1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قرطبہ کی مسجد اور آج

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏5 اپریل 2010۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    مسلم اندلس کے دورکی عظیم تاریخی مسجداب عیسائی کیتھیڈرل ہے​
    مسجد قرطبہ میں نماز اداکرنے کی کوشش پر2مسلمانوں کومقدمے کا سامنا ​


    [​IMG]

    سیاح اسپین کے جنوبی شہر قرطبہ کی تاریخی جامع مسجد کی سیرکررہے ہیں۔

    سپین سے اخبار

    اسپین کے جنوبی شہر قرطبہ میں عیسائی کیتھیڈرل چرچ میں تبدیل کی گئی مسلم اندلس کے دور کی تاریخی جامع مسجد میں نماز اداکرنے کی کوشش پر گرفتار کیے گیے دومسلمانوں کے خلاف اب مقدمہ چلایا جائے گا۔

    آسٹریا سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کی مسجدقرطبہ میں نمازاداکرنے کی کوشش پراسپینی پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ ہوئِی تھی جس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔یورپ پریس ایجنسی نے اندلسیہ ہائِی کورٹ کے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ان دونوں آسٹرین مسلمانوں کو رہا کردیا گیا ہے لیکن ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گیے ہیں۔

    گذشتہ بدھ کے روز اس وقت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی جب ایک سواٹھارہ مسلم سیاحوں پر مشتمل گروپ میں سے چھے نے قرطبہ میں سابق جامع مسجد اورموجودہ عیسائِی کیتھڈرل چرچ کی سیر کے دوران وہاں نماز اداکرنے کی کوشش کی تھی۔انہیں کیتھیڈرل میں تعینات سکیورٹی محافظوں نے بزورایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی اور اپنی مدد کے لیے پولیس کو طلب کرلیا تھا۔

    ہسپانوی حکام کے ایک بیان کے مطابق جب مسلمانوں نے نماز کا عمل روکنے سے انکارکردیا توان سے کہا گیا کہ وہ یا تو کیتھیڈرل کی سیر جاری رکھیں یا پھر وہاں سے نکل جائیں۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کے طلب کرنے پرآنے والے پولیس اہلکاروں پرسیر کرنے آئے مسلمانوں نے دھاوابول دیا تھا،جس میں دوپولیس اہلکار زخمی ہوگیے اور اس واقعے پردوسیاحوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

    چرچ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ واقعہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق رونما ہوا ہے جبکہ سابقہ تاریخی مسجد کی سیر کا اہتمام کرنے والے آسٹرین مسلم یوتھ گروپ کا کہنا ہے کہ واقعہ اچانک رونما ہوا تھا اور اس میں کوئِی سازش کارفرما نہیں ہے۔

    قرطبہ کے بشپ دمتریو فرنانیڈیزگونازالیز نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ سابق مسجد قرطبہ میں مسلمانوں پر نماز اداکرنے پرپابندی بدستور برقراررہنی چاہیے۔واضح رہے کہ 1980ء کے عشرے میں جب ایک موقع پر اس وقت کی اسپینی حکومت نے مسجد قرطبہ کے ایک حصے کو مسلمانوں کے لیے کھولنے پرغورشروع کیا تھا اور اس کی اطلاعات میڈیا میں سامنے آئِی تھیں تو رومن کیتھولک چرچ کے سابق روحانی پیشوا آنجہانی پوپ جان پال نے اس کی مخالفت کی تھی اوران کا کہنا تھا کہ اس طرح مسلمانوں کو اسپین میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکز مل جائے گا اس لیے اس باب کواب بند ہی رہنے دیا جائے۔

    یادرہے کہ مسلم اسپین میں اُموی دورمیں تعمیر کی گئی اس تاریخی جامع مسجد کو تیرھویں صدی میں عیسائیوں نے جنوبی اسپین سے مورمسلمانوں کونکال باہر کرنے اورشہر پر قبضے کے بعد ایک کیتھڈرل چرچ میں تبدیل کردیا تھا اور مسلمانوں کے وہاں عبادت کرنے پر پابندی لگادی تھی۔شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی یادگاراس تاریخی مسجد کے بارے میں اپنی مشہورنظم''مسجد قرطبہ'' کہی تھی۔ماضی میں بھی اس تاریخی مسجد میں مسلمانوں کے عبادت کرنے پران کے اسپینی حکام سے تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔

    قرطبہ (Cordoba) ہسپانیہ یا سپین کے صوبہ قرطبہ کا صدر مقام ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز جو عروس البلاد کہلاتا ہے جسکا مطلب ہے شہروں کی دلہن۔ آٹھویں صدی میں یہاں عظیم الشان مسجد تعمیر کی گئی ۔ علامہ اقبال نے جو مشہور نظم کہی:

    اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود

    عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت بود

    رنگ ہو یا خشت و سنگ ہو یا حرف و صورت

    معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

    /////////////////////////////////////////////////////
    اسپین میں اسلام کی واپسی

    محسن فارانی

    اسپین کی ایک مشہور پہاڑی (جبل الطارق) کے پاس تاریخ اسلام کے مایہ ناز سپہ سالار طارق بن زیاد نے ٢٩ھ (٧١١ء) میں پانچ ہزار مجاہدین کے لشکر کو ساحل اندلس پر اتارا تھا۔ یہ پہاڑی آج بھی طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلاتی ہے جسے اہلِ یورپ بگاڑ کر جبرالٹر کہتے ہیں بلکہ اس کے جنوب میں وہ تنگ سمندری راستہ بھی آبنائے جبل الطارق یا آبنائے جبرالٹر کہلاتا ہے جو اسپین (اندلس) اور مراکش کے درمیان حائل ہے۔ یہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کا زمانہ تھا اور موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کا گورنر تھا جس میں تیونس، طرابلس، الجزائر اور مراکش شامل تھے۔ مراکش کے شمالی ساحل پر ستبد شہر اور اردگرد کا علاقہ اسپین کے کنٹرول میں تھا جہاں کاؤنٹ جولین شاہ اسپین کی طرف سے گورنر تھا۔ جولین کی بیٹی فلورندا طلیطلہ کے شاہی محل میں پرورش پارہی تھی جہاں شاہ راڈرک نے اس کی آبروریزی کی۔ اس ظلم پر جوش انتقام میں کاؤنٹ جولین نے موسیٰ بن نصیر کو اسپین پر حملے کی ترغیب دی۔ چنانچہ خلیفہ ولید کی اجازت حاصل کرکے موسیٰ نے بربر نسل کے طارق بن زیاد کو لشکر دے کر بحری کشتیوں میں اسپین روانہ کیا۔ طارق نے ساحل اسپین پر اُتر کر کشتیاں جلوا دیں تاکہ مجاہدین اسلام جزیرہ نما آئی بیریا (اسپین و پرتگال) سے واپسی کا خیال دل سے نکال دیں اور آخر دم تک دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ موسیٰ نے سات ہزار مزید مجاہدین بطور کمک بھیج دیئے۔ دریائے برباط کے کنارے ایک لاکھ کے مسیحی لشکر اور ٢١ ہزار مسلمانوں میں خونریز جنگ ہوئی جو طارق اور ان کے ساتھیوں کے ایمانی جذبوں نے جیت لی۔ ظالم بادشاہ راڈرک بھاگتے ہوئے مارا گیا۔

    مسلمانوں کی اس فتح سے تاریخ اسپین کا وہ ٨ سو سالہ سنہری دور شروع ہوا جس میں اہلِ اسلام نے اس سرزمین کو خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کیا اور یہاں تعلیم و حکمت کے وہ چراغ روشن کیے جن سے یورپ کی ظلمت اور تاریکی دور ہوئی۔ وہاں احیائے علوم کا چرچا ہوا اور جدید دور کا آغاز ہوا۔ ابوالقاسم زہراوی (سرجری کا بانی) ابن رشد، امام ابن حزم، ابن زہرابن طفیل، امام قرطبی اور دیگر سیکڑوں علماء و فضلاء اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعمیرات میں امیر عبدالرحمن اول کی تعمیر کردہ مسجد قرطبہ ایک ایسا شاہکار ہے جس نے علامہ اقبال کو ''مسجد قرطبہ'' جیسی عمدہ نظم تخلیق کرنے کی راہ دکھائی۔

    یہ تاریخ اسلام کا ایک المناک باب ہے کہ مسلمان آٹھ سو برس کی حکمرانی کے بعد اسپین (اندلس) سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ اس کی وجہ مسلمانوں کی باہمی نااتفاقیاں اور عرب و بربر کے اختلافات تھے جن کے باعث وہ عیسائی جو شمالی اندلس کے پہاڑوں میں سمٹ کر رہ گئے تھے، دوبارہ دلیر ہوگئے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں اندلس کی اموی خلافت کے خاتمے پر وہاں ملوک الطوائف آئے یعنی طوائف کی طرح آئے دن بدلنے والے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بن گئے جنہیں مسیحی بادشاہ الفانسو ششم نے اپنے ہاتھوں پر نچایا۔ آخر کار مراکش کے امیر یوسف بن تاشفین نے جنگ زلاقہ (١٠٨٦ء) میں الفانسو کو شکست دے کر وہاں مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع دیا مگر اس کے باوجود ریاستی خانہ جنگیوں نے مسلمانوں کو زوال کی راہ پر ڈال دیا حتیٰ کہ ١٢٣٦ ء میں اندلس کا ہیرا شہر قرطبہ مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن گیا اور عیسائیوں نے مسجد قرطبہ کو گرجا بنالیا۔

    سقوط قرطبہ اور بواشبیلہ کے بعد اسپین میں مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ (١٢٣٢ تا ٩٢١٤ ء) رہ گئی جہاں بنواحمر 250 برس تک شمال سے عیسائیوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ حتیٰ کہ لیون وقشلۃ کے حکمران مسیحی جوڑے شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی فوجوں نے غرناطہ کا محاصرہ کرلیا اور ڈیڑھ ماہ بعد غرناطہ کے آخری حکمران ابو عبداللہ نے شہر کی کنجیاں فرڈیننڈ کے حوالے کردیں۔ یہ سانحہ یکم ربیع الاول ٩٧٨ھ (جنوری ١٤٩٢ ) کو پیش آیا۔

    یوں لیون اور وقشتلہ کی مسیحی ریاستوں کے ساتھ غرناطہ کے الحاق سے اسپین کی بادشاہت وجود میں آئی۔ سقوط غرناطہ کے بعد سوا سو برس کی مدت میں اسپین سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کردیا گیا، انہیں جلاوطن کیا گیا۔ رومن کیتھولک عیسائی حکمرانوں اور طور قماچہ جیسے ظالم اور جنونی پادریوں کے حکم پر اَن گنت مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔ انھیں تعزیر و تعذیب کے شکنجوں میں کسا گیا اور بیشتر کو جبراً عیسائی بنالیا گیا حتیٰ کہ وہاں ایک مسلمان متنفس بھی باقی نہ رہا۔ لیکن گذشتہ چند عشروں میں اسپین کی صورت حال خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت وہاں تقریباً ٥ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اگرچہ سرکاری طور پر ان کی تعداد ٣ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ہسپانوی مسلمانوں میں زیادہ تعداد شمالی افریقہ کے تاریکین وطن کی ہے، تاہم ہزاروں کی تعداد میں نومسلم ہسپانوی بھی ہیں اب یہاں مسلمان کو اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہے۔ مسلم اسٹوروں پر حلال گوشت عام مل جاتا ہے۔ شہروں میں مسلمان خواتین یہاں بھی پردہ کرتی ہیں اور کئی تو برقعوں میں نظر آتی ہیں۔ حکومت نے انھیں مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ غرناطہ میں ایک شاندار مسجد تعمیر ہوچکی ہے۔ اسپین اندلس میں اسلام کا یہ احیاء خوش آئند ہے۔



    مسجد گرجا میں شاعر مشرق اور مجاہد کی نماز:

    مسلم عہد اقتدار کی یادگار مسجد قرطبہ Mezquita Cathedral مسجد گرجا کہلاتی ہے اسے ٣٦١٢ء میں سقوط قرطبہ کے بعد عیسائیوں نے گرجا بنا لیا تھا۔ سرکاری طور پر یہاں نماز ادا کرنا ممنوع ہے۔ علامہ اقبال نے ١٩٣١ء میں یہاں گارڈ کی نگرانی کے باوجود موقع پاکر نماز ادا کی تھی۔ ڈائرکٹر دارالاسلام (الریاض، لاہور) مولانا عبدالمالک مجاہد چند سال پہلے اپنے گائیڈ عبدالغنی میلارا کی رہنمائی میں مسجد قرطبہ کی زیارت کو گئے تو گارڈ نے ان پر نگاہ رکھی کہ وہ نماز ادا نہ کرنے پائیں مگر کب تک، گارڈ تھک ہار کر اِدھر اُدھر ہوا تو انھوں نے ستونوں کے پیچھے دو نفل ادا کرلیے۔

    مسجد قرطبہ سیاحوں کے لیے باعث کشش ہے۔ علامہ اقبال نے بالِ جبریل میں اسے حرم قرطبہ اور کعبہ ارباب فن قرار دیتے ہوئے کہا:



    کعبہ اربابِ فن سطوتِ دین مبیں

    تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں



    اور اس کے سیکڑوں ستونوں کی یوں تعریف کی:

    تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار

    شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل



    غرناطہ میں ٠٠٥ برس بعد اذان

    عبدالغنی میلارا غرناطہ Granda کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک ذی علم مستشرق ہیں۔ انہوں نے ٠٢ سال پہلے عربی سیکھنے کے شوق کے تحت اسلام قبول کیا تھا۔ انہوں نے قرآن پاک کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیا جسے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔ ان کا آبائی گھر پرانے غرناطہ کی ایک تنگ گلی میں ہے۔ ٩٥١٩ء میں مولانا عبدالمالک مجاہد لندن سے مالقہ پہنچے تو عبدالغنی میلارا ہوائی اڈے سے انھیں ٹیکسی میں غرناطہ اپنے گھر لے گئے جو بلندی پر واقع ہے۔ صبح وہ انھیں گھر کی چھت پر لے جاکر انگلی کے اشارے سے ایک ایک کرکے دکھانے لگے کہ اس گرجے کی عمارت پہلے مسجد تھی اور فلاں بھی مسجد تھی۔ دراصل جنونی پادریوں کے زیر نگرانی مسلمانوں اور یہودیوں کا استیصال کرنے والے دیوان تفتیش کے دنوں میں اسپین کی مساجد مسمار کر دی گئیں تھیں یا انہیں گرجے بنا لیا گیا تھا۔ اب چند سال پہلے غرناطہ کے مسلمانوں نے تاریخی شاہ محل الحمرا کے قریب مسجد تعمیر کی ہے۔ اس کے اخراجات شارقہ (شارجہ) کے شیخ القاسمی نے برداشت کیے۔ یوں پانچ سو برس بعد ایک مرتبہ پھر غرناطہ کی فضاؤں میں اذان کی آواز گونجنے لگی ہے اور حال ہی میں اشبیلہ میں ایک مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے جو یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہوگی۔

    عبدالغنی میلارا نے مولانا عبدالمالک مجاہد کو بتایا کہ چند سال پہلے غرناطہ کے مسلمانوں نے قصرا الحمرا میں نماز عید ادا کرنے کی اجازت مانگی تو حکومت نے اجازت دے دی۔ تب اسپین کے گوشے گوشے سے مسلمان الحمرا میں نماز عید پڑھنے کے لیے کھینچے چلے آئے۔ چنانچہ ٠٥ ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے وہاں عید کی نماز ادا کی۔ اس پر ہسپانوی حکومت چونک اٹھی اور قصر الحمرا میں نماز کی ادائیگی پر مستقل پابندی لگا دی گئی۔



    قدیم عربوں کی نو مسلم اولاد:

    ایک ہسپانوی ماہر مارٹینو کا خیال ہے کہ آئندہ چند برسوں میں اسپین یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی کا ملک بن جائے گا۔ اسپین کے نو مسلموں میں قدیم عربوں کی اولاد بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کو زبردستی عیسائی بنالیا گیا تھا۔ ثبوت کے طور پر وہ اپنی آنکھوں کی سیاہ رنگت کی مثال دیتے ہیں کیونکہ اصل ہسپانوی باشندوں کی آنکھیں بھوری ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے اپنی نظم مسجد قرطبہ میں اسپین کے بارے میں کہا تھا:



    آج بھی اِس دیس میں عام ہے چشمِ غزال

    اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں

    بوئے یمن آج بھی اِس کی ہواؤں میں ہے

    رنگِ حجاز آج بھی اِس کی نواؤں میں ہے



    ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ چند برسوں میں اسپین میں ٠٢ ہزار غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ہے۔ صرف غرناطہ میں ایک ہزار عیسائی مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ ٩٢١٤ء کے بعد مسلمانوں کو عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اب انہی کی اولاد تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہورہی ہے۔

    اسپین میں مقیم مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ان میں خود اعتمادی بھی آرہی ہے۔ گذشتہ برسوں میں یہاں کئی مسجدوں کا اضافہ ہوا ہے اور ہر سال نئی اسلامی تنظیمیں اپنے نام رجسٹرڈ کرا رہی ہیں۔ اسپین میں پاکستانی بھارتی بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک کے باشندے مقیم ہیں۔ بارسلونا (برشلونہ) میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

    مسلمانوں کے دورِ حکومت (٧١١ء تا ١٤٩٢ء) میں اسپین علم و دانش اور علوم و فنون کا مرکز تھا۔ ان کے علماء و مفکرین نے یورپ کے لیے روشنی کے دروازے کھولے۔ اب ایک مرتبہ پھر مسلمان طلباء یہاں کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہیں۔ صرف سبتہ شہر کے اسکولوں میں چار ہزار سے زیادہ مسلمان بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یاد رہے سبتہ Ceuta پر ١٥١٤ء میں پرتگالیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ بعد میں اس پر ہسپانوی قابض ہوگئے اور یہ شہر اب تک اسپین کے تسلط میں ہے حالانکہ جغرافیائی لحاظ سے یہ مراکش افریقہ کے ساحل پر واقع ہے۔ سبتہ سے دس بارہ میل شمال میں آبنائے جبل الطارق کے پار ساحل اسپین دکھائی دیتا ہے۔ غرناطہ میں محمد بن الاحمر کا تعمیر کردہ قصر الحمرا بھی اپنی مثال آپ ہے۔ میکسیکو کا شاعر سیاح آری اکاز اور اس کی بیوی دونوں محو حیرت ہوکر اس لاجواب قصر کو دیکھ رہے تھے تو ایک اندھا سائل وہاں گیا۔ سیاح نے اسے دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا: خاتون اسے زیادہ سے زیادہ بھیک دو کیونکہ کسی آدمی کی اس سے بڑی بدبختی نہیں ہوسکتی کہ وہ غرناطہ کے قصر کے سامنے کھڑا ہو مگر اندھا ہونے کے باعث اسے نہ دیکھ سکے۔

    ''اندلس میں اجنبی'' کے مصنف مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ میکسیکو کے شاعر اکارا کے یہ مصرے قصر الحمرا کی ایک شکستہ دیوار پر تانبے کی تختی پر کندہ ہیں:

    مسلم اسپین اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں خلیفہ عبدالرحمن ثالث کا نصف صدی پر محیط عہد خوشحالی اور تمول کا ایسا زمانہ تھا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں جب یورپ کے کسی ملک میں ابھی سکّے رائج نہیں ہوئے تھے اندلس میں لوگوں کی جیبیں سونے اور چاندی کے سکّوں سے بھری رہتی تھیں۔

    قرطبہ شہر جو وادی الکبیر کے کنارے ٤٢ میل تک پھیلا ہوا تھا اس کی آبادی ٠١ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ قرطبہ کی سڑکیں راتوں کو دو رویہ چراغوں سے جگمگاتیں جب کہ لندن اور پیرس کی گلیاں اس کے ٠٠٧ سال بعد بھی اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ الغرض نویں تا گیارہویں صدی عیسوی کا مسلم اسپین یورپ کا سب سے طاقتور، آباد اور خوشحال ملک تھا۔ اسلامی اثرات کی ایک مثال دیکھیے:

    اسپین کا دارالحکومت میڈرڈ ہے جو ملک کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ صدیوں پہلے ایک عرب قبیلے نے دریائے میڈناس کے کنارے ایک اُونچے ٹیلے پر مجریط نام کی بستی آباد کی تھی۔ عربی زبان میں ٹیلے کو مجریط کہتے ہیں یہی مجریط بگڑتے بگڑتے میڈرڈ بن گیا۔

    ہسپانویوں اور لاطینی امریکا کے ہسپانوی نژاد لوگوں میں اسلام لانے کے لیے خاص کشش پائی جاتی ہے۔ اس کی گواہی گوانتاناموبے کے ایک اسیر نے اپنی رہائی کے بعد اپنی روداد ابتلا میں بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں: ''گوانتاناموبے میں نگران فوجیوں کا ایک ہسپانوی نژاد گروپ بھی تھا۔ ان میں مسلمانوں کے بارے میں تعصب نہیں تھا۔ ان میں بلا کی انسانی ہمدردی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد مسلمان تھا اس وجہ سے وہ نماز کا احترام کرتے، وہ قرآن کریم کی بے حرمتی نہیں کرتے تھے اور اضافی روٹی کے ساتھ ہمیں پانی، شیمپو اور صابن بھی دیتے۔ وہ انتہائی مختصر مدت کے لیے وہاں رہے کیونکہ بدنہاد امریکیوں کو شک ہوگیا تھا کہ وہ قیدیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ان کے ہٹائے جانے سے بیس دن پہلے ایک ہسپانوی نژاد فوجی نے مجھ سے کہا تھا کہ امریکی حکام انھیں یہاں رہنے نہیں دیں گے اور کسی دوسری جگہ منتقل کردیں گے''۔ (بشکریہ سہ روزہ ''دعوت''، دہلی، جون ٢٠٠٧ء)

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  2. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: قرطبہ کی مسجد اور آج

    کاش ہمیں اپنا باوقار ماضی پھر سے حاصل کرنے کی تڑپ مل جائے۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: قرطبہ کی مسجد اور آج

    بے باک جی بہت شکریہ اس شیرنگ کے لئے، اللہ تعالی سے دعا کرتی ہوں کہ وہ ہم سب کو صحیح اسلام کی روشنی سے روشناس کرائے تاکہ ہم فتنہ فساد کی بجائے سچے دلائل سے دوسروں کو قائل کر سکیں اور اپنی عبادت گاہوں‌کی حفاظت بھی کر نے والے بھی بن سکیں
     
  4. قراقرم
    آف لائن

    قراقرم ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2010
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: قرطبہ کی مسجد اور آج

    بے باک جی
    تسلیمات
    آپ کی معلومات بھری لڑی پڑھ کے بخدا آنکھیں نم دیدہ ہوگئیں ، آپ کابے حد شکریہ آج آپ نے ہمیں امت مرحومہ کے گئے ہوئے شان وشوکت کے دنوں کی ایک جھلک دکھلادی۔۔۔
    سنا تھا محبت کے آنسو بھی باعث راحت ہوتے ہیں ، اپنا عظیم دیکھ کر دل خوشی اور فخر سے لبریز ہوگیا لیکن حاضر کو دیکھ کر دل رنجیدہ ضرور ہوا لیکن ناامید اورمایوس نہیں ، اگر آپ جیسا ایک نوجوان بھی اس زمین پر موجود ہے ہے تو مجھے یقین کامل ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم دنیا کی سیادت کے ایک بار پھر حقدار ہونگے ۔ یہی اقبال مرحوم کا بھی خواب تھا ۔۔ اللہ اسے جلد سچائی میں بدل دے ۔
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرطبہ کی مسجد اور آج

    یہ بلنیدیاں‌پھر یہ پستیاں کیا کہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں