1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
    میر تقی میرؔ نے تو اشعار کی صورت یہ نوحہ دلّی کی بربادی پر پڑھا تھا مگر آج کی صورتحال میں یہ الفاظ کراچی کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ ویسے تودنیا میں سینکڑوں شہر برباد اور آباد ہوئے‘ ایسے بھی شہر رہے کہ جو برباد ہوئے، بار بار ہوئے مگر پھر آباد ہو گئے۔ دلّی کو ہی لیجئے کہ تیمور و نادر شاہ ہوں یا انگریز سرکار‘ اس شہر کو بار بار اجاڑا گیا۔ میرے شہر کراچی کا بھی یہی المیہ ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ دلّی کو غیروں نے لوٹا اور کراچی کو اپنوں نے۔ یہ واحد ایسا شہر ہے جو اپنوں کے ہاتھوں نہ صرف برباد ہوا بلکہ اس پر بربادی مسلط بھی کی گئی۔ جمہوریت کا پشتیبان ہونا اس کا جرم ٹھہرا۔ اس شہر کی تہذیب، روایات، وضعداری اور مرکزیت کو ختم کرکے اسے لسانیت، فرقہ واریت اور قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ایک آمر کے سامنے مادرِ ملّت کی حمایت کی ''سزا‘‘ کا جو سلسلہ دارالحکومت کی منتقلی سے شروع ہوا‘ وہ کبھی لٹیروں و بھتہ خوروں اور کبھی نااہل و کرپٹ حاکموں کو مسلط کرنے کی صورت آج بھی جاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں یہ واحد میٹرو پولیٹن ہے جس میں عملی طور پر بلدیاتی ہو یا صوبائی‘ کوئی فعال حکومت نہیں ہے۔ بلدیاتی نظام تباہ ہو چکا ہے اور کوئی ادارہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔
    اس شہر پر کوئی قدرتی آفت آئے یا اس کے حکمران اپنی نااہلی کی وجہ سے کسی آفت کو دعوت دیں‘ شہر میں تباہی یقینی ہوتی ہے۔ آج کل کراچی مون سون کی بارشوں کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا اور نہ ہی اس بار بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ بارشیں موسمی ہوں یا بے موسمی‘ زیادہ ہوں یا کم‘ اس شہر پر بارانِ رحمت ہمیشہ زحمت بنا دی جاتی ہے۔ جب ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پورے انتظامی ڈھانچے، سول اداروں، صوبائی و بلدیاتی حکومتوں کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، میئر کراچی، وزیر بلدیات، کمشنر کراچی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ حکام، گورنر سندھ سب ناکام اور مشاورت کے ذریعے شہر کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے کے بجائے اپنا اپنا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ کراچی مں معمولی بارش بھی ایسی صورتحال پیدا کر دیتی ہے کہ جیسے کوئی آفت نازل ہوئی ہے جو شہر کو بہا لے جائے گی۔ حکمران کبھی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے ہیں تو کبھی معمول سے زیادہ بارشوں کا جواز تراشتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ 1970ء میں جب اسی نوعیت کی طوفانی بارشیں ہوتی تھیں حتیٰ کہ لیاری ندی ابل پڑتی تھی، شہر اس وقت تو کبھی نہیں ڈوبا تھا، پھر مون سون کی تو دور کی بات ہے‘ یہ شہر تو اب بے موسمی معمولی سی بارش بھی برداشت نہیں کر پاتا۔اس سوال کا جواب یہ حکمران کبھی نہیں دیں گے، اس لیے کہ شہر کی تباہی کے ذمہ دار یہ خود ہیں‘ جو گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے شہر پر قابض ہیں۔ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ قلیل مدت میں اس شہر کو کسی منصوبہ بندی کے بغیر بے ہنگم توسیع دی گئی۔ صرف مال بنانے کی ہوس میں شہر کو اس طرح نوچا گیا کہ تصور محال ہے۔ بلند و بالا عمارتوں کا جال بچھا دیا گیا، چائنہ کٹنگ کی اصطلاح متعارف کرائی گئی اور شہر کے میدان، پارکس، حتیٰ کہ نالے تک فروخت کر دیے گئے۔ آج شہر قائد میں ہزاروں چھوٹی بڑی غیر قانونی آبادیاں ہیں جو شہر کے 38 بڑے اور 550 چھوٹے نالوں پر آباد ہیں۔ کئی اہم سرکاری و غیر سرکاری عمارتیں بھی انہی نالوں پر قائم ہیں اور ایسی عمارتیں بھی ہیں کہ جن کے ذکر سے پَر جلتے ہیں۔ ان تعمیرات سے یہ نالے بند ہو چکے ہیں اور نکاسی کے لیے کارآمد نہیں رہے۔
    دنیا بھر میں‘ جب بھی باشعور قومیں کوئی نیا شہر بساتی ہیں یا کسی شہر کو توسیع دیتی ہیں تو سب سے پہلے اس کے سیوریج سسٹم اور رین ڈرینج سسٹم پر توجہ دی جاتی ہے، اس کے بعد انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کو دیکھا جاتا ہے مگر ایسا وہ قومیں کرتی ہیں جو اپنے شہر و ملک کی تعمیر چاہتی ہیں۔ کراچی کا المیہ تو یہ ہے کہ اس کے پھیلائو کے دوران سیوریج سسٹم اور رین ڈرینج سسٹم کا سوچا تک نہیں گیا۔ بلدیہ ہو یا پورٹ ٹرسٹ‘بغیر کسی منصوبہ بندی کے نت نئے رہائشی علاقے ہزاروں ایکڑ پر پھیلتے اور بس پھیلتے ہی چلے گئے۔ ماہرین چیخ رہے تھے کہ ایسا مت کرو، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اب بارشیں زیادہ ہوا کریں گی ، بغیر منصوبہ بندی شہر کی توسیع نہ کرو۔ مگر کسی نے نہ سنی۔ماضی میں یہی غلطیاں ممبئی، چنائی، ڈھاکا، بینکاک اور 19ویں صدی میں نیویارک، لندن، اور پیرس میں کی گئی تھیں۔ نالے بند کردیے گئے تھے جبکہ ان پر کینال اور کریک بنا دیے گئے تھے۔ وہ چھوٹی آبادیاں تھیں، جہاں غلطی کو سدھارنا آسان تھا اور انہوں نے اپنی خامیوں پر جلد قابو بھی پا لیا جبکہ کراچی ایک تیزی سے پھیلتا ہوا شہر ہے‘ اس کے مسائل اسی طرح بڑھتے رہے تو عنقریب ان پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ ماہرین کی یہ صدائیں حکمرانوں کے کانوں تک بھی پہنچ رہی ہیں مگر حکمران کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں نقصان محض غریبوں کا ہی ہوتا ہے۔ مرتے بھی غریب ہیں اور مالی تباہی بھی وہی برداشت کرتے ہیں۔
    کراچی شاید دنیا کا واحد شہر ہے جو کسی ایک انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ کراچی 13 مختلف اداروں کے زیرِ انتظام ہے، جس میںپورٹ ٹرسٹ، سول ایوی ایشن اتھارٹی، صنعتی علاقے، ہاؤسنگ سوسائٹیز وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی سب کچھ ایڈ ہاک بنیادوں پر چل رہا ہے۔ اب تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ بجٹ کا قابلِ ذکر بوجھ اٹھانے والا، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا، سمندری و فضائی پورٹس سے 95فیصد آمدن فراہم کرنے والا منی پاکستان ، کیا دوبارہ ایک مکمل شہر کی صورت میں سامنے آ سکے گا؟ اس کے حاکم اور نمائندگی کے دعویدار تو بس ایک دوسرے پر الزام دھرنے اور اپنے پیٹ بھرنے میں مگن ہیں۔ جب کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کچھ ہلچل نظر آتی ہے مگر جیسے ہی وقت گزرتا ہے‘ سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے اور شہر کی صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے پھر اسے بھنبھوڑنے کا عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔اگر شہر کو بچانا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنانا ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے یہ شہر ملک کے کسی بھی حصے سے آنے والوں کو ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ اس شہر کیلئے تمام اداروں کو ایک پیج پر جمع ہونا ہوگا، طویل مدتی نکاسیٔ آب کے منصوبے فوری شروع کرنا ہوں گے، برساتی نالوں کی صفائی اور ان پر تجاوزات بغیر کسی تفریق کے فوری ختم کرنا ہوں گی۔ وفاقی و صوبائی حکومت مشترکہ طور پر ایک ورکنگ گروپ قائم کر سکتی تھیں جس میں ماہرین کے تجربے کی بنیاد پر شہر کو مسائل سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ عوام بے مقصد کہانیاں سنتے سنتے تنگ آ چکے ہیں۔ تیمور حسن کہتے ہیں ؎
    مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا
    باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا
    میرے تحفظات حفاظت سے ہیں جڑے
    میرے تحفظات مٹا‘ شہر کو بچا
    تو اس لیے ہے شہر کا حاکم کہ شہر ہے
    اس کی بقا میں تیری بقا‘ شہر کو بچا
    تو جاگ جائے گا تو سبھی جاگ جائیں گے
    اے شہریار جاگ ذرا شہر کو بچا
    تو چاہتا ہے گھر ترا محفوظ ہو اگر
    پھر صرف اپنا گھر نہ بچا‘ شہر کو بچا
    کوئی نہیں بچانے کو آگے بڑھا حضور
    ہر اک نے دوسرے سے کہا: شہر کو بچا
    تاریخ دان لکھے گا تیمورؔ یہ ضرور
    اک شخص تھا جو کہتا رہا‘ شہر کو بچا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں