1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مدح حضرت مولا علی علیہ السلام

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از کاشفی, ‏22 مئی 2008۔

  1. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    [center:3vo6i0lr]بسم اللہ الرحمن الرحیم
    سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
    اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم


    شب ہجرت علی :as: نے بھی عجب خدمت گزاری کی
    ملک بھی جس سے حیراں ہو گئے وہ جاں نثاری کی

    تمارا اے علی مرتضی :as: واللہ کیا کہنا
    ادا کرتے ہیں یوں حق اُخوت واہ کیا کہنا

    جو بندے تابع حکم شہ ابرار :saw: ہوتے ہیں
    وہ یوں بیخوف مرنے کیلیئے تیار ہوتے ہیں

    جری و مرد میدانِ تہور ایسے ہوتے ہیں
    شجاعت اسکو کہتے ہیں بہادر ایسے ہوتے ہیں

    نبی :saw: کا سُن کے حکم پاک سیدھے اُن کے گھر آئے
    اگرچہ سامنے تھی موت لیکن بے خطر آئے

    کہیں آزردہ ہوسکتے ہیں‌مرد ایسی ملالوں سے
    وہ تھے شیر خدا کیا خوف کرتی ان شغالوں سے

    علی :as: کا مرتبوں کا حال کوئی اور کیا جانے
    جناب سرور کونین :saw: جانیں یا خدا جانے

    علی :as: سروردان گلشن رشدو ہدایت ہے
    علی :as: مولائے امت ہے علی :as: شاہ ولایت ہے

    علی :as: کی ذات والا وجہ فخر زہد و طاعت ہے
    علی :as: کا روئے انور دیکھنا عین عبادت ہے

    علی :as: وہ ہیں جنہوں نے چیر کر پھینکا ہے ازدر کو
    علی :as: وہ ہیں‌اکھاڑا ہے جنہوں‌نے باب خیبر کو

    علی :as: ہیں والد سبطین :as: و زوج حضرت زہراسلام اللہ علیہا
    علی :as: ابن ابی طالب ہیں‌داماد شہہ :saw: والا

    علی :as: وہ ہیں ‌جو ہیں یکتا فن تیغ آزمائی میں
    علی :as: وہ ہیں نہیں جن سا کوئی مشکل کشائی میں

    علی :as: دنیا کے مولا ہیں علی :as: امت کے والی ہیں
    علی :as: اعلیٰ و اکمل ہیں ‌علی :as: اولٰی و عالی ہیں

    نہ ملے گا علی :as: سا ایک بھی لاکھوں ہزاروں میں
    علی ہیں پنجتن میں‌ اور علی ہیں چار یاروں میں

    وہ ہیں‌خاص رسول حق :saw: ہے زینت ہر طرف ان سے
    ولایت کو ہے ان پر فخر امامت کو شرف ان سے

    علی :as: ہیں‌نفس پیغمبر علی :as: ہیں ساقیء کوثر
    علی :as: ہیں قاتل مرحب علی :as: ہیں فاتح خیبر

    علی :as: درجے میں‌اعلیٰ ہیں‌ علی :as: رتبہ میں‌بالا ہیں
    علی :as: مقبول درگاہ خداوند تعالیٰ ہیں

    علی :as: تھے اسقدر مقبول سرکار پیمبر :saw: میں
    کہا ہے طمک طمی علی :as: کی شان برتر میں

    کبھی اپنی روئے پاک اڑہا کر شاد فرمایا
    کبھی من کنت مولاہ سے اُن کو یاد فرمایا

    کبھی آشوب سخت چشم سے اُن کو اماں بخشی
    کبھی شمشیر یعنی ذولفقار جاں ستاں بخشی

    ذرا دیکھئے تو کوئی کیا معظم کیا مؤقر ہیں
    نبی :saw: ہیں شہر علم اور مرتضی :as: اُس شہر کی در ہیں

    یہ مانا اُن کا درجہ اس سے اعلیٰ اس سے اونچا ہے
    یہ اُن کی مدح میں‌پھر بھی کسی نے خوب لکھا ہے

    علی :as: کا نام بھی نام خدا کیا راحتِ جاں ہے
    عصائے پیر ہے تیغ جواں ہے حزر طفلاں ہے

    علی :as: ہیں‌اہل بیت مصطفی :saw: میں‌یہ روایت ہے
    وہی ہے مومن کامل جسے اُن سے محبت ہے

    خدا کے گھر میں‌پیدائش ہوئی جنکی علی :as: وہ ہیں
    سخی وہ ہیں غنی وہ ہیں‌ جری وہ ہیں ‌ولی وہ ہیں


    اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم[/center:3vo6i0lr]
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    [center:1qki0i18]نہ ملے گا علی سا ایک بھی لاکھوں ہزاروں میں
    علی ہیں پنجتن میں‌ اور علی ہیں چار یاروں میں


    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم[/center:1qki0i18]
     
  3. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    یا علی مولا مدد
     
  4. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ۔۔
     
  5. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    حصرت علی کی شان کے کیا کہنے-
     
  6. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جزاکم اللہ خیر کاشفی بھائی
    میرے مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ایک اک شان نرالی ہے
     
  7. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    کیوں نہیں یوں ہی تو خارجیوں نے آپ کو الہویت کا درجہ نہیں دے دیا تھا کوئی شان تو دیکھی ہو گی!
     
  8. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    محترم سیف صاحب۔ ہماری اردو کے پورے اسلامی سیکشن میں ماشاءاللہ آپ دوسروں پر طعن و تنقید کی بجائے"مثبت فکر" کے فروغ پر وعظ فرماتے ہیں۔ کل ہی آپ نے آبی ٹو کول کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا تھا
    پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان کی لڑی میں آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں کیا لفظ لکھا ہے ؟ کچھ لکھ سکتے ہیں آپ ؟
    اوپر جو دو لفظ آپ نے لکھے ہیں اس میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نام مبارک کے ساتھ آپ کو "رضی اللہ عنہ" یا "کرم اللہ وجہہ" تک لکھنا نصیب نہیں ہوئے۔ اور اگلے ہی پیغام میں ایک نئی بحث کا پنڈورہ بکس کھولنے کی کوشش کر دی ہے آپ نے۔
    اس سے پہلے وسیلہ کے جواز کی لڑی میں بھی آپ نے ایسا ہی کچھ کیا تھا۔ جب مستند دلائل کے ساتھ وسیلہ کا جواز ثابت ہو گیا۔ تو آپ نے کمال معصومیت سے متعلقہ موضوع سے براءت کا اظہار فرما دیا۔
    کیا یہ سب چسکے لینے کے لیے کرتے ہیں ؟ یا کسی خاص "موضوع" سے توجہ ہٹانے کے لیے اس شخصیت، ہستی یا موضوع پر بحث شروع کروا دیتے ہیں ؟
     
  9. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    [center:1sfkbwb2]علی رض ہیں‌اہل بیت مصطفی ص میں‌یہ روایت ہے
    وہی ہے مومن کامل جسے اُن سے محبت ہے
    [/center:1sfkbwb2]
    بالکل حق فرمایا۔ حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی محبت و تکریم سے عاری دل ، سوائے منافقت خانے کے اور کچھ نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ وعنھم تو منافقین کی پہچان ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لے کر کرتے تھے۔ جس کے چہرے پر مولا علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر خوشی آجاتی ، سمجھ جاتے وہ مومن ہے۔
    اور جس کے چہرے پر تنگی، کڑواہٹ، بغض و عداوت، تکلیف و پریشانی کے آثار نمایاں ہوجاتے (جیسے آج بھی کچھ کلمہ گو حضرات کے چہروں پر ذکرِ و فضائلِ علی رضی اللہ عنہ سے تکلیف کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور انکی توانائیاں اس موضوع سے توجہ ہٹانے کے لیے فوراً حرکت میں آجاتی ہیں) صحابہ کرام رضوان اللہ علھم سمجھ جاتے کہ یہ منافق ہے۔

    [center:1sfkbwb2]جس کے مصطفیٰ ص مولا ہیں
    اسکے علی رض بھی مولا ہیں
    (مفہومِ حدیث)[/center:1sfkbwb2]
     
  10. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    حصرت علی رضی اللہ تعالی کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالی نہ لکھنا سہوا" تھا جس کے لیے میں بے حد معذرت خواہ ہوں-

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر عم اور رفیق اور ان کے ہم پیالہ و ہم رکاب اور آپ کے داماد ہونے کا شرف حضرت علی رضی اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ میری کیا اوقات کہ ان کی شان مبارک میں کوئی بات سوچ بھی سکوں میں تو ان کے قدموں کی خاک کی برابری کا بھی نہیں سوچ سکتا کجا کہ ان کی شان میں کچھ کہوں یا سوچوں۔

    البتہ میں صرف اللہ ہی کو مشکل کشا مانتا ہوں حضرت علی رضی اللہ کو نہیں اور نہ ہی میں ان رضی اللہ تعالی کو مولا کہتا ہوں کہ میرے نزدیک مولا کریم ایک ہی ہے۔ یہ میرے ذاتی عقائد ہیں آپ کو نہ تو اس کے لیے قائل کررہا ہوں اور نہ ہی ان پر بحث کا دروازہ کھولنا چاہتا ہوں۔

    وسیلے والے موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے وہاں بھی یہی کہا تھا اور آج بھی یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالی دعا کے لیے کسی وسیلے کی محتاجی نہیں رکھتا البتہ وسیلے سے کلیتا" منکر بھی نہیں ہوں۔ جائز اور موجود وسیلہ کا توسط درست مانتا ہوں۔

    بحث کے دروازے آپ جیسے بھائی اکسا اکسا کر کھولتے ہیں اور ضعیف و وضعی احادیث کے حوالے سے اپنا دین بھی خراب کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کا بھی۔ مجھ پر یہ الزام اور اتہام ہے۔

    اپنے ذہن میں ایک خاص تاثر رکھ کر اور تعصب کی روشنی میں کسی بھی بات کو دیکھا جائے تو ہر بات غلط لگے گی اور آپ ایسا ہی کر رہے ہیں (مجھے ایسا لگتا ہے۔)
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سیف بھائی ۔ معاف کیجئے گا ۔
    میری بھی آپکے بارے میں یہی رائے آپکے دعویٰ ہائے غیرجانبداریت کے باوجود قائم ہو چکی ہے۔ اور اپنی تحاریر سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں۔
    ہر انسان کا دین اسلام کے حوالے سے ایک نکتہء نظر ہوتا ہے۔ اور اس سے کلیتاً انکار ممکن نہیں اور آپ بار بار اظہار فرما بھی چکے ہیں کہ ضروری نہیں آپ یا کوئی اور "قائل" ہوجائے۔
    اس لیے یہ طعنہ یا نصیحت خود کو بھی کر لیجئے ۔ شکریہ
     
  12. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی مرضی ہے آپ کی ۔ ۔ ۔ دل کا حال تو اللہ یہ بہتر جانتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ غیر جانبداری صرف یہی ہوتی ہے کہ آپ کے عقائد کی تائید کی جائے تو پھر میں ضرور غلطی پر ہوں۔

    لیکن اگر میری کوئی ایک بات ایسی ہو جوآپ کے مخالف عقیدہ لوگوں سے مماثلت رکھتی ہو تو مجھے بھی ان ہی کی صف میں رکھ کر رائے قائم کر لینا انصاف کہلائے گا؟

    اگر اس کے باوجود بھی آپ کی رائے یہی ہے تو آپ مالک ہیں اپنی مرضی کے۔

    کیا یہ ضروری ہے کہ آپ کا جو موقف ہے وہی حرف آخر ہے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بھی کہیں نہ کہیں غلط ہوں یا غلط ہو سکتے ہوں۔

    کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کہیں نہ کہیں ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر طاہر القادری، ڈاکٹر غلام مرتضے، مولانا مودودی وغیرہ جیسے اسلامی سکالر بھی کوئی غلطی کر جاتے ہوں۔

    اگر کوئی بھی غلطی نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ یا دوسرے مکتبہ فکر کا سکالر ہی غلط ہوتا ہے تو پھر میں اپنی کم مائیگی، کم علمی، جہالت اور جانبداری کا اعتراف کرتا ہوں۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت علی رضی اللہ عنہ اھلِ بیت میں سے ہیں۔

    عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِيْ وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ھَذِہِ الْآيَہُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ) آل عمران : 61، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم عَلِيًّا وَ فَاطِمَہَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّھُمَّ ھَؤُلَاءِ اَھْلِيْ. رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.

    وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

    ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

    المسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابہ، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 5 / 225، الحديث رقم : 2999، احمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، النسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الحديث رقم : 8399، الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الحديث رقم : 4719.

    عَنْ صَفِيَہَ بِنْتِ شَيْبہَ، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَہُ رضي اﷲ عنہا : خَرَجَ النَّبِيُّ :saw: غَدَاۃً وَ عَلَيہِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ اَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی اﷲ عنھما فاَدْخَلَہُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی اللہ عنہ فَدَخَلَ مَعَہُ، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَۃُ رضی اﷲ عنھا فَاَدْخَلَھَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ فَاَدْخَلَہُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَھِرَکُمْ تَطْھِيْرًا). رَوَاہُ مُسْلِمٌ.

    ’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

    المسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل اھل بيت النبي، 4 / 1883، الحديث رقم : 2424، احمد بن حنبل في فضائل الصحابہ، 2 / 672، الحديث رقم : 1149، الحاکم في المستدرک، 3 / 159، الحديث رقم : 4707، و البيہقي في السنن الکبري، 2 / 149.

    جس کے سیدنا محمد مصطفیٰ :saw: مولا ہیں اسکے حضرت علی :rda: مولا ہیں

    عَنْ سَعْدِ بْنِ ابِي وَقَّاصٍ، قَالَ فِي رِوَايَہٍ سَمِعتُ رَسُوْلَ اﷲ :saw: يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعِليٌّ مَوْلَاہُ، وَ سَمِعْتُہُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، اِلاَّ انَّہُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِيْ،وَ سَمِعْتُہُ يَقُوْلُ : لَاعْطِيَنَّ الرَّايَۃَ الْيَوْمَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَہُ. رَوَاہُ ابْنُ ماَجَہَ وَالنَّسَائِيّ.

    ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

    ابن ماجہ فی السنن، المقدمہ، 1 / 45، الحديث رقم : 121، و النسائي في الخصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ، : 32، 33، الحديث رقم : 91.

    عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ :saw: فِي حَجَّتِہِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيْقِ، فَاَمَرَ الصَّلاََۃ جَامِعَہً، فَاَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضي الله عنه ، فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : أَلَسْتُ أوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : فَھَذَا وَلِيُّ مَنْ اَنَا مَوْلَاہُ، اللَّھُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاہُ، اللَّھُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاہُ. رَوَاہُ ابْنُ مَاجَہَ.

    ’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد آپ :saw: نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ (علی) ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

    ابن ماجہ في السنن،1 / 88، الحديث رقم : 116.

    عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ :saw: ذَکَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اﷲِ :saw: يَتَغَيَرُ، فَقَالَ : يَا بُرَيْدَةُ! أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِْن أَنْفُسِهِمْ؟ قُلْتُ : بَلَی، يَارَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مُوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْریٰ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

    ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں تنقیص کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمدنے اپنی مسند میں، امام نسائی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں اور امام حاکم اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘

    أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الحديث رقم : 22995، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 130، الحديث رقم : 8465، والحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4578
     
  14. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی

    ایک حدیث پڑھی تھی جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے سوا کسی کو مولا نہ کہنے کی ہدایت کی تھی حوالہ یاد نہیں کہیں لکھا تھا مل نہیں رہا مل گیا تو یہاں پوسٹ کر دوں گا۔ پھر اب یہ احادیث ہیں جن میں فرمایا گیا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔

    یہ تضاد میرے لیے بے حد پریشان کن ہے کیا اس کی وضاحت فرمائیں گے۔
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالی آپ کی پریشانیاں ختم فرمائے۔ آمین
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اوروں سے کیوں وضاحتیں مانگتے پھرتے ہیں ؟ اللہ تعالی ہی مولا ہے۔ وہی مددگار ہے۔
    پھر دوسروں سے سوال کیوں ؟
     
  17. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی اتنا غصہ کرنے کی کیا ضرورت ہے

    ایک ہی بات کی دو متضاد احادیث پر پریشانی ظاہر کی ہے لیکن آپ تو مجھ سے بھی زیادہ پریشان اور الجھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کی پریشانیاں اور الجھنیں دور کرے اور آپ کو دلی سکون اور اطمینان عطا فرمائے۔

    مجھے خوشی ہوئی کہ آپ بھی نے مان لیا کہ اللہ تعالی ہی مولا ہے۔ وہی مددگار ہے۔ آپ یقین کریں مجھے اس یقین کے لیے کسی وضاحت کی ٍضرورت نہیں میرا تو ایمان ہی ہے کہ اللہ تعالی ہی مولا ہے۔ وہی مددگار ہے۔
     
  18. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    نعیم صاحب کا سوال غیر منطقی نہیں ہے۔
    بلکہ آپکے "دعویء ایمان" کا امتحان ہے۔ دراصل انہوں نے " 3 سوال ایک جواب" والی لڑی کے انداز میں آپکا جواب دیا ہے۔
    کہ بے شک اللہ تعالی کی ذات ہی ساری کائنات کی خالق و مالک مطلق ہے۔ ہر عطا اسی کے خزانہء کرم سے آتی ہے۔ لیکن اس نے تقسیم کنندگان ضرور مقرر فرما رکھے ہیں۔ اب مالک کی مرضی ہے ۔ خود بھی عطا فرماتا ہے اور اپنے تقسیم کنندگان بندوں کے ذریعے بھی عطا فرماتا رہتا ہے۔
    مثال کے لیے اللہ تعالی رحیم مطلق ہے۔ لیکن اس نے "وما ارسلنٰک الا رحمت اللعلمین" کا تاج اپنے محبوب نبی اکرم :saw: کے سر پر سجا کر کائنات ارض و سما میں رحمتیں بانٹنے والا بنا دیا۔
    اور پھر ایک حدیث پاک :
    "انما انا قاسم واللہ یعطی" بےشک میں تو تقسیم کنندہ ہوں ۔ عطاکرنے والا اللہ پاک ہے۔
    یہ سب عطا کر کے اللہ تعالی نے اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما دیا
    "10. وَاَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْO (سورہ الضحیٰ)" اور اے محبوب ! اپنے در کے کسی منگتے کو مت جھڑکیں (بلکہ اسکی جھولی بھر کے اسے بھیجیں)۔
    پھر اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمادیا کہ "جس کا میں مولا (دوست و مددگار ) ہوں اسکا علی (کرم اللہ وجہہ) بھی مولا ہے"۔
    اب حضور :saw: کے در سے رحمت مانگنے والا بھی دراصل یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ
    "اے میرے آقا :saw: ! اللہ تعالی نے آپ کو رحمتوں کے جو خزانے عطا فرمائے ہیں ۔ مجھ منگتے کو بھی اس میں سے کچھ عطا فرما دیں۔"
    یا پھر
    "اے آقا :saw: ! اللہ تعالی نے اپنے کنز العطاء میں سے جو کچھ تقسیم کرنے والا بنایا ہے۔ اس میں سے کچھ خیرات ہمیں عطا فرما دیں"
    اسی طرح اگر کوئی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے علم و حکمت اور فضل و کرم کی خیرات مانگتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالی کے عطا کردہ خزانوں ہی سے مانگ رہا ہوتا ہے۔
    اسی طرح درجہ بدرجہ آگے آتے جائیں تو تحصیل علم کے لیے اساتذہ کرام کے سامنے بھی سوالی بنا جاتا ہے۔ وہ بھی اللہ تعالی کے عطا کردہ علم و فضل سے آگے تقسیم کرتے ہیں۔
    اسی طرح رب العلمین پالنے والا، پرورش فرمانے والا فقط اللہ رب العزت ہے ۔ لیکن ماں باپ کو بھی بچے کی پیدائش و پرورش کی ذمہ داری تقسیم کر دی گئی ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں دعا کی تلقین بھی کی گئی تو ان الفاظ میں :
    وَقُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
    اور (اﷲ کی بارگاہ میں ) عرض کرو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo ( بَنِيْ اِسْرَآءِيْل ، 17 : 24)
    اس دعا میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے لیے بھی لفظ "رب" فرمایا ہے اور کما ربّیانی میں (جیسا کہ انہوں نے مجھے پالا) میں بھی لفظ "رب" کا مادہ استعمال ہوا ہے۔
    یہ بھی اللہ تعالی کا ہی وضع کردہ نظامِ تقسیم ٹھہرا ۔ جس سے ہم کسی صورت باہر نہیں جاسکتے۔
    اس لیے میں نعیم صاحب کے موقف کی تائید اس حوالے سے کروں گی کہ اگر آپ فقط اللہ تعالی ہی کو مشکل کشا مانتے ہیں اور ہر مشکل میں وہی مدد فرمانے والا ہے تو پھر انہوں نے آپ سے بالکل بجا کہا ہے کہ پھر اوروں سے وضاحتیں کیوں مانگتے پھرتے ہیں ۔ سیدھا اللہ تعالی سے اس مشکل کا حل طلب کر لیجئے۔
    لیکن اگر اس ذہنی خلفشار کو دور کرنے کے لیے آپکو کسی ایسے بندے کی (ضروری نہیں کہ نعیم صاحب ہی ہوں) مدد کی ضرورت پڑ گئی جو آپ سے بہتر علم رکھتا ہے اور اس نے آپ کی یہ مشکل دور کردی ۔ تو پھر ۔۔۔۔۔ ؟؟؟

    نعیم صاحب سے بھی التماس ہے کہ محترم سیف صاحب کی باتوں کا ذرا دھیمے لہجے میں جواب دیاکریں۔ :suno:
     
  19. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی اور آبی بھائی

    بے حد شکریہ جواب دینے کا

    میں اب نعیم بھائی یا آبی بھائی آپ جیسے پائے کا عالم تو ہوں نہیں

    سیدھی سادی بات ہے کہ اللہ جب رزاق ہے جبار ہے مولی ہے رب ہے تو پھر اس سے آگے کیا ہے

    علمی موشگافیاں اور منطقی بھول بھلیاں میں کیا جانوں

    آبی بھائی آپ کا ایک مرتبہ پھر شکریہ اور آپ نے بہت اچھے انداز میں بات کو سمجھایا ہے

    جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے ۔ ۔ ۔ یہ حدیث غالبا" ضعیف ہے اور اہل تشیع کی طرف سے آئی ہے کیونکہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ مولا صرف اللہ ہے تو پھر یہ تضاد تو نہیں رہنا چاہیے۔ دونوں میں سے ایک حدیث ہی درست ہو سکتی ہے۔

    جہاں تک بات تحصیل علم اور حقوق اولاد وغیرہ ہے تو یہ آپ ہی کے کہنے کے مطابق لازما" دوسروں سے متعلق ہے نہ کہ بذات خود رب کریم سے ۔ ۔ ۔

    جو یہ کہتے ہیں مولا علی مشکل کشا تو مجھے یہ کہنے میں الجھن ہوتی ہے کیوں کہ مولا کریم بھی اللہ ہے اور مشکل کشا بھی اللہ تو میں کسی مخلوق کو، چاہے اس کا مرتبہ کنتا ہی افضل کیوں نہ ہو، کیسے مولا اور مشکل کشا مانوں۔

    اللہ تعالی کہتا ہے کہ میں اپنے بندے کی بات سنتا ہوں اور اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہوں تو پھر کسی اور کو مشکل کشا کیوں مانوں

    کفار مکہ بھی تو اللہ کو مانتے تھے لیکن انہوں نے دوسرے امور بتوں کے سپرد کیے ہوئے تھے اور ان کے نزدیک ان کے بت بھی اللہ کے ہاں ان کے سفارشی تھے نیز کئی امور میں وہ مدد اور استعانت بھی بتوں سے مانگتے تھے

    ہم ہر نماز میں کہتے ہیں کہ یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں (اور کرتے رہیں گے) اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (اور مانگتے رہیں گے) تو پھر قول و فعل میں یہ تٍضاد کیا اللہ کے ساتھ مذاق نہیں؟

    نعیم بھائی جس طرح مرضی چاہیں جواب دیں میں برا نہیں مناتا کیونکہ ان کا مزاج حضرت شیخ عبد القادر جیلائی کی طرح جلالی ہے البتہ کبھی کبھار میں بھی ان ہی کے نقش قدم پر چل پڑتا ہوں جس کے لیے ان سے معذرت۔
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ویسے تین سوال ایک جواب والے حوالے سے اگر نعیم بھائی نے بات کی تھی تو میں سمجھ نہیں سکا تھا، اپنی کم علمی جہالت اور کم مائیگی کا پہلے ہی اظہار کر چکا ہوں

    البتہ یہاں پر یہ سوال جواب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر مجھ جیسے کسی دوسرے بھائی بہن کو بھی کوئی ایسی الجھن ہے تو وہ رفع ہو سکے۔

    نعیم بھائی تو بے حد ذہین ہیں اتنے کہ جو بات دوسرے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی اسے بھی جان لیتے ہیں اور جواب بھی اسی کا دیتے ہیں نہ کہ کیے گے سوال کا۔

    میری استدعا ہے کہ نعیم بھائی میرا مسلک اور فرقہ جو بھی سمجھتے ہوں اس سے قطع نظر میں نے کبھی فرقہ واریت کے حوالے سے بات نہیں کی اور یہ بات اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔

    یہ الگ بات ہے کہ میری کچھ گزارشات ایسی ہیں جو نعیم بھائی کے مسلک کے خلاف ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کے جوابات بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ رد فرقہ اور رد مسلک کے حوالے سے آئیں گے اور وہ یہ نہیں سوچ پائیں گے کہ اگر یہ بندہ سوال کر رہا ہے تو کیا اس میں حقیقت ہے یا نہیں، انہوں نے تو شاید اسے طنز یا نتقید کے حوالے سے لینا ہے۔

    آبی بھائی ایسا نہیں سوچتے اور اپنی حد تک مدلل اور معقول جواب بلکہ مقالہ عنایت فرماتے ہیں (اپنے نام کی لاج بھی رکھتے ہیں) ۔

    میں بہر حال دونوں بھائیوں کا مشکور ہوں اللہ تعالی آپ کو جزا دے۔
     
  21. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم سیف بھائی !
    امید کرتا ہوں آپ اللہ پاک کے فضل و کرم سے بخیریت ہونگے جی تو بھائی ابھی تک تو اس لڑی میں نے آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا لیکن آپ کی یقینا مراد دوسری لڑیوں میں میرے جوابات سے ہوگی اس لیے آپ نے یہاں شکریہ ادا کردیا اور آپ نے کہا کہ آپ میری اور نعیم بھائی کی طرح عالم نہیں ہیں تو بھائی عرض ہے کہ عالم تو بہت دور کی بات ہم تو علماء دین کی قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں اور میں اپنے بارے میں کہہ دوں کہ دین کا ایک ادنٰی سا طالب علم ہوں مطالعہ کا شغف کافی رکھتا ہوں بس یہی بات ہے کہ شاید آپکو میری ٹوٹی پھوٹی گزارشات پسند آجاتی ہیں وگرنہ مطالعہ کے علاوہ اور کوئی علم نہیں ہے میرے پاس ۔ ۔ ۔باقی اس موضوع پر اگر وقت مل سکا تو آپ کے شبہات کا ازالہ بھی ضرور کردوں گا ۔ ۔ ۔ جزاک اللہ
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم سیف بھائی !
    مجھے محسوس ہورہا ہے کہ ہم دونوں (بتقاضائے فطرتِ بشریت) ایک دوسرے سے بہت زیادہ پرسنل ہوتے جارہے ہیں۔ بات کہیں کی بھی ہو۔ آپ نے اسے ذاتیات میں لے کر بات بے بات بڑھاتے چلے جانا ہے۔
    میری پوسٹس سے آپ کو اگر کچھ رنج و ملال پہنچا تو میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میرا ارادہ تو صرف کچھ سیکھنے کا تھا۔ لیکن ہم نے اگر ہر بات کو ذاتیات پر لے کر اسے رد ہی کرنا مقصد بنا لیا ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں معذرت کرلوں۔
    آبی بھائی یا نور العین یا کسی اور کے دلائل خواہ قرآن مجید سے ہوں یا حدیث پاک سے ، اگر آپ کے ذہنِ بارسا کو قبول نہیں تو آپ کمال بےاعتنائی سے ایک آدھی لائن پکڑ کر باقی سب کو رد کرکے اپنی بات کو آگے بڑھائے چلے جاتے ہیں۔
    مثلاً مولا علی مشکل کشا والی پوسٹ کے جواب میں نور العین صاحبہ نے قرآن مجید میں بھی رب تعالی کی عطاؤں کی تقسیم کا طریقہء کار قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ حتی کہ قرآن مجید تو والدین کی اولاد کو پالنے پوسنے کی ذمہ داری کو بھی ایک خاص درجے میں "ربوبیت" کا درجہ دیتا ہے (نور العین صاحبہ نے وہ آیت اوپر بیان کردی ہے) لیکن آپ ایسے کسی واسطے کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر شفقت اور سہولت ہے۔ اور اسکا اپنا قائم کردہ نظام ہے۔
    اللہ تعالی تو قرآن مجید میں اپنی مدد کرنے کی بھی حکم دیتا ہے۔ جو کہ اسی نظامِ اسباب کے حصہ ہے

    يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونُوا اَنصَارَ اللَّہِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّيْنَ مَنْ اَنصَارِي اِلَى اللَّہِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنصَارُ اللَّہِ فَآمَنَت طَّائِفَۃٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَO
    اے ایمان والو! تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم (علیہما السلام) نے (اپنے) حواریوں سے کہا تھا:اللہ کی (راہ کی) طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کافر ہوگیا، سو ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لے آئے تھے اُن کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہوگئےo (الصَّفّ ، 61 : 14)
    تو کیا اللہ تعالی کے مکرم نبی علیہ السلام کا عقیدہء توحید آپ سے کمزور تھا جو اپنے حواریوں سے اللہ کی خاطر مدد مانگ رہے تھے ؟کیا وہ آج کے مولانا ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی اور دیگر سعودی توحید پرستوں سے کم توحید پرست تھے؟ یا آج کے مولوی حضرات ، معاذ اللہ انبیائے کرام سے بڑھ کر توحید کے ٹھیکیدار ہو گئے ہیں ؟
    بھئی یہ دنیا ایک نظام ہے اللہ تعالی نے اس کو چلانے کے لیے نظام وضع فرمایا ہے اور اس کو اختیار کرنا کسی طرح بھی خلافِ اسلام نہیں بلکہ بلکہ مشیت الہیہ کے عین مطابق ہے۔
    اور میری بات کا مقصد بھی یہی تھا۔ کہ اگر آپ اللہ تعالی کے علاوہ "اسکے نظامِ تقسیم" کے باوجود کسی اور سے کچھ مانگنا شرک یا خلافِ اسلام سمجھتے ہیں تو پھر ہر بات کی وضاحت اگلوں پچھلوں اور اپنے ہی جیسے بندوں سے کیوں پوچھتے پھرتے ہیں ؟ سکول کالج بھی نہ جاتے کہ اللہ تعالی ہی علم و حکمت عطا کرنے والا ہے ، استاد سے مدد لینا تو مشکل کشائی ہوجاتی ہے۔ بیمار ہوجائیں تو ڈاکٹر کے پاس بھی مت جائیں کہ شفا دینے والا تو اللہ تعالی ہے پھر ڈاکٹر کے پاس جانا کیوں ضروری ہوگیا ؟ کمال ہے جہاں آپکا اپنا مطلب بنتا ہے وہاں آپ توحید بھول جاتے ہیں اور جہاں اللہ تعالی کے مقربین اہلبیت اطہار، اولیاءے کرام و صالحین کی عظمت کا پہلو نکلتا ہے وہاں آپکو فوراً توحید یاد آجاتی ہے۔

    [align=center]دورنگی چھوڑ دے ، یک رنگ ہوجا
    سراسر موم یا پھر سنگ ہوجا​
    [/align]

    میرے بھائی ۔ اس دنیا میں اللہ تعالی نے ایک نظام وضع کررکھا ہے ۔ حضرت علی کو مولا (دوست اور مددگار) کہنے سے یہ مراد کسی مسلمان کی نہیں ہوتی کہ معاذاللہ حضرت علی ، اللہ تعالی کے خلاف کوئی خدائی قوت کے حامل ہستی بن گئے ہیں۔ بلکہ اوپر بھی واضح کیا گیا تھا کہ دراصل مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ اللہ تعالی کے محبوب و مقرب ہیں۔ حضور نبی اکرم :saw: کے تربیت یافتہ ہیں اسی طرح دیگر اکابر صحابہ کرام :rda: کا عمل بھی گواہ ہے۔ کتنے ہی مواقع پر سیدنا عمر :rda: حضرت علی :rda: سے رائےپر عمل کرتے تھے کیونکہ وہ شہرِ علم کا دروازہ تھے۔
    جس توحید کی سمجھ علامہ ابن تیمیہ ، عبدالوہاب نجدی اور انکے پیروکاروں یا سعودی عرب کے ریالوں پر قائم کیے گئے مدرسہ جات کے مولویوں کو آگئی ہے یہ سمجھ نہ تو قرآن مجید میں انبیائے کرام کا عمل ہے، نہ حضور نبی اکرم :saw: کی احادیث اور نہ ہی اکابر اسلاف کا طریقہ کار رہا ہے۔
    صرف اولیائے کرام کی شان سے متعلق صحیح بخاری کی ایک حدیث پاک عرض ہے کہ
    حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو کوئی میرے ولی سے دشمنی رکھے میرا اسکا خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ میرابندہ ایسی کسی چیز سے بڑھ کر میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو۔ اور میرا بندہ مسلسل نفلی عبادات کرتا کرتا اس کمالِ قرب کو پہنچ جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنا شروع کردیتا ہوں ، پھر میں اسکے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، (حتی کہ )اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں، اگر میری پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام بھی کرنا ہوتا ہے کبھی اتنا متردد نہیں ہوتا جتنا (ایسے) بندہ مومن کی جان لینے میں ۔ کیونکہ میں اسے تکلیف دینا گوارہ نہیں کرتا (البخاری باب التواضع، 5/2384)
    یہ مرتبہ تو حضور :saw: کی امت کے عام ولی اللہ کا ہے۔ کہاں سیدنا علی :rda: اور دیگر اہلبیت اطہار اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم کہ جن کی ایک دعا پر اللہ تعالی تقدیریں بدل دیتا ہے۔لیکن انکا مقامِ بندگی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے دنیوی منفعت مانگتے ہی نہیں ہیں۔بلکہ مخلوق خدا کی بھلائی کے لیے ساری زندگی کوشاں رہتے ہیں۔
    اس حدیث پاک کو بغور پڑھیے گا اور سوچیے گا کہ اولیا اللہ کس شان کے حامل ہوتے ہیں۔

    لیکن سیف بھائی ۔ ایک بات عرض کردوں کہ قرآن و حدیث کی ہر بات کو اپنے ذہن کی کسوٹی پر پرکھنا علامتِ ایمان نہیں ہے۔ یعنی میرے اپنے مطالعہ سے جو ایمان میرے قلب و ذہن میں جاگزیں ہوچکا ہے میں نے اسی کو ماننا ہے۔۔ قرآن و حدیث کے جو جو دلائل میرے ذہنی تصور سے میچ کریں گے وہ وہ قبول کرلوں گا۔ باقی سب کو شیعہ یا فلاں فلاں مولوی کا وضع کردہ ایمان کہہ کر رد کردوں گا۔
    اور ہاں آپ نے خود ہی ایک پیغام میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "میرے فہم نے مجھے پھر منزل تک پہنچنے نہیں دیا" اور یہ بھی فرمایا تھا کہ "میں نے دین کو اپنے مطالعہ کی بنیاد پر سمجھا ہے" وغیرھم
    اور اب نورالعین صاحبہ یا میرے اندازِ استدلال سے لاجواب ہوکر آپ نے نعیم کو یکایک "عالم دین" اور"شیخ عبدالقادر جیلانی جیسا جلالی" لکھنا شروع کردیا۔
    میرا خیال اور درخواست ہے کہ اگر ہوسکے تو نورالعین صاحبہ کی پوسٹ کا اور میری پوسٹ کا سطر بہ سطر جواب دیں تاکہ پتہ چلے کہ احادیث پاک یا قرآنی آیات کو آپ کس نکتہء نظر سے دیکھتے ہیں اور کیسے ردّ کرتے ہیں۔ اگر کوئی حدیث شیعہ کی وضع کردہ ہے تو اسکا بھی حوالہ تحریر کریں۔ ویسے اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ بنوا میہ کے دور میں جو جو محدثین کرام اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم کی شان میں کچھ علمی کام کرتے تھے ان سب پر شیعہ ہونے کا الزام لگ چکا ہے۔ حتی کہ امام المحدثین امام نسائی :ra: ، امام حسن بصری :ra: اور امام شافعی :ra: جیسے اکابر بھی اس الزام سے بری نہیں ہیں۔ اس لیے اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہ کی محبت کی وجہ سے کسی ابن تیمیہ جیسے عالم دین کا کسی کو شیعہ کہہ دینا ایک "الزام" سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
    اس لیے پھر عرض ہے کہ بجائے ذاتیات پر بحث کرنے کے۔۔ اپنے مطالعے کی رو سے قرآنی آیات و احادیث کے دلائل کا علمی انداز میں اگر جواب دے سکتے ہیں تو دیجئے وگرنہ محض کسی کو عالم دین کہہ کر یا اسے شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرح جلالی کہنے سے آپ کو شاید کچھ دلی اطمینان تو میسر آجائے لیکن مثبت ماحول میںتبادلہء خیالات سے کچھ سیکھنے سکھانے کا موقع نہٰیں ملے گا۔اور اگر جواباً آپ فرمائیں کہ آپ عالم دین نہیں ہیں کہ جو قرآن و حدیث سے جواب دے سکیں تو پھر قرآنی ایات و احادیث کو مان جائیے اور محض ذاتی ضد اور انا کی وجہ سے بحث برائے بحث کا سلسلہ ترک کردیجئے۔ بہت سوں کا بھلا ہوجائے گا۔
    والسلام علیکم
     
  23. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جزاک اللہ نعیم بھائی
    بتقاضائے فطرت بشریت واقعی ایسا ہو رہا ہے جیسا آپ نے فرمایا ہے۔ میری طرف سے آپ کو آئندہ ایسی شکایت ہرگر نہیں ہوگی۔ آپ کی یہ پوسٹ میں نے آج ہی پڑھی ہے اور مجھے انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ میں اسے پہلے نہیں پڑھ سکا۔ پہلے تو جب بھی کسی پوسٹ کا جواب آتا تھا مجھے ای میل سے اس کی اطلاع آ جاتی تھی درمیان میں کوئی خرابی ہوئی جس کی وجہ سے میلز آنا بند ہو گیئں اور میں ہر پوسٹ کو نہ دیکھ سکا۔ میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتا ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے دوراں میں جب بھی فرصت ملتی ہے فورم پر آ کر پوسٹ پڑھ لیتا ہوں لیکن چونکہ بار بار توجہ دوسرے کاموں میں بٹ جاتی ہے اس لیے ساری پوسٹس مسلسل اور توجہ سے نہیں دیکھ پاتا اور کئی مرتبہ تو پورا دن لاگ ان رہنے کے باوجود کوئی پوسٹ نہیں پڑھ پاتا۔ میں دلی طور پر آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ آپ نے اتنے اچھے خیالات کا وسعت قلبی سے اظہار کیا اور میں اسے نہ دیکھ سکا۔ اگر پہلے دیکھ لیتا تو آپ کی اس پوسٹ کے بعد جو تلخی ہمارے درمیان پیدا ہوئی وہ نہ ہوتی۔ میں بہر حال آپ سے شرمندہ ہوں۔

    مجھے آپ کی پوسٹس سے یقینا“ رنج و ملال پہنچا لیکن ظاہر ہے کہ جواب میں میں نے بھی ایسا یہ رویہ اختیار کیا جس سے آپ کو بھی شکایت پیدا ہوئی۔ مجھے اپنے اس رویے پر واضح شرمندگی ہے اور میں دلی طور پر آپ سے معذرت کا طلبگار ہوں اور اللہ تعالی سے بھی معافی کا خواستگار ہوں کہ میرے الفاظ سے میرے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچی۔ اللہ تعالی مجھے معاف کرے اور آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی مجھے معاف کر دیں۔

    ایسا ہرگر نہیں کہ مجھے آبی بھائی یا نور العین یا کسی اور کے دلائل خواہ وہ قرآن مجید سے ہوں یا حدیث پاک سے، مجھے قبول نہیں۔ میرے بارے میں آپ کا یہ تاثر درست نہیں۔ میری بات کے جواب میں غیر متعلقہ باتیں اور ان باتوں کا جواب جو میرے سوال میں نہیں ہوتیں میں نہیں دے سکتا اور نہ ہی وہ وجہ بحث ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کو یہ تاثر ملا بہر حال آئندہ میں مزید محتاط رہ کر جواب دوں گا تاکہ یہ تاثر زائل ہو سکے اور آپ کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔

    آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ
    “مولا علی مشکل کشا والی پوسٹ کے جواب میں نور العین صاحبہ نے قرآن مجید میں بھی رب تعالی کی عطاؤں کی تقسیم کا طریقہء کار قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ حتی کہ قرآن مجید تو والدین کی اولاد کو پالنے پوسنے کی ذمہ داری کو بھی ایک خاص درجے میں "ربوبیت" کا درجہ دیتا ہے (نور العین صاحبہ نے وہ آیت اوپر بیان کردی ہے) لیکن آپ ایسے کسی واسطے کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر شفقت اور سہولت ہے۔ اور اسکا اپنا قائم کردہ نظام ہے۔ “

    اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے اللہ کو مشکل کشا ماننے کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں میں سے کسی کو بھی مشکل کشا ماننے میں بہت زیادہ تنگی ہوتی ہے۔ یہ بات میں صرف اپنی ذہنی کیفیت کے پیش نظر کر رہا ہوں اس کا تعلق کسی فرقہ بندی سے نہیں۔ ربوبیت میں والدین کا شمار تو واضح ہے کہ وہ بھی پال پوس کر بڑا کرتے ہیں لیکن حقیقی طور پر رب تو نہیں بن جاتے اور اس رب کی مانند تو نہیں ہو جاتے جو کائنات کا رب ہے۔ لیکن چونکہ وہ بھی پالتے ہیں اس لیے اصطلاحا“ رب کہلاتے ہیں جس طرح استاد روحانی باپ کہلاتا ہے حالانکہ وہ باپ نہیں ہوتا۔ جب کہ مشکل کشائی میں اللہ کی ذات کے ساتھ میں کسی کو شریک نہیں سمجھتا اور اس سلسلے میں قرآن کریم کی آیات سے احکامات واضح ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ قرآن کریم کے ارشاد پر کچھ اور حجت ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں میرا علم بے حد محدود ہو لیکن میں ذہنی طور پر مطمن ہوں البتہ قرآن کریم ہی سے اگر اس کے برخلاف کچھ بتائیں تو میرے علم میں اضافہ ضرور ہو گا۔

    جہاں تک آیت کریمہ

    اے ایمان والو! تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم (علیہما السلام) نے (اپنے) حواریوں سے کہا تھا:اللہ کی (راہ کی) طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کافر ہوگیا، سو ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لے آئے تھے اُن کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہوگئےo
    (الصَّفّ ، 61 : 14)

    کا تعلق ہے تو اللہ کی مدد کا احوال اسی کے اندر واضح ہے کہ اللہ کی مدد سے کیا مراد ہے۔ اس سے اگر ہم اللہ کی ذات سے متعلق صفات میں مخلوق کی شرکت کا استدلال لیں تو وہ میری ناقص فہم سے بالا تر ہے۔ نہ ہی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالی کے مکرم نبی علیہ السلام کا عقیدہء توحید تھا کیونکہ انسانی اور دنیاوی ضروریات کے لیے تو استعانت اور مدد الوہی صفات کے زمرے میں نہیں آتی۔

    باقی جو آپ نے ابن تیمیہ کو عبدالوہاب نجدی اور دیگر سعودی توحید پرستوں سے جوڑا ہے یہ درست نہیں ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ تاریخ میں جو آپ کے نظریات کے مخالف ہو اسے آپ نجدی وغیرہ کہہ کر یکسر نظر انداز کر دیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر آپ خود ابن تیمیہ کی تصانیف کا مطالعہ کریں تو آپ کا یہ خیال یقینا“ باطل ثابت ہوگا۔ ویسے بھی یہاں پھر آپ شدید طنز کر رہے ہیں جو یقینا“ گراں گزرتا ہے تاہم اس بحث کو چھوڑیں۔

    میں اس بات کو مانتا ہوں کہ اس دنیا کو چلانے کے لیے اللہ تعالی نے نظام وضع فرمایا ہے نیز اس نظام کو اختیار کرنا کسی طرح بھی خلافِ اسلام نہیں بلکہ بلکہ مشیت الہیہ کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس سے یہ قطعی ظاہر نہیں ہوتا کہ جو صفات اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہیں ہم اللہ کی مخلوق کو بھی ان سے متصف سمجھیں۔

    دنیاوی اور انسانی ضرویات کے لیے اللہ تعالی کے علاوہ "اسکے نظامِ تقسیم" کے باوجود کسی اور سے کچھ مانگنا شرک یا خلافِ اسلام ہرگز نہیں لیکن اولاد مانگنا، رزق مانگنا، مخلوق کو دنیاوی امور میں تصرف کا حامل سمجھنا، وغیرہ خاص الہی صفات ہیں اور میں ان میں کسی مخلوق کو شریک سمجھنے سے قاصر ہوں۔

    نعیم بھائی آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ
    “ہر بات کی وضاحت اگلوں پچھلوں اور اپنے ہی جیسے بندوں سے کیوں پوچھتے پھرتے ہیں؟ سکول کالج بھی نہ جاتے کہ اللہ تعالی ہی علم و حکمت عطا کرنے والا ہے ، استاد سے مدد لینا تو مشکل کشائی ہوجاتی ہے۔ بیمار ہوجائیں تو ڈاکٹر کے پاس بھی مت جائیں کہ شفا دینے والا تو اللہ تعالی ہے پھر ڈاکٹر کے پاس جانا کیوں ضروری ہوگیا ؟ کمال ہے جہاں آپکا اپنا مطلب بنتا ہے وہاں آپ توحید بھول جاتے ہیں اور جہاں اللہ تعالی کے مقربین اہلبیت اطہار، اولیاءے کرام و صالحین کی عظمت کا پہلو نکلتا ہے وہاں آپکو فوراً توحید یاد آجاتی ہے۔“

    یہاں پر آپ نے دو باتیں ملا دی ہیں۔ جہاں تک سکول کالج ڈاکٹر استاد کا تعلق ہے تو یہ دنیاوی ضروریات ہیں اور انسان کے انسان سے تعلق کی محتاج ہیں لیکن الوہی صفات میں مخلوق کو حامل سمجھنا، جیسے پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ اولاد دینا، زندگی دینا، رزق دینا، دنیا میں تصرف کا حامل ہونا وغیرہ جیسی صفات صرف اللہ تعالی ہی کی ہیں اور یہاں سے میری توحید شروع ہوتی ہے۔

    بہر حال یہ میرا اپنا یقین ہے اور اگر اس میں میرا اور آپ کا اختلاف ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ اس پر ہم ایک دوسرے سے لڑتے رہیں اور آپس میں پیار محبت اور احترام سے بات نہ کر سکیں۔ مناسب ہو گا کہ میں اور آپ آئندہ اس طرح کے موضوعات پر بحث سے اجتناب کریں آخر اور بہت سی باتیں اور عقائد ہیں جن پر ہم متفق ہیں تو کیا ضروری ہے کہ ہم اختلافی امور پر ہی بات کریں۔

    آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ “میرے بھائی ۔ اس دنیا میں اللہ تعالی نے ایک نظام وضع کررکھا ہے ۔ حضرت علی کو مولا (دوست اور مددگار) کہنے سے یہ مراد کسی مسلمان کی نہیں ہوتی کہ معاذاللہ حضرت علی ، اللہ تعالی کے خلاف کوئی خدائی قوت کے حامل ہستی بن گئے ہیں۔ بلکہ اوپر بھی واضح کیا گیا تھا کہ دراصل مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ اللہ تعالی کے محبوب و مقرب ہیں۔ حضور نبی اکرم کے تربیت یافتہ ہیں اسی طرح دیگر اکابر صحابہ کرام کا عمل بھی گواہ ہے۔ کتنے ہی مواقع پر سیدنا عمر حضرت علی سے رائےپر عمل کرتے تھے کیونکہ وہ شہرِ علم کا دروازہ تھے۔“

    تو اس سے مجھے کوئی انکار نہیں میں بھی یہ نہیں سمجھتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے خلاف کسی قسم کی خدائی قوت کے حامل ہیں۔ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان کا اسی طرح قائل ہوں جس طرح آپ ہیں۔ لیکن میں نے کچھ لوگوں کے عقائد پڑھے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الوہی صفات کا حامل سمجھتے ہیں بلکہ کچھ تو انہیں درجہ الوہیت پر فائز سمجھتے ہیں اور میرا اختلاف ان سے اور ان کے حامیوں سے ہے۔

    جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میری ایک لاکھ زندگیاں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں اور ان کا جو مقام اور درجہ ہے اس کی عظمت کا احاطہ میرے جیسے گناہ گار انسان کی فہم سے بھی بالا تر ہے تو میں ان کی شان میں کوئی بات کرنے کا کس طرح اہل ہو سکتا ہوں۔

    آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ “جس توحید کی سمجھ علامہ ابن تیمیہ ، عبدالوہاب نجدی اور انکے پیروکاروں یا سعودی عرب کے ریالوں پر قائم کیے گئے مدرسہ جات کے مولویوں کو آگئی ہے یہ سمجھ نہ تو قرآن مجید میں انبیائے کرام کا عمل ہے، نہ حضور نبی اکرم کی احادیث اور نہ ہی اکابر اسلاف کا طریقہ کار رہا ہے۔ “ تو میرا خیال ہے کہ اس زمرے سے علامہ ابن تیمیہ کو نکال دیں تو آپ کی باقی کی بات درست ہے۔

    میں یہاں پر یہ وضاحت بھی کر دوں کہ میں نے نہ عبد الوہاب نجدی کا عقیدہ پڑھا ہے اور نہ ہی اس کے پیروکاروں اور سعودی عرب کے ریالوں پر قائم شدہ مدرسہ جات کے مولویوں کو پڑھا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ میں تحقیق کی ہے اور تاریخ کے ان گوشوں کو بے نقاب کیا ہے جو نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ تاہم ضروری نہیں کہ آپ میرے خیال سے متفق ہوں۔

    اولیائے کرام کی جو شان اور مقام ہے میں اس سے بخوبی واقف ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ “نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“ تاہم اگر میں اس کا قائل نہ بھی ہوں تو ان کے مقام اور شان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا میں تو ایک گناہ گار انسان ہوں۔

    آپ نے جو بخاری کی حدیث پاک درج فرمائی ہے اس سے تو کوئی کافر ہی انکار کر سکتا ہے۔ جب اللہ کا بندہ کمال قرب کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی کی محبت اس کی طرف اور زیادہ ہو جاتی ہے اس بندے کے کان، آنکھ، ہاتھ، پاوں سب کے سب اسی راستے پر چلتے ہیں جس پر چلنے کی اللہ نے تاکید فرمائی ہے گویا وہ اللہ کے احکام کے تابع ہو کر اسی کے اعضا بن جاتے ہیں (خود اللہ تعالی ایسی چیزوں سے پاک ہے اس جیسا کوئی نہیں)۔ پھر وہ بندہ اللہ سے سوال کرتا ہے تو وہ اسے ضرور عطا کرتا ہے، اللہ کی پناہ مانگے تو اللہ اسے پناہ دیتا ہے۔ یقینا“ یہ مرتبہ تو حضور کی امت کے عام ولی اللہ کا ہے۔ کہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہلبیت اطہار اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم کہ جن کی ایک دعا پر اللہ تعالی تقدیریں بدل دیتا ہے لیکن ان کا مقامِ بندگی یہ تھا کہ وہ اپنی ذات کے لیے دنیوی منفعت مانگی ہی نہیں بلکہ مخلوق خدا کی بھلائی کے لیے ساری زندگی کوشاں رہے۔ میں نے آپ کے الفاظ کو اپنی تائید اور اپنائیت میں دہرایا ہے اور میں ان الفاظ کی حقانیت کو دل سے تسلیم کرتا ہوں۔

    نعیم بھائی میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ قرآن و حدیث کی ہر بات کو اپنے ذہن کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے یا یہ کہ اپنے مطالعہ سے جو ایمان میرے قلب و ذہن میں جاگزیں ہوچکا ہے اس ہی کو ماننا ہے یا قرآن و حدیث کے جو جو دلائل میرے ذہنی تصور سے میچ کریں گے وہ وہ قبول کرلوں باقی سب کو شیعہ یا فلاں فلاں مولوی کا وضع کردہ ایمان کہہ کر رد کردوں گا۔ نہ ہی یہ میرا عمل ہے اور نہ ہی میری یہ سوچ ہے۔ ہاں میری باتوں سے اگر آپ کو یہ تاثر ملا ہے تو اس کی میں معذرت چاہتا ہوں۔

    معاذ اللہ یہ تو کسی مسلمان کا انداز نہیں ہو سکتا۔ قرآن و حدیث کا علم تو اللہ تعالی کی نعمتوں اور حکمتوں میں سے سب سے اونچے مقام پر ہے۔ میں اس کا دعوی کیسے کر سکتا ہوں۔ میں تو طالب علم ہوں اور آپ سے اس کا مسلسل اظہار کرتا رہا ہوں۔ آپ نے جو یہ بات بار بار کی ہے کہ میں نے اپنے مطالعہ سے قران کو سمجھا ہے اور اپنی ذہنی رو کے مطابق ایسا کیا ہے درست نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں نے کسی فرقے کی تقلید نہیں کی اور جو کچھ پڑھا ہے اس میں کسی فرقے کی جانبداری اور انتہا پسندی شامل نہیں ہے۔

    ان باتوں کے بعد آپ ہی کے مشورے کے مطابق بجائے ذاتیات پر بحث کرنے کے۔۔ قرآنی آیات و احادیث و تاریخ کے حوالوں سے نیز علمی انداز میں ہی جواب دینے کی کوشش کروں گا اور مثبت ماحول میں تبادلہء خیالات کر کے آپ جیسے بھائیوں سے کچھ سیکھنے سکھانے کی کوشش کروں گا۔

    ہاں یہ عرض کر دوں کہ بحیثیت مسلمان میں قرآنی آیات و احادیث نبوی کو مانتا ہوں نیز ذاتی ضد اور انا کی وجہ سے بحث برائے بحث پہلے بھی نہیں کی اور اگر غلطی سے ایسا ہو بھی گیا ہے تو آئندہ کے لیے میں یہ سلسلہ ترک کردوں گا تاکہ بقول آپ کے بہت سوں کا بھلا ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں توقع کروں گا کہ آپ بھی اپنے بنائے ہوئے اسی لائحہ عمل پر کار بند رہیں گے۔

    آخر میں عرض کروں گا کہ اس ساری تحریر میں اگر نادانستگی میں کی گئی کوئی بات ناگوار گزری ہو تو اس کے لیے معذرت قبول کریں۔
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    آپ نے فرمایا
    پھر آپ ہی فرماتے ہیں

    اب ایک حدیث صحیح بلکہ ذخیرہء احادیث میں سب سے زیادہ (کم و بیش 80 ) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم سے روایت شدہ حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔

    عَنْ زَيْدِ بْنِ ارْقَمَ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم مِنْ حَجَّۃِ الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، امَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَانِّي قَدْ دُعِيْتُ فَاجَبْتُ، اِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، احَدُھُمَا اکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْھمَا، فَاِنَّھُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ انَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ اخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھَذَا وَلِيُہُ، اللّٰھُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ.
    رَوَاہُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. (البخاری و المسلم)

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے،
    اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘
    اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ ، کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘

    الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576،
    والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464،
    والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.


    ایک اور حدیث پاک ملاحظہ ہو۔۔

    عَنْ شُعْبَہَ، عَنْ سَلَمَہَ بْنِ کُہَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ اَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ اَبِيْ سَرِيْحَہَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَہُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَہُ. رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ.

    وَ قَالَ ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبہُ ھَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ ابِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ارْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم.

    ’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

    الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، 5 / 633، الحديث رقم : 3713،
    و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.
    وَ قَدْ رُوِيَ ھَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَہْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَہِ.
    الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652،
    والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593،
    ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359،
    وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946،
    وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144،
    و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343،
    و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،
    والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.
    وَ قَد رُوِيَ ھَذَا الحديث ايضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَہِ.
    وابن ابی شيبہ فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072
    وَقَدْ رُوِيَ ھَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الاَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَہِ.
    ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354،
    والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052،
    والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.

    وَقَدَرُوِيِّ ھَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَہَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.

    عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388،
    و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71،
    وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143،
    وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457،
    وحسام الدين ھندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.

    وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
    الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646،
    و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177،
    والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106.

    (نوٹ: اوپر دیے گئے آئمہ حدیث اور مختلف راویوں کا مختلف کتب میں اس حدیث کا بار بار بہ تکرار لانا بھی حدیث پاک کی صحت اور صحیحیت پر دلالت کرتا ہے)


    محترم سیف صاحب۔ ہمارے پیارے نبی اکرم :saw: کا فرمان ملاحظہ فرما لیں کہ حضور نبی اکرم :saw: ہر مومن کے مولا ہیں۔
    اور حضرت علی :rda: بھی ہر مومن کے ولی اور مولا ہیں
    اور پھر حضور نبی اکرم :saw: کہ "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے"

    اور یہ مولائیت کی شان بدرجہ عطا اور وسیلہ ہوتی ہے۔ کہ وہ اللہ تعالی کے اس قدر مقرب ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کی ولایت و مدد کو اپنی مدد قرار دے دیا ہے۔ اور اس سے بھی خود اللہ تعالی کی عظمت بلند ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالی کے ایک ادنی مقرب بندے کی شان یہ ہے کہ وہ چاہے تو دریاؤں کا رخ موڑ دے، چاہے تو قیصر و کسریٰ کے ایوان ہلا دے، چاہے تو چالیس بندوں سے بھی نہ اٹھایا جانے والا درِ خیبر ایک ہاتھ سے اکھاڑ پھینکے، چاہے تو مدینہ طیبہ میں منبر پر کھڑے ہو کر ہزاروں میل دور "یا ساریۃ الجبل" کی آواز اپنے سپہ سالار کو پہنچاکر اسکی مدد کرے۔ تو پھر ایسے ادنیٰ بندے کے خالق و مالک کی عظمت، ہیبت، قدرت اور طاقت کا عالم کیا ہوگا۔ سبحان اللہ تعالی۔

    اب واضح احادیث ہمارے سامنے ہیں۔اپنی مرضی کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانیں یا اپنی ذہنی کیفیت اور تنگی کو مدنظر رکھ کر اعراض کرجائیں۔ یہ احادیث صرف اس لیے لکھ دی ہیں کہ قیامت کے دن یہ فرمودات " نہ پڑھ سکنے کا" عذر کسی کے پاس نہ ہو ۔

    صرف آپ کی یاددہانی کے لیے آپ ہی کی تحریر کے اقتباسات پھر نقل کرتا ہوں
    آپ نے فرمایا
    پھر آپ ہی فرماتے ہیں

    اور ہاں سیف بھائی ۔ اس تحریر کا جواب بے شک نہ دیجئے گا۔ کیونکہ مجھے آپ کی طرف سے کسی طرح کی وضاحت مطلوب نہیں۔ اور اعتراض بھی نہ کیجئے گا کہ میں کم علم اور کم عقل آدمی ہوں۔ آپکے اعتراضات کا جواب دینے کا حوصلہ و علم مجھ میں نہیں ہے۔

    ایک مسلمان بھائی کے طور پر صرف اتنی گذارش ہے کہ کبھی اکیلے میں اپنے نبی اکرم :saw: کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ عظمتوں کو ایک لمحے کے لیے سوچیے گا اور پھر آپ :saw: کے غلاموں کی عظمتوں کو بھی سوچیے گا۔ پھر اوپر بیان کردہ احادیث پاک پر غور کیجئے گا۔ اور دیکھیے گا کہ آپ کی ذہنی کیفیت کہاں تک فرموداتِ رسول :saw: کو قبول کرتی ہے۔

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
     
  25. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی
    میرا خیال ہے کہ قرآن پاک کے مقابلے میں کوئی روایت حجت نہیں تاہم آپ کی باتیں سر آنکھوں پر

    میری اتنی طویل تحریر اور دلی محبت، یگانگت اور بھائی چارے کی فضا میں کی گئی باتیں اور خلوص نیت سے پیش کردہ گزارشات میں سے اگر آپ کو صرف یہی بات ہی تنقیدی لگی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

    ویسے بھی کیا ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتراضات ہی کرتے رہیں۔ متفقہ باتیں بھی تو ہیں جن پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔

    میرا رویہ آپ کے پہلے مکتوب میں بیان کردہ بھائی چارے اور محبت کی مناسبت ہی سے رہے گا۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنی امان میں رکھے اور دین کی صحیح سمت عطا فرمائے۔
     
  26. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
    اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم


    المدد یا علی علیہ السلام المدد

    شب ہجرت علی :as: نے بھی عجب خدمت گزاری کی
    ملک بھی جس سے حیراں ہو گئے وہ جاں نثاری کی

    تمارا اے علی مرتضی :as: واللہ کیا کہنا
    ادا کرتے ہیں یوں حق اُخوت واہ کیا کہنا

    جو بندے تابع حکم شہ ابرار ہوتے ہیں
    وہ یوں بیخوف مرنے کیلیئے تیار ہوتے ہیں

    جری و مرد میدانِ تہور ایسے ہوتے ہیں
    شجاعت اسکو کہتے ہیں بہادر ایسے ہوتے ہیں

    نبی :saw: کا سُن کے حکم پاک سیدھے اُن کے گھر آئے
    اگرچہ سامنے تھی موت لیکن بے خطر آئے

    کہیں آزردہ ہوسکتے ہیں‌مرد ایسی ملالوں سے
    وہ تھے شیر خدا کیا خوف کرتی ان شغالوں سے

    علی :as: کا مرتبوں کا حال کوئی اور کیا جانے
    جناب سرور کونین :saw: جانیں یا خدا جانے

    علی :as: سروردان گلشن رشدو ہدایت ہے
    علی :as: مولائے امت ہے علی :as: شاہ ولایت ہے

    علی :as: کی ذات والا وجہ فخر زہد و طاعت ہے
    علی :as: کا روئے انور دیکھنا عین عبادت ہے

    علی :as: وہ ہیں جنہوں نے چیر کر پھینکا ہے ازدر کو
    علی :as: وہ ہیں‌اکھاڑا ہے جنہوں‌نے باب خیبر کو

    علی :as: ہیں والد سبطین :as: و زوج حضرت زہراسلام اللہ علیہا
    علی :as: ابن ابی طالب ہیں‌داماد شہہ والا :saw:

    علی :as: وہ ہیں ‌جو ہیں یکتا فن تیغ آزمائی میں
    علی :as: وہ ہیں نہیں جن سا کوئی مشکل کشائی میں

    علی :as: دنیا کے مولا ہیں علی :as: امت کے والی ہیں
    علی :as: اعلیٰ و اکمل ہیں ‌علی :as: اولٰی و عالی ہیں

    نہ ملے گا علی :as: سا ایک بھی لاکھوں ہزاروں میں
    علی :as: ہیں پنجتن میں‌ اور علی :as: ہیں چار یاروں میں

    وہ ہیں‌خاص رسول حق :saw: ہے زینت ہر طرف ان سے
    ولایت کو ہے ان پر فخر امامت کو شرف ان سے

    علی :as: ہیں‌نفس پیغمبر علی :as: ہیں ساقیء کوثر
    علی :as: ہیں قاتل مرحب علی :as: ہیں فاتح خیبر

    علی :as: درجے میں‌اعلیٰ ہیں‌ علی :as: رتبہ میں‌بالا ہیں
    علی :as: مقبول درگاہ خداوند تعالیٰ ہیں

    علی :as: تھے اسقدر مقبول سرکار پیمبر :saw: میں
    کہا ہے طمک طمی علی :as: کی شان برتر میں

    کبھی اپنی روئے پاک اڑہا کر شاد فرمایا
    کبھی من کنت مولاہ سے اُن کو یاد فرمایا

    کبھی آشوب سخت چشم سے اُن کو اماں بخشی
    کبھی شمشیر یعنی ذولفقار جاں ستاں بخشی

    ذرا دیکھئے تو کوئی کیا معظم کیا مؤقر ہیں
    نبی :saw: ہیں شہر علم اور مرتضی :as: اُس شہر کی در ہیں

    یہ مانا اُن کا درجہ اس سے اعلیٰ اس سے اونچا ہے
    یہ اُن کی مدح میں‌پھر بھی کسی نے خوب لکھا ہے

    علی :as: کا نام بھی نام خدا کیا راحتِ جاں ہے
    عصائے پیر ہے تیغ جواں ہے حزر طفلاں ہے

    علی :as: ہیں‌اہل بیت مصطفی :saw: میں‌یہ روایت ہے
    وہی ہے مومن کامل جسے اُن سے محبت ہے

    خدا کے گھر میں‌پیدائش ہوئی جنکی علی :as: وہ ہیں
    سخی وہ ہیں غنی وہ ہیں‌ جری وہ ہیں ‌ولی وہ ہیں


    اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم

    یزید مردود اور آل یزید مردود پر اللہ کی لعنت
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نور العین بہن نے بھی کہیں آپ سے گذارش کی تھی کہ آپ ایمان و عقائد اور قرآن و حدیث کے باب میں "اپنا خیال" بہت ظاہر کرتے ہیں۔
    اللہ تعالی ہمیں قرآن و حدیث کا صحیح فہم عطا کرے۔
    اور ایسی " قرآن فہمی" سے بچائے جو بیسیوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی روایت کردہ احادیث اور سیدنا عمرفاروق رض سمیت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کے متفقہ عقیدہ کو بھی ماننے سے انکار کے محض "اپنے خیال" کو ترجیح دے دے۔
    استغفر اللہ العظیم۔
     
  28. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی اس جملے کو یوں پڑھیں

    تمام مسلمانوں جملہ اہل سنت والجماعت اور سوائے ایک آدھ فرقے کے سب متکبہ ہائے فکر کے مسلمانوں کا اس امر پر اجماع بلکہ ایمان ہے کہ قرآن پاک کے احکامات اور مقابلے میں کوئی روایت حجت نہیں-

    میرا اس پر ایمان ہے

    اگر یہ صرف میرا خیال ہے تو آپ بالکل نہ مانیں اور اگر یہ متفق علیہ اصول ہے تو مان لیں ورنہ میری اصلاح فرمائیں۔

    نور بہن کو جواب دے دیا تھا۔ "میرا خیال ہے" اظہار کا ایک طریقہ ہے اور میں اس لیے استعمال کرتا ہوں کہ اگر میرا خیال غلط ہے تو کوئی بھائی بہن اس کی اصلاح کر دے وگرنہ اگر میں اس طرح کی بات قطعیت سے کروں تو تب آپ یا نور بہن اعتراض فرمائیں۔

    میں اپنے طور پر تو سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سمیت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے متفقہ عقیدہ اور طریقہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ عمل اور ایمان کے جس درجے پر یہ ہستیاں تھیں ہم میں سے اعلی ترین عبادت گزار اور متقی بھی، اس کا پاسنگ نہیں ہو سکتا پھر کہاں میرے جیسا گناہ گار انسان ۔ ۔ ۔ ان کی تقلید کی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن ان کے عقائد کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

    ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ جو امور قرآن کریم میں قطعیت سے طے کر دیئے گئے ہیں ان کو کوئی دوسری روایت حدیث یا کسی کا عمل تبدیل نہیں کر سکتا اور اگر کوئی ایسی روایت حدیث یا مثال تاریخ میں کہیں ملتی بھی ہے تو وہ قابل اعتبار نہیں۔ معلوم نہیں کہ آپ کس بنیاد پر اس طے شدہ اور متفق علیہ امر کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    قرآن مجید کا کوئی حوالہ تو آپ دیتے نہیں۔ اور اپنی صفائیاں دیتے چلے جاتے ہیں۔
     
  30. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی یہ ایک اصولی اور متعین بات ہے جو ہر قرآنی حکم پر صادق ہے اس کے لیے کسی مخصوص حوالے کی ضرورت نہیں۔ جہاں کوئی حکم قرآن میں صراحت کے ساتھ آ گیا ہے وہ قطعی ہے جب تک خود کوئی دوسری آیت اس حکم کو منسوخ یا تبدئل نہ کر دے۔(اور یہ صرف "میرا خیال" نہیں ہے)۔

    آپ جیسے اہل علم حضرات کے سامنے صفائیاں ہی تو دی جا سکتی ہیں اور ہم جیسے کم علم کر ہی کیا سکتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں