1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مذہبی انتہا پسندی کا اصل ذمّے دار کون ہے؟؟؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سموکر, ‏20 اگست 2006۔

  1. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    مذہبی انتہا پسندی کا اصل ذمّے دار

    مذہبی انتہا پسندی کا اصل ذمّے دار کون ہے؟؟؟,,,,رابعہ علوی
    ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میری ایک نہایت قریبی رشتے دار خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ”کیا تم کسی ایسے شخص سے واقف ہوجو صحیح اور صائب طبّی مشورہ دے سکے؟“ان کی آواز میں پوشیدہ تعجّب اور عجلت کو دیکھتے ہوئے میں نے اُن سے پوچھا”کیا آپ کے ملنے جلنے والوں میں سے کسی کو علاج کی ضرورت در پیش ہے“؟میری زبان سے یہ سنتے ہی وہ خاتون زارو قطار رونے لگیں اور مجھے بتایا کہ اُن کے نو عمر بیٹے نے یکایک اسکول جانا بند کر دیا ہے!جب انہوں نے اپنے بیٹے سے اسکول نہ جانے کی وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا”میں اب کسی اسکول میں پڑھنا نہیں چاہتا۔مجھے دینی مدرسے میں داخل کرادیں۔اب میں فلسطین،عراق اور لبنان میں اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑنا چاہتا ہوں“۔نو عمر بیٹے کے والدین اس کی زبان سے یہ باتیں سن کر حیران اور پریشان ہو گئے کیونکہ ان دونوں کو ایک لمحے کیلئے بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ ان کے بیٹے کا رجحان دینی اور مذہبی تعلیم کے حصول کی جانب ہے۔ان کا خاندان عام سے اعتدال پسند مسلمان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے کبھی خیال وخواب میں بھی کسی کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بارے میں نہیں سوچا ہوگا! مجھے یہ بات یاد آئی کہ گزشتہ ہفتے میرے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے ایک ساتھی نے بتایا تھا کہ ایک ایسے ہی نوجوان نے اچانک اسکول جانا بند کر دیاتھا کیونکہ وہ بھی اسی طرح کی زندگی بسر کرنے کا خواہشمند تھا۔دونوں واقعات میں فرق تھا تو اتنا کہ یہ نوجوان اپنے خاندان سے برگشتہ ناراض ہو کر چلا گیا تھا کیونکہ اس کے والدین نے اس کے عقائد مسلک اور نقطہ نظر کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔اب یہی نوجوان کسی دینی مدرسے میں داخل ہو کر جنگی تربیت حاصل کرنے میں مصروف ہے تاکہ عراق جا کر اتحادی افواج سے لڑ سکے! میری ایک دوست نے جو بچوں کی نفسیات کے بارے میں خاصا علم رکھتی ہے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ ایسے بچّے جنہیں ان کے والدین اور افرادِ خانہ کی جانب سے کسی قسم کی حوصلہ افزائی یا تحسین و ستائش حاصل نہیں ہوتی اور اُن کے کارناموں کو قابلِ تعریف نہیں سمجھا جاتا،ایسے محروم بچّے بالعموم اپنی زندگی کو کسی اور سانچے میں ڈھال لیتے ہیں جو ان کیلئے ایک متبادل طرزِ زیست کاکام دیتا ہے۔مثال کے طور پر وہ منشیات کا استعمال کرنے لگیں گے،گروہی لڑائیوں میں ملوث ہو جائیں گے یا پھر کسی ایسی انتہا پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کر لیں گے جسے ہمیشہ ایسے ہی مایوس اور محروم نوجوانوں کی تلاش رہتی ہے لیکن تعجب اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اوپر بیان کئے گئے اسباب کا اطلاق اُن دونوں مذکورہ نوجوانوں میں سے کسی پر بھی نہیں ہوتا جن کے بارے میں آپ کو بتا چکی ہوں۔یہ دونوں نوجوان برطانوی یونیورسٹیوں سے میڈلیز،قانون اور بزنس کی ڈگریاں حاصل کرنے کی غرض سے اپنے تعلیمی مراحل سے گزر رہے تھے۔چنانچہ آپ ان دونوں کو کسی بھی صورت میں ایسے تنگ نظر نوجوانوں پر محمول نہیں کر سکتے جو ہر قسم کی آزادی اور تحمّل و برداشت سے نفرت کے عادی ہوتے ہیں۔میں سوچنے لگی پھر وہ کیا وجوہ تھیں کہ یہ دونوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان طلباء ایک بالکل ہی مختلف اور متضاد اسلوبِ حیات کی جانب راغب ہو گئے؟ میرے خیال میں اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مزید بے وقوف بناتے ہوئے خود فریبی کے اسیر نہ رہیں۔ایک جانب تو ہمارے بچوں کو یہ سکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکا ہی ہے جس نے پوری دنیا کو ایک غیر منصفانہ عالمی نظام کے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔مغرب کے جانبدار اور متعصب ذرائع ابلاغ امریکی تاریخ اورامریکی خارجہ پالیسی میں مضمر منافقت اور ریاکاری کو چھپانے کی لاکھ کوشش کر لیں لیکن ہمیں انٹرنیٹ کا شکر گزار ہونا چاہئے جس نے امریکا کے حوالے سے تمام برہنہ حقائق ہماری آنکھوں اور ہماری فہم پر روشن کر دیئے ہیں۔اب انٹرنیٹ کی بدولت بچوں کو بھی اس حقیقت کا علم ہو چکا ہے کہ صحیح اور سچی خبریں کہاں سے مل سکتی ہیں؟اب وہ کھلی آنکھوں سے تمام حقائق کو نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ کتنے شہری جنگ کے دوران ہلاک ہوئے،کتنے گھر اور مکانات مسمار کئے گئے۔پانی،بجلی اور خوراک کی عدم فراہمی شہریوں پر کیسے کیسے عذاب نازل کرتی ہے؟اور سب سے بڑھ کر بے کسی اور بے چارگی کی یہ صورتحال جس سے نجات اور مفر کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ظاہر ہے مغربی ٹی وی چینلز پر یہ حقائق آپ کو ہرگز نظر نہیں آئیں گے۔ اسکولوں میں تعلیم کے دوران ہمارے بچوں کو اقوام متحدہ کے قیام اور اس کی اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔انہیں بتایا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اقوامِ متحدہ کے ادارے کی تشکیل کیوں ضروری تھی لیکن جب یہی بچے اسکول سے گھر واپس آتے ہیں ٹیلی وژن پر اسرائیلی طیاروں کو لبنان کے مختلف شہروں پر بمباری کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جس کے دوران لبنان کے پورے انفرااسٹرکچر کو مکمل تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ہمارے یہ بچے ایسے ہولناک اور تباہ کن مناظر دیکھ کر بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیں ”اقوام متحدہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے“ ”وہ یہ جنگ کیوں نہیں روک دیتی“ ہم اپنے معصوم بچوں کو کیسے بتائیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے پر منظور کی جانے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اُس وقت تک عملدرآمد ممکن نہیں جب تک امریکا کی آشیر باد حاصل نہ ہو۔یہی سبب ہے کہ اسرائیل ایسی کسی بھی قرارداد پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتا اور ایسی درجنوں قراردادوں کو مسترد کر چکا ہے کیونکہ اسے امریکی حکومت کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد القاعدہ جیسی انتہا پسند تنظیموں کے اقدامات اور سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی اس کی دہشت گرد پالیسیوں سے اتفاق کرتی ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے مسلسل اقدامات نے القاعدہ جیسی انتہا پسند تنظیموں کے عزائم کی مذمت کو پڑھے لکھے اور باشعور مسلمانوں کیلئے کافی دشوار بنا دیا ہے اور اسرائیلی کارروائیوں کے پیشِ نظر وہ القاعدہ کی حمایت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔چنانچہ حقیقت تو یہ ہے کہ غزہ اور لبنان پر ہونے والے حالیہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں انتہا پسند اسلامی تنظیموں کو خاطر خواہ ہمدردی اور حمایت حاصل ہوئی۔ دنیا کا کوئی بھی باشعور اور فہمیدہ شخص کسی بھی فرد یا تنظیم کی جانب سے کئے جانے والے انتہا پسندانہ اقدامات کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن امریکا کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل اور مستقل پشت پناہی کے نتیجے میں مسلمان بھی انتہا پسندی کی جانب مائل ہوتے جارہے ہیں۔چنانچہ یہ دیکھ کر قطعاً تعجب نہیں ہوتا کہ دنیا بھر کے مسلمان نوجوان بالخصوص انتہا پسند اور عسکریت پسند اسلامی تنظیموں کی جانب دیکھنے لگے ہیں اور انہی سے فیضان حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اب وہ کسی سفارتی ذریعے پر مزید اعتماد اور بھروسہ نہیں کر سکتے لہٰذا اس قسم کی ناانصافیاں اگر ہمارے بچوں کو اس بات پر مجبور کردیں کہ وہ اپنی پُر تعیش زندگی کو ترک کر کے اپنے ہم عقیدہ اور مصیبت زدہ مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیں تو اس میں تعجب اور حیرانی کی کیا بات ہے؟چنانچہ میرا سوال یہ ہے کہ آخر نام نہاد مہذب دنیا نے اُن کے پاس چھوڑا ہی کیا ہے جسے وہ ہار جائیں؟
    [align=left:3btctm3t]بشکریہ روزنامہ جنگ[/align:3btctm3t]
     
  2. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جانتے تو سب ہیں مگر۔۔۔۔۔
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    جانتے تو سب ہیں مگر عمل کرنے میں ہم سب کے اپنے اپنے مفادات آڑے آتے ہیں، فرد کی سطح پر بھی اور معاشرے کی سطح پر بھی! مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی!

    مغرب نے تو اپنے قومی مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے ملکوں کو نشانہ بنانا ہی تھا، سوال یہ ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں!

    ہم نے ان کے وار کو قومی سطح پر کہاں تک سمجھا اور اس سے بچنے کے لئے کیا حکمتِ عملی اختیار کی!

    کیا قحط الرجال اس حد تک حاوی ہو چکا ہے کہ ساٹھ سے زیادہ ملکوں میں بکھری اس قوم میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو بے مقصدیت میں گھری قوم کو سوئے منزل رہنمائی دے سکے اور مہذب دنیا کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر سکے!

    یا ہماری بداعمالیاں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ اوپر والے نے ہماری مکمل تباہی کا فیصلہ کر رکھا ہے!
     
  4. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کاش !! ۔۔۔۔۔۔​
     
  5. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    خدا اس قوم کے قائدین کو درست فیصلوں کی توفیق دے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں