1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ماں ۔۔

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عاشو, ‏19 جون 2008۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
  2. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مئی 2008
    پیغامات:
    1,161
    موصول پسندیدگیاں:
    1

    :a180: شئیرنگ ہے ۔۔ جزاک اللہ مریم ۔۔ :dilphool:
     
  3. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مئی 2008
    پیغامات:
    1,161
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جزاک اللہ قمر ۔۔ :dilphool:
    :a180: شئیرنگ ۔۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عاشو بہن۔ قمر آزاد بھائی اور مریم جی ۔
    آپ سب نے بہت خوبصورت پوسٹس ارسال کی ہیں۔ پڑھ کر بہت بہت اچھا لگا۔
    اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے اور ہر اولاد کے سر پر ماں باپ کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے۔ امین
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    :dilphool: :a165: :a165:
    ماشااللٌہ بہت ھی خوبصورت تحریریں ھیں،!!!!!
    عاشو جی آپکا یہ سلسلہ تو بہت ھی پیارا ھے،!!!!!

    خوش رھو،!!!!!
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    میری طرف سے بھی ایک میری خود نوشت سوانح حیات "یادوں کی پٹاری" سے ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ فرمائیں،!!!!!


    "اسوقت میں نے اپنے بچپن کے دور میں والدہ کو سب کے ساتھ کھانا کھاتے ھوئے نہیں دیکھا، سب سے پہلے وہ ھم سب بہں بھائیوں اور ساتھ والد کےلئے کھانا لگاتی تھیں اور خود ھاتھ کا پنکھا لئے سب کو اپنے ھاتھوں سے ھر ایک کی پلیٹ میں ضرورت کے مظابق دال یا گوشت کا سالن ڈالتی رھتیں، اور ھم سب ان ھی کی ھدایت پر بہت ھی کفایت شعاری سے کسی بھی سالن کو روٹی یا چاول کے ساتھ استعمال کرتے تھے، وہ ھر ایک کو برابر برابر کھانا تقسیم کرتی تھیں، اور ضرورت سے زیادہ مانگنے پر ڈانٹ بھی پڑتی، مگر میں کچھ زیادہ ھی اسرار کرتا اور اکثر کہہ بھی دیتا “وہ ھانڈی میں سالن بچا ھوا تو ھے وہ مجھے کیوں نہیں دیتیں“ بعض اوقات وہ بھی مجھے اپنی مامتا کی محبت میں وہ ھانڈی بھی صاف کر کے میری پلیٹ میں ڈال دیتیں، مگر میں اس سے بےخبر رھتا کیونکہ وہ سب سے آخر میں سب کو کھانا کھلانے کےبعد اکیلی چولھے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتیں، اگر کچھ بچ گیا تو ورنہ وہ خالی کل کی باسی سوکھی روٹی ھی، اچار یا چٹنی سے لگا کر کھاتیں، مگر وہ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں !!!!!!!!!! اور ھم سب اس سے بےخبر اپنی ھی دھں میں مگن رھتے -

    ماں کی ممتا کی کیا عظمت ھے، اسے لاکھوں سلام !!!!

    اُس وقت ماں کے اوپر ھی سارے گھر کا دارومدار ھوتا تھا گھر کی ساری صفائی سے لیکر کھانا پکانے اور کھلانے تک، بمعہ شوھر اور بچوں کی ھر ضرورت اور خدمت کو پورا کرنے میں سارا سارا دن وہ مشغول رھتیں، چاھے وہ کتنی ھی تکلیف میں کیوں نہ ھو، ابھی بھی کئی مائیں اپنی اسی پرانی ڈگر پر چل رھی ھیں، جس کی وجہ سے کئی گھروں کا سکون ابتک قائم ھے"،!!!!!
     
  7. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مئی 2008
    پیغامات:
    1,161
    موصول پسندیدگیاں:
    1

    آمین ثم آمین :dilphool:
    نعیم بھائی بہت شکریہ پوسٹس پسند کرنے کا اور دعایئں دینے کا ۔۔ :dilphool:
    اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں خوشیاں نصیب کرے اور ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔۔۔ آمین ثم آمین :dilphool:
     
  8. عاشو
    آف لائن

    عاشو ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مئی 2008
    پیغامات:
    1,161
    موصول پسندیدگیاں:
    1

    عبدالرحمن سید صاحب بہت شکریہ پوسٹس پسند کرنے کا اور دُعا دینے کا ۔۔ :dilphool:
    اللہ تعالی آپ کو بھی ڈھیروں خوشیاں نصیب کرے اور ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔۔۔ آمین ثم آمین :dilphool:
    آپ نے بھی بہت اچھا اقتباس شئیر کیا ۔۔ :dilphool:
    عام طور پہ سب مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں میری اماں کا بھی ابھی تک یہی حال ہے کہ خود بچا کھچا کھا کے پیٹ بھر لیتی ہیں اور جو تازہ پکا ہوا ہوتا ہے وہ ہم سب بہن بھائیوں اور ابو کے لیے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔ :dilphool:
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    اللٌہ تعالیٰ ھم سب کے سر پر ماں کا سایہ ھمیشہ سلامت رکھے،!!!!! آمین،!!!!
    ماں ایک ایسی عظیم ھستی ھے، کہ اسکی اولاد اسے کتنی ھی تکلیف کیوں نہ دے، اسکے دل سے ھمیشہ اس کیلئے دعائیں ھی نکلتی ھیں،!!!!!
     
  10. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:

    عبدالرحمن سید صاحب بہت شکریہ پوسٹس پسند کرنے کا اور دُعا دینے کا ۔۔ :dilphool:
    اللہ تعالی آپ کو بھی ڈھیروں خوشیاں نصیب کرے اور ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔۔۔ آمین ثم آمین :dilphool:
    آپ نے بھی بہت اچھا اقتباس شئیر کیا ۔۔ :dilphool:
    عام طور پہ سب مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں میری اماں کا بھی ابھی تک یہی حال ہے کہ خود بچا کھچا کھا کے پیٹ بھر لیتی ہیں اور جو تازہ پکا ہوا ہوتا ہے وہ ہم سب بہن بھائیوں اور ابو کے لیے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔ :dilphool:
    [/quote:29cxm7mj]

    بہت شکریہ عاشو جی،!!!!!!

    میں بھی کچھ اپنے گھر کی ممتا کی کہانی کی ایک چھوٹی سی جھلک پیش کرنا چاھوں گا،!!!!!


    میری ماں بھی اس وقت پاکستان میں دو حصوں میں بٹی ھوئی بیٹھی اپنی اولاد کے لئے ھمیشہ فکرمند رھتی ھیں اور دعائیں کرتی رھتی ھیں، کبھی تو ھم سب بہن بھائی اپنی ماں کے ساتھ اس کے آغوش میں لپٹے رھتے تھے اس سے ضد کرتے تھے، وہ ھمیشہ ھماری ھر خواھش پوری کرتی تھیں اور آج ھم دو بھائی یہاں پردیس میں اپنے بچوں کے ساتھ ھیں، اور بہنیں تو شادی ھو کر گھر چھوڑ کر وداع ھو چکی ھیں چار بہنوں میں سے ایک بڑی بہن اپنی دو اولادوں کے ساتھ ماں کے آغوش میں بیٹھی اپنے دکھ سمیٹ رھی ھے اور ایک بھائی بھی ساتھ ھی ماں کے پہلو میں ایک کمرے میں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنی ماں کی دعاؤں کے ساتھ ھی رہ رھا ھے اور ایک مجھ سے چھوٹا دوسرے نمبر پر جو کبھی شادی کے بعد میری طرح اپنی ماں سے دور ھوگیا تھا، آج وہ پھر اپنی بیوی کے انتقال پر ملال کے بعد، پھر سے اپنی ماں کے پاس اپنے غم غلط کرنے اکیلا واپس آگیا ھے، اسکی کوئی اولاد نہیں ھے لیکن وہ پھر سے اپنی ماں کا ایک چھوٹا بچہ بن کر اسکے پہلو میں آن پڑا ھے، جب بھی ھم میں سے کسی بھی بہن بھائی کو کوئی بھی تکلیف ھوتی ھے تو اپنی ماں کے پاس دوڑا چلا آتا ھے، اور ماں کے پاس پہنچ کر سکون پاتا ھے، آج ھمارے والد ھمارے ساتھ نہیں ھیں، لیکن وہ بھی اوپر سے یہ ضرور دیکھتے ھونگے، کہ ان کے آٹھوں بچے اپنی ماں سے کتنی محبت کرتے ھیں،!!!!

    ھم بھی جب یہاں سے سالانہ چھٹی جاتے ھیں تو سب سے پہلے اپنی ماں کی گود میں اپنا سر رکھ کر روتے ھیں، ماں بھی ھمیں اپنے گلے سے لگا کر آنسو بہاتی ھیں، اور پھر ھمارے بچوں کو اپنے سینے سے لگا کر اپنی اولادوں کا غم بھول جاتی ھیں، آج ھمارے بچوں کی بھی شادیاں ھوچکی ھیں لیکن ھماری ماں ھمیں وہی بچوں کی طرح سمجھتی ھے،!!!!! اب بھی ھماری اسی طرح سے خدمت کرتی ھے، اپنے ھاتھوں سے کھانا پکا کر کھلاتی ھے، انہیں ھمارے پسندیدہ کھانوں کا ابھی تک پورا خیال ھے، حالانکہ وہ اب کافی ضعیف ھوگئی ھیں، لیکن انہوں نے اب تک ھمت نہیں ھاری ھے، اب بھی زیادہ تر سارے گھر کا کام خود اپنے ھاتھوں سے کرتی ھیں، کسی کو کام کرنے نہیں دیتیں، اور نہ ھی اب تک کسی سے انہوں نے اپنی ذات کیلئے کوئی خدمت لی ھے، بلکہ وہ خود اب تک ھم سب کی خدمت کررھی ھیں، وہ بہت ھی مذھبی اور نماز روزے کی پابند ھیں، پاکستان میں وہ گھر جس میں وہ رھتی ھیں، میرے والد کی نشانی ھے، انہوں نے بہت ھی چاھت سے وہ مکان ھمارے لئے بنایا تھا، ھم سب آٹھوں بہن بھائی اپنے تمام بچوں کے ساتھ جب بھی وھاں اکھٹا ھوتے ھیں، تو ماں ھم سب کو ایک ساتھ اپنے پاس پا کر بہت خوش ھوتی ھیں، وہ اپنے پوتے پوتیوں، نواسے اور نواسیوں کو اپنے سامنے پا کر بہت خوشی سے پھولی نہیں سماتیں ھیں، اور انہیں ھمارے بچپن کے شرارتی قصے سنا کر ھمارے بچوں کو خوب ھنساتی بھی ھیں، ساتھ ھی ھمارے بچے بھی انہیں دادی دادی اور نانی نانی کہہ کر اس گھر کو خوشیوں کا ایک گہوارہ بنا دیتے ھیں اس کے علاوہ ھمارے وہاں جانے سے اس ھمارے مکان کی کشادگی اور بھی وسیع تر ھوجاتی ھے، اور گھر کی رونقوں میں اضافہ ھو جاتا ھے،!!!!

    ھم بھائی بہنوں میں کبھی کبھی اختلافات بھی ھوجاتے ھیں لیکن جب ھم سب اپنی ماں کے پاس پہنچتے ھیں تو ھم سب ایک دوسرے کے اختلافات کو بھول کر پھر سے وھی محبت اور خلوص کے رشتوں کو استوار کرلیتے ھیں، انکی مامتا ھمیں پیار اور محبت بانٹنے پرمجبور کردیتی ھے،!!!!!!

    کیا ماں کی ممتا کی شان ھے، کہ جب تک وہ سلامت ھے ھر کوئی اسکی محبت میں کھنچا چلا آتا ھے، اور اسکی ممتا کی محبت میں اپنے ھر غم کو بھلا دیتا ھے،!!!!!!!
     
  11. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    آمین
    جزاک اللہ سر۔۔
     
  12. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    ماں کا دل

    چاندنی رات تھی۔۔۔۔۔۔ ایک مستانہ خرام جوئبار کے کنارے!دولہا،دلہن رازونیاز کی باتوں ميں مصروف تھے۔۔۔۔۔۔ محوتھے! نئی نویلی دلہن اپنے حُسن وجمال کی رنگینیوں پرمغرور!اورنوجوان دُولہا!اپنی جوانی کےجوش وخروش میں چُور۔۔۔۔۔۔ نظر آتاتھا۔ چاندنی اُن کی بےخودانہ وخود فراموشانہ حالت پر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔۔!
    نوجوان دولہانےکہا:۔
    ” کیاتمہیں میری انتہائی محبّت کا،اب بھی یقین نہیں آیا؟دیکھتی ہو!میں نےاپنی زندگی کاعزیزترین اور بیش بہاترین سرمایہ۔۔۔۔۔ اپنادل تم پرقربان کردیاہے!نثار کردیاہے!!“
    دُلہن نے اپنی نغمہ ریز آواز ميں جواب دیا۔
    ”دل قربان کرنا تومحبّت کے راستے میں پہلا قدم ہے!میں تمہاری محبت کااِس سےبہترثبوت چاہتی ہوں!تمہارے پاس اپنےدل سےکہيں زیادہ بیش بہااِک موتی ہےاوروہ تمہاری ماں کادل ہے۔اگرتم اُسےنکال کر مجھےلادوتومیں سمجھوں کہ ہاں تمہیں مجھ سے محبت ہے!“
    نوجوان دُولہاایک لمحہ کےليےگھبرا ساگیا۔اُس کےخيالات ميں ایک قیامت سی برپاہوگئی۔۔۔۔۔۔ مگر بالآخر”بیوی کی محبّت“ ”ماں کی محبّت“ پرغالب آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِسی مجنونانہ، مسحورانہ حالت ميں اُٹھااوراپنی ماں کا سینہ چیر کر،اُس کادل نکال کراپنی دلہن کی طرف لےچلا۔۔۔۔۔ اضطرابِ عجلت میں پیرجوپِھسلاتونوجوان دُولہا زمین پرگِرپڑا اوراُس کی ماں کاخون آلود دل،اُس کےہاتھ سےچھوٹ کرخاک میں تڑپنے لگا۔۔۔۔۔۔۔!اُس دل میں سےنہایت آہستہ شیریں اور پیارسےلبریز آواز آرہی تھی!
    ”بیٹا کہیں چوٹ تو نہیں آئی؟“


    (جرمن افسانہ) (اختر شیرانی کے افسانے دھڑکتے دل سے اقتباس)
    کاشفی
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یار آپ لوگ بہت رلاتے ہو۔ سچی !

    لعنت ایسے عاشق بیٹے پر۔ خدا تعالی کسی ماں کو ایسا سنگدل بیٹا نہ دے۔ آمین
     
  14. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
  15. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    جزاک اللہ آزاد بھائی۔۔ :dilphool:
     
  16. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جزاکم اللہ ،کیا ہی اچھا مضمون لکھاہے ،کائنات کی عظیم ہستی ماں پر جس کونگاہِ محبت سے دیکھنے پر حج کا ثواب ملتاہے،جس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے :dilphool:
    تین چیزیں دنیا کی ایسی ہیں جو ایک مرتبہ اگر ہاتھ سے نکل گئیں تو پھر نہیں ملیں گی ۔والدین،جوانی اور حسن
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    ماں جیسا کوئی رشتہ نہیں کوش قسمت ھوتے ھیں وہ لوگ جو ماں کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرتے ھیں
     
  18. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :a191: :a180: :a165: :a165:






    ذرا اک نظر--------اردو ادب /تلقین انقلاب
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    یہ لڑی اتنی خوبصورت ہے کہ دھیان خود بخود دنیوی رشتوں کی عظیم ترین ہستی " ماں " کی طرف چلا جاتا ہے

    ایک دھائی قبل جب مجھے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے دور ، انہیں روتا چھوڑ کر اور خود بھی نم آنکھوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ جب عازمِ پردیس ہونا پڑا تو پھر ابتدائی 6 سال مجھے پاکستان واپس جانے اور اپنی ماں سے ملنے کا موقع نہ مل سکا۔ المختصر یہ کہ 6 سالہ طویل جدائی کے بعد جب واپس گھر پہنچا۔ تو ہر بیٹا انداز کرسکتا ہے کہ خوشی و شکرانے کے جذبات کا عالم کیا ہوگا ۔ ماں کی زیارت کے لیے میری نگاہیں ترسی ہوئی ۔ اور مجھے دیکھنے کے لیے ماں کی نگاہوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھا ۔ بہرحال ماں کو دیکھتے ہی میں ان کے قدموں سے لپٹ گیا ۔ میری ماں نے مجھے اٹھا کر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے پنجابی میں‌ دعا دی ۔

    " میرے بیٹے ! اللہ کرے تم ساری ماؤں کے بیٹوں کے ساتھ جیتے رہو "

    کچھ دنوں بعد جب ہم بیٹھے تو اس ملاقات کے واقعے کی ویڈیو دیکھ رہے تھے تو یہ دعائیہ جملہ سن کر میں چونک گیا۔ حیران و ششدر رہ گیا کہ اللہ تعالی نے ایک ماں کے دل کو کیسے سمندر جتنی وسعت عطا کررکھی ہے کہ 6 سال کی جدائی کے بعد اپنے بیٹے سے ملنے پر صرف اپنے بیٹے کو ہی دعا نہیں‌دی ۔ بلکہ کائنات کی ساری ماؤں کے بیٹوں کو بھی اس دعا میں شامل کرلیا ۔ مطلب ہر ماں کے ہر بیٹے کے لیے دعا کر ڈالی ۔
    اب بھی کبھی کبھار میں جب اس دعا کی طرف دھیان کرتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ اے اللہ تعالی ! تو نے ایک ماں کے دل میں محبت کا کیسا سمندر رکھ دیا ہے کہ جس سے دنیا بھر کی اولاد کے لیے رحمت کی صدائیں نکلتی ہیں۔

    اور پھر میں ضمناً یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ تو ایک ماں کی اپنے بیٹے سے محبت کا عالم ہے۔ تو قربان جائیں اس ذاتِ باری تعالی کی محبت اسکے بندوں (یعنی ہمارے ساتھ ) محبت کا عالم کیا ہوگا۔ کہ جو 70 ماؤں کے برابر یا اس سے بھی بڑھ کر اپنے بندے سے محبت کرتا ہے۔

    اللہ تعالی ہر ماں باپ کو اپنی اولاد کے سروں پر سلامت رکھے اور ہر اولاد کو اپنے ماں باپ کے سایہء شفقت کے نیچے رکھے۔ آمین
     
  20. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    الہ تعالی آپ کے اور ہم سب کے والدین کو سلامت رکھے جانے کیوں ایسی منظر کشی سی دل بھر آتا ھے پھر ماں کا تو رشتہ ہی ایسا ھوتا ھے ماں تو ہر دم دعا کرتی ھے مجھ سے شاید اس سے زیادہ نہ لکھا جا سکے

    اچانک پھر بچایا کسی نادیدہ ہستی نے
    مگر کیسے ہوا یہ معجزہ معلوم کر نا ھے
    تجھے کچھ یاد ھے کل کب تجھے میں یاد آیا تھا
    مجھے اے ماں ! ترا وقت دعا معلوم کرنا ھے
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ۔ بہت خوب قطعہ ہے۔ ویسے ماں کو اولاد کی کیفیت ہزاروں میل دور سے بھی معلوم ہوجاتی ہے۔
    اسکا بھی بہت بار تجربہ ہوا ہے۔ مثلاً میں بیمار ہوا۔ کچھ دن بعد ٹھیک ہوگیا ۔ کسی کو نہیں بتایا۔ بعد میں ماں کو فون کیا تو ماں‌ بولی " تجھے پچھلے دنوں بخار تھا نا " ۔۔۔ " نہیں ماں ! ایسی تو کوئی خاص بیماری نہیں تھی " ۔۔ " لیکن مجھے معلوم ہے تم بیمار تھے اور بخار میں مبتلا تھے۔ " ماں کا جواب ہوتا ۔
    اور پھر یقین ہوگیا کہ ماں سے بیٹا کچھ چھپا نہیں سکتا۔ :no:
     
  22. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بالکل سچ ھے ماں سے کچھ بھی نہیں چھپایا جا سکتا
     
  23. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    وعلیکم السلام۔۔

    آمین۔۔

    بہت خوب۔۔۔ :dilphool:
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام۔۔
    آمین۔۔
    بہت خوب۔۔۔ :dilphool:
    [/quote:2ie12qza]
    بہت شکریہ کاشفی بھائی ۔ :flor:
     
  25. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    سبحان اللہ ۔ واقعی ماں کی محبت اور شفقت کو ماپنا ناممکن ہے۔
    اچھی شئرنگ ہے۔
     
  26. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ماں کی ممتا کی تڑپ کو میں نے کئی دفعہ اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھا، انکی اولاد کو جب بھی کوئی دکھ یا تکلیف میں دیکھتی تھیں تو وہ چیخ اٹھتی تھیں، بچپن میں جب سے میں نے ھوش سنبھالا، میں نے اپنے آپ کو ھمیشہ اپنی ماں سے ضد کرتے ھوئے پایا، میں کیونکہ پہلا اور بڑا بیٹا ھوں، اس لئے بچپن سے ھی کچھ زیادہ ھی والدین کا لاڈلا تھا، جس کا میں نے خاص کر اپنی اماں کو بہت تنگ کیا، مگر میں نے انہیں کبھی بھی مجھ سے ناراض ھوتے ھوئے نہیں دیکھا، ھاں سمجھاتی ضرور تھیں، کہ بیٹا اچھے بچے ایسا نہیں کرتے، دیکھا تمھارے ابا جان آتے ھونگے، کوئی شیطانی مت کرنا، یا کبھی والد صاحب آرام کررھے ھوتے تھے، مجھے شرارت کرتے ھوئے دیکھ کر خاموشی سے دوسرے کمرے میں لے جاکر بہت پیار سے سمجھاتی تھیں، مگر انہوں نے مجھ پر آج تک کبھی بھی ھاتھ تک نہیں اٹھایا، اور نہ ھی کبھی مجھ سے ناراض ھوئیں،!!!!!!!! مگر اباجان کا غصہ تو بہت ھی سخت تھا، مجھے ان سے بہت ڈر لگتا تھا، کئی دفعہ ان سے خوب مار بھی کھائی، لیکن وہ اندر سے بہت ھی زیادہ موم تھے، مجھ سے بہت پیار بھی کرتے تھے،!!!!!!

    بچپن کے زمانے میں اکثر اوقات میں گھر میں اپنے ابا جان کے سامنے تو بالکل معصوم اور بھولا بھالا سا بنا رھتا تھا، اور ان کی غیر حاضری میں تو گھر میں طوفان برپا کر رکھتا تھا، چھوٹے بہن بھائیوں کو خوب تنگ کرتا تھا، والدہ بس زیادہ تر کچن میں یا تو کھانا پکا رھی ھوتی تھیں یا پھر گھر کی صفائی ستھرائی برتن وغیرہ دھوتیں یا پھر کپڑوں کا ڈھیر لے کر دھونے بیٹھی ھوتیں، وہ وہیں سے سب کو شور نہ کرنے کی ھدایتیں بھی دیتی رھتیں، مگر ان کی کون سنتا تھا، ھم سب بہن بھائی ایک ھنگامہ کھڑا کئے رھتے تھے، والدہ کبھی کبھی ڈرانے کیلئے فوراً ھی اعلان کرادیتی ارے چپ ھوجاؤ تمھارے ابا جی آرھے ھیں، اور ھم سب بہن بھائی بالکل خاموش ھو جاتے، اور بس ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ جاتے اور میں تو سب سے الگ ایک کونے میں اپنی اسکول کی کتابیں لے کر بیٹھ جاتا، جیسے میں تو بہت ھی زیادہ تابعدار اور پڑھاکو بچہ ھوں،!!!!!!!! والد صاحب کا رعب بہت تھا، ایک تو ان کے ملٹری کے بھاری بھر کم جوتے دور سے ھی ان کے آنے کی خبر دے دیتے تھے، اور ان کی خاکی وردی اور ٹوپی کا ایک الگ ھی رعب تھا، وہ ایک پاکستانی فوجی تھے، ان کا چلنے کا انداز بھی بالکل فوج کے مارچ پاسٹ کی طرح تھا، والدہ بھی ان کے سامنے زیادہ تر خاموش ھی رھتی تھیں، وہ ھمیں گھمانے پھرانے بھی لے جاتے تھے، لیکن والدہ کو کبھی لے جاتے ھوئے نہیں دیکھا، ھاں کبھی کبھی کسی دوسری فیملی میں اگر کوئی دعوت یا تقریب ھوتی تو والدہ بھی ساتھ ھوتی تھیں،!!!!!!

    میں نے تو والدہ کو ھمیشہ گھر میں مصروف ھی دیکھا، اس وقت تو ھمارے گھر میں بجلی نہیں تھی، لالٹین کی روشنی میں ھی رات کو ھم پڑھا کرتے تھے، والدہ اتنی پڑھی لکھی نہیں ھیں، لیکن اس وقت وہ ھم سب بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ھماری کتابوں کو الٹ پلٹ ضرور کرتی رھتیں تھیں، اور پرائمری اسکول کی حد تک تو کچھ نہ کچھ میں سلیٹ اور تختی پر لکھائی کی مشق کراتی رھتیں، ان کا سارے گھر کا کام کرنا، اور اس کے باوجود ھمارے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ وقت دیتی رھتی تھیں، کبھی کبھی ھم بھی اپنی والدہ کو زبردستی اپنے ساتھ کھیلنے کیلئے مجبور کردیتے تھے،!!!!!!!!

    اس وقت کے بارے میں جب سوچتا ھوں تو حیران ھوتا ھوں کہ وہ کس طرح دن رات ھر وقت ھم سب کیلئے اتنی زیادہ محنت مشقت کرتی رھتی تھیں، آج کل تو شاید ھی کوئی ایسا کرتا ھو گا، مگر ھماری اماں تو اب تک سارا کام اپنے ھاتھوں سے ھی کرتی ھیں، ھمارے بچے حیران ھوتے ھیں کہ وہ اب بھی کپڑے اپنے ھاتھوں سے دھوتی ھیں، خود کھانا پکاتیں ھیں، بازار جانا اور سارا سودا سلف لانا انکی روزمرہ زندگی کا معمول ھے، ھمیشہ سادہ رھتی ھیں، میں نے بچپن سے لیکر آج تک انہیں کبھی بھی میک اپ میں نہیں دیکھا، بالکل سادہ سے کپڑے پہنتی ھیں، زرق برق لباس انہیں پسند نہیں ھیں، لیکن اپنی بیٹیوں، بہوؤں، نواسیوں، اور پوتیوں، کو اچھے لباس میں دیکھ کر بہت خوش ھوتی ھیں، اور شروع سے انہیں میں نے برقعے میں ھی دیکھا، آج بھی وہ مصالہ سل بٹے پر اپنے ھاتھ سے ھی پیستی ھیں، جبکہ گھر میں گرائنڈر بھی موجود ھیں لیکن وہ کہتی ھیں کہ ھاتھ سے پسے ھوئے مصالوں کی وجہ سے ھی کھانوں میں ایک عمدہ ذائقہ آتا ھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بنایا ھوا پکوان بہت ھی لذیذ اور خوش ذائقہ ھوتا ھے، خاص کر ان کے ھاتھ کے بنے ھوئے کباب اور بھنا ھوا قیمہ تو مجھے بہت پسند ھے، بچپن میں تو وہ اپنے ھاتھوں سے بنے ھوئے پراٹھے اپنے ھاتھ سے کھلاتی تھیں، لکڑی کے چولہے پر دھواں دیتی ھوئی لکڑیاں اور ان کا پھوکنی سے بار بار پھوک مار کر چولہے کی آگ کو تیز کرنا، اسی دھویں میں کھانا پکانا روٹیاں پکانا، اس کے علاوہ پورے گھر میں ھاتھوں سے بیٹھ کر جھاڑو لگانا، پوچھا لگانا، اس وقت کچی دیوریں ھوا کرتی تھیں، اس پر مٹی سے لپائی کرنا، اپنے ھاتھوں سے گھر کے ھم سب کے سارے میلے کپڑے، چادریں تولئے اپنے ھاتھوں سے ایک بڑے سے تھال میں دھوتی تھیں، اور اب بھی ایسا ھی کرتی ھیں، وہ اب کہتی ھیں کہ مشینوں سے کپڑوں کا ستیاناس ھو جاتا ھے، !!!!!!!!

    یہ تو حقیقت کہ اس وقت کی عورتیں جو گھر کے سارے کام اپنے ھاتھوں سے کرتی تھیں، اور اب بھی ان کا وہی حال ھے، وہ کسی بھی مشینوں کو ھاتھ تک نہیں لگاتی ھیں، روز کا بازار جاکر سودا سلف وغیرا لانا، دعوتوں کا اھتمام کرنا، مہمانوں کی خوب خاطر مدارات کرنا، ان کا روزمرہ کا معمول اب تک ویسے کا ویسا ھی ھے، اور یہی وجہ ھے کہ انکی کافی عمر ھونے کے باوجود بھی چاق و چوبند، اور صحتمند نظر آتی ھیں، جو کہ اب نئی نسل کی لڑکیوں میں نہیں ھے، اگر آج کل کی لڑکیاں ھیلتھ کلب میں جانے کے بجائے اگر گھر کے کام کو پرانے طریقوں سے انجام دیں تو وہ ھیلتھ کلب کے بغیر بھی اپنی صحت کو بہت ھی بہتر اور چاق وچوبند رکھ سکیں گی،!!!!!!

    آج میں بہت اداس ھوں کیونکہ میری ماں جو اب تک ھم سب کیلئے خوب محنت مشقت کرتی رھیں ھیں آج ایک اسپتال میں زیر علاج ھیں، وہاں پر بھی لیٹے لیٹے ھر آنے جانے والوں کو اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں اور بیٹے بیٹیوں دامادوں بہووں کو دعائیں اور ساتھ حوصلہ بھی دے رھی ھیں، میں ان کے پاس نہیں ھوں لیکن فون پر مجھ سے خوب پیار سے بات کرتیں ھیں مجھے ھمت دیتی ھیں، مگر مجھے معلوم ھے کہ وہ کس درد اور کرب کے عالم میں مجھ سے فون پر باتیں کرتی ھیں، میری آنکھوں میں ایک آنسوؤں کا سیلاب بہتا رھتا ھے، مگر میں اسے اپنے بچوں سے چھپاتا پھرتا ھوں، میرا دل چاھتا ھے کہ میں خوب چیخ چیخ کر روؤں، میرے بچے بھی میری حالت دیکھ کر کچھ خاموش اور سنجیدہ سے ھوگئے ھیں، میری بیگم بھی مجھے سمجھتی ھیں، اور وہ بھی سب میرے بہن بھائیوں کو فون پر دلاسہ اور ھمت کرے کیلئے کہتی رھتی ھیں، مجھ سے تو فون پر بہت ھی مشکل سے بات ھوتی ھے، اور اپنے آنسوؤں کو بہت ھی مشکل سے روک پاتا ھوں،!!!!

    میرے ساتھ کچھ مجبوریاں ایسی ھیں کہ میں 10 دسمبر سے پہلے نہیں جاسکتا، ویسے سفر کیلئے میرے اور میری پوری فیملی کے پاسپورٹ اور ٹکٹ بالکل تیار ھیں، میری دونوں بیٹیاں بیگم ایک بیٹا بہو میرے ساتھ یہاں موجود ھیں، میرا بہت خیال رکھ رھے ھیں، کیونکہ میں بھی بلڈپریشر، ھائیرٹینشن اور شوگر کا مریض ھوں دوائیوں کا بھی اب ھوش نہیں ھے، بڑی بیٹی اپنے سسرال میں ھی ھے، اور چھوٹا بیٹا بھی پاکستان میں کسی کورس کی ٹریننگ حاصل کررھا ھے اور باقی اوقات میں اپنی دادی کے ساتھ ان کی تیمارداری میں لگا ھوا بھی ھے اور سب آنے جانے والوں کو بھی دیکھ رھا ھے، سب بھائی بہن بھی اپنی اماں کی خدمت میں لگے ھوئے ھیں، اور ساتھ ھی تمام رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کی ھمدردیاں بھی ھماری اماں کے ساتھ ھیں، جو ناراض تھے وہ بھی اماں کے پاس خیریت معلوم کرنے آپہنچے ھیں،!!!!!!!!!

    میری بس دعاء یہی ھے کہ اللٌہ تعالیٰ انہیں اپنے حبیب (ص) کے صدقے جلد سے جلد صحت و تندرستی عطا فرمائے،!!! آمین،!!!!! اور اللٌہ تعالیٰ ھم سب کے سروں پر اپنے والدین کا سایہ سلامت رکھے، آمین،!!!!!
     
  27. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آپ کی یہ تحریر اپ کی ان سب تھریروں پہ سبقت لی گئی ھے کیونکہ اس میں صرف مشاھدہ ےا تجربہ ہی نہیں‌اپ نے اپنے سچے جبزے کا ذکر کیا ھے جو پیار آپ کو اپنی والدہ سے ھے ا سکا اظہار کیا ھے بہت خوبصورت الفاظ ھیں اللہ کرے آپ جلد از جلد اپنی والدہ کو جا کر ملیں
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سید بھائی ۔ آپ کو اللہ تعالی نے اپنے جذبات کو صفحہء قرطاس پر منتقل کرنے کا بہت اعلی فن عطا کیا ہے۔ ماشاء اللہ ۔

    لیکن ماں باپ اور گھروالوں کا ذکر آپ کچھ ایسے دردِ دل سے کرتے ہیں کہ پردیس کے پابند " قیدیوں" کے قلب و نظر کو اشک اشک کر دیتے ہیں۔ ہم تو پہلے ہی دکھوں کے مارے ہوتے ہیں ۔ آپ کی دلدوز تحریر سے اور دکھی ہوجاتے ہیں۔

    پتہ نہیں کس کے، کس جرم کی پاداش میں ہمیں اپنوں سے دور جدائی کے انگاروں میں اپنے دلوں کو جلاتے رہنے کی سزا دے دی جاتی ہے۔ :rona:

    خیر ۔۔ دعا ہے اللہ تعالی آپ کی بلکہ سب اولاد کے والدین کو سلامت رکھے۔ اور سب کو خوشیاں عطا فرمائے۔ آمین
     
  29. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    [youtube:1u3vyl8d]http://www.youtube.com/watch?v=pErSsN2s4M8[/youtube:1u3vyl8d]​
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :rona: :rona: :rona: :rona: :rona:
    اللہ تعالی دنیا بھر کے بچوں پر انکے ماں باپ کا سایہ قائم رکھے۔
    اور دنیا بھر کے بچوں کو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بنا دے۔ آمین

    کاشفی بھائی ۔ آپ نے کیسا کلپ ارسال کر دیا۔ سچی بہت رونا آ رہا ہے :rona:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں