ماں کی وجہ سے قدر و قیمت بڑھتی ہےایک آدمی جارہا تھا اس نے کھجور کھائی اور کٹھلی ایک کھیت میں پھینک دی وہاں شجر نحل اگ آیا ، بتائیے وہ درخت کس کا ہوگا ؟ گٹھلی پھینکنے والے کا یا جس کی زمین ہے ؟ یقینا اُسی کا ہوگا جس کی زمین ہے ، نطفہ جب باپ سے جدا ہوتا ہے تو بے قیمت ہوتا ہے کوئی مالیت یا وقعت نہیں ہوتی بلکہ نکلے تو اسے پلید کردیتا ہے ، اور جس پر لگ جائے اسے دھونا پڑتا ہے ۔۔۔ مگر جونہی وہ ماں کے رحم میں پہنچتا ہے تو اب اس نطفے کی قدر و قیمت بڑھنے لگتی ہے ، وہ ولی بنا ، قطب بنا ، غوث بنا مسجد کا امام بنا ، آپ جب بھی بولتے ہیں تو یوں بولتے ہیں ماں باپ کی خدمت کرو پہلے ماں پھر باپ ، جب تکلیف پہنچتی ہے تو ماں ہی یاد آتی ہے ، ماں ہوگی تو باپ بنو گے ۔۔۔ ایک بندہ کہہ رہا تھا مختار شاہ باپ ہوگا تو ماں بنے گی میں نے کہا انسانیت کی تاریخ میں ایسی مثال موجود ہے کہ باپ نہ تھا لیکن ماں بن گئی حضرت مریم علیہ السلام تم کوئی مثال دکھادو کہ ماں نہیں تھی اور وہ باپ بن گیا ۔ چپ کر گئے ۔۔۔۔ میں نے کہا مانو کہ ماں ہی کہ وجہ سے قدر و قیمت بڑھتی ہے ۔ ماں کیوں ہوتی ہے ؟ اللہ تعالٰی قدرت رکھتا ہے کہ جوان بچے کسی درخت میں سے نکال دے کسی پتھر میں سے نکال دے ، جس طرح پتھر میں سے حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے گابھن اونٹنی نکلی تھی یا جیسے موسم برسات میں کئی کیڑے مکوڑے پیدا ہوجاتے ہیں یا حیوانوں اور انسانوں کے فضلہ میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں یہی سوال حضرت موسٰی علیہ السلام نے کیا کہ ماں کیوں ہوتی ہے ؟ اللہ تو بچے کسی درخت سے بھی تو پیدا کرسکتا ہے اللہ نے فرمایا تیری بات ٹھیک ہے مگر آ تجھے حکمت بتلاتے ہیں بلکہ دکھاتے ہیں ، حکم ہوا چھپ کر سامنے والے درخت کی طرف دیکھو آپ علیہ السلام نے تعمیل کی تھوڑی دیر کے بعد درخت شق ہوا چار جوان نکلے کسی نے ایک دوسرے سے کلام کرنا تو کجاہ دیکھا تک نہیں اور اپنی اپنی سمت چل پڑے ، اللہ تعالٰی نے موسٰی علیہ السلام سے فرمایا دیکھا ؟ ایک درخت سے پیدا ہوئے آپس میں ملے تک نہیں میں ماں اس لئے بناتا ہوں اس ایک ماں کی وجہ سے باپ کے رشتہ داروں سے تعلق جڑجاتا ہے کوئی چچا ہے ، کوئی دادا ہے ، کوئی چچی ہے کوئی دادی ہے کوئی پھوپھی ہے اور ماں کے رشتہ داروں سے بھی تعلق جڑ جاتا ہے کوئی خالہ ہے کوئی نانی ہے کوئی خالو ہے کوئی نانا ہے کوئی ماموں ہے کوئی ممانی ہے ایک ماں کی وجہ سے ایک کنبہ تیار ہوجاتا ہے ۔ ماں یہ لفظ اندر کائنات کی تمام تر مٹھاس ، شیرینی اور نرماہٹ لئے ہوئے ہے ، یہ دنیا کا سب سے پرخلوص اور چاہنے والا رشتہ ہے ۔۔۔ ماں ٹھنڈک ہے ۔۔۔ سکون ہے ۔۔۔ محبت ہے ۔۔۔ چاہت ہے ۔۔۔ راحت ہے ۔۔۔ پیکر خلوص ہے ۔۔۔ اولاد کی پناہ گاہ ہے ۔۔۔ درسگاہ ہے ۔۔۔ بیٹا ایک پودا ہے جس طرحپودے کو سورج کی گرمی ، ہوا کی نرمی ، چاند کی چاندنی ، کوئل کی راگنی اور زمین کی گود کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بیٹے کو بھی باپ کی گرمی ، ماں کی نرمی ، پیار بھری لوریاںاور گود کی ضرورت ہوتی ہے ، زیادہ گرمی ہو تب بھی پودا خراب ہوجاتا ہے زیادہ ٹھنڈ پرجائے پھر بھی ، اسی طرحبچے پہ زیادہ سختی کروگے بچہ ڈھیٹ ہوجائے گا ، نرمی کروگے آوارہ ہوجائے گا ، ہر غم کا مرہم ماں ہے ، ماںدعا ہے جو سدا اولاد کے سروں پر رہتی ہے ، ماں مشعل ہے جو بچوںکو راہ دکھاتی ہے ، ماں نغمہ ہے جو دلوں کو گرماتا ہے ۔۔ ماںمسکراہٹ ہے ۔ ماں ایک گھنا درخت ہے ، اس جیسا سایہ دار درخت کہیں نہیں ہے ، دنیا کا ہر درخت اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب اس کی جڑ ختم ہوجائے مگر ماں ایک ایسا درخت ہے یہ اس وقت ختم ہوتا ہے جب اس کا پھل ( یعنی بیٹا ) ختم ہوجائے جو ماںکو تڑپاتا ہے وہ سکھ نہیں پاتا ، ماں ناراض ہوجائے تو خدا ناراضہوجاتا ہے ، جس بچے کی ماںاس کے ظلم کی وجہ سے مرجائے اس پر رحمتوں کا دروازہ بند ہوجاتا ہے ، ماںٹھنڈی چھائوں ہے ، کعبہ ہے ، بخشش کی راہ ہے ، اللہ کے بعد ماں کا رتبہ ہے کیونکہ انبیاء بھی اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کی اطاعت ان کا دھرم ٹھہری ، ماںکا پیار سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے ، ماںجو پیار اپنے بچے سے کرتی ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں خالصکوئی چیز نہیں، قربانی کے طریقے سب سے زیادہ ماںہی جانتی ہے ، اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صبر کا سب سے اعلٰی نمونہ ہے ، ماںوہ مالی ہے جو اپنے پودوں کو خون دیکر پروان چڑھاتی ہے ، ماںکی فطرت ہے وہ اپنی خاطر کبھی کچھ نہیں کہتی ، وہ اولاد کے دکھ سکھ اپنے سینے سے لگالیتی ہے اوران کے لئے خیر کی دعائیں بھی کرتی ہے ، بچہ جب باہر رہتا ہے ماںکا دھیان بھی باہر ہی رہتا ہے اس کی نظریں دروازہ پر ہی ٹکی رہتی ہیں ۔ ماں کیسے بنی ؟ ایک دن آسمانوں کے فرشتوں نے رب سے کہا ۔۔۔ زمینی مخلوق سےکچھ ہمیں دکھلایے ۔۔۔ رب نے حجاب اُٹھایا ۔۔ فرشتوں کو بلایا ۔۔۔ رب نے ایک مجسمہ دکھایا ۔۔۔ ایک مجسمہ ۔۔۔ خوبصورت روشن مجسمہ ۔۔۔ جسے کلیوں کی معصومیت ۔۔۔ چاندنی سے ٹھنڈک ۔۔۔گلاب سے رنگت ۔۔۔ قمری سے نغمہ ۔۔۔ غاروں سے خاموشی ۔۔۔ آبشاروں سے موسیقی ۔۔۔ پھول کی پتی سے نزاکت ۔۔۔ کوئل سے راگنی۔۔۔ بلبل سے چہچہاہٹ ۔۔۔ چکوری سے بے چینی ۔۔۔ لاجونتی سے حیا ۔۔۔ پہاڑوں سے استقامت ۔۔۔ آفتاب سے تمازت ۔۔۔ صحرا سے تشنگی ۔۔۔ شفق سے سرخی ۔۔۔ شہد سے حلاوت ۔۔۔ شب سے گیسو کے لئے سیاہی ۔۔۔ سرو سے بلند قامتی لےکر بنایا ۔ اس کی آنکھوں میں دو دیئے روشن تھے ، اس کے قدموں تلے گھنے باغات تھے ، اس کے ہاتھوں میں دعائوں کی لکیریں تھیں ۔۔۔ اس کے جسم سے رحمت و برکت کی بو آتی تھی ۔۔۔ اس کے دم میں رحم کا دریا موجزن تھا ۔۔۔ اللہ تعالٰی نے اسے ایک گوشت کا لوتھڑا عطا کیا ( یعنی بچہ )اس مجسمے نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے اور خود اندھا ہوگیا۔ اپنی بہار کے سب پھول اسے دے دیے ۔ اپنے ہاتھوں کی دعائوں کو اس کے سر پر سایہ بنایا ۔ اپنے قدموںکے گھنے باغات اُٹھاکر اسے دے دیے ۔ اپنا سکون اسے دے کر خود کو بے سکون ہوگیا۔ اپنی ہنسی اس کے نام کردی ، خود خاموشی لے لی ۔ سُکھ اسے دے دیا اور خود آنسو لے لئے ۔ فرشتوں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔ یا اللہ یہ کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا یہ ماں ہے
لفظ ماں اور لغت ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں، اُم قرآن مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے ، اس کی جمع اُمھات ہے ، یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ، صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہوگئے ، ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں(ا+م+م ) یہ لفظ حقیقی ماںپر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پہ بھی ۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو امنا ( ہماری ماں) کہا جاتا ہے ۔ خلیل نحوی کا قول ہے ۔۔ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات سما جائیںوہ ان کی اُم کہلاتی ہے ۔ جیسے لوح محفوظ کو اُم الکتاب کہا گیا کیونکہ وہ تمام علوم کا منبع ہے ، مکہ مکرمہ کو اُم القری کہتے ہیں کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز ہے ، کہکشاں کو اُم النجوم کہتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے ستارے سمائے ہوتے ہیں ، جو بہت مہمانوں کو جمع کرے اُسے اُم الضیاف کہتے ہیں ، سالار لشکر کو اُم الجیش کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اُم کے چار معنی ہیں ۔ (1) بنیاد اصل (2) مرجع (3) جماعت (4) دین چاروںکی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ اُم الطریق ( شارع عام ) اُم المثوی (بیوی ) اُم عریط ( بچھو ) اُم اربع اربعین ( کنکھجورہ ) اُم ادراص (جنگلی چوہا ) اُم البیض (شتر مرغ) اُ م تولب (گدھی ) اُم جعران ( گدھ ) اُم الخبائث ( شراب ) اُم الطعام (معدہ ) اُم القرآن (فاتحہ ) اُم القوم ( سردار ) اُم مازن (چیونٹی ) اُم ملدم (بخار ) اُم الولید (مرغی ) اُم حرب ( جھنڈا )
سبحان اللہ ۔ عدنان بھائی ۔ بہت ہی اعلی اور ماں کی محبت سے لبریز تحریر ہے۔ لیکن لگتا ہے ابھی مضمون آگے چلے گا۔ اس لیے تشنگی باقی ہے۔