1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لفظ “چراغ“ پر شعر کہیں

'اشعار اور گانوں کے کھیل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 دسمبر 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اس لڑی میں ایسے اشعار جن میں چراغ، چراغوں، چراغاں وغیرہ کے لفظ آتے ہوں لکھے جائیں گے۔
    پہلا شعر عرض کرتا ہوں۔

    عُذرِ وفا کے ساتھ جلاتے رہے چراغ
    کھلتا ہے اب کےدیدہء نم بھی بہانہ ساز


    (ادا جعفری)​
     
  2. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سکوں محال ہے امجد وفا کے رستے میں
    کبھی چراغ جلے ہیں ہَوا کے رستے میں ؟



    :a191:
     
  3. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    تم چراغِ سحر کی مانند شکیل
    صبح کاٹی اور پھر سے بوئی شام
     
  4. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کوئي دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
    چراغِ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
     
  5. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جنہیں حقیر سمجھ کر بھجا دیا تم نے
    وہی چراغ چلیں گےتو روشنی ہوگی



    :a191:
     
  6. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مجھ کو چراغِ شام کی صورت جلا کے تو دیکھ
    آ اے اندھیری رات ، مجھے آزما کے دیکھ

    ٹوٹی ھوئی منڈیر پہ چھوٹا سا اک چراغ
    موسم سے کہہ رھا ھے ، آندھی چلا کے دیکھ

    :a191:
     
  7. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اندھیری رات کو سورج کی خبر ہے منور
    پھر بھی چراغ کو میں روشنئ قضا کہہ دوں


    :a191:
     
  8. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بازار بند، راستے سنسان، بے چراغ
    وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں ‌کوئی


    :a191:
     
  9. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    روشن ہیں دل کے داغ نہ آنکھوں کے شب چراغ
    کیوں شام ہی سے بجھ گئے محفل کے سب چراغ

    وہ دن نہیں کرن سے کرن میں لگے جو آگ
    وہ شب کہاں چراغ سے جلتے تھے جب چراغ

    تیرہ ہے خاکداں، تو فلک بے نجوم ہے
    لائے کہاں سے مانگ کے دست طلب چراغ

    روشن ضمیر آج بھی ظلمت نصیب ہیں
    تم نے دیے ہیں پوچھ کے نام و نسب چراغ

    وہ تیرگی ہے دشتِ وفا میں کہ الاماں
    چمکے جو موجِ ریگ تو پائے لقب چراغ

    دن ہو اگر تو رات سےتعبیر کیوں کریں
    سورج کو اہلِ ہوش دکھاتے ہیں کب چراغ

    اے بادِ تند ، وضع کے پابند ہم بھی ہیں
    پتھر کی اوٹ لے کے جلائیں گے اب چراغ


    :a191:
     
  10. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
    اب انھيں ڈھونڈ چراغِ رخِ زيبا لے کر


    :a191:
     
  11. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :237:
    جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی
    کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوری تھی

    پھر مجھ سےيوں ملے تھےتم ماہِ فروری ميں
    جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی ميں

    کتنا حسين زمانہ آيا تھا مارچ لے کر
    راہِ وفا پہ تھے تم جلتے چراغ لے کر

    اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا
    دنيا بدل رہي تھی موسم بدل رہا تھا

    ليکن مئی جو آئی جلنے لگا زمانہ
    ہر شخص کی زباں پہ تھا بس يہی فسانہ

    دنيا کے ڈر سے تم نے بدلی تھيں جب نگاہيں
    تھا جون کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں

    ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہی تھی
    بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی

    اس ميں نہيں کوئی شک وہ ماہ تھا ستمبر
    بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر

    تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا
    دنيا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا

    جب آگيا نومبر ايسی بھی رات آئی
    مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئی

    بے کيف تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
    ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے

    ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے
    وہ سال دوسرا تھا، يہ سال دوسرا ہے

    :a191:
     
  12. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وفا کے نام سے سجتے محبتوں کے چراغ
    خلوص و مہر و وفا! یہ ہیں دولتوں کے چراغ

    جنہیں ملا ہے محبت میں دردِ دل جاناں
    میں اُن کے واسطے لایا ہوں محبتوں کے چراغ

    ہمارے حال کو بدحال کر دیا تم نے
    ظلم کے ہاتھ سے برباد حالتوں کے چراغ

    حُسن ہے نام حقیقت میں ظلم والوں کا
    جو اِن کے ہاتھ سے روشن ہیں ظلمتوں کے چراغ

    خلوص دل سے نکل کر یہ کہہ رہا ہے مجھے
    جلیں گے خون سے اے یار دوستوں کے چراغ

    گلہ کریں گے ترا ہمنوا فراق سے ہم
    بجھیں گے آخر صبح کو شکایتوں کے چراغ

    شاعر: رفیق احمد
     
  13. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
    کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

    دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
    اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

    :a191:
     
  14. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
    قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

    زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب
    تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا

    بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
    جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

    :a191:
     
  15. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    دکھاؤں گا تماشہ ، دی اگر فرصت زمانے نے
    مِرا ہر داغِ دل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا


    :a191:
     
  16. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
    ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا

    اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ ، ویرانی تماشہ کر
    مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا

    خموشی میں نہاں ، خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
    چراغِ مُردہ ہوں ، میں بے زباں ، گورِ غریباں کا

    :a191:
     
  17. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
    خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ

    پتّا پتّا اب چمن کا انقلاب آلودہ ہے
    نغمۂ مرغِ چمن زا ہے صداۓ بوم و زاغ


    :a191:
     
  18. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داغہاۓ دل چراغِ خانۂ تاریک تھے
    تا مغاکِ قبر پیدا روشنی کرتے رہے


    :a191:
     
  19. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ہمیں رونا ہی آتا ہے رلا دینا ہی آتا ہے
    غزل میں سسکیاں دل کی سنا دینا ہی آتا ہے

    وفا کیا ہے وفا کرکے دکھا دینا ہی آتا ہے
    ہمیں تو زخم لینا او ر دعا دینا ہی آتا ہے

    جہاں سے چوٹ آئے جیسی آ ئے جس قدرآئے
    تڑپنا اور تڑپ کر مسکرا دینا ہی آتا ہے

    تمہیں جو بے وفائی آتی ہے ہمکو نہیں آتی
    ہمیں تو شر م سے گردن جھکا دینا ہی آتا ہے

    ہم اک ایسےانوکھےتشنہ لب اس میکدہ میں ہیں
    جسے پینا نہیں آتا پلا دینا ہی آتا ہے

    بتادو کس طرح بچ بچ کےچلتےہیں محبت میں
    ہمیں تو جان کی بازی لگا دینا ہی آتا ہے

    لہو دیکر چراغ درد روشن کر دیا ہمنے
    بجھادیں گر ہواؤں کو بجھا دینا ہی آتا ہے

    بہار آتے ہی ہم بھی شاعری کرنے لگےعاجز
    بہاروں کو تو دیوانہ بنا دینا ہی آتا ہے

    :a191:
     
  20. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بے وفا تم کبھی نہ تھے
    یہ بھی سچ ہے کہ بے وفا سے رہے

    ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
    کیوں گلہ پھر ھمیں ہوا سے رہے

    :a191:
     
  21. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
    کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا

    فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
    کہ رات بھی اندھیری، چراغ بھی نہ لیا

    :a191:
     
  22. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اُداس چہرے‘ سوال آنکھیں
    یہ میرا شہر وفا نہیں ہے

    یہ بستیاں جس نے راکھ کر دیں
    چراغ تھا وہ، ہوا نہیں ہے


    :a191:
     
  23. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    گل کر نہ دے چراغِ وفا ہجر کی ہوا
    طولِ شب الم مجھے پتھر نہ بنا دے

    :a191:
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    زندگانی ہے اک نفس کا شمار
    بےہوا یہ چراغ کیا ٹھہرے ؟؟
     
  25. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ایک قطرہ لہو کا تھا دل میں
    وہ بھی پلکوں پہ آکے ٹھہرا ہے
    جل رہے ہیں جہاں لہوں کے
    چراغ
    کس عمارت کا وہ کٹہرا ہے
    زخم احساس کو چھپاؤں‌کہاں
    یہ مرے دل سے بڑھ کے گہرا ہے
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آج شبِ وصل ھے گل کر دو ان چراغوں کو
    خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
     
  27. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    چراغِ زندگی کو ایک جھونکے کی ضرورت ہے
    تمہیں میری قسم پھر سے ذرا دامن کو لہرانا​
     
  28. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    تو چاند مانگے ہے گھر میں چراغ بھی نہ رہا
    سلگ رہا تھا جو اے دل وہ داغ بھی نہ رہا
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    چراغِ راہ بنے عمر بھر یوں آندھی میں
    سدا لہو سے اپنے روشنی بکھیری ہے
     
  30. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ابھی کیا کہیں، ابھی کیا سنیں
    کہ سرِ فصیلِ سکوتِ جاں
    کفِ روز و شب پہ شرر نُما
    وہ جو حرف حرف چراغ تھا
    اسے کِس ہوا نے بُجھا دیا
    ٔ
    کبھی لب ہِلیں گے تو پوچھنا​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں