ ہیں جو تصوّف کو شیطانی کھیل قرار دیتے ہیں۔


    تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو تصوّف کا اچھا خاصا مطالعہ رکھتے ہیں اور پڑھ لکھ کر اور تحقیق کے بعد اس طرف جھکاؤ ظاہر کرتے ہیں اور تصوّف کو، جیسا کہ وہ ہے، لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ "پڑھے لکھے" صوفی کہلاتے ہیں۔


    تصوّف سے متعلق چوتھا اور اہم ترین رویّہ "ملنگوں" کا ہے۔ ان کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا، کوئی مسلک، کوئی مکتب فکر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اہل علم کو حقیر جانتے ہیں اور اہل تصوف، خصوصاً چرسی بھنگی شرابی پلید بابوں کے پرستار ہوتے ہیں۔ کسی صوفی شاعر کا شعر یا کسی بزرگ کا کوئی مبہم شعر ہی ان کا کل اثاثہ حیات ہوتا ہے۔ کر کرا کر کہیں نہ کہیں سے یہ لوگ اس شعر کو ہر معاملے میں گھسیٹ ہی لاتے ہیں اور اس سے اپنے مردود اوہام کو جواز فراہم کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زلفوں، ہاتھوں پاؤں میں "مُندریوں"، اور ڈریسنگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان میں جو ذرا سلجھے ہوئے لوگ ہیں، وہ اپنی گفتگو کے ابتدائی جملوں سے فورا پہچانے جا سکتے ہیں بشرط یہ کہ آپ مردم شناس واقع ہوئے ہوں۔ دنیا و آخرت میں ان کا ایک ہے نعرہ مستانہ ہے، "علی داملنگ" یا "ملنگنی داتا دی"، اور یہ "ملنگ پُنا" ان کے لیے باعث فخر ہے کیونکہ لاشعوری طور پر یہ لوگ اولیاء اللہ کی تعلیمات پر عمل سے زیادہ ان کی پرستش کو اہمیت دیتے ہیں۔


    چوتھا رویّہ اعتدال پسندوں کا ہے
    جس طرح فرقہ پرست جنونی ہر مکتب فکر میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح ہر جماعت میں ایک اعتدال پسندگروہ بھی موجود ہوتا ہے جس سے مسلک بیلنس رہتا ہے۔ اعتدال پسند لوگوں کی نمایاں علامت یہ ہے کہ یہ لوگ جذباتی نہیں ہوتی کیونکہ یہ لوگ تمام مسالک نہ سہی، کم از کم اپنے مسلک کا تو خوب مطالعہ رکھتے ہیں اور گاہے بگائے دیگر مسالک کے علماء کی کتب پر بھی نظر دوڑاتے رہتے ہیں جس سے یہ اختلافات اور معاملات کو ان کی جڑ سے پکڑ سکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس طرح ان کے جذبات کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا اور نتیجے میں ان لوگوں کا مزاج "ٹھنڈا" ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں انہیں "ٹھنڈا مولوی" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ فرقہ پرست جنونیوں کی طرح متعصب نہیں ہوتے بلکہ اپنے عقیدے کو چھوڑتے نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑنا وقت کا ضیائع سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی وقت اگر مطالعہ یا کسی تعمیری کام میں صرف کیا جائے تو اس سے مسلمانوں کی حالت زار پر کسی طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ مسالک کو قریب لانے اورفروعی قسم کے اختلافات کو کم سے کم اور ختم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب ان کا ٹاکرا اپنے ہی مسلک کے کسی جنونی سے ہو جائے اور یہ جنونی صاحب کو کوئی مسئلہ شرعی اصولوں کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کریں تو مسٹر جنونی انہیں فوراً اپنے مسلک سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ بسا اوقات تو انہیں "صلح کلی" کا لقب دے کر ویسے ہی گمراہ ثابت کر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ امّت میں اصلاح چاہتے ہیں، لوگوں میں دینی شعور کو علمی سطح پر اجاگر کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمام مسلمان دیگر مسالک کے مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں نرمی اور گنجائش پیدا کر لیں۔ عموماً یہ لوگ اپنے مسلک کے علمائے کرام کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

    "موم بتی مافیا"
    پانچواں رویّہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کا ہے جو اپنے زعم میں بڑے طرم خان بنے پھرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اگر ان سے وضو کے فرائض کے بارے میں پوچھ لیا جائے تو "سورۃ مولوی" کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں۔ "مولوی" کے ساتھ ان کا بیر تاریخی نوعیت کا ہے۔ یہ کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مولوی پر تنقید کرنا نہیں بھولتے، بلکہ ان کے نزدیک تو اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کوئی میچ ہار جائے تو اس کا ذمہ دار بھی مولوی ہے۔ یہ لوگ علماء اور دینی مزاج رکھنے والوں کو قدامت پرستی کا طعنہ دینے دیتے ہیں، خود کو روشن خیال سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کی دگر گوں صورتحال اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا ذمہ دار بھی مولوی کو گردانتے ہیں، جیسے دنیا کے تمام کام مولویوں ہی کو کرنا ہیں۔ گویا یہ لوگ تو خلائی سفر کے لیے رخت سفر باندھ چکے ہیں مگر مولوی نے ان کو ٹانگوں سے پکڑ رکھا ہے !

    ان لوگوں کے لیے مذہب کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ مذہب کو اپنی عقل کی ترازو میں تولنے کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین ویسا ہو جیسا یہ چاہتے ہیں۔ان کی جنت مغرب میں ہے اور حوریان یورپ ہی ان کی تمام کوششوں کا ماحصل ہیں۔ان میں سے بعض شدت پسند لبرلز تواس قدر بے باک ہیں کہ کافر سائنسدانوں کے ناموں کے ساتھ دعایہ کلمہ "رضی اللہ تعالیٰ عنھو" لگاتے ہوئے بھی کوئی شرم کوئی حیا محسوس نہیں کرتے، بلکہ پوری طرح دینی غیرت سے دستبردار ہو کر ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


    تحریر: فیصل ریاض شاہدؔ
    7 اگست 2017
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں