ایک دستک مجھے سنائی دی تیری مانوس یاد کی خوشبو دل کی دہلیز پر ہے رنجہ کیا ؟ ایک پل مُسکرا دی تُو آیا ! دوجے پل اس گُماں پہ، میں رو دی آزمائش نئے طریقوں سے چوٹ دیتی ہے یہ سلیقوں سے خامشی جھانکتی دَریچوں سے تاکتی لہر لہر دریا کی بن رہی خود میں کوئی طوفاں کیا بحر ہجراں کی ہے نمو کب سے سب بُخارات بن کے بھی بادل آسماں پر مکیں رہے کب سے آشیاں بھی جلے بجھے کب سے جانے بنجر ہے یہ زمیں کب سے نور ایمان
آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا، ہم قفّس سے نِکل کر کِدھر جائیں گے اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے اور کُچھ دن یہ دستورِ میخانہ ہے، تشنہ کامی کے یہ دن گذر جائیں گے میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تو دو، جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے اے نسیمِ سحر تجھکو انکی قسم، ان سے جا کر نہ کہنا مرا حالِ غم اپنے مِٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر، ڈر یہ ہے انکے گیسو بکھر جائیں گے اشکِ غم لے کے آخر کدھر جائیں ہم، آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں آپ ہی اپنا دامن بڑھا دیجئیے، ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے کالے کالے وہ گیسو شکن در شکن، وہ تبسّم کا عالم چمن در چمن کھینچ لی انکی تصویر دل نے مرے، اب وہ دامن بچا کر کِدھر جائیں گے کلامِ راز الِّہ آبادی