1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مابعد سیلاب، پٹواری بننے کی خواہش

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 ستمبر 2010۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مابعد سیلاب پٹواری بننے کی خواہش

    اطہر شاہ خان ​

    کہا جاتا ہے کہ سندھ میں نئے پٹواریوں کی نوکریوں کے لئے سیکڑوں نوجوان کوششیں کررہے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتے کہ وہ پٹواری ہی کیوں بننا چاہتے ہیں، وجہ ظاہر ہے کہ پٹواری کے پاس ہی زمینوں کا حدود اربعہ اور کھیتوں کی حدود کا نقشہ ہوتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس کا کھیت کہاں سے کہاں تک ہے مگر اس بار کے سیلاب میں تمام نقشے مٹ گئے، تمام حدود فنا ہوگئیں، اب تو اندازے سے بتانا بھی مشکل ہے کہ کونسا گاؤں کہاں آباد تھا کیونکہ بے شمار گاؤں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے ہیں، جہاں کہیں ایک بڑا باغ تھا وہاں شاید دوچار درخت ہی سلامت رہ گئے ہیں، گھروں کا حال یہ ہے کہ پہلے وہ کھنڈر بنے پھر یہ کھنڈر بھی معدوم ہوگئے…اب نئی حد بندیاں ہوں گی، نئے سرے سے تعین کیا جائے گا لیکن اپنے گھروں کا تعین کرانے والے سیکڑوں لوگ اب دنیا میں موجود نہیں ہیں لہٰذا پٹواری کی ملازمت کے خواہش مندوں سے یہ پوچھنا بے کار ہے کہ آخر وہ پٹواری ہی کیوں بننا چاہتے ہیں، ظاہر ہے کہ پٹواری ہی بتائے گا کہ جہاں اب ویرانہ ہے وہاں آبادی کہاں کہاں تھی اور پٹواری کی یہ صوابدید اور کھیتوں کی نئی حد بندیاں کس قدر منفعت بخش ہوں گی اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے کیونکہ وہ جو غریب دیہاتی تھے صرف وہی مرے ہیں، جاگیرداروں اور وڈیروں میں سے کسی کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ سیلاب کے ہاتھوں داعی جل کو لبیک کہہ گیا۔
    خواجہ میردرد کہ اہل تصوف میں سے تھے اور ان کی بصیرت ان کے زمانے سے آگے کا زمانہ بھی دیکھ لیتی تھی کس دل سوزی سے ایک شعر میں آج کی تباہی کا نقشہ کھینچتے ہیں…

    گزروں ہوں جس خرابے پہ کہتے ہیں واں کے لوگ
    ہے کوئی دن کی بات یہ گھر تھا یہ باغ تھا !​

    میر تقی میر نے بھی ایک شعر میں کچھ ایسی کیفیت بیان کی ہے۔

    اب شہر ہر طرف سے میدان ہوگیا ہے
    پھیلا تھا اس طرح کا، کاہے کو یاں خرابا​

    اور ذرا میر صاحب کا یہ شعر بھی دیکھئے…

    کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
    مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا​

    اس زمانے کے شاعر شہروں میں رہتے تھے اس لئے صرف وہاں کا حال ہی لکھتے تھے، اگر وہ آج کے دور میں کسی دیہاتی علاقے میں رہ رہے ہوتے تو نئی غزل کہنے سے پہلے ہی بہہ گئے ہوتے ۔۔۔


    اطہر شاہ خان جیدی کے کالم سے اقتباس
     

اس صفحے کو مشتہر کریں