1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لبنان کی جنگ کا سبق

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از ع س ق, ‏14 اگست 2006۔

  1. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    لبنان کی جنگ کا سبق!
    قلم کمان … حامد میر

    14اگست2006ء کو پاکستان کے59ویں یوم آزادی کے موقع پر ہمیں لبنان کی جنگ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ایک ماہ سے جاری اس جنگ میں ہمارے لئے بہت سے سبق پنہاں ہیں۔یہ جنگ مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کی طرف سے قائم کی جانے والی ایک نظریاتی ریاست اسرائیل نے شروع کی اور یقینی طور پر جنوبی ایشیا میں واقع دوسری نظریاتی ریاست پاکستان کے لوگ اس جنگ میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ایک ماہ کے بعد اسرائیل اس جنگ کو ختم کروانے میں سنجیدہ نظر آرہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا اور فرانس کی طرف سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پیش کردہ ترمیم شدہ قرارداد کے مسودے پر اسرائیل نے اعتراضات نہیں کئے حالانکہ نئی قرارداد کے تحت اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکلنا ہو گا۔اسرائیل اس لئے جنگ بندی نہیں چاہتا کہ وہ اپنے جنگی مقاصد حاصل کرچکا ہے بلکہ وہ جنگ بندی اس لئے چاہتا ہے کہ اسرائیل سیاسی و اخلاقی لحاظ سے یہ جنگ ہار چکا ہے۔جنگ بندی کے ذریعہ اسرائیلی حکومت ایک طرف اپنی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات بند کرانا چاہتی ہے اور دوسری طرف عالمی میڈیا میں اپنی رہی سہی ساکھ کی بحالی چاہتی ہے۔

    پچھلے ایک ماہ سے دنیا کے ہر بڑے ٹی وی چینل پر اسرائیلی بمباری سے لبنان میں جاں بحق ہونے والے بچّوں اور عورتوں کی تصاویر دکھائی جارہی ہیں اور یہ تصاویر اسرائیل کو ظالم ثابت کررہی ہیں۔ان تصاویر نے اسرائیل کو میڈیا کے محاذ پر ذلّت آمیز شکست سے دو چار کیا ہے یہاں تک کہ اسرائیل کے حامی فاکس نیوز کے تجزیہ نگار بھی ان تصاویر میں نظر آنے والے معصوموں کو دہشت گرد ثابت کرنے سے قاصر نظر آئے۔پھر اچانک لندن میں جیٹ طیارے اغواء کرنے کی سازش منظر عام پر آئی اور مغربی میڈیا کو ایک نیا موضوع مل گیا۔ بیروت اور جنوبی لبنان کے شہر طائر میں مقیم کئی مغربی صحافیوں کو یہ احکامات مل چکے ہیں کہ وہ لندن میں جیٹ طیارے اغواء کرنے کی سازش کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے پاکستان اور افغانستان کا رُخ کریں۔گیارہ اگست کو میں لبنان میں تین ہفتے سے زیادہ دن گزار کر دمشق کے راستے دوبئی پہنچا تو ائرپورٹ پر مجھے وہ مغربی صحافی ملے جو میرے ساتھ لبنان میں تھے اور اب بھاگم بھاگ قبرص کے راستے سے پاکستان اور افغانستان کی طرف رواں دواں تھے۔ایک مغربی ٹی وی چینل کے لئے کام کرنے والے عرب صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی حکومت نے مخبری کر کے برطانیہ کو دہشت گردی سے بچا لیا ہے لیکن کیا کبھی برطانیہ اور امریکا نے آپ کو بلوچستان یا پاکستان کے کسی اور علاقے میں دہشت گردی کے متعلق اطلاع دی ہے؟میرا جواب جھکی جھکی سی نظریں اور خاموشی تھی۔عرب صحافی نے کہا کہ پاکستان کے خلاف بہت سی سازشیں افغانستان میں ہوتی ہیں،برطانیہ اور امریکا نے وہاں بہت بڑا انٹیلی جینس نیٹ ورک بنا لیا ہے،پاکستان کو ان دونوں ممالک سے صرف رقم اور چند ایف16طیاروں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبے بنانے والوں کے بارے میں اطلاعات کے حصول پر زور دینا چاہیے۔یہ عرب صحافی افغانستان جا رہا تھا۔اُس نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ14اگست کو تم اپنا یوم آزادی منا رہے ہوگے اور دنیا بھر کے ٹی وی چینلز لندن میں پکڑی جانے والی نئی سازش میں پاکستانیوں کے کردار کی تفصیلات تلاش کر رہے ہونگے۔میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ مغربی صحافی اپنا کام کریں،ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے اور پاکستان کے59ویں یوم آزادی پر ایک کام یہ بھی ہے کہ ہم لبنان کی جنگ سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔

    یہ سُن کر اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے جنگ کے تیسرے ہفتے عرب ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کردی لہٰذا عربوں کو تو یہ سبق مل گیا ہے کہ بھارت اوّل و آخر اسرائیل کا اتحادی ہے۔میرے دوست کی کابل کے لئے پرواز کا اعلان ہو چکا تھا۔وہ کابل روانہ ہو گیا اور میں اسلام آباد پہنچا تو ہر دوسرا شخص لبنانیون کے لئے پریشان و مضطرب نظر آیا۔ائر پورٹ پر ایک بزرگ نے پرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ شکر ہے پہلی دفعہ کسی عرب ملک نے اسرائیل کے خلاف کامیاب مزاحمت کر کے اُن شکست خوردہ دانشوروں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلمان صرف آپس میں لڑتے ہیں،دشمنوں سے نہیں لڑ سکتے۔

    لبنان کے40لاکھ عوام نے فضائی اور بحری قوت کے بغیر اسرائیل کو جس ہتھیار کے ذریعہ شکست سے دو چار کیا ہے اُس ہتھیار کا نام قومی اتحاد ہے۔لبنان کی جنگ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جنگ صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم لڑتی ہے۔اگر لبنان کے سنّی اور عیسائی حزب اللہ کا ساتھ نہ دیتے تو اِسوقت اسرائیلی فوج بیروت میں بیٹھی نظر آتی۔لبنان کے عیسائی صدر اور سُنّی وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے شیعہ اسپیکر کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ مئوقف تشکیل دیا۔یہ مشترکہ مئوقف ہی لبنان کی اصل طاقت بن گیا حالانکہ اُن کے پاس نہ تو کئی لاکھ کی فوج تھی،نہ غوری میزائل تھے اور نہ ہی شاہین میزائل تھے۔لبنانی حکومت نے امریکا کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا۔اس انکار کی قیمت انہوں نے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی صورت میں چکائی لیکن جنگ کے ایک ماہ کے بعد لبنان پورے عالمِ عرب کا فخر بن چکا ہے اور حسن نصراللہ ایک مقبول لیڈر بن کر اُبھرے ہیں۔آج سُنّی آبادی کے شہرسیدون(صیدا)میں رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری25ہزار سے زائد شیعہ مہاجرین کی میزبانی کررہے ہیں اور ہمیں پیغام دے رہے ہیں کہ لبنان میں شیعہ سُنّی اتحاد ایک نئے دور کا آغاز ہے۔کیا ہم اس شیعہ سُنّی اتحاد سے کوئی سبق سیکھیں گے؟لبنان کے جنگ زدہ علاقوں میں اسرائیل اور امریکا کے خلاف نعرے لگانے والے بچّوں اور عورتوں کو دیکھ کر میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ پاکستان میں بھی بہت سے مذہبی رہنما اسرائیل اور امریکا کے خلاف تقریریں کرتے ہیں لیکن وہ حسن نصراللہ کی طرح مقبول کیوں نہیں؟

    پاکستان کے مذہبی لیڈروں اور حسن نصراللہ میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔حسن نصراللہ کے برخوردار ہادی نصراللہ نے اسرائیل کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ ہمارے ہاں صف اوّل کے کسی ایک مذہبی رہنما یا اُس کے اہل خانہ نے کسی جہاد میں کوئی قربانی نہیں دی۔حسن نصراللہ نے اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کو پارلیمنٹ کا رکن نہیں بنوایا لیکن ہمارے مذہبی لیڈروں نے پارلیمنٹ کو اپنے رشتہ داروں سے بھر دیا ہے۔آج بہت سے پاکستانی مذہبی لیڈر حسن نصرا لله کے حق میں بیانات دے رہے ہیں،ان تمام حضرات کو حسن نصراللہ کا نام لینے سے پہلے اپنے کردار کاجائزہ لینا چاہیے۔پاکستان کے نامِ نہاد روشن خیال اور لبرل لیڈروں کے لئے بھی لبنان کی جنگ میں بہت سے سبق ہیں۔ایک ماہ قبل جب اسرائیل نے اعلان کیا کہ اُس کی جنگ صرف مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف ہے تو لبنان کے تمام روشن خیال اور لبرل سیاستدان اکٹھے ہوگئے۔انہوں نے نہ تو حزب اللہ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور نہ امریکا کی خوشنودی کے لئے حسن نصراللہ کو اُن کے گھر میں نظر بند کرنے کی تجویز پیش کی بلکہ یہ سب حزب اللہ کے ساتھ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو گئے۔اسی اتحاد نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا۔

    لبنان کی جنگ کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ امریکا ناقابل اعتماد ہے۔لبنان کی موجودہ حکومت ایک ماہ پہلے تک مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے قریب ترین اتحادیوں میں سے ایک تھی لیکن جب امریکا کو اسرائیل اور فاؤد سینورا میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا تو انہوں نے سٹی بنک کے سابق ملازم فاؤد سینورا کی بجائے اسرائیل کا انتخاب کیا۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر ایسا وقت خدانخواستہ پاکستان پر آیا تو امریکا کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟آج ہمیں امریکی خوشنودی اور امریکی ایف16طیاروں کی نہیں بلکہ اُس قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے جو پاکستان میں کافی مفقود ہے۔
    [align=left:1vd75k95]ماخوذ از روزنامہ جنگ[/align:1vd75k95]
     
  2. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    کاش ہم اور ہمارے لیڈر اس سے سبق حاصل کر سکیں !
     
  3. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    کاش
     
  4. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    خدا ہم سب کو اس سے سبق سیکھنے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کی توفیق دے۔ آمین
     
  5. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ع س ق کے انتخاب کا جواب نہیں
     
  6. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کاش اس بات کو ہمارے وہ اکابرین سمجھیں جو امریکہ کو خدا بنائے بیٹھے ہیں
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    گھنٹہ گھر
    درست کہا آپ نے ۔ اور اس دعا میں یہ بھی اضافہ کرلیں کہ
    کاش ہماری پاکستانی عوام کو (یعنی ہم کو) بھی یہ سمجھ آجائے جو ایسے بزدل، نااہل، ناعاقبت اندیش، خود غرض اور مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں میں امورِ سلطنت کی باگ دوڑ دے کر انہیں حکمران بناتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں