1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

محمدﷺ بائبل کی نظر میں

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏3 جون 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    تم فرماؤ”بھلا دیکھو تو اگر وہ قرآن اللہ کے پاس سے ہو اور تم نے اُس کا انکار کیا اور بنی اسرائیل (۱) کا ایک گواہ اس پر گواہی دے چکا تو وہ ایمان لایا........“(قرآن پاک ۱۰:۴۶)
    جناب چیئرمین ، خواتین و حضرات:
    اس شام کی تقریر کا موضوع.... ”محمد ﷺ بائبل کی نظر میں“ یقینا آپ میں سے بہتوں کے لیے حیرانی کا موجب ہو گا۔ کیونکہ مقرر ایک مسلمان ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان یہود و نصاریٰ کی مذہبی کتب میں موجود پیش گوئیوں کی تشریح کر رہا ہو؟ میں نے تقریباً تیس سال قبل، اپنی جوانی کے عالم میں کسی ریوہٹن (Rev Hiten) نامی عیسائی عالم کی مذہبی تقاریر ”رائل تھیٹر“ ڈربن میں سنی تھیں۔
    پوپ یا کسنجر:
    یہ قابل تکریم بزرگ بائبل میں مذکور پیش گوئیاں بیان کررہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ عیسائیوں کی بائبل نے روس کے عروج اور قربِ قیامت کی پیش گوئی کر دی تھی۔ ایک موقع پر وہ یہاں تک کہہ گیا کہ اس کی مقدس کتاب پوپ کے متعلق پیش گوئیوں سے بھی خالی نہیں ہے۔ اپنے سامعین کو قائل کرنے کے لئے اس نے زوردار طریقے سے لمبی چوڑی تقریر کی کہ عہد نامہ جدید کی آخری کتاب یوحنا عارف کا مکاشفہ میں مذکور ”وحشی درندہ۶۶۶“ دراصل پوپ ہی تھا جو روئے زمین پر عیسٰی (علیہ السلام) کا نائب اور مددگار تھا ہم مسلمانوں کے لئے یہ موزوں نہیں کہ ہم پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک عیسائیوں کے درمیان موجود اختلافات میں حصہ لیں۔ برسبیلِ تذکرہ عیسائیوں کی بائبل میں مذکور”وحشی درندہ۶۶۶“ کی تازہ ترین عیسائی توضیح ڈاکٹر ہنری کسنجر ہے۔ (۲) عیسائی عالم اپنے نقطۂ نظر ثابت کرنے کی کوششوں میں انوکھے اور انتھک ہیں۔
    ریوہٹن کی تقریر نے مجھے شعور دیا کہ دریافت کروں کہ اگر بائبل نے اس قدر زیادہ چیزوں کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں۔ حتیٰ کہ ”پوپ“ اور ”اسرائیل“ کو بھی نہیں چھوڑا، تو یقینا اس نے انسانیت کے سب سے بڑے محسن پیغمبر پاک حضرت محمد ﷺ کے متعلق ضرور کچھ کہا ہو گا۔
    میں نوجوانی کے عالم میں ہی اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ میں نے بے شمار پادریوں سے ملاقاتیں کیں، وعظ سنے اور بائبل کی پیش گوئیوں کے متعلق جو مواد مجھے مل سکا، اُس کا مطالعہ کیا۔ آج شب میں آپ کے سامنے ایک ایسے انٹرویو کا بیان کروں گا جو ولندیزی چرچ کے پادری (۳) سے لیا گیا۔
    خوش قسمت ۳۱
    مجھے عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر تقریر کرنے کے لیے ٹرانسوال(۴) مدعو کیا گیا۔ یہ جان کر جمہوریہ کے اس صوبے میں افریقی زبان عام بولی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ میرے اپنے رشتہ دار بھی یہی زبان بولتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے اس زبان کی شدبد ہونی چاہیے تا کہ میں لوگوں کے ساتھ کچھ اپنائیت محسوس کر سکوں۔ میں نے ٹیلیفون ڈائریکٹری اٹھائی اور افریقی زبان بولنے والے کلیساؤں کو فون کرنا شروع کیا۔ میں نے پادریوں کو اپنے مقصد بتایا کہ میں اُن سے بحث مباحثہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ لیکن اُن سب نے کسی نہ کسی بہانے میری درخواست ماننے سے انکار کر دیا۔ عدد۱۳ میرے لیے خوش قسمتی کا ہندسہ ثابت ہوا۔ تیرھویں ٹیلیفون کال میرے لئے خوشی اور اطمینان کا باعث بنی۔ ہفتہ کی شام کو جب میں ٹرانسوال کو روانہ ہونے والا تھا، ایک پادری وان ہیرڈن اپنے گھر میں ملاقات پر رضا مند ہو گا۔
    اس نے اپنے برآمدہ میں مجھے دوستانہ طور پر خوش آمدید کہا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر مجھے اعتراض نہ ہو تو آزاد ریاست میں رہنے والے اپنے سسر (۷۰ سال کا ایک بوڑھا آدمی) کو بھی بحث میں شامل کرے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ تھا۔ ہم تینوں پادری کی لائبریری میں بیٹھ گئے۔
    کیوں کچھ نہیں؟
    میں نے سوال کیا۔ ”بائبل محمدﷺ کے متعلق کچھ کہتی ہے؟“ انہوں نے بے تامل جواب دیا” کچھ نہیں!“ میں نے پوچھا” کیوں کچھ نہیں؟“ کیا آپ کے نظریے کے مطابق بائبل ، روس کے عروج، قربِ قیامت حتٰی کہ رومن کیتھولک کے پوپ کے متعلق بہت کچھ نہیں بتاتی؟ وہ بولا ” ہاں، مگر اس میں محمدﷺ کے متعلق کچھ نہیں!“ میں نے دوبارہ پوچھا، ”کیوں کچھ نہیں؟“ یقینا یہ آدمی محمد ﷺ جو کروڑوں افراد پر مشتمل اہل ایمان کی ایک عالمی قومیت وجود میں لانے کا باعث ہیں، جو آپﷺ کے حکم کے مطابق مندرجہ ذیل پر ایمان رکھتے ہیں:
    ۱) یسوع علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش
    ۲) یسوع علیہ السلام مسیح ہیں۔ (۵)
    ۳) انہوں (عیسٰی علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا اور پیدائشی اندھوں اور جزامیوں کو تندرست کیا۔
    یقینا اس کتاب (بائبل) میں بنی آدم کے اس عظیم راہنما کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہو گا، جس نے یسوع(عیسٰی) علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہ السلام کے متعلق اتنے اچھے کلمات کہے؟“
    آزاد ریاست کے اس عمر رسیدہ باشندے نے جواب دیا، ”میرے بیٹے میں یہ بائبل گذشتہ پچاس برسوں سے پڑھ رہا ہوں۔ اگر اس میں اُن کا کوئی ذکر ہوتا تو مجھے ضرور علم ہوتا“
    کہیں بھی نام کا ذکر نہ تھا!
    میں نے سوال کیا!” آپ کے عقیدہ کی رو سے کیا توراة میں یسوع(عیسٰی) علیہ السلام کی آمد کے متعلق سینکڑوں پیش گوئیاں موجود نہیں ہیں؟ پادری نے لقمہ دیا، ”سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں!“ میں نے جواب دیا ”میں توراة میں یسوع(علیہ السلام) کے متعلق پیش گوئیوں کے تعداد پر بحث نہیں کروں گا۔ کیونکہ تمام اسلامی دنیا اُن (یسوع علیہ السلام) پر بائبل کی شہادت کے بغیر ہی ایمان لا چکی ہے۔ ہم مسلمان محض محمد ﷺ کے حکم پر عیسٰیؑ کو پیغمبر تسلیم کر چکے ہیں اور آج دنیا میں محمد ﷺ کے پیروکاروں کی تعداد ۹۰ کروڑ ہے کم نہیں جو بائبل کی اتھارٹی پر عیسائیوں سے قائل ہوئے بغیر اللہ کے اس عظیم پیغمبر حضرت عیسٰیؑ سے محبت اور ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں۔ اُن ہزاروں پیش گوئیوں میں سے جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے، کیا آپ مجھے کوئی ایک واحد پیش گوئی ایسی بتا سکتے ہیں جہا ں یسوع علیہ السلام کا ذکر ان کا نام لے کر کیا گیا ہو؟ اصطلاح (مسیح) جس کا ترجمہ کرائسٹ کیا گیا ہے، نام نہیں بلکہ خطاب ہے۔کیا کوئی ایک بھی ایسی پیش گوئی ہے کہ مسیح کا نام یسوع ہو گا اور ان کی ماں کا نام مریم علیہ السلام ہو گا۔ یہ کہ انکا مفروضہ باپ یوسف بخار ہو گا۔ یہ کہ وہ ہیروڈ بادشاہ کے عہد میں پیدا ہو گا وغیرہ وغیرہ؟ نہیں! ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ پھر آپ کیسے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ ہزاروں پیش گوئیاں یسوع علیہ السلام کے متعلق ہیں۔
    پیش گوئی کیا ہے؟
    پادری نے جواب دیا: ”پیش گوئیاں، مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی کسی چیز کی لفظی تصاویر ہوتی ہیں۔ جب وہ چیز حقیقت میں وقوع پذیر ہوتی ہے تو ہم اُن پیش گوئیوں میں جو ماضی میں کی گئی تھیں۔ واضح طور پر اس چیز کا پورا ہونا دیکھتے ہیں۔ “ میں نے کہا”آپ دراصل جو کرتے ہیں یہ ہے کہ آپ نتیجہ اخذکرتے ہیں، دلائل دیتے ہیں، حساب لگاتے ہیں، بالکل دو جمع دو، چار کی طرح “ وہ بولا، ”ہاں“ میں نے کہا: ”اگر یہ ہے وہ جو آپ کو یسوع علیہ السلام کے متعلق اپنے دعوی کی صداقت کے لئے ہزاروں پیش گوئیوں کے ساتھ کرنا پڑا ہے تو ہم یہی طریقہ محمدﷺ کے لئے کیوں نہ اپنائیں؟“ (۶) پادری مان گیا کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے۔ مسئلے کے ساتھ نبٹنے کے لیے ایک مناسب طریقہ ہے۔
    میں نے اسے کہا کہ توراة کتاب پنجم (استثنا) کو کھولو اور باب ۱۸، آیت ۱۸ کو دیکھو۔ میں نے افریقی زبان میں زبانی یہ آیت پڑھی۔ کیونکہ افریقہ میں حکمران قوم کی زبان سے کچھ واقفیت حاصل کرنے کا میرا یہی مقصد تھا۔ اس کا اُردو ترجمہ درج ذیل ہے۷)
    ”میں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔“
    موسٰی علیہ السلام کی مانند پیغمبر:
    افریقی زبان میں آیت تلاوت کرنے کے بعد میں نے اپنے غیر یقینی تلفظ کے لئے معذرت طلب کی۔ پادری نے مجھے یقین دلایا کہ میں درست پڑھ رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا: ” یہ پیش گوئی کس کے متعلق ہے؟“ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہا بولا: ” یسوع علیہ السلام !“ میں نے پوچھا: ” یسوع علیہ السلام کیوں؟ اُن کا نام تو یہاں نہیں لیا گیا؟“ پادری نے جواب دیا: ” چونکہ پیش گوئیاں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی لفظی تصویریں ہوتی ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے الفاظ واضح طور پر اُس (یسوع) کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ غور کرو اس پیش گوئی کے انتہائی اہم الفاظ ’تیری مانند‘۔ موسٰی علیہ السلام کی مانند ، اور یسوع علیہ السلام موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں۔ میں نے سوال کیا: ” کس حساب سے یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں؟“ اس نے جواب دیا: ” چونکہ موسٰی علیہ السلام بھی یہودی تھے اور یسوع علیہ السلام بھی یہودی تھے۔ موسیٰ علیہ السلام بھی پیغمبر تھے اور یسوع علیہ السلام بھی پیغمبر تھے۔ پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں، اور یہ بالکل وہی ہے جو اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو بتایا”تیری مانند“۔ میں نے سوال کیا: ”کیا آپ موسٰی علیہ السلام اور عیسٰی علیہ السلام کے درمیان کوئی اور مشابہت سوچ سکتے ہیں؟“ پادری بولا ” وہ کچھ اور سوچ نہیں سکتا“۔ میں نے پوچھا اگر توراة کتاب استثنا (۸۱:۸۱) میں مذکور پیش گوئی کا اُمیدوار تلاش کرنے کے لیے صرف یہی دو وجوہات ہیں تو اس صورت میں موسٰی علیہ السلام کے بعد مندرجہ ذیل میں سے کوئی بھی وہ مطلوبہ ہستی ہو سکتی ہے۔ سلیمان یسعیاہ، حزتی ایل، دانی ایل، ہو سیع، یو ایل، ملاکی، یوحنا پبتمہ دینے والے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ وہ سب یہودی بھی تھے اور پیغمبر بھی، ہم کیوں نہ یہ پیش گوئی اُن میں سے کسی پیغمبر پر منطبق کریں، صرف یسوع علیہ السلام پر ہی کیوں؟ ہم ایک کو دوسرے پر ترجیح کیوں دیں؟ پادری کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں نے بیان جاری رکھا: ” میرے اخذ شدہ نتائج کے مطابق یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کے قطعی مختلف ہیں۔ اگر میں غلط ہوں تو آپ سے درخواست ہے کہ میری تصحیح کریں۔“
    تین اختلافات :
    پس یہ کہتے ہوئے میں نے دلائل دئیے: ” اوّل یسوع علیہ السلام ، حضرت موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں ہیں کیونکہ آپ کے مطابق ’یسوع علیہ السلام‘ خدا ہیں، جبکہ موسٰی علیہ السلام خدا نہیں ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟ اس نے جواب دیا: ”ہاں“میں نے کہا” پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی ؑکی مانند نہیں ہیں۔“ ”دوسرے آپ کی رو سے ، یسوع علیہ السلام نے دنیا کے گناہوں کے کفارہ میں اپنی جان قربان کی، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے گناہوں کے کفارہ میں اپنی جان نہ دینا پڑی، کیا یہ سچ ہے؟“ وہ پھر بولا: ”ہاں“ میں نے کہا: ”پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں ہیں۔“ ”تیسرے آپ کہتے ہیں۔ یسوع علیہ السلام دوزخ میں تین دن کے لئے گئے، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو وہاں نہ جانا پڑا۔ کیا یہ سچ ہے؟ ” اس نے مسکینی سے جواب دیا: ”ہاں“ میں نے نتیجہ اخذ کیا: ” پس یسوع علیہ السلام، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں ہیں۔“
    ”لیکن پادری صاحب”میں نے بیان جاری رکھا، یہ جامع، ٹھوس اور واضح حقائق نہیں۔ یہ محض عقیدے کے معاملات ہیں، جن پر چھوٹے لوگ لڑکھڑا اور گِر سکتے ہیں۔ آئیے کسی بہت سادہ بات پر بحث کریں۔ اتنی سادہ کہ اگر آپ کے چھوٹے یہ بحث سننے کے لیے بلا لئے جائیں تو انہیں اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ کیا ہم ایسا کریں؟“ پادری اس تجویز پر بہت خوش ہوا۔
    ماں اور باپ:
    ۱۔ موسٰی علیہ السلام کے ماں اور باپ تھے۔ محمد ﷺ کے بھی ماں اور باپ تھے۔ لیکن یسوع علیہ السلام کی صرف ماں تھی، کوئی انسانی باپ نہ تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟“ اس نے کہا”ہاں“ میں نے کہا۔ ”ہاں“ میں کہا (افریقی زبان میں): ” پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں ہیں!“ (اب تک آپ جان گئے ہوں گے کہ میں افریقی زبان صرف مشق کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اس بیان میں اب میں اس کا استعمال ترک کر دوں گا)
    معجزانہ پیدائش:
    ۲۔ ”موسٰی علیہ السلام اور محمدﷺ کی پیدائش فطری طور پر ہوئی لیکن یسوع علیہ السلام کی پیدائش ایک خاص معجزہ تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہمیں انجیل متی ۱۸:۱ میں بتایا گیا ہے۔“ ............ تو اُن کے اکٹھے ہونے (یوسف ؑاور مریمؑ) سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔“
    اور انجیل لوقا سے پتہ چلتا ہے کہ جب مقدس بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری اسے دی گئی تو مریم علیہ السلام نے جرح کی:
    ”مریم علیہ السلام نے فرشتہ سے کہا یہ کیونکر ہو گا جبکہ میں مرد کو نہیں جانتی ؟“
    اور فرشتہ نے جواب میں کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور خدا تعالی کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی“ (انجیل لوقا ۱:۳۵)
    قرآن پاک یسوع علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی تصدیق زیادہ مہذب اور ارفع الفاظ کے ساتھ کرتا ہے۔ اُن (مریم علیہ السلام) کے منطقی سوال کے جواب میں .... بولی:
    ”اے میرے رب! میرے بچہ کہاں سے ہو گا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ نہ لگا یا ؟ “ فرشتہ جواب میں کہتا ہے:
    ”فرمایا اللہ یوں ہی پیدا کرتا ہے جو چاہے جب کسی کام کا حکم فرمائے تو اُس سے یہی کہتا ہے کہ ہو جا وہ فوراً ہو جاتا ہے۔ (۸) (قرآن پاک ۳:۴۷)
    اللہ تعالی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ انسان یا جانور میں تخم بوئے۔ وہ محض چاہتا ہے اور یہ ہو جاتا ہے۔ یسوع علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ (جب میں نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق قرآن اور بائبل کے بیانات کا ہمارے سب سے بڑے شہر کی بائبل سوسائٹی کے سربراہ کے سامنے موازنہ کیا اور اس سے دریافت کیا کہ وہ کونسا نقطۂ نظراپنی بیٹی کو سنانا پسند کرے گا؟ قرآن والا یا بائبل والا!“ اُس نے اپنا سر تعظیماً جھکایا اور جواب دیا ”قرآن والا“۔ قصہ مختصر میں نے پادری سے پوچھا ” کیا یہ سچ ہے کہ یسوع علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طور پر اور موسیٰ علیہ السلام اور محمد ﷺ کی فطری پیدائش کے برعکس ہوئی؟ اس نے فخریہ جواب دیا”ہاں!“ میں نے تب کہا:
    ”پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں بلکہ محمد ﷺ کی مانند ہیں۔“ اور توراة کتاب استثنا (۱۸:۱۸) میں اللہ تعالی موسٰی علیہ السلام سے ارشاد فرماتا ہے۔ ” تیری مانند“ (موسٰی علیہ السلام کی مانند) اور محمدﷺ ، موسیٰ علیہ السلام کی مانند ہیں۔
    شادی کے بندھن:
    ۳) ”موسٰی علیہ السلام اور محمد ﷺ کی شادیاں ہوئیں اور بچے پیدا ہوئے۔ لیکن یسوع علیہ السلام تمام عمر کنوارے رہے۔ کیا یہ سچ ہے؟“ پادری بولا”ہاں!“۔ میں نے کہا: ” اس لئے محمد ﷺ ، موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں۔“
    یسوع علیہ السلام کی قوم نے ان کا انکار کیا:
    ۴) موسٰی علیہ السلام اور محمد ﷺ دونوں پر ان کی حیات میں ہی ان کی قومیں ایمان لے آئیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہودیوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے لیے لامتناہی مسائل پیدا کئے اور ان کے خلاف سازشیں کرتے رہے لیکن ایک قوم کی حیثیت سے انہوں نے تسلیم کر لیاکہ موسٰی علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے جو اُن کی طرف مبعوث کئے گئے۔ عربوں نے بھی محمد ﷺ کی زندگی مشکل بنا دی۔ آپ نے ان کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے۔ مکہ میں ۱۳ سال تک تبلیغ کرنے کے بعد آپﷺ کو اپنے پیدائشی شہر سے ہجرت کرنا پڑی۔ لیکن ان کے انتقال سے قبل عرب کی پوری قوم نے آپﷺ کو اللہ کا پیغمبر مان لیا تھا۔ لیکن بائبل کی رو سے۔ ” وہ (یسوع علیہ السلام ) اپنے گھر آیا اور اس کے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔“(یوحنا ۱:۱۱) اور آج بھی ، دو ہزار سال بعد، اس کی قوم یہود نے من حیث القوم انہیں قبول نہیں کیا ۔کیا یہ سچ ہے؟“ پادری بولا: ”ہاں“
    ”پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں بلکہ محمد ٬ﷺ موسٰی کی مانند ہیں۔“
    دنیا وی بادشاہت:
    ۵) موسٰی علیہ السلام اور محمد ﷺ دونوں پیغمبر بھی تھے اور بادشاہ بھی، پیغمبر سے میری مراد ایک ایسا شخص ہے جسے انسانوں کی ہدایت کے لئے اللہ کی وحی موصول ہوتی رہے ہے اور یہ ہدایت وہ اللہ کی مخلوق کو بغیر کمی بیشی کئے جس طرح موصول ہوئی اسی طرح پہنچاتا رہا۔ بادشاہ ایک ایسی ہستی ہے جسے اپنی رعایا پر زندگی اورموت کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ بات غیر اہم ہے کہ وہ شخص تاج پہنتا ہے یا نہیں اور اسے کبھی بادشاہ یا مطلق العنان حکمران کے طور پر مخاطب کیا گیا یا نہیں۔
    اگر آدمی کو سزائے موت دینے کا اختیار ہو تو، وہ بادشاہ ہے۔ موسٰی علیہ السلام کے پاس یہ اختیار تھا۔ کیا آپ کو وہ اسرائیلی یاد ہے جو ہفتہ کے دن جلانے کو لکڑیان چن رہا تھا اور انہوں نے اسے سنگسار کروا دیا تھا؟ (گنتی۳۶:۱۵)۔ بائبل میں اور جرائم کا تذکرہ بھی ہے جن کی پاداش میں موسٰی علیہ السلام نے یہودیوں کو موت کی سزا دی۔ محمد ﷺ کو بھی اپنی قوم پر زندگی اور موت کا اختیار تھا۔ بائبل میں ایسے اشخاص کا ذکر ہے جنہیں صرف پیغمبری عطا کی گئی لیکن ان کے پاس اپنے احکام پر عمل درآمد کروانے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ اللہ کے ان مقدس بندوں میں کچھ پیغمبر جو اپنی ہدایات کو رد کرنے والوں پر کوئی اختیار نہ رکھتے تھے۔ لوط علیہ السلام، یونس علیہ السلام، دانیال علیہ السلام، عزرا علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام نبی تھے۔ وہ صرف ہدایت دے سکتے تھے لیکن قانون پر عمل درآمد نہیں کروا سکتے تھے۔ مقدس پیغمبر یسوع علیہ السلام کا تعلق بھی انبیاءکی اس نوع سے تھا۔ عیسائیوں کی انجیل واضح طور پر اس امر کی تصدیق کرتی ہے جب یسوع علیہ السلام کو رومی گورنر پانیٹس پائیلیٹ کے سامنے بغاوت کے الزام میں زمین پر گھسیٹا گیا تو انہوں نے اپنے دفاع میں اس جھوٹے الزام کے جواب میں مندرجہ ذیل متاثر کن بیان دیا: ”یسوع علیہ السلام نے جواب دیا کہ میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی اس دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ میں یہودیوں کے حوالے نہ کیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں“ (یوحنا۳۶:۱۸)
    اس بیان نے پائیلیٹ کو قائل کر دیا کہ اگرچہ یسوع علیہ السلام کا ذہنی توازن درست نہیں پھر بھی وہ اس کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ یسوع علیہ السلام نے صرف روحانی بادشاہت کا دعوی کیا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے صرف پیغمبری کا دعوی کیا۔ کیا یہ سچ ہے؟ “ پادری نے جواب دیا: ”ہاں“ میں نے کہا: ” پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں بلکہ محمد ﷺ ، موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں۔“
    کوئی نیا قانون نہیں:
    ۶) موسٰی علیہ السلام اور محمد ﷺ اپنی قوم کے لئے نئے قوانین و ضوابط لائے۔ موسٰی علیہ السلام نے اسرائیلیوں کو نہ صرف شریعت کے دس احکامات دئیے بلکہ اپنی قوم کی راہنمائی کے لیے ایک جامع قانون بھی عطا کیا۔ محمدﷺ ایسے لوگوں کے پاس مبعوث ہوئے جو سراپا جاہل اور وحشی تھے۔ وہ اپنی سوتیلی ماؤں سے شادیاں کر لیتے، اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے۔ شراب نوشی، زنا، بت پرستی اور جوا، ان کی زندگی کے عام معمول تھے۔ گِبن، اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی کا خاکہ اپنی کتاب’سلطنت روم کا سقوط و زوال‘ میں یوں کھینچتا ہے۔ ” انسانی درندے ، قریباً عقل سے خالی، بقیہ حیوانی مخلوق سے بمشکل تمیز کئے جا سکتے تھے۔ اُس وقت ”انسان “ اور ”حیوان“ میں فرق کرنا بہت مشکل بات تھے۔ وہ انسانی شکل میں حیوان تھے۔
    جس طرح حقیر و حشی پن سے محمد ﷺ نے انہیں سر بلند کیا، اس کا نقشہ تھامس کارلائل کچھ یوں کھینچتا ہے: ”روشنی اور علم کے مشعل برداروں کے طور پر عربوں کے لئے یہ ایسے ہی تھا جیسے اندھیرے سے روشنی پیدا ہونے کا عمل۔ ابتدائے آفرینش سے صحرا میں بے نام پھرنے والی غریب چرواہا قوم، دیکھو کہ بے نام دنیا کے نامور بن گئے۔ چھوٹے دنیا کے بڑے ہو گئے۔
    ایک صدی کے اندر عرب کی سرحدیں ایک طرف غرناطہ اور دوسری طرف دہلی تک پہنچ گئیں۔
    شجاعت، طمطراق اور دانش کی روشنی میں دمکتے ہوئے عرب دنیا کے بڑے حصے پر جگمگاتا رہا........
    حقیقت یہ ہے کہ محمد ﷺ نے اپنی قوم کو ایسا قانون اور ضابطہ دیا جو اس سے پہلے انہیں کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔
    ”جہاں تک یسوع علیہ السلام کا تعلق ہے، جب یہودی اُن کی طرف سے بد گمان ہوئے کہ ہو سکتا ہے وہ کوئی جعلساز ہو جو ان کے دین کو بگاڑنے آیا ہو تو یسوع علیہ السلام نے انہیں یہ یقین دلانے میں سخت محنت کی کہ وہ کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے۔ کوئی نیا قانون اور نیا ضابطہ نہیں۔ میں اُن کے اپنے الفاظ کا حوالہ دیتا ہوں:
    ”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔“ (متی ۵: ۱۸۔۱۷)
    دوسرے الفاظ میں وہ کوئی نیا قانون یا ضابطہ نہ لائے وہ صرف پرانے قانون پر عمل درآمد کروانے آئے۔ یہ ہے جو انہوں نے کہا تاکہ وہ سمجھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دل کی بات چھپا کر زبان سے کچھ اور کہہ رہے تھے اور یہودیوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ وہ انہیں اللہ کا پیغمبر سمجھیں۔ اور بہانے سے ایک نیا مذہب اُن پر ٹھونسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نہیں! اللہ کے یہ پیغمبر اللہ کا دین بدلنے کے لئے ایسے غلط طریقے استعمال نہیں کریں گے۔ وہ خود قوانین (اللہ کے) پر عمل پیرا ہوئے۔ انہوں نے موسی علیہ السلام کے احکامات پر عمل کیا اور ہفتے کے دن کا احترام کیا۔ کبھی بھی کسی یہودی نے اُن پر اعتراض نہ کیا۔ آپ روزہ کیوں نہیں رکھتے یا آپ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ کیوں نہیں دھوتے۔ یہ الزامات یہودیوں نے ان کے حواریوں پر لگائے۔ لیکن خود یسوع علیہ السلام پر کبھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اچھے یہودی کے طور پر انہوں نے اپنے سے پیشتر آنے والے پیغمبروں کے قوانین کی عزت و تکریم کی۔ قصہ مختصر انہوں نے کوئی نیا دین نہ بنایا اور موسٰ علیہ السلام اور محمد ﷺ کی طرح کوئی نئی شریعت نہ لائے۔ میں نے پادری سے پوچھا، ”کیا یہ سچ ہے؟“ اُ س نے جواب دیا: ”ہاں“ میں نے کہا: ” پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں بلکہ محمد ﷺ ، موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں۔“
    اُن کا انتقال کیسے ہوا؟
    ۷) ”موسٰی علیہ السلام اور محمد ﷺ ، دونوں کا انتقال فطری طور پر ہوا۔ لیکن نصاری کے عقیدے کے مطابق یسوع علیہ السلام کو تشدد کے ساتھ صلیب پر جاں بحق کیا گیاکیا یہ سچ ہے؟“
    پادری بولا: ”ہاں“ میں نے زور دے کر کہا:” پس یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں بلکہ محمد ﷺ ، موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں۔“
    اسمٰعیل علیہ السلام ، پہلے مولود:
    چونکہ پادری بے بسی سے ہر دلیل کے ساتھ اتفاق کر رہا تھا، میں نے کہا ” پادری صاحب میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے، یہ ہے کہ پوری پیش گوئی میں ابھی تک صرف ایک نقطہ ثابت کیا ہے۔ وہ نقطہ اس جملے ”تیری مانند“ ۔”تیرے جیسا“۔ ”موسیٰ علیہ السلام کی مانند“ کو ثابت کرنا ہے۔ پیشگوئی اس اکیلے جملے سے کہیں زیادہ پر محیط ہے، جو مندرجہ ذیل الفاظ پر مشتمل ہے: ”میں اُن کے لیے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا........“ زور اِن الفاظ، اُن ہی کے بھائیوں میں سے ، پر ہے۔ یہاں موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم یہودیوں کو ایک علیحدہ نسلی تشخص دے کر خطاب کیا گیا ہے۔ اس طرح ان کے بھائی بلاشبہ ” عرب“ بنتے ہیں۔ مقدس بائبل ابراہیم علیہ السلام کو ”خلیل اللہ“ (اللہ کا دوست ) کہہ کر خطاب کرتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں۔ سارہ علیہا السلام اور ہاجرہ علیہا السلام۔ ہاجرہ علیہا السلام سے ابراہیم علیہ السلام کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ ان کا پہلا بیٹا ہوا اور ابرام (۹) نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ علیہا السلام سے پیدا ہوا اسماعیل علیہ السلام رکھا۔ (پیدائش ۱۵:۱۶)۔ تب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو ........(پیدائش۱۷:۲۳)۔ اور جب اس کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کا ختنہ ہوا تو وہ تیرہ برس کا تھا۔ (پیدائش ۱۷:۲۸)۔ ۱۳ سال کی عمر تک اسمٰعیل علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے اور جانشین رہے۔ جب اللہ تعالی اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان معاہدہ کی توثیق ہو گئی تو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو حضرت سارہ علیہا السلام کے بطن سے ایک اور بیٹا عنائت کیا۔ جن کا نام اسحاق علیہ السلام تھا اور جو اپنے بھائی اسمٰعیل علیہ السلام سے یقینا عمرمیں چھوٹے تھے۔
    عرب اور یہودی:
    اگر اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام ، ایک باپ ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ تو وہ آپس میں بھائی ہیں۔ پس اُن میں سے ایک کی اولاد دوسرے کی اولاد کی بھائی ہوئی۔ اسحاق علیہ السلام کی اولاد یہود ہوئی اور اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد عرب ہیں۔ پس وہ دونوں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ بائبل میں بیان ہوا ہے۔
    ”اور وہ اسمٰعیل علیہ السلام اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسا رہے گا۔ “ (پیدائش۱۲:۱۶) اور وفات پائی (اسماعیل علیہ السلام نے) اور اپنے لوگوں میں جا ملا۔ (پیدائش ۱۷:۲۵)۔ بنی اسحٰق علیہ السلام بنی اسمٰعیل علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ اسی رو سے محمد ﷺ بنی اسرئیل کے بھائیوں میں سے ہوئے کیونکہ وہ اسمٰعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ پیشگوئی کی گئی ہے۔ ”ان ہی کے بھائیوں میں سے “ (استثنا۱۸:۱۸) یہاں پیش گوئی میں بہت واضح طور پر ذکر ہوا ہے کہ آنے والا پیغمبر جو موسٰی علیہ السلام کی مانند ہو گا، یقینا بنی اسرائیل ، یا اُن میں سے ، نہیں بلکہ انہی کے بھائیوں میں سے ہو گا۔ پس محمد ﷺ اُن ہی کے بھائیوں میں سے تھے!
    منہ میں کلام:
    پیش گوئی مزید کہتی ہے: ”........ اور میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا........“ اس کا کیا مطلب ہے جب یہ کہا جائے کہ میں اپنا کلام ”تمہارے منہ میں ڈالوں گا“؟ جب میں نے آپ کو (جناب پادری صاحب) کہا کہ کتاب پیدائش باب ۸۱ آیت ۸۱ شروع سے کھولو، اور اگر میں نے آپ کو کہا ہوتا: ”پڑھو“ اور اگر آپ نے پڑھا ہوتا : تو کیا میں اپنا کلام آپکے منہ میں ڈال رہا ہوتا؟ پادری نے جواب دیا: ”نہیں “ لیکن میں نے بیان جاری رکھا: ” اگر میں نے آپ کو عربی جیسی کوئی زبان سکھانا ہوتی جس کے متعلق آپ کو کوئی علم نہ ہوتا۔ اور اگر میں آپ کو کہتا کہ جو کچھ میں کہوں میرے پیچھے پیچھے دہراتے جائیں، جیسے:
    قُل ھُوَاللّٰہُ اَحَدُ۔اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔لَم یَلِد۔ وَلَم یُولَد۔وَلَم یَکُن لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُ۔
    تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اُس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی سے پید اہوا۔ اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔ (قرآن پاک ۱۱۲)
    کیا میں ایک غیر مانوس زبان کے ایسے ان سنے الفاظ جو آپ نے دہرائے ہیں، آپ کے منہ میں نہ ڈال رہا ہوتا؟ پادری نے تسلیم کیا کہ یہ درحقیقت ایسا ہی ہوتا۔ میں نے اسی لہجے میں کہا کہ مقدس قرآن کے الفاظ جو محمد ﷺ پر اللہ جل شانہٗ نے نازل کئے الہامی تھے۔
    تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمد ﷺ کی عمر چالیس سال تھی۔ وہ شہر مکہ کے شمال میں کوئی بیس میل دور ایک غار میں تھے۔ یہ اسلامی مہینہ رمضان کی ستائیسویں تاریخ تھی۔ غار میں رئیس الملائکہ جبرائیل علیہ السلام آپ کی مادری زبان میں کہتے ہیں، اِقرَا، جس کا مطلب ہے ”پڑھ!“ یا ”اعلان کر“ یا ”تلاوت کر“ محمدﷺ ڈر گئے اور سرسیمگی میں جواب دیتے ہیں: مَا اَنا بِقَارِئٍ یعنی میں پڑھا لکھا نہیں ہوں! فرشتہ آپ کو دوسری دفعہ کہتا ہے لیکن آپ کا جواب وہی ہوتا ہے۔ تیسری دفعہ فرشتہ اس طرح کہتا ہے:
    اَقرَا± بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ
    پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
    اب محمدﷺ سمجھ جاتے ہیں کہ کہ جو کچھ ان سے کہا جا رہا ہے، یہ ہے کہ دہرائیں: مکرر کہیں! آپﷺ وہ کلام اسی طرح دہراتے ہیں جس طرح کہ وہ ان کے منہ میں ڈالا جاتا ہے۔
    ۱۔اَقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ
    پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
    ۲۔ خَلَق الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ
    آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔
    ۳۔ اَقرَاوَرَبُّکَ الاَکرَمُ
    پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔
    ۴۔ اَلَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ
    اس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔
    ۵۔عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم
    آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ (قرآن پاک ۹۶۔ ۱:۵)
    محمد ﷺ پر پہلی وحی کے دوران یہی پانچ آیات نازل کی گئیں اور اب یہ آیات قرآن کی چھیانویں سورة کے آغاز میںہیں۔
    وفا شعار گواہ:
    جونہی فرشتہ گیا، محمدﷺ گھر کو لپکے۔ خوفزدہ اور سر سے پاؤں تک پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے آپ نے اپنی پیاری زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہاکو فرمایا کہ آپ کے جسم مبارک پر کپڑا اوڑھا دیں! آپ لیٹ گئے اور انہوں نے آپ پر توجہ مرکوز رکھی۔ جب آپ کو سکون محسوس ہوا، تو آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، ان کو بتایا۔ انہوں نے آپ کو آپ پر اپنے اعتماد کا یقین دلایا اور تسلی دی کہ اللہ تعالی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ کیا یہ کسی بہروپیے کا اعتراف تھا؟ کیا بہروپئے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جب اللہ کا کوئی فرشتہ اُن کو اللہ کا پیغام دیتا ہے تو وہ خوفزدہ ہو کر ڈر سے پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف اپنی ازواج کے پاس بھاگ جاتے ہیں؟ کوئی نقاد بھی دیکھ سکتا ہے کہ آپ کا رد عمل اور اعترافات ، کسی ایماندار، مخلص اور سچے آدمی۔ الامین۔ ایماندار ، نڈر اور سچے انسان کے ہی ہو سکتے ہیں۔
    اپنی پیغمبرانہ زندگی کے بقیہ تیئس سالوں میں، کلام آپ کے منہ میں ڈالا گیا۔ اور آپ اُسے دہراتے رہے۔ ان کلمات الہی نے آپ کے دل و دماغ پر انمٹ تقوش چھوڑے اور جیسے جیسے مقدس صحیفے (قرآن پاک) کا حجم بڑا ہوتا گیا، وہ کھجور کے پتوں، کھالوں اور جانوروں کے شانوں کی ہڈیوں اور جاں نثار صحابہ ؓ کے دلوں پر رقم ہوتے رہے۔ اُن کے انتقال سے پہلے یہ کلمات اس شکل میں ترتیب دئیے جا چکے تھے۔جو (ترتیب) آج قرآن پاک میں موجود ہے۔
    کلامِ الہی حقیقتاً آپ کے منہ میں ڈالا جاتا رہا۔ بالکل اسی طرح جیسے زیر بحث پیش گوئی میں پہلے بتایا جاچکا ہے۔ اور میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔
    امی پیغمبر:
    غارِ حرا میں جو بعد میں جبل النور مشہور ہوئی محمدﷺ کا مشاہدہ اور پہلی وحی پر آپ کا رد عمل دراصل بائبل کی ایک اور پیش گوئی کی تکمیل ہیں۔ یسعیاہ باب ۲۹ آیت ۱۲ میں ہم پڑھتے ہیں :”اور پھر وہ کتاب (الکتاب، القرآن، پڑھنا، تلاوت کرنا) کسی ناخواندہ کو دیں“ تو (النّبّی الاُمّی۔ ناخواندہ پیغمبر، قرآن پاک ۱۵۸:۷) ”اور کہیں اس کو پڑھ، میں درخواست کرتا ہوں۔“ (عبرانی کتاب میں نہیں ہیں۔رومن کیتھو لک کے ساتھ اور ’نظر ثانی شدہ سٹینڈرڈ متن‘ کے ساتھ بھی موازنہ کرو۔) ”اور وہ کہے کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔“
    ”میں پڑھنا نہیں جانتا “ ان الفاظ مَااَنَا بِقَارِئٍ کا لفظ بلفظ درست ترجمہ ہے جو محمد ﷺ نے دوبار مقدس فرشتے ، رئیس الملائکہ جبرائیل علیہ السلام کو اس وقت کہے جب اس نے آپ کو کہا، اِقرَا ‘‘پڑھ!“
    اب میں بغیر وقفے کے اس پوری آیت کا حوالہ کیوں نہ دوں جس طرح کہ وہ ”شاہ جیمز کے متن“ یا ”مستند متن“ جیسا کہ وہ عام طور پر مشہور ہے۔ میں درج ہے: ”اور پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اس کو پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ “(یسعیاہ ۱۲:۲۹)
    یہ بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ چھٹی صدی عیسوی کے دوران جب محمد ﷺ خود حیات تھے اور ہدایت فرماتے تھے، بائبل (۱۰) کے عربی تراجم کا کوئی وجود نہ تھا۔ علاوہ ازیں وہﷺمطلق اَن پڑھ تھے کسی انسان نے کبھی آپ کو ایک لفظ بھی نہ پڑھایا۔ آپ کا خالق خود آپ کا استاد تھا۔
    وَمَا یَنطِقُ عَنِ الھَوٰی
    اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔
    اِن ھُوَ اِ لَّا وَحیُ یُّوحٰی
    وہ تو نہیں مگر جو انہیں کی جاتی ہے۔
    عَلَّمَہ شَدِیدُ القُوٰی
    انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقتور نے(قرآن پاک ۵۳: ۳۔۵)
    بغیر کسی انسان سے تعلیم پائے ہوئے ، ”آپ نے اہلِ علم کی دانش کا سر جھکا دیا۔“
    سخت تنبیہ:
    میں نے پادری کو کہا کہ دیکھو تمام پیشگوئیاں کس طرح محمد ﷺ پر ہاتھ کے دستانے کی طرح ٹھیک ٹھیک پوری اُترتی ہیں۔ اور محمد ﷺ پر اُن کی تکمیل کو سچا ثابت کرنے کے لئے ہمیں پیش گوئیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا نہیں پڑتا!
    پادری نے جواب دیا” تمہاری تمام توقعات بہت درست دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان کی کوئی حقیقی اہمیت نہیں ہے کیونکہ ہم عیسائیوں کے پاس یسوع علیہ السلام ”اللہ کے اوتار“ ہیں اور انہوں نے ہمیں گناہوں کے عذاب سے نجات دلا دی۔“میں نے کہا”غیر اہم؟ اللہ ایسا نہیں سمجھتا !اُس نے اپنی تنبیہ دینے میں بہت تردد کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ جانتا تھا کہ دنیا میں آپ کی طرح کے لوگ موجود ہوں گے جو بے پروائی اور غیر سنجیدگی سے اُس کے الفاظ کی اہمیت گھٹا دیں گے۔ پس وہ کتاب استثنا ۱۸۔۱۸ کے فوری بعد خوفناک تنبیہ دیتا ہے، ” اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اُن کا حساب اس سے لوں گا۔“ (کیتھولک بائبل میں مذکور ہے کہ میں اس سے بدلہ لوں گا!) کیا اس سے آپ کو خوف نہیں آتا؟ اللہ جل شانہ بدلہ لینے کی دھمکی دے رہا ہے! اگر کوئی غنڈہ ہمیں دھمکی دے تو ہمارا پتہ پانی ہو جاتا ہے لیکن اللہ کی تنبیہ سے آپ کو کوئی ڈر نہیں لگتا؟
    معجزات کا معجزہ:
    استثنا باب۱۸، آیت ۱۹ میں ہم محمد ﷺ کی قرات میں پیشگوئی کی تکمیل کا مزید وقوع پذیر ہونا دیکھتے ہیں! ان الفاظ پر غور کرو۔ ”........میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا۔“ کس کا نام لے کر محمد ﷺ کلام کر رہے ہیں ؟ میں نے قرآن پاک کھولا ۔ سورة نمبر۱۱۴۔ سورة والناس، علامہ یوسف علی کا ترجمہ آخری سورة اور سورة کے سر پر واقع فارمولا اُسے دکھایا۔
    بسم اللہ الرحمن الرحیم٭ یعنی شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بے حد رحم کرنے والا ہے ۔ اور پھر سورة۱۱۳ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اور اس کے معنی: ”شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بے حد رحم کرنے والا ہے۔“ اور پھر پیچھے کی طرف ہر سورة ۱۱۲، ۱۱۱، ۱۱۰ علٰی ہذا القیاس کے سر پر وہی فارمولا تھا اور ہر صفحہ پر وہی معانی تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اختتامی سورتیں چھوٹی ہیں اور تقریباً ایک ایک صفحہ پر محیط ہیں۔
    اور پیش گوئی کا تقاضا کیا ہے؟ ............ جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، اور کس کا نام لے کر محمد ﷺ کلام کرتے ہیں؟ اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور بے حد رحم کرنے والا ہے۔ ۔ محمدﷺ کی ذات میں پیش گوئی من و عن تکمیل پا رہی ہے۔
    قرآن کی ہر سورة ماسوائے نویں سورة کے فارمولا بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭ شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بے حد رحم کرنے والا ہے، سے شروع ہوتی ہے، مسلمان اپنا ہر کام (جائز ) اسی پاک فارمولے کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ لیکن عیسائی ” باپ ، بیٹا اور مقدس روح کے نام کے ساتھ“ آغاز کرتے ہیں۔(۱۱)
    کتاب استثنا باب ۱۸ کے حوالے سے میں نے آپ کو ۱۵ دلائل دئیے ہیں کہ کیسے یہ پیش گوئی محمد ﷺ سے متعلق ہے اور یسوع علیہ السلام سے بالکل نہیں۔
    یوحنا، یسوع علیہ السلام کی تردید کرتے ہیں:
    نئے عہد نامے (انجیل) میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہود اب بھی اس پیشگوئی موسٰی علیہ السلام کی مانند ایک ....کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ (یوحنا۱۔ ۱۹:۲۵) جب یسوع علیہ السلام نے بنی اسرائیل کا مسیح ہونے کا دعوی کیا تو یہودیوں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ الیاس علیہ السلام کہاں ہیں؟ یہودی ایک اور پیش گوئی پر بھی یقین رکھتے تھے کہ مسیح علیہ السلام کے آنے سے پہلے الیاس علیہ السلام کو دنیا میں دوسری بار ضرور آنا ہے۔ یسوع علیہ السلام ، یہودیوں کے اس عقیدہ کی تصدیق کرتے ہیں:
    ”........ ایلیاہ البتہ آئے گا اور سب کچھ بحال کرے گا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اُسے نہیں پہچانا........ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اُس نے اُن سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے“ (متی ۱۷۔۱۱:۱۳)
    انجیل کے مطابق یہودی ایسی قوم نہ تھے جو کسی متوقع مسیح علیہ السلام کے الفاظ پر ایمان لے آتے۔ اپنا سچا مسیح تلاش کرنے کی کوششوں میں انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ اور یوحنا کی انجیل اس امر کی تصدیق کرتی ہے۔ ”اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کے لئے اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟ تو اس نے اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ (یہ ایک فطری بات تھی کیونکہ ایک ہی وقت میں دو مسیح (۱۲) موجود نہ ہو سکتے تھے۔ اگر یسوع، کرایٹک تھے تو پھر یوحنا، کرائسٹ نہ ہو سکتے تھے)
    ” انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں۔“(یوحنا ۱۔۲۱:۱۹) یہاں یوحنا علیہ السلام بپتسمہ دینے والے یسوع کی تردید کرتے ہیں! یسوع علیہ السلام کہتے ہیں کہ یوحنا علیہ السلام ہی الیاس علیہ السلام ہیں لیکن یوحنا انکار کرتے ہیں کہ جو یسوع علیہ السلام نے اُن کے متعلق کہا ہے، وہ ایسے نہیں ہیں۔ دونوں میں سے ایک یسوعؑ یا یوحناؑ) نعوذ باللہ یقینا سچ نہیں بول رہے۔ یسوع علیہ السلام کی اپنی تصدیق کے مطابق ، یوحنا علیہ السلام بنی اسرائیل کے تمام پیغمبروں سے بڑے تھے: ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کی جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا........ “ (متی ۱۱:۱۱)
    ہم مسلمان یوحنا بپتسمہ دینے والے کو حضرت یحیٰی ؑ کے طور پر جانتے ہیں۔ ہم انہیں اللہ کا سچا پیغمبر مان کر ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں۔ مقدس پیغمبر یسوع علیہ السلام کو ہم حضرت عیسٰی علیہ السلام کہتے ہیں اور انہیں بھی ہم اللہ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک مانتے ہیں۔ ہم مسلمان اُن میں سے کسی ایک پر بھی کیسے جھوٹ کا الزام لگا سکتے ہیں؟ یسوع علیہ السلام اور یوحنا علیہ السلام کے درمیان یہ مسئلہ ہم عیسائیوں کے حل کرنے کے لئے چھوڑتے ہیں، کیونکہ ان کے مقدس صحیفے ایسے تضادات سے اٹے پڑے ہیں جن کی تاویل وہ ”یسوع علیہ السلام کے سیاہ فرمودات “(۱۳) کہہ کر کرتے ہیں۔ ہم مسلمان دراصل اس آخری سوال میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو یہودی اشراف نے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کیا۔ ”کیا تو وہ نبی ہے؟ اور اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔“ (یوحنا۲۱:۱)

    تین سوالات:
    براہ مہربانی غور کرو کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کو تین مختلف اور واضح سوالات کئے گئے جن کا جواب انہوں نے تین زور دار”نہیں “ کے ساتھ دیا۔ ہم اُن سوالات کا دوبارہ تذکرہ کرتے ہیں۔
    ۱۔ کیا تو مسیح ہے؟
    ۲۔ کیا تو ایلیاہ ہے؟
    ۳۔ کیا تو وہ نبی ہے؟
    لیکن عیسائی دنیا کے اہل علم کے بہر کیف یہاں صرف دو سوالات دکھائی دیتے ہیں۔ اس بات کو دگنا واضح کرنے کے لئے کہ یہودی جب یوحنا بپتسمہ دینے والے سے سوال و جواب کر رہے تھے۔ تو ان کے ذہنوں میں یقینا تین علیحدہ علیحدہ پیش گوئیاں موجود تھیں۔ آئیے مندرجہ ذیل آیات میں یہودیوں کے اعتراض کو ملاحظہ کریں۔
    ”انہوں نے اس سے سوال کیا کہ اگر تو:
    ۱لف) نہ مسیح ہے،
    ب) نہ ایلیاہ ہے؟
    ج) نہ وہ نبی ہے،
    تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے۔ “ ( یوحنا ۲۵:۱)
    یہودی تین واضح اور مختلف پیش گوئیوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ پہلی مسیح کی آمد، دوسری ایلیاہ کی آمد اور تیسری اس نبی کی آمد۔
    ”وہ نبی“
    اگر ہم کسی بھی بائبل کو دیکھیں جس میں ربط یا حوالہ جات کی موجودگی پائی جاتی ہو، تو جہاں یوحنا ۲۵:۱میں لفظ ”نبی“ رقم ملتا ہے، وہیں حاشیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ الفاظ کتاب استثنا ۱۸: ۱۵ اور۱۸ میں درج پیشگوئی سے متعلق ہیں۔ اور ہم نے بے شمار شہادتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ ”وہ نبی“۔ موسٰی علیہ السلام کی مانند نبی“ ”تیری مانند“ حضرت محمد ﷺ تھے کہ کہ یسوع علیہ السلام۔
    ہم مسلمان اس بات سے انکار نہیں کر رہے کہ یسوع علیہ السلام ہی ”مسیح “ تھے اور اسی لفظ کا ترجمہ ”کرائسٹ“ کیا گیا۔ ہم اُن ” ہزاروں “ پیشگوئیوں سے بھی انکاری نہیں ہیں، جن کا عیسائی دعوی کرتے ہیں کہ مسیح کی آمد کے متعلق بائبل میں مذکور ہیں۔ جو ہم کہتے ہیں یہ ہے کہ کتاب استثنا ۸۱:۸۱ یسوع مسیح علیہ السلام کے متعلق نہیں ہے بلکہ پیغمبر پاک محمد ﷺ کی نسبت صاف صاف پیش گوئی ہے۔
    پادری شائستگی سے یہ کہتے ہوئے مجھ سے جدا ہوگیا کہ یہ بہت دلچسپ بحث تھے اور اس کی دلی خواہش ہے کہ میں کسی دن اس موضوع پر اس کے ہاں اجتماع سے خطاب کروں گا۔ اس واقعہ کو پندرہ برس گذر چکے ہیں۔ لیکن میں ابھی تک اس موقع کا انتظار کر رہا ہوں۔
    مجھے یقین ہے کہ پادری پیش کش کرتے وقت مخلص تھا، لیکن تعصبات کو ختم کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔اور پھر کون اپنا حلقہ ٔاقتدار کھونا چاہتا ہے؟
    یقینی کسوٹی:
    میں یسوع علیہ السلام کی بھیڑوں کو کہتا ہوں کہ ہم اُس کسوٹی کو استعمال کیوں نہ کریں، جس کے ساتھ پیغمبری کے کسی دعویدار کو پرکھنے کے لیے مالک خود ہمیں بتاتا ہے؟ اُس نے کہا تھا:
    ” اُن کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟۔.... اُن کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے۔(متی۷: ۱۶:۲۰)
    محمدﷺ کے ارشادات کو پرکھنے کے لیے یہ کسوٹی استعمال کرنے پر تم کیوں خوفزدہ ہو؟ تم اللہ کی آخری کتاب، قرآن پاک میں موسٰی علیہ السلام اور یسوع علیہ السلام کی سچی تعلیمات کی سچی تکمیل دیکھو گے جو دنیا کو درکار انتہائی ضروری امن اور مسرت کا باعث ہو گی۔ ” اگر محمد ﷺ جیسا کوئی شخص جدید دنیا کا ڈکٹیٹر بن جاتا تو وہ اس کے مسائل کامیابی سے حل کر لیتا اور یہ امر دنیا کو درکار انتہائی ضروری امن اور مسرت کا باعث ہوتا۔“ (جارج برنارڈ شا)
    عظیم ترین:
    ” تاریخ کے عظیم لیڈر کون تھے؟“ کے موضوع پر ہفتہ وار میگزین ” ٹائم“ نے اپنے ۱۵ جولائی ۱۹۷۴ءکے شمارے میں مختلف مؤرخین، ادبار، فوجی شخصیات، کاروباری افراد اور دوسرے لوگوں سے اُن کی آرا معلوم کیں۔ کسی نے کہا یہ ہٹلر تھا، دوسروں نے گاندھی، بدھ، لنکن اور اسی طرح کے دوسرے مشاہیر کا نام لیا۔ لیکن ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ماہر ِ تحلیلِ نفسی جیولز میسرمین نے انتخاب کا صحیح معیار واضح کر کے اس مسئلے کو آسان بنا دیا۔ اس نے کہا: ”لیڈروں پہ لازم ہے کہ اُن میں تین خصوصیات ہوں:
    ۱۔ اپنے پیروؤں کی بہتری کا سامان مہیا کریں۔
    ۲۔ ایک ایسی معاشرتی تنظیم مہیا کریں جس میں لوگ اپنے آپ کو نسبتاً زیادہ محفوظ سمجھیں اور
    ۳۔ اُن کو ایک عقیدہ دیں۔“
    مندرجہ بالا تین کسوٹیوں کے ساتھ وہ تاریخ کو کھنگالتا ہے اور ہٹلر، پاسچر، سیزر، موسٰی علیہ السلام، کنفیوشس اور دوسرے بہت سے لوگوں کا تجزیہ کرتا ہے اور آخر کار نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ:
    ” پاسچر اور سالک (Salk) کی طرح کے لوگ مندرجہ بالا نمبر 1 کے مطابق لیڈر ہیں۔ ایک طرف گاندھی، اور کنفیوشس کے قبیل کے لوگ اور دوسری طرف سکندر، سینسرر اور ہٹلر کی مانند لوگ مندرجہ بالا نمبر 2 کے مطابق لیڈر ہیں اور شاید وہ نمبر 3 کی رو سے بھی لیڈر ہوں۔ یسوعؑ اور بدھ صرف تیسری نوع سے تعلق رکھتے ۔ شاید سارے زمانوں کے عظیم ترین لیڈرمحمد ﷺ تھے جن میں یہ تینوں خصوصیات مجتمع تھیں۔ ان سے کمتر درجے میں موسٰی علیہ السلام میں بھی یہی تینوں خصوصیات موجود تھیں۔“
    شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر جسے میں یہودی سمجھتا ہوں کے مقرر کردہ بامقصد معیار کے مطابق یسوع علیہ السلام اور بدھ بنی نوع انسان کے بڑے لیڈروں کے صف میں کہیں جگہ نہیں پاتے۔ لیکن ایک عجیب اتفاق موسٰی علیہ السلام اور محمد ﷺ کو ایک گروپ میں لے آتاہے اور اس طرح یہ دلیل اور وزن دار ہو جاتی ہے کہ یسوع علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی مانند نہیں بلکہ محمد ﷺ ،موسٰی علیہ السلام کی مانند ہیں۔ (استثنا ۸۱:۸۱) ”تیری مانند“۔ موسٰی علیہ السلام کی مانند!
    انجام کار میں بائبل کے شارح قابلِ احترام عیسائی عالم کے جملے اور اُس کے بعد اُس کے آقا کاارشاد رقم کر کے اختتام کرتا ہوں۔
    ”ایک سچے پیغمبر کی حتمی پہچان اُس کی تعلیمات کی اخلاقی قوت ہے۔“ (پروفیسر ڈومیلو)
    ”اُن کے پھلوں سے تم اُنہیں پہچان لو گے۔“ (یسوع مسیح علیہ السلام )

    تشریحات
    ۱۔ یہ موسٰی علیہ السلام کا حوالہ ہے۔ اس آیت کے لئے علامہ یوسف علی کی تفسیر ۴/۳۸۷۴ ملاحظہ کریں۔
    ۲۔ عیسائی شارحین انگریزی حروف تہجی کو چھ کی تدویجی عددی قیمت دیتے ہیں جیسے A=6، B=12، C=18،D=24
    علی ہذا القیاس 6 کی طاقت کے ساتھ قیمتوں میں اس لئے اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ بائبل میں وحشی درندے کا عدد”666“ ہے۔ اس ضمن میںہنری کسنجر کا تجزیہ کریں۔
    ۳۔ CHRIST افریقی زبان میںپادری، کلیسائی علاے کا پادری یا واعظ کا متبادل لفظ ہے۔ اردو ترجمہ میں اس کے لئے لفظ پادری ہی استعمال کیا گیا ہے۔
    ۴۔ جمہوریہ جنوبی افریقہ کے صوبوں میں سے ایک
    ۵۔ لفظ”مسیح“ کا ماخذ عربی اور عبرانی لفظ ”مسح“ ہے جس کا مطلب ہے رگڑنا، مالش کرنا اور ہاتھ پھرنا۔ اس کی مذہبی اہمیت ’بپتسمہ‘ کرنا ہے۔ پادری اور بادشاہ اپنے فرائض سنبھالنے سے پہلے بپتسمہ کئے جاتے۔ ’مسیح‘ جس کا ترجمہ کرائسٹ کیا گیا تھا، کا مطلب خدا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کافر سائرس کو بھی بائبل میں ”کرائسٹ“ کہا گیا ہے۔ (عیسیاہ ۴۵:۱)
    ۶۔ محمدﷺ کا تذکرہ ”سلیمان علیہ السلام کے مزامیر“ ۵:۱۶ ، میں نام لیکر کیا گیا ہے۔ اس جگہ جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے۔ وہ محمدم (Mohammedim)ہے۔ آخری حروف im ، عزت ، جاہ و جلال اور عظمت کو ظاہر کرتے ہیں۔ بائبل کے مستند تراجم میں im کے بغیر باقی لفظ کے معانی ”انتہائی دلکش “ یا ”تعریف کیا گیا“ تعریف کے قابل کے ہیں جو کہ محمد ﷺ کے معانی بھی ہیں!
    ۷۔ اگر یہ مضمون کسی اور زبان میں ترجمہ کرنا ہو تو براہ مہربانی افریقی زبان کے الفاظ کو مقامی لہجے میں تبدیل کریں اور بائبل کے اقتسابات کا اپنے طور پر ترجمہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جس زبان میں ترجمہ کرنا ہو اسی زبان کی بائبل حاصل کریں اور بالکل وہی الفاظ لکھیں جو اس بائبل میں رقم ہوں۔
    ۸۔ براہِ مہربانی قرآن پاک۳:۴۲ اور ۱۹:۱۶ کو کھولیں جہاں یسوع علیہ السلام (عیسٰی علیہ السلام ) کی پیدائش کا ذکر ہے وہاں اس کا تفسیر کے ساتھ مطالعہ کریں اور اپنے عیسائی دوستوں کی توجہ اس اعلی مقام کی طرف مبذول کریں جو اسلام نے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ کو دیا ہے۔
    ۹۔ بائبل کے مطابق ابراہام علیہ السلام کا نام پہلے ابرام علیہ السلام تھا۔ پھر اللہ نے اسے تبدیل کر کے ابراہام علیہ السلام (ابراہیم علیہ السلام) رکھا۔
    ۰۱۔ آج صرف عربوں کے لئے ۴۱ مختلف عربی لہجوں میں بائبل موجود ہیں۔ کتاب ”مختلف زبانوں میں انجلیں“ بائبل سوسائٹی سے دستیاب ملاحظہ کریں۔
    ۱۱۔ عیسائی عالم ”اللہ“ کے نام سے بھی لا علم ہیں۔کیونکہ GOD ایک نام نہیں ہے اور ”باپ“ بھی نام نہیں ہے۔اس کا نام کیا ہے؟ جاننے کے لئے ، ”محمد ﷺ،عیسٰی علیہ السلام کے فطری جانشین“ مصنف احمد دیدات کو ملاحظہ کریں
    ۲۱۔ یہودی دو نہیں بلکہ ایک مسیح کا انتظار کر رہے تھے۔
    ۳۱۔ ۳۰ دسمبر۱۹۷۴؁ ٹائم میگزین میں مضمون”بائبل کتنی سچی ہے؟“ ملاحظہ کریں ۔


    اہل کتاب کو افہام و تفہیم کی دعوت:
    تم فرماؤ: ”اے اہل کتاب:
    ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے!
    یہ کہ نہ عباد ت کریں مگر خدا کی،
    اس اس کا شریک کسی کو نہ کریں،
    اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو،
    رب نہ بنائے اللہ کے سوا،
    پھر اگر وہ نہ مانیں،
    تم کہہ دو: ”تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔“ (قرآن پاک ۳: ۶۴)
    ”اہل کتاب “ قرآن پاک میں عیسائیوں اور یہودیوں کو دیا گیا باعزت خطاب ہے۔ مسلمانوں کو یہاں حکم دیا گیاہے کہ وہ دعوت دیں۔”اے اہل کتاب! اے صاحبانِ علم! اے لوگو جو وحی الہی، مقدس صحیفے کے حصول کا دعوی کرتے ہو، آؤ ایک مقصد کے لئے متحد ہو جائیں۔ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں۔ کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ “اس لئے نہیں کہ ........”کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں ان کی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں۔“(خروج ۲۰۔۵)۔ بلکہ اس لئے کہ وہ ہمارا آقا اور پالنے والا ہے، ہماری دستگیری اور ہماری نشوونما کرنے والا ہے۔ تمام تعریفیں، عبادات اور پرستش اسی کے لائق ہیں۔
    ذہنی طور پر یہود اور نصاریٰ قرآن کی اس آیت میں مذکور تینوں تجویزوں سے اتفاق کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ایسا نہیں کرتے۔ ایک سچے خدا (اللہ سبحانہ ٗ وا تعالی) کی وحدانیت کے عقیدے میں خامیوں کے علاوہ مقدس پاپائیت کا مسئلہ بھی ہے۔ (یہودیوں میں موروثی پاپائیت کا نظریہ بھی موجود تھا) جیسے کہ ایک محض انسان۔ کاہن، پوپ، پادری یا براہمن اپنے علم اور پاکیزہ زندگی کے علاوہ اپنے سماجی رتبے کی بنا پر بھی برتری کے دعویدار ہیں وہ ایک خاص نقطہ ٔنظر سے اللہ اور انسان کے درمیان واسطے کے دعویدار ہیں۔ اسلام پاپائیت کو تسلیم نہیں کرتا!
    ذیل میں اسلام کا عقیدہ یوں واضح کیا گیا ہے جیسے دریا کوزے میں بند ہو۔
    یوں کہو! ”ہم ایمان لائے اللہ پر،
    اور اس پر جو ہماری طرف اتارا۔
    اور جو اُتارا گیا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب
    اور اُن کی اولاد علیہم السلام پر
    اور جو عطا کئے گئے موسٰی علیہ السلام اور عیسٰی علیہ السلام کو
    اور جو عطا کئے گئے
    باقی انبیاءعلیہم السلام اپنے رب کے پاس سے!
    ہم کوئی فرق نہیں کرتے
    اُن میں سے کسی پر ایمان میں !
    اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں۔ (قرآن پاک ۲:۱۳۶)
    مسلمانوں کا عقیدہ بالکل واضح ہے۔ مسلمان صرف اپنی مرضی کے دین کے دعویدار نہیں۔ اسلام کوئی فرقہ یا نسلی دین نہیں ہے۔ اس کی نظر میں تمام ادیان ایک ہی ہیں کیونکہ سچائی ایک ہے۔ یہ وہی دین ہے جس کی تعلیم تمام پہلے پیغمبروں نے دی۔ (قرآن پاک ۴۲۔ ۱۳) یہ وہی سچائی ہے جو تمام الہامی کتابوں نے بتائی۔ اس کی روح اللہ تعالی کی رضااور مرضی کا ادراک اور اس کی رضا اور مرضی کے سامنے بخوشی سر جھکانے میں مضمر ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی اور دین کا متلاشی ہے تو وہ اپنی فطرت کی اسی طرح مخالفت کر رہا ہے جس طرح وہ اللہ کی رضا اور منشا کا مخالف ہے۔ اس طرح کا کوئی شخص ہدایت کی توقع نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس نے جان بوجھ کر ہدایت کو ٹھکرا یاہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں