1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لالی محمدی کا ’’فوڈ کلچر‘۔۔۔۔۔ تحریم نیازی نیوٹرشنسٹ

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏15 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    لالی محمدی کا ’’فوڈ کلچر‘۔۔۔۔۔ تحریم نیازی نیوٹرشنسٹ


    کھانا نہ کھانے والے بچوں کاعلاج
    آج کل کے بچے کافی چوزی ہوتے جا رہے ہیں،وہ ہر کام میں اپنی مرضی کرنے لگے ہیں۔کھانا بھی اس میں شامل ہے،ماں کچھ بھی بنا لے، بچہ سب سے پہلے منہ بنائے گا۔مرغی پکائو تو ان کا دل نوڈلز کھانے کو چاہے گا۔ نوڈلز بنا لو تو وہ چینی کھانے کا ''آرڈر ‘‘ دیں گے۔ آپ کے ہر کھانے کے ساتھ ان کا موڈ بھی بدلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی نشو ونما کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشو و نما بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بات بات پر ناراض ہونے کا تعلق بھی کسی حد تک اچھی اور متوازن خوراک نہ لینے سے ہے۔
    بچوں کے لئے کاربوہائیڈریٹس،پروٹین،چکنائی یا چربی،حیاتین ، نمکیات انتہائی ضروری ہیں۔ کاربوہائیڈریٹس روٹی، چاول، آلو اور مختلف قسم کی سبزیوں میں پائے جاتے ہیں ۔لیکن بچے یہ چیزیں کم کھاتے ہیں۔اسی طرح پروٹینز بیماریوں کے خلاف دفاعی کردار ادا کرتی ہیں۔پروٹینز گوشت ، مرغی ، مچھلی ، انڈے ، دودھ اور پنیراور کچھ سبزیوں وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مٹر ، چنا اور دالیں وغیرہ۔ سبزیوں کو تو بچے ہاتھ تک نہیں لگاتے لیکن مرغی اور گوشت وغیرہ کھا لیتے ہیں جس سے ان میں پروٹین کی بھی کمی رہ جاتی ہے۔نمکیات (جیسا کہ کیلشیئم )سے ہڈیاں بنتی ہیں، آیوڈین سے تھائیرائیڈ ہارمون بنتا ہے ۔منرلز جیسا کہ آئرن سے خون میں آکسیجن لے جانے کی صلاحیت آ جاتی ہے ۔۔ زنک سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں مدد فراہم کرتا ہے بچے وہ ا شیاء کم کھاتے ہیں جن میں یہ نمکیات پائی جاتی ہیں۔
    عالمی ادارہ صحت کے ماہرین بھی اس حقیقت پر متفق ہیں کہ بچوں اور خواتین کے زیادہ تر امراض کی بڑی وجہ ناقص خوراک ہوتی ہے ۔ ناقص خوراک خواتین میں خون کی کمی کا باعث بنتی ہے جس سے انکی قوت مدافعت متاثر ہوتی ہے ۔وہ رفتہ رفتہ مختلف بیماریوں میں جکڑتی چلی جاتی ہیں جبکہ بچے بھی ناقص خوراک سے بے حد متاثر ہوتے ہیں جسکے سبب نہ صرف وہ مختلف بیماریوں کا شکار رہتے ہیں بلکہ ان کی نشوو نما بھی متاثر ہوتی ہے ۔
    متوازن اور غیر متوازن غذا کا آغاز بدقسمتی سے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا ہر نوزائیدہ بچہ ماں کے دودھ کی شکل میں مکمل خوراک کی ضمانت کے ساتھ دنیا میں آتا ہے، بدقسمتی سے آج کل کی بہت سی مائیں بغیر کسی معقول وجہ کے بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے پہلو تہی کرتی ہیں حالانکہ جدید سائنس نے تو ماں کے دودھ کی افادیت کو بچوں کے لئے اس قدر ضروری اور سود مند قرار دیا ہے کہ شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ۔ملاوٹی یا جعلی دودھ کے استعمال سے بچے بچپن ہی میں خوراک کی کمی کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔
    پاکستان کی 65فیصد سے زائد آبادی چونکہ دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں خالص دودھ ، سبزیاں، دالیں اوراچھے انڈے دستیاب ہوتے ہیں لیکن والدین وہاں بھی بچوں کو غیر متوازن غذا پر لگا دیتے ہیں۔ انڈہ اور دودھ کی بجائے بسکٹ اور ڈبوں کے مصنوعی دودھ کا عادی بنا دیتے ہیں جو غیر متوازن اور مضر صحت بھی ہوسکتے ہیں۔
    یونیسیف نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر پیدائش سے ہی بچوں کو ماں کے دودھ تک محدود رکھا جائے تو نہ صرف ان کی نشوونما بہتر انداز میں ہو سکتی ہے بلکہ اس طریقے سے پروان چڑھنے والے بچے مصنوعی خوراک،خاص طور پر ڈبوں والی خوراک کے مقابلے میں اچھی قوت مدافعت کے سبب بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی بھی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں ۔
    یونیسیف نے 2019 میں ''ورلڈ چلڈرن رپورٹ‘‘ میں تمام ممالک کو متنبہ کیا کہ پوری دنیا میں بچوں کو غیر معیاری اور غیر متوازن غذائیں دے کر انکی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے ۔اسی رپورٹ میں یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ غیرمتوازن اور غیر معیاری غذائیں کھانے سے بچوں کی بہت زیادہ تعداد بیماریوں کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے ہر تین بچوں میں کم از کم ایک بچہ غیر متوازن غذا کے سبب متاثر ہو رہا ہے ۔ ان کی نشوونما صحیح انداز میں نہیں ہو رہی۔اس سے یا تو وہ موٹے ہو رہے ہیں یا پھر وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں ۔
    اسی طرح چھ ماہ تا دو سال عمر کے ہر تین میں سے دو بچوں کو مقوی غذائیں نہیں مل ر ہیں جس کے باعث انکی جسمانی اور دماغی نشوونما متاثر ہو رہی ہے ۔ ایسے بچے کمزور دماغی حالت ، کمزور تعلیم، کمزور مدافعت کے حامل ہیں۔وہ متعدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سے اکثر اس کے سبب لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔
    اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ غذا میں کسی بھی جزو کی زیادتی اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنی اس کی کمی۔خوراک کے اسی توازن کو ''غیر متوازن غذا‘‘ کہتے ہیں ۔ غذا کی بہترین منصوبہ بندی وہی ہوتی ہے جس میں مختلف طرز کی غذائیں شامل ہوں جن کی مدد سے انسانی جسم میں وٹامنز ، فولاد اور دیگر تمام ضروری اجزاء کی کمی نہ ہونے پائے ۔ غیر متوازن غذا نہ صرف بہت ساری بیماریوں کا سبب بنتی ہے بلکہ دفاعی نظام کو مفلوج کر کے انسانی قوت مدافعت کو کمزور بھی کر دیتی ہے جس کے باعث گونا گوں بیماریاں حملہ آورہوتی رہتی ہیں ۔ایک حالیہ سروے کے مطابق دل کی بیماریوں ، فالج اور سرطان کا سب سے بڑا سبب غیر متوازن غذاہے ۔
    متوازن غذ نہ کھانے والے اور نخرے کرنے والے بچوں کیلئے امریکہ میں مقیم خاتون لالی محمدی نے ایک نیا ''فوڈ کلچر‘‘ متعارف کرایا ہے، جو امریکہ بھر میں مقبول ہو رہا ہے انہوں نے بچوں کی ''نفسیات سے کھیلتے ہوئے ‘‘ کارٹونوں اور مختلف اشکال والے کھانے بنانا شروع کر دیئے ہیں۔ان کی بنائی گئی کھانے کی پلیٹ پر کسی کارٹون کا گمان ہوتا ہے، ہر شکل کا کھانا ان کی پلیٹ میں موجود ہوتا ہے۔ وہ ٹام اینڈ جیری، ، ڈونلڈ ڈک، پوکیا مون، سکوبی ڈو، پوپائے دی سیلر،اور جانی برائوو سمیت ہر کارٹون کا کوئی نہ کوئی کھانا یا سلاد بناتی ہیں۔ بچے پلیٹ دیکھتے ہی ڈش پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور خود کو کسی کھیل کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
    لولی محمدی کو امریکہ میں ''فوڈ آرٹسٹ ‘‘کا ٹائٹل مل گیا ہے، یہ اعزاز ان کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔کیونکہ ان کی تیار کردہ پلیٹ آرٹسٹ کا ماسٹر پیس نظر آتی ہے۔ڈبل روٹی ہو یا نوڈلز ، یا پاستا، کوکنگ کرنے کے بعد وہ کھانے میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کوشامل کر دیتی ہیں جس سے اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔وہ کسی کھانے پر دوسرے کھانے سے پینٹنگ بھی کرتی ہیں۔ یعنی وہ بیک وقت تین کام کرتی ہیں، سب سے پہلے کھانا بنانا، پھر اسے پلیٹوں میں ڈال کر کسی کارٹون کی شکل دینااور اس کے بعد اس پر پینٹنگ کرنا۔کس بے وقوف بچے کا دل یہ کھانا نہ کھانے کو چاہے گا!وہ شیر بھی بنا لیتی ہیں اور بلی بھی۔وہ آلوئوں کی مدد سے ڈریسنگ اور سبزیوں سے مونچھیں بھی بنا سکتی ہیں، دالوں اور سبزیوں سے وہ شیر یا چیتے کا جنگل بھی بنا سکتی ہیں۔پلیٹیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم ہالی وڈ پہنچ گئے ہیں۔
    لالی محمدی وہ کہتی ہیں کہ'' اب مجھے بچوں کی منتیں نہیں کرنا پڑتیں،انہیں بار بار بلانا نہیں پڑتا۔ بچے خود ہی بھاگ کر میز پرآجاتے ہیں‘‘۔
    ان کھانوں نے 35سالہ لالی محمدی کو سوشل میڈیا سٹار بنا دیا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں