1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لوئیس پاسچر ....تحریر : محمد ریاض

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 جولائی 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    لوئیس پاسچر ....تحریر : محمد ریاض


    ویکسین متعارف کرانے والا سائنس دان

    لوئیس پاسچر فرانس سے تعلق رکھنے والا کیمیا دان اور ماہر حیاتیات تھا۔ اسے طب کی تاریخ میں انتہائی ممتازمقام حاصل ہے۔ پاسچر نے سائنس کے میدان میں متعدد اضافے کیے، لیکن اس کی اصل وجۂ شہرت جراثیموں کے نظریے کی تشکیل اور مدافعت کے لیے ٹیکہ لگانے کے طریقہ کار کو وضع کرنا ہے۔ اس نے کتے کے کاٹے کا علاج دریافت کیا اور ثابت کیا کہ بہت سی بیماریاں ازخود نہیں، بلکہ جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خمیر پر اس کی تحقیق سے ایک نیا علم وجود میں آیا جسے جرثومیات کہا جاتا ہے۔ اس نے پرندوں اور حیوانوں میں متعدی امراض پھیلانے والے جراثیم پر بھی تحقیق کی۔ اس نے علاج کے جو طریقے دریافت کیے ان کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں انسان شفایاب ہوئے یا بیماریوں سے دور رہے۔ اس نے ریبیز اور دنبل (اینتھریکس) کی پہلی بار ویکسین بنائی۔
    ۔1822ء میں پاسچر مشرقی فرانس کے قصبہ ڈولی میں پیدا ہوا۔ پیرس میں کالج کے طالب علم کے طور پر اس نے سائنس کا مطالعہ کیا۔
    دور طالب علمی میں اس کی خداداد صلاحیت درست طور پر ابھر کر سامنے نہ آ سکی، بلکہ ان دنوں اس کے ایک استاد نے ''کیمیا‘‘ کے مضمون میں اس کے بارے میں رائے لکھی تو اسے 'درمیانے درجے کا طالب علم قرار دیا، تاہم1847ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے پاسچر نے اپنے استاد کی رائے کو غلط ثابت کردیا۔
    اس نے اپنی توجہ تخمیر کے عمل کی طرف مبذول کی، پھر یہ ثابت کیا کہ یہ عمل خاص طرح کے انتہائی چھوٹے اجسام یعنی جراثیم کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ اس نے اس کا تجرباتی مظاہرہ کیا کہ ایسے ہی اجسام کی دیگر انواع انسانوں اور جانوروں میں مضر اجزا پیدا کرتی ہیں اور انہیں بیمار کرتی ہیں۔
    تاہم پاسچر پہلا سائنس دان نہیں تھا جس نے جراثیموں کانظریہ پیش کیا۔ اس سے قبل دیگر ماہرین ایسے مفروضات پیش کر چکے تھے لیکن جراثیم کے نظریے میں پاسچر کی اصل کامیابی کی وجہ اس کے ان تھک تجربات اور عملی مظاہرے ہیں جس نے سائنس دانوں کو جراثیم کے بارے میں نظریات ماننے پر مجبور کر دیا۔
    اگر بیماریوں کا سبب جراثیم ہیں تو پھر یہ امر منطقی معلوم ہوتا ہے کہ مضرت رساں جراثیموں کے انسانی جسم میں داخلے کو بند کیا جائے تاکہ بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لہٰذا پاسچر نے طبیبوں کو جراثیم کش طریقوں کی افادیت پر قائل کیا، اسی کے خیالات سے متاثر ہو کر جوزف لسٹر نے سرجری کے عمل میں جراثیم کش طریقے متعارف کروائے۔
    ضرر رساں بیکٹیریا خوراک اور مائع کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پاسچر نے ایک طریقہ کار وضع کیا جسے ''پاسچرائیزیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف طرح کے مشروبات میں جراثیموں کو مارا جا سکتا ہے۔
    عمر کی پانچویں دھائی میں اس نے ''دنبل‘‘ جیسی بیماری پر تحقیق شروع کی۔ یہ ایک خطرناک متعدی بیماری ہے جو مویشیوں اور دیگر جانوروں پر حملہ آور ہوتی ہے، اس کا شکار انسان بھی ہوتا ہے۔
    پاسچر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ بیکٹیریا کی ایک خاص نوع اس بیماری کی اصل ذمہ دار ہے۔ تاہم اس کی کہیں زیادہ اہم ایجاد وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے اس نے ''دنبل‘‘ کے جراثیموں کا ایک کمزور گروہ پیدا کیا۔ پھر اسے مویشیوں میں ٹیکے کے ذریعے داخل کیا۔ ان کمزور جراثیموں نے بیماری کی نحیف سی علامات پیدا کیں، جو مہلک نہیں تھیں، لیکن جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مویشی کے دفاعی نظام نے بیماری کی معمولی صورت کے خلاف ایک طاقت ور محاذ پیدا کر لیا۔
    مویشیوں کے ''دنبل‘‘ کے جراثیموں کے خلاف اس طریقہ کار سے حفاظتی نظام پیدا کر لینے کے عوامی مظاہرے نے پاسچر کو مقبولیت عام و خاص عطا کی۔ جلد ہی اس حقیقت کا احساس کیا گیا کہ اس عمومی طریقہ کار کو کئی متعدی بیماریوں کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
    پاسچر کی سب سے معروف ایجاد یہ ہے کہ اس نے ''جنون سگ گزیدگی‘‘ (ریبیز) جیسی موذی بیماری کے خلاف ٹیکے کے ذریعے علاج ممکن بنایا۔ پاسچر کے ان بنیادی نظریات کو استعمال کرکے دیگر سائنس دانوں نے متعدد خطرناک بیماریوں کے خلاف جراثیم کش ٹیکے ایجاد کیے۔
    پاسچر غیر معمولی طور پر محنتی انسان تھا۔ اس نے ان کے علاوہ بھی متعدد کم اہم، مگر مفید نظریات پیش کیے۔ یہ انہیں کے تجربات کے سبب ہوا کہ لوگوں نے جانا کہ جراثیم از خود پیدا نہیں ہوتے۔
    ۔1895ء میں پیرس کے نزدیک پاسچر کا انتقال ہوا۔
    عموماً پاسچر اورایڈورڈ جینر کے بیچ موازنہ کیاجاتا ہے۔ جوایک انگریز طبیب تھا اوراس نے چیچک سے حفاظت کے لیے ویکسین تیار کی تھی۔ حالانکہ جینر نے پاسچر سے قریب 80 سال قبل اپنا کام مکمل کرلیا تھا، لیکن اس کی اہمیت پھر بھی پاسچر سے زیادہ نہیں بنتی کیونکہ اس کا طریقہ کار فقط ایک ہی بیماری پر منطبق کیا جا سکتا تھا، جبکہ پاسچر کے طریقہ کار کو بڑی کامیابی کے ساتھ متعدد بیماریوں کے خلاف آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
    انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں دنیا بھر میں دگنے انسان زندہ رہنے لگے۔ انسانی زندگی کے دورانیہ میں اس نمایاں اضافہ نے انسان کی جملہ تاریخ میں ہونے والی کسی بھی دوسری ایجاد کی نسبت زیادہ ہمہ گیر اثرات مرتب کیے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید سائنس اور علم طب نے ہمیں زندہ رہنے کا دگنا موقع عطا کیا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں