1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قرآن مجید میں پرندوں کی پرواز یا اڑان کے متعلق معلومات اور جدید سائنس

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏7 فروری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن مجید میں پرندوں کی پرواز یا اڑان کے متعلق معلومات اور جدید سائنس

    upload_2017-2-7_0-35-5.png
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ پرندوں کی پرواز کے متعلق درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرماتا ہے:

    اَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
    کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمانی فضا میں کیسے مسخر ہیں، انہیں اللہ ہی تھامے ہوئے ہے، جولوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں

    (النحل 16 آیت 79)

    کوئی چیز فضا میں ٹھہر نہیں سکتی، وہ ہوا کی لطافت اور زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے پروں اور ان کی دم کی ساخت میں کچھ ایسا توازن قائم کیا ہے کہ نہ زمین کی کشش ثقل انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور نہ ہوا کی لطافت انہیں نیچے گراتی ہے اور فضا میں بے تکلف تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ فن انہیں سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب باتیں ان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہیں۔ پرندے جب اڑنے لگتے ہیں تو اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے اور پھیلاتے ہیں۔ پھر جب فضا میں پہنچ جاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت پروں کو پھیلائے رکھیں۔ وہ انہیں بند بھی کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے نہیں۔ انسان نے پرندوں کی اڑان اور ان کی ساخت میں غورو فکر کر کے ہوائی جہاز تو ایجاد کر لیا۔ مگر جس ہستی نے ایسے طبعی قوانین بنا دیے ہیں جن کی بنا پر پرندے یا ہوائی جہاز فضا میں اڑتے پھر تے ہیں۔ اس ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے انسان نے کوئی کوشش نہ کی۔
    (تیسیر القرآن ، جلد دوم، النحل، حاشیہ 80)


    دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:


    اَوَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرفَوْقَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْر
    کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے اپنے پر کھولتے اور بند کر لیتے ہیں۔ رحمن کے سوا کوئی نہیں ہے جو انہیں تھامے رکھے، وہ یقینا ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

    (الملک 67: آیت 19)

    صٰفٰت، صفّ یعنی صف بنانا، سیدھی قطار بنانا اور صف بمعنی ہر شے کی سیدھی قطاراور صف الطیر بمعنی پرندوں نے اپنی اڑان میں اپنے پروں کو قطارکی طرح سید ھا کر دیا۔ نیز اس کا معنی پرندوں کا اپنے پروں کو ہوا میں پھیلا دینا اور بالکل بے حرکت بنا دینا بھی ہے۔ جبکہ سب ایک ہی حالت میں ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے کبھی اپنے پر پھیلا بھی دیتے ہیں اور کبھی سکیڑ بھی لیتے ہیں

    (تیسیر القرآن، جلد چہارم، الملک ، حاشیہ 2)

    جدید سائنسی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کچھ خاص قسم کے پرندوں کی اڑان ان کے اندر موجود کسی نظام کے تحت ہوتی ہے اور اسی فطری نظام کے تحت پرندے انتہائی لمبے سفر انتہائی کامیابی سے طے کرتے ہیں اور پھر واپس اپنی روانگی کی جگہ پر کامیابی سے پہنچ بھی جاتے ہیں۔ پروفیسر ہمبرگر نے اپنی کتاب "پاور ایند فریگیلٹی" میں گوشت والے پرندوں کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ پرندے بحرالکاہل کے پاس رہتے ہیں اور 24000 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر اختیار کرتے ہیں اور اڑتے ہوئے یہ ’8′ کے ہندسے کی شکل میں اجتماعی سفر کرتے ہیں۔ اور یہ سفر چھ ماہ سے زاید عرصے میں طے کرتے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کی تاخیر سے یہ واپس اپنی روانگی کی جگہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اس لمبے سفر کے لیے انتہائی پیچیدہ ہدایات یقینا پرندے کے اعصابی خلیوں میں موجو د ہوتی ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرندے کے اندر یہ حساس نظام پیدا کرنے والا کون ہے؟ قرآن فرماتا ہے کہ وہ رب العالمین ہے۔

    (قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک صفحہ 37-38 )

    وسطی ایشیا کے ممالک سائبیریا اور روس سے بھی نایاب آبی پرندے ہر سال موسم سرما میں پاکستا ن کی پسماندہ ترین تحصیل نورپور تھل کی یونین کونسل رنگپور کا رخ کرتے ہیں اور یہاں چشمہ جہلم لنک کینال سے رسنے والے پانی سے بننے والے جوہڑوں میں ڈیرے جما لیتے ہیں۔ ان نایاب پرندوں میں مرغابیاں ، گڈول، میلڈ، سرخاب، کوک، بٹیر، تلور، باز، باری، چرخ ، چکی، نیل، سر، بھٹڑ اور دوسرے ان گنت نایاب پرندے شامل ہیں۔ یہ نایاب پرندے موسم گرما کے شروع ہوتے ہی ماہ اپریل میں واپسی کا سفرشروع کر دیتے ہیں۔

    (روزنامہ اردو نیوز جدہ۔ 5 اپریل 2005ء)

    پرندے ترکِ وطن کے لیے وقت کا انتخاب کس طرح کرتے ہیں
    یہ موضوع ایک عرصے سے غوروفکر کرنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے کہ پرندوں نے ترک وطن کا آغاز کیسے کیا تھا۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کیوں کر کیا ہو گا۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا۔ جبکہ دوسروں کے خیال میں یہ تلاش خوراک کی وجہ سے ہوا۔ مگر سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پرندے جن کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے جسموں میں کوئی ٹیکنیکل مشینری فٹ نہیں ہوتی، وہ خطرات کی زد میں رہتے ہیں مگر صرف جسموں کو لے کر اتنے طویل سفر طے کر لیتے ہیں۔ ترک وطن کے لیے کچھ مہارت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً سمت کا تعین کر لیا جائے، خوراک کا ذخیرہ کر لیا جائے اور طویل مدت کے لیے اڑ کر جانے کی صلاحیت ہو۔ جس جانور میں یہ صفات نہ ہوں وہ نقل مکانی نہیں کرے گا۔

    اس مسٔلہ پر توجہ دینے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جو یہ تھا :
    سبزہ زاروں میں رہنے والی بلبلوں کو تجربے کے لیے ایک ایسی لیبارٹری میں لایا گیا تھا جہاں کا درجہ حرارت اور روشنی مختلف تھی۔ اندر کی فضا کو باہر کی فضا سے مختلف رکھا گیا تھا۔ مثال کے طور پر اگر تجربہ گا ہ سے باہر موسم سرما تھا تو اندر بہار کی آب وہوا پید اکر لی گئی تھی۔ اور پرندوں نے بھی اپنے جسموںکو اندر کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ پرندوں نے چربی کو ذخیرہ کر لیا تھا تاکہ بعد میں خوراک کے طور پر استعمال کی جا سکے جیساکہ وہ اس وقت کرتے ہیں جب ترک ِوطن کا زمانہ آتا ہے۔ بے شک پرندوں نے مصنوعی آب وہوا کے مطابق خود کو ڈھال لیا تھا اور تیار تھے کہ جیسے ترکِ وطن کرنے والے ہوں مگر نقل مکانی کا وقت آنے سے پہلے وہ سفر پر روانہ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے باہر کے موسم کا جائزہ لے لیا تھا اور قبل ازوقت نقل مکانی نہیں کی تھی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پرندے ترکِ وطن کے لیے موسمی حالات پر انحصا ر نہیں کرتے۔

    تو پھرپرندے ترکِ وطن کے لیے وقت کا تعین کیسے کرتے ہیں؟سائنس دانوں کے پاس ابھی تک اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جانوروں کے جسموں میں ”جسمانی گھڑیاں” فٹ ہیں۔ یہ بند ماحول میں وقت جاننے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ان سے وہ موسمی تبدیلیوں میں بھی فرق محسوس کر لیتے ہیں۔ مگر یہ جو اب کہ ان کے جسموں میں گھڑیاں فٹ ہوتی ہیں جن سے یہ ترکِ وطن کا وقت معلوم کرتے ہیں بڑا غیر سائنسی جواب ہے۔ یہ کس قسم کی گھڑی ہے اور جسم کے کون سے عضو سے یہ کا م کرتی ہے اور یہ وجود میں کیسے آئی ؟ اگر یہ گھڑ ی خراب ہو جائے یا ابھی نہ لگی ہو تو کیا ہو گا؟ یہ سوچتے ہوئے کہ ایسا ہی ایک نظام صرف ترکِ وطن کرنے والے ایک پرندے میں نہیں ہوتا بلکہ تما م نقل مکانی کرنے والے جانوروں میں بھی ہوتاہے۔ زیادہ اہمیت درج بالا سوالوں کو د ی جانی چاہیے۔

    جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ پرندے ایک ہی مقام سے ترک ِوطن نہیں کرتے، اس لیے کہ جب نقل مکانی کا زمانہ آتا ہے تو یہ سب اس وقت ایک ہی مقام پر موجود نہیں ہوتے۔ بہت سی انواع کے یہ پرندے ایک خاص مقام پر پہلے اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر وہاں سے مل کر نقل مکانی کرتے ہیں۔ ایسے اوقات کا تعین یہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ ”جسمانی گھڑیاں” جو پرندوں کے جسموں میں بتائی جاتی ہیں ان میں اس قدر ”ہم آہنگی ”اوریکسانیت کیسے پائی جاتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس قسم کا منظّم اور جامع و بے نقص نظام کبھی خود بخود اچانک وجود میں آجائے؟

     
    Last edited: ‏7 فروری 2017
    ام ضیغم شاہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:

    ایک منصوبہ بندی کے تحت عمل میں آنے والا کام بھی اچانک خودبخو وجو د میں نہیں آسکتا۔ مزید یہ کہ ان پرندوں اور جانوروں میں کوئی ایسا انتظام نہیں کہ وہ ان جسمانی گھڑیوں سے وقت کا تعین کر لیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ان ”گھڑیوں” سے مراد یہ ہے کہ تما م جانوروں پر اللہ کا کنڑول ہے۔ یہ ترکِ وطن کرنے وا لے جانور کائنا ت کی ہر شے کی طرح اللہ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔


    توانائی کا استعمال
    پرندے پرواز کے دوران بڑی توانائی استعمال کرتے ہیں۔ انہیں تما م آبی اور خشکی کے جانوروں سے زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً اڑ کر 3000 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے لیے جو ہوائی اورالاسکا کے درمیان ہو گا۔ ایک چھوٹا سا پرندہ شکر خورہ (لمبی چونچ والا پھولوں کا رس چوسنے والا ) جس کا وزن چند گرام ہوتا ہے، اپنے پروں کو 25 لاکھ مرتبہ پھڑپھڑاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ہوا میں 36 گھنٹوں تک رہ سکتا ہے۔ اس کی اوسط رفتار اس سفر کے دوران تقریباً 80 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس طرح کے مشکل سفر میں پرندے کے جسم میں موجود تیز اب کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس سے پرندے کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بے ہوش ہو جانے کا خطر ہ بڑھ جاتا ہے۔ کچھ پرندے اس خطرے سے بچنے کے لیے زمین پر اتر جاتے ہیں مگر جو پرندے سمندر کے اوپر اڑ رہے ہوں وہ ایسے موقعوں پر کیا کریں گے؟ وہ کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ ماہرین طیور نے تحقیق سے یہ بات معلوم کی ہے کہ ایسے حالات میں یہ پرندے اپنے پر اتنے پھیلا لیتے ہیں جتنے وہ پھیلا سکیں اور اس طرح آرام کر لینے کے بعد اپنے جسموں کو ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ ترکِ وطن کرنے والے پرندے کا تحول (Metabolism) اس قدرمضبوط ہوتا ہے کہ وہ ایسا کام کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکر خورے کے جسم میں جو دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہے تحول کی کارکردگی ہاتھی کے تحول سے 20 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس پرندے کے جسم کا درجہ حرارت 62 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔

    پرواز کے طریقے
    اس قسم کی خطرناک اور مشکل پروازوں کو برداشت کرنے کی صلاحیتوں سمیت تخلیق کیے جانے کے علاوہ پرندوں کو ایسی مہارتوں سے بھی نوازا جاتا ہے کہ وہ موافق ہواؤں سے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ مثال کے طورپر سارس یا بگلا 2000 میٹر کی بلند ی تک گرم ہوا کی لہروں کے ساتھ اڑتا ہے اورپھر اپنے پر پھڑپھڑائے بغیر اگلی لہر میں اتر جاتا ہے۔ پرندوں کے غول پرواز کے دوران ایک اور طریقہ استعمال کرتے ہیں جو وی (V) شکل کی پرواز ہوتی ہے۔ اس میں بڑے بڑے مضبوط پرندے مخالف ہوائی لہروں کے مقابلے میں ڈھال بن کر اڑتے ہیں اور یوں کمزور پرندوں کے لیے راستہ بناتے جاتے ہیں۔ ایک ایروناٹیکل انجنئیر Dietrich Hummel نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس طرح کی منظم پرواز کے دوران عموماً غول میں %23 کی بچت ہو جاتی ہے۔

    بلند ی پر پرواز
    کچھ ترکِ وطن کرنے والے پرندے بہت بلند ی پر اڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرغابیاں 8000 میٹر کی بلندی پر اڑ سکتی ہیں۔ یہ بلندی ناقابل یقین نظر آتی ہے کیونکہ 5000 میٹر کی بلندی پر سطح سمندرکی نسبت کرہ ہوا 63 فی صد کم کثیف ہوتا ہے۔ ایک ایسی بلندی پر اڑنا جہاں کرۂ ہوا اس قدر لطیف ہو پرندے کو اپنے پر زیادہ تیز مارنے پڑتے ہیں اور یوں اسے زیادہ آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ تا ہم ان جانوروں کے پھیپھڑے اس طرح تخلیق کیے جاتے ہیں کہ ایسی بلندیوں پر موجود آکسیجن سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ان کے پھیپھڑے جو دوسرے دودھیلے جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں ان کو ہوا کی کمی میں بھی توانائی کی بلند سطح برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    ایک عمدہ حس سماعت
    ترکِ وطن کے دوران پرندے فضائی مظاہر قدرت کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر طوفان سے بچنے کے لیے وہ اپنی سمت بدل لیتے ہیں۔ ایک ماہر طیور Melvin L.Kreithen جس نے پرندوں کی حس سماعت پر تحقیق کی، اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ کچھ پرندے بہت کم سطح کی وقوع پذیر ہونے والی آوازیں سن لیتے ہیں جو کرۂ ہوائی میں طویل فاصلوں تک منتشر ہو جاتی ہیں۔ ایک نقل مکانی کرنے والا پرندہ دور کسی پہاڑ پر برپا ہونے والے طوفان اور بہت آگے سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر سمندر میں پیدا ہونے والی گرج سن لیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں جہاں ہوائی حالات خطرناک ہوں پرندے بڑی احتیا ط سے نقل مکانی کے راستوں کا تعین کر لیتے ہیں۔

    سمت کا ادراک
    پرندے ہزاروں کلومیٹر کی طویل پروازوں کے دوران ایک نقشے، قطب نما یا ایسے ہی کسی دوسرے آلے کے بغیر اپنی سمت کیسے تلاش کر لیتے ہیں؟ پہلا نظریہ جو اس بارے میں پیش کیا گیا یہ تھا کہ پرندے اپنی نیچے کی زمین کی خصوصیا ت یا د کر لیتے ہیں۔ اور یوں بغیر کسی پریشانی کے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر تجربات سے ثابت ہوا کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ ایک ایسے تجربے میں جہاں کبوتروں کو شامل تجربہ کیا گیا تھا، کبوتروں کی نظروں میں دھندلاہٹ پیدا کرنے کے لیے غیر شفاف عدسے استعمال کیے گئے تھے۔ یوں ان کو زمینی نشانات سے شناسا ہوئے بغیر اڑنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ مگریہ کبوتر اس صورت حال میں بھی اپنے غولوں سے کچھ کلو میٹر پیچھے رہ جانے کے باوجو داپنی سمت تلاش کر لیتے تھے۔

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ کرۂ ارضی کا مقناطیسی میدان پرندوں کی انواع (Species) پر اثر کرتا ہے۔ کئی ایک تحقیقی مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ پرندوں نے بڑی ترقی کر لی ہے، مقناطیسی برقی آنکھیں زمین کے مقناطیسی میدان سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ تلاش کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ نقل مکانی کے دوران یہ نظام پرندوں کی مد د کرتا ہے کہ وہ زمین کے مقناطیسی میدان میں تبدیلی کو محسوس کر کے اپنی سمت کا تعین کر لیں۔ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ اگر زمین کے مقناطیسی میدان میں فی صد فرق بھی ہو تو نقل مکانی کرنے والے پرندے اس کا بھی ادراک کر لیتے ہیں۔


    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان پرندوں کے جسموں میں قطب نما لگا ہوتا ہے۔ مگر اصل سوال پھر بھی یہی سامنے آتا ہے کہ پرندوں میں اس قسم کا ”قدرتی قطب نما ” کیسے فٹ ہو گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ قطب نما ایک ایجاد ہے جو انسانی عقل وشعور کا کارنامہ ہے۔ تو پھر ایک انسانی ایجاد جو اس نے اپنے مجموعی علم سے بنائی پرندوں کے جسم میں کیسے پہنچ گئی ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ برس پہلے پرندوں کی ایک نوع نے سمت کی تلاش کے دوران زمین کے مقناطیسی میدان کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچا ہو گا۔ اور اپنے جسم کے لیے اس نے ایک مقناطیسی آنکھ ایجاد کرلی ہو گی۔ یا پھر کیا اس کے برعکس ایسا ہو ا ہو گا کہ پرندوں کی ایک نوع، برسوں پہلے ”انطباق” (یعنی اتفاق) سے اس قسم کے میکانی عمل سے لیس ہو گی؟ یقینا نہیں …. نہ تو پرندہ نہ ہی انطباق (Coincidence) جسم میں نہایت جدید قطب نما لگا سکتا تھا۔ پرند ے کے جسم کی ساخت، پھیپھڑے، پنکھ، نظام ہضم اور سمت تلاش کرنے کی اس کی صلاحیت، سبھی اللہ کی جامع وبے نقص تخلیق کی مثالیں ہیں:


    اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وِالطَّیْرُ صٰفّٰتٍ ط کُلّ قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہ وَتَسْبِیْحَہ ط وَاللّٰہُ عَلِیْم بِمَا یَفْعَلُوْنَ
    کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔

    (سورة النور 24 آیت 41)

    چنانچہ ماہرین طیور کی تحقیق نے اللہ تعالیٰ ٰ کے اس فرمان کو برحق ثابت کر دیا ہے کہ پرندوں کے اندر عقل مند لوگوں کے غوروفکر کے لیے بڑی نشانیاں ہیں کہ جو ان کو کائنات کے خالق کی طرف جانے والے راستے کی طرف گامزن کر سکتی ہیں۔

    (اللہ کی نشانیاں، عقل والوں کے لیے، صفحہ 199-207)

    شکریہ (روزنامہ ارد ونیوز)
     
    ام ضیغم شاہ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں