1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏11 اکتوبر 2017۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحیح بخاری حدیث نمبر: 3445

    حدثنا الحميدي، ‏‏‏‏‏‏حدثنا سفيان، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت الزهري، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ اخبرني عبيد الله بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس سمععمر رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ على المنبر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ "لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده، ‏‏‏‏‏‏فقولوا:‏‏‏‏ عبد الله ورسوله".
    ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“
     
    Last edited: ‏19 فروری 2018
    آصف احمد بھٹی اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبود یعنی الہ نہیں مانا جاسکتا جیسا کہ عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ، یا اللہ کا بیٹا بنا دیا
    اسکے علاوہ تو سید الانبیاء، امام الانبیاء اور وجہ تخلیق کائنات سیدنا محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و منزلت کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ ہر مفسر، ہر شارح، ہر محقق اپنی اپنی عقل، سوچ یا علم کے مطابق ممکن "شان و منزلت" بیان کرسکتا ہے مگر "کماحقہ" شانِ رسالت اور حقیقتِ رسالت محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اللہ رب العزت کی ذات بابرکات ہی جانتی ہے۔ کسی بندے سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس لیے "معبود" کے فرق کے علاوہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی بھی شان بیان کی جائے وہ کم ہے۔
    خود اللہ رب العزت نے
    ورفعنالک ذکرک ۔۔۔ فرما کر ذکرِ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بےحد و حساب بلند کردیا
    انا اعطینک الکوثر ۔۔ فرما کر نعمتوں کی بےحد و حساب کثرت عطا فرما دی۔ اب دنیا میں کوئی بھی "نعمت" نہیں جس کی کثرت "کوثر" کی شکل میں سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔
    ولو انھم اذ ظلمو جاوک ۔۔۔ فرما کر گنہگاروں کے لیے بخشش و مغفرت کی خیرات کے لیے بھی درِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کھول دیا۔
    اور مصطفی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے بھی ۔۔ انما انا قاسم واللہ یعطی ۔۔۔ فرما کر بتا دیا کہ کائنات میں عطائیں رب ذوالجلال کی ہیں اور تقسیم کرنے کے لیے دستِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
    بقول حضرت حسان
    ما ان مدحت محمد بمقالتی
    ولکن مدحت مقالتی بمحمد
    صل اللہ علیہ وآلہ وسلم
    اس لیے بطور امتی ہمیں بےدھڑک اپنے اعلی و ارفع نبی مکرم حبیب خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ، بلند مرتبہ و فضیلت بیان کرنا، پڑھنا اور سننا سنانا چاہیے۔ یہی ایمان کی اساس ہے
    جزک اللہ خیرا
     
    آصف احمد بھٹی اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میرا عقیدہ ہے بحیثیت مسلمان کہ ہمارے ایمان کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بقا و سلامتی کا راز محبت و غلامئ رسول میں مضمر ہے۔ آپ کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے جس کے بغیرہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔

    حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا مقام ہر مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری ملی عزت و آبرو اسی نام سے قائم ہے

    ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدہ و دل میں عشق رسول کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ کشت دیدہ و دل میں عشق رسول کی شجرکاری کی جائے جس کی آبیاری اطاعت و اتباع کے سرچشمے سے ہوتی رہے تو ایمان کا شجر ثمربار ہو گا اور اس کی شاخ در شاخ نمو اور بالیدگی کا سامان ہوتا رہے گا۔ بزم ہستی میں محبت مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و فکری پراگندگی کی فضا چھٹ جائے گی۔

    ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔
    دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے
    جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے

    نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اس وقت تک کوئی مسلمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبر و راہنما پیغمبر ?کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات و کلمات کا زندہ نمونہ ذات رسول پاک میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ہو بہو نبی کریم کی عملی زندگی سے ملتا ہے۔ اسی لیے جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے کسی نے حضور کے خلق کے بارے میں استفسار کیا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کان خلقہ القرآن، یعنی حضور اکرم کا خلق بعینہ قرآن تھا۔ نبی کریم ﷺکی زندگی جتنی خوبصورت اور دلکش ہے، اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات الغرض وہ سب کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے۔ اسوۂ حسنہ کا ابرِ رحمت ان سب پر سایۂ فگن ہوتا ہے۔

    آپ کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام ﷺاور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور مجموعہ اور حسین مرقع ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور ﷺکی ذات میں جمع کر دیے تھے تو گویا آپ تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کے مجموعہ ہیں۔ چناں چہ آپ کی شخصیت میں آدم علیہ السلام کا خلق، شیث علیہ السلام کی معرفت، نوح علیہ السلام کا جوشِ تبلیغ، لوط علیہ السلام کی حکمت، صالح علیہ السلام کی فصاحت، ابراہیم علیہ السلام کا ولولہٴ توحید، اسماعیل علیہ السلام کی جاں نثاری، اسحاق علیہ السلام کی رضا، یعقوب علیہ السلام کا گریہ و بکا، ایوب علیہ السلام کا صبر، لقمان علیہ السلام کا شکر، یونس علیہ السلام کی انابت، دانیال علیہ السلام کی محبت، یوسف علیہ السلام کا حسن، موسیٰ علیہ السلام کی کلیمی، یوشع علیہ السلام کی سالاری، داؤد علیہ السلام کا ترنم، سلیمان علیہ السلام کا اقتدار، الیاس علیہ السلام کا وقار، زکریا علیہ السلام کی مناجات، یحییٰ علیہ السلام کی پاک دامنی اور عیسیٰ علیہ السلام کا زہد و اعجازِ مسیحائی آپ کی صفات ظاہری میں شامل تھی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ کی ذاتِ والا صفات میں سمائی ہوئی ہے۔

    اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتا ہے کہ اس نے براہِ راست تخاطب کے حوالے سے ایک دفعہ بھی حضور نبی اکرم کا نام لے کر آپ کو نہیں پکارا، بلکہ جہاں کہیں مخاطب کیا ہے تو عزت و تکریم کے کسی صیغے ہی سے آواز دی ہے کہ ﴿یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک﴾… ﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین…﴾ یا پھر محبت سے ﴿یا ایھا المزمل﴾ اور ﴿یاایھا المدثر﴾ کہہ کر پکارا ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں اولوالعزم انبیا کو جگہ جگہ ان کے اصل نام اور اسم سے پکارا گیا ہے۔ جیسے ” ﴿یاآدم اسکن انت و زوجک الجنة﴾․ ﴿وما تلک بیمینک یا موسٰی﴾․﴿یا داود انا جعلنک خلیفة﴾․﴿یا زکریا انا نبشرک بغلام ن اسمہ یحیی﴾․﴿یا یحیٰی خذ الکتاب بقوة﴾․﴿یانوح اھبط بسلام﴾․ ﴿یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ﴾ اس طریق مخاطبت کے مطابق چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ”یامُحَمَّداً، یااحمد“ کہہ کر پکارتا، مگر اللہ تعالیٰ کو اس درجہ آپ کا احترام سکھانا مقصود تھا کہ تمام قرآنِ مجید میں ایک جگہ بھی آپ کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تعظیم و تکریم پر مبنی خوب صورت اور بہترین القابات پر مشتمل ناموں ہی سے آپ کو پکارا ہے۔

    حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ ﷺکی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ ﷺافضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ ﷺہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺکی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
    أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.
    [مزید] پيغام کا آئکون: ’’(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔‘‘( القرآن، الانعام، 6 : 90)اس آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ ﷺکو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء ?کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ ﷺمیں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم ﷺجملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ ۔ ۔ تین باتیں نعیم بھائی نے بہت زبردست کی ہیں ۔ ۔ ۔
    یقینا جس طرح اللہ کی ربوببیت ، الوہیت ، اور بزرگی کی کوئی بھی شان و حد انسانی فہم و ادراک مین ممکن نہیں اسی طرح حضور اقدس کی شان و مقام انسانی ادراک و فہم میں ممکن نہیں سو ایک ہی نکتے میں بات ختم کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ عبدہُ ورسولہُ

    پیش او گیتی جبیں فرسودہ است
    خویش را خود عبدہٗ فرمودہ است
    عبدہٗ از فہمِ تو بالا تر است
    زانکہ او ہم آدم و ہم جوہر است
    جوہرِ او نے عرب نے اعجم است
    آدم است و ہم ز آدم اقدم است
    عبدہٗ صورت گرِ تقدیر ہا
    اندرو ویرانہ ہا تعمیرہا
    عبدہٗ ہم جا نفزا ہم جانستاں
    عبدہٗ ہم شیشہ ہم سنگِ گراں

    عبد دیگر، عبدہٗ چیزے دگر

    ما سراپا انتظار او منتظر
    عبدہٗ دہر است و دہر از عبدہٗ ست
    ما ہمہ رنگیم، او بے رنگ و بوست
    عبدہٗ با ابتدا بے انتہا ست
    عبدہٗ را صبح و شامِ ما کجاست
    کس ز سرِّ عبدہٗ آگاہ نیست
    عبدہٗ جز سر الا اللہ نیست
    لا الہٰ تیغ و دم او عبدہٗ
    فاش تر خواہی بگو ھو عبدہٗ
    عبدہٗ چند و چگونِ کائنات
    عبدہٗ رازِ درونِ کائنات
    مدعا پیدا نگردد زیں دو بیت
    تا نہ بینی از مقامِ ما ر میت
    ( علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ )
     
    Last edited: ‏31 جنوری 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثیل اور مثل کوئی نہیں۔ آقا علیہ السلام کی شان، عظمت، رسالت، علو، قدر و منزلت، عظمت و تمکنت کا درجہ ہر شے سے افضل، اعلیٰ، ارفع اور منفرد ہے۔ انبیائے کرام میں سے بھی سوائے نفس نبوت کے کسی کو حضور علیہ السلام کے ساتھ برابری نہیں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں