1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قرآن و اہلِبیت ؑ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از سید جہانزیب عابدی, ‏31 اگست 2019۔

  1. سید جہانزیب عابدی
    آف لائن

    سید جہانزیب عابدی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
    قرآن و اہلبیت علیہم السلام اور انسانی تہذیب

    بھوک لگنے پر کھانا کھانا ہے!
    پیاس لگنے پر پانی پینا ہے!
    نیند کے وقت آرام کرنا ہے سونا ہے! وغیرہ وغیرہ
    تہذیب یہ بتاتی ہے کہ کیا کھانا ہے، کیسے کھانا ہے، کب کھانا ہے، کب نہیں کھانا ہے۔
    ثقافت و تہذیب انسان کے معنوی اور روحانی پہلو کی تربیت کرتی ہے۔
    اس بات میں شاید کوئی دو رائے نہیں کہ انسانی زندگی پر سائنس اور طبیعات کا بہت گہرا اثر ہے۔
    علمی اور سائنسی طرز پر تجربوں نے انسانی زندگی میں نت نئی ضروریات کا اضافہ کردیا ہے، ایسی ضروریات جو علم و سائنس کی ترقی سے قبل انسان کی بنیادی ضروریات نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ مثلاََ آج کے زمانے میں اگر انسان گھوڑے یا خچر پر دفتر جانے کیلئے نکلے تو اُس کیلئے مضر ہے کیونکہ اُس کی نوکری وقت پر نہ پہنچنے کے باعث تعطل کا شکار ہوسکتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
    نت نئی ایجادات کے بعد بنیادی ضروریات بننے والی اشیاء کے بعد سے انسانی تہذیب و تمدن کو دینی بنیادوں پر باقی رکھنے کیلئے اجتہاد کی ضرورت ہے یعنی نئے حالات و ضروریات کے مطابق زندگی گذارنے کے ڈھنگ اور سلیقے کے قوانین مرتب کرنا۔
    بنیادی ضروریات خواہ کتنی ہی وسعت کیوں نہ اختیار کرجائیں اور کسقدر متنوع ہی کیوں نہ ہوجائیں، ان ضروریات کو پورا کرنے کے سلیقے اور ڈھنگ (تہذیب و تمدن) کو" حق" کی بنیاد پر ترتیب دینا ہی آج کی دینی ضرورت ہے، دین کا تعلق تہذیب و تمدن سے ہی ہے۔
    دین نےیہ کہا کہ تمھاری جو فطری ضروریات ہیں؛ کھانا ، پینا، سونا، کمانا وغیرہ ان کو کب، کیسے پورا کرو، کتنا کرو، کتنا نہ کرو۔ بھوک لگنے پر کھانا کھاؤ مگر کیسے کھاؤ اور کتنا کھاؤ؟ پیاسی زبان پانی سے ہی سیراب ہوتی ہے مگر پانی کب پیو، کیسے پیو۔ وغیرہ وغیرہ
    دین کا تربیتی نظام انسان کی ذاتی زندگی سے لیکر معاشرتی زندگی تک؛ فردی ضروریات سے لیکر خاندان بنانے، سماجی رسمیں، معاشی لین دین یا مصرف، سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہے یعنی یہ امور کیسے انجام پذیر ہونے چاہییں؟ اس " کیسے " کی بنیاد قرآن و اہلبیت علیہم السلام ہیں۔
    قرآنی واقعات اور اہلبیت علیہم السلام کی زندگی آج کے انسان کیلئے تمثیل کی حیثیت رکھتی ہے اور آپ علیہم السلام کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء آج کے انسان کی زندگی میں کنایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
    اہلبیت علیہم السلام وہ قطب نما ہیں جن سے اگر ہر چند ساعت بعد راہنمائی لی جائے تو مستقیم اور غیر مستقیم راستے کو دنیا کے نقشے پر واضح کردیتے ہیں۔
    خدا ہم سب کو قرآن و اہلبیت علیہم السلام کی تہذیب سے آشنائی اور اِن کے واسطے درست اور آسان راستےکی شناخت کے ساتھ اس شاہراہ پر قدم زنی اور اس شاہراہ کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے تاکہ ہم اپنی منزلِ مقصود (آخرت) تک بخیر و عافیت پہنچ جائیں۔ آمین یا رب العالمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں