1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

محبتیں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عامر شاہین, ‏17 جولائی 2007۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت شاعری ہے ماشاء اللہ
     
  2. عامر شاہین
    آف لائن

    عامر شاہین ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مئی 2007
    پیغامات:
    1,137
    موصول پسندیدگیاں:
    205
    ملک کا جھنڈا:
    ہَوا بُرد

    مِرے ہم سَفر
    مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر‘ مرے ہم سَفر
    تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں!
    وہ جو قربتوں کے سُرور میں
    تری آرزو کے حصار میں
    مِری خواہشوں کے وفور میں
    کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے
    درِ گلستاں سے بہار تک
    وہ جو راستے تھے‘ کُھلے ہُوئے!
    سرِ لوحِ جاں‘
    کسی اجنبی سی زبان کے
    وہ جو خُوشنما سے حروف تھے!
    وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو
    جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو
    ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی
    کِسی روشنی کی نظر ملی‘
    ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے
    وہ بہم ہُوئے
    وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا
    کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں
    اُسی آگ کا
    کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے‘ تری خاک میں!
    اسی خاکداں میں وہ خواب ہے
    جسے شکل دینے کے واسطے
    یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا
    اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا
    یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے!
    وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا!
    اسی داستاں کا بیان تھا!
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عامر شاہین
    آف لائن

    عامر شاہین ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مئی 2007
    پیغامات:
    1,137
    موصول پسندیدگیاں:
    205
    ملک کا جھنڈا:
    ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!

    زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
    ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
    پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
    ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
    حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
    نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں

    ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
    کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
    اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
    ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
    عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
    سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا

    چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
    نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!

    حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
    تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا

    نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
    کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا

    ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
    تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
    مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
    ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
    سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عامر شاہین
    آف لائن

    عامر شاہین ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مئی 2007
    پیغامات:
    1,137
    موصول پسندیدگیاں:
    205
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے تم یاد آتے ہو


    مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
    کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
    کسی مصروفیت کے موڑ پر
    تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
    کسی انجان بیماری کی شدت میں
    “مجھے تم یاد آتے ہو“
    کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
    کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
    یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
    کسی بستی کی بارونق سڑک پر
    اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
    مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
    مری چپ کے کنویں میں
    آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
    اور کنارے سے کوئی بولے
    تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
    مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
    تمہاری بے دردی سلگتی ہے
    یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
    تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے
    مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
    مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔
    مقدر کے ستا روں پر
    زمانوں کے اشاروں پر
    ادا سی کے کناروں پر
    کبھی ویران شہروں میں
    کبھی سنسان رستوں پر
    کبھی حیران آنکھوں میں
    کبھی بے جان لمحوں پر
    مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
    سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
    کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
    کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
    کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔
    کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
    کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
    کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔
    مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
    مجھے تم یاد آتے ہو ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    واہ واہ بہت عمدہ
     
  6. عامر شاہین
    آف لائن

    عامر شاہین ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مئی 2007
    پیغامات:
    1,137
    موصول پسندیدگیاں:
    205
    ملک کا جھنڈا:
    محبت میں مسافت کی نزاکت مار دیتی ہے

    محبت میں مسافت کی نزاکت مار دیتی ہے
    یہاں پر ایک ساعت کی حماقت مار دیتی ہے

    محبت کے سفر میں ثالثی سے بچ کے رہنا تم
    کہ اس راہِ محبت میں شراکت مار دیتی ہے

    غلط ہے یہ گماں تیرا کوئی تجھ پر فدا ہو گا
    کسی پر کون مرتا ہے ضرورت مار دیتی ہے

    ہمارے ساتھ چلنا ہے تو منزل تک چلو ہم دم
    ادھورے راستوں کی یہ رفاقت مار دیتی ہے

    میں حق پر ہوں مگر میری گواہی کون دیتا ہے
    کہ دنیا کی عدالت میں صداقت مار دیتی ہے

    سرِ محفل جو بولوں تو زمانے کو کھٹکتا ہوں
    رہوں میں‌چُپ تو اندر کی بغاوت مار دیتی ہے

    رہوں گھر میں تو مجھ پر طنز کرتا ہے ضمیر اپنا
    اگر سڑکوں پہ نکلوں تو حکومت مار دیتی ہے

    نہیں تھے پر بہت کچھ تھے ہم اپنی خوش گمانی میں
    فسانوں میں جیئیں لیکن حقیقت مار دیتی ہے

    کسی کی بے نیازی پر زمانہ جان دیتا ہے
    کسی کو چاہے جانے کی یہ حسرت مار دیتی ہے

    سرِ بازار ہر اک شے مجھے انمول لگتی ہے
    اگر میں بھاؤ پوچھون بھی تو قیمت مار دیتی ہے

    زمانے سے اُلجھنا بھی نہیں اچھا مگر زلفی
    یہاں حد سے زیادہ بھی شرافت مار دیتی ہے
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    واہ کیا بات ہے
     
  8. عامر شاہین
    آف لائن

    عامر شاہین ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مئی 2007
    پیغامات:
    1,137
    موصول پسندیدگیاں:
    205
    ملک کا جھنڈا:
    اِسی کا نام چاہت ہے!

    کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
    کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
    کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پارا
    کہ جیسے شام کا تارا
    محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
    گُماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے اُلفت کا!
    یہ عینِ وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
    محبت کے مُسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
    تھکن کی کرچیاں چنتے ‘ وفا کی اجرکیں پہنے
    سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
    تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
    دھیرے سے کہتا ہے‘
    ’’یہ سچ ہے نا…!
    ہماری زندگی اِک دوسرے کے نام لکھی تھی!
    دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
    اِسی کا نام چاہت ہے!
    تمہیں مجھ سے محبت تھی
    تمہیں مجھ سے محبت ہے!!‘‘
    محبت کی طبیعت میں
    یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!
     
    آصف احمد بھٹی اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    واہ بہت عمدہ
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ۔ ۔ ۔ بہت عمدہ ۔ ۔ ۔
     
  11. عامر شاہین
    آف لائن

    عامر شاہین ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مئی 2007
    پیغامات:
    1,137
    موصول پسندیدگیاں:
    205
    ملک کا جھنڈا:
    کمال حسن کا جب بھی خیال آیا ہے

    کمال حسن کا جب بھی خیال آیا ہے
    مثال شعر ترا نام دل پہ اترا ہے

    میں اپنے آپ کو دیکھوں تو کس طرح دیکھوں
    کہ میرے گرد مری ذات ہی کا پردہ ہے

    میں فلسفی نہ پیمبر کہ راہ بتلاؤں
    ہر ایک شخص مجھی سے سوال کرتا ہے

    یہ سچ ہے میں بھی تغیر کی زد سے بچ نہ سکا
    سوال یہ ہے کہ تو بھی تو کتنا بدلا ہے

    ترے خلوص کی چادر سمٹ گئی شاید
    مرا وجود مجھے اجنبی سا لگتا ہے

    ابھی تو حالت دل کا سدھار ہے مشکل
    ابھی تو تیری جدائی کا زخم تازہ ہے

    عزیزؔ اپنے تضادات ہی مٹا ڈالو
    یہ کون پوچھ رہا ہے زمانہ کیسا ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
    نہ یہ کہ حسن عام ہو نہ دیکھنے میں عام سی

    نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
    مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سا سفر لگے

    کوئی بھی رت ہو اسکی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
    وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی

    نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
    نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو

    کوئی بھی رت ہو اسکی چھب، فضا کا رنگ و روپ تھی
    وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی، وہ سردیوں کی دھوپ تھی

    نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
    نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو

    نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے
    نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے ۔ ۔ ۔

    نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
    نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو

    کبھی تو بات بھی خفی، کبھی سکوت بھی سخن
    کبھی تو کشت زاعفراں، کبھی اداسیوں کا بن

    سنا ہے ایک عمر ہے معاملات دل کی بھی
    وصال جان فزا تو کیا ،فراق جانگسسل کی بھی

    سوایک روز کیا ہوا ، وفا پہ بحث چھڑ گئی
    میں عشق کو امر کہوں ،وہ میری بات سے چڑ گئی

    میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
    کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے

    شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گل رہے
    نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں

    میں کوئی پینٹنگ نہیں کی ایک فریم میں رہوں
    وہی جو من کا میت ہو اسی کہ پریم میں رہوں

    نہ یس کو مجھ پر مان تھا، نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
    جب عہد ہی کوئی نہ ہو، تو کیا غم شکستی

    سو اپنا اپنا راستہ خوشی خوشی بدل لیا
    وہ اپنی راہ چل پڑی ، میں اپنی راہ چل دیا

    بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اس کی دوستی
    اب اس کی یاد رات دن نہیں مگر کبھی کبھی

    احمد فراز​
     
    عامر شاہین نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں