1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قدر ِ تخلیق میں محبتِ خالق

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از بزم خیال, ‏5 جنوری 2012۔

  1. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    بچپن میں محلے کے لڑکے مل کر کینچے کھیلتے ،کٹی پتنگوں کےپیچھے بھاگتے، تو کبھی کبوتر اُڑاتے ۔ تو بزرگ ایسے کھیلوں سے منع کرتے اور نصیحت بھی ۔ اپنا وقت فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے پڑھائی کی طرف توجہ دینے پر زور دیتے ۔ اور جو زبان سے کچھ نہ کہتے مگر ان کا رویہ اپنائیت کا احساس دلاتا ۔ دادا نانا کہلاتے بزرگ پاس سے گزرتے ہوئے آداب یا اسلام و علیکم کہتے ۔ جواب میں وعلیکم اسلام تو کہہ دیتے مگر شرمندگی سے ۔ان کا سمجھانا یا ڈانٹنا کبھی برا نہیں لگتا تھا ۔ مگر ان کے سامنے آنے سے کتراتے ضرور تھے ۔تاکہ کسی نصیحت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے ۔جس پر عمل کرنے کی ان میں تاب نہ تھی ۔ باتیں ان کی غلط نہیں تھیں ۔سمجھانا بھلائی کے لئے ہوتا ۔ پھر بھی ان سے دور رہتے اور عمل بھی نہ کرتے ۔مگر ان کی عزت و احترام میں کبھی فرق نہیں آتا ۔ احترام ہمیشہ دل میں رہتا ۔ نہ سمجھنا کسی خاص وجہ سے نہیں تھا ۔ بلکہ تفریح کی لطف اندوزی کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی تھی ۔کھیل کود اور ایسی تفریح کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔

    جنہوں نے نصیحتوں پر عمل نہیں کیا ۔ استاد زمانہ نے حالات کی رسی میں اچھی طرح کس کر وہ باتیں سمجھائیں ۔ زندگی کو وہ جو معنی پہناتے رہے ہیں ۔دراصل وہ ایسی نہیں ہے ۔
    آج نئی نسل کے ہمارے بچے کینچے کھیلنے اور کبوتر پالنے کے شوق تو نہیں رکھتے ۔ مگر آج ہماری نصیحتیں اپنے بزرگوں جیسی ہی ہیں ۔مگر سمجھنے کا انداز بدل چکا ہے ۔ٹی وی گیمز کھیلنا اور ٹی وی دیکھنے کو ان فرسودہ تفریح سے بہتر جانا جاتا ہے ۔ماضی کے تجربے سے ہم کبھی خود سے ہی پریشان ہو جاتے ہیں ۔کہ کہیں دوسروں کو ہماری باتیں ناگوار نہ گزرتی ہوں ۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری تحریروں اور آزاد شاعری کا بھی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر ان کے پاس سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے بچپن میں ہم بزرگوں کو سامنے سے آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے یا چھپ جاتے ۔ تاکہ ہماری تفریح طبع کا تسلسل نہ ٹوٹ پائے ۔ مجھے اس بات کی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی ادیب ۔ بچپن سے ہی کتابوں کے علاوہ کھیل کود میں خاص دلچسپی رہی ۔لیکن اب لکھنا ایسی مجبوری میں ڈھل چکا ہے کہ خیالات میں جو ہنگامہ برپا ہوتا ہے لکھنے سے ختم ہوتا ہے ۔
    حالات نے جو ہمیں سمجھایا بچپن سے جوانی تک ایسا کبھی کسی نے نہیں بتایا ۔کئی بار یہ خیال دل میں طوفان بن کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ لکھنا کیا ضروری ہے ۔پڑھنے والے کہیں مجھے مولانا فصیحت ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں ۔ مولوی بننے کے چانسسز بہت کم ہیں ۔بچپن میں قرآن پاک مسجد میں قاری صاحب سے پڑھا ۔ تب عربی متن پڑھایا اور یاد کرایا گیا ۔ ترجمہ گھر میں خود سے پڑھا ۔
    ضروری نہیں کہ لکھنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ چلتا رہے ۔زندگی میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ۔ اور جو کام بچپن کے کسی شوق کا نتیجہ نہ ہو کسی وقت بھی اپنے اختتام کو پہنچ سکتا ہے ۔مختلف مصنفین کی تصانیف پڑھنے کے اثرات لکھنے پر ضرور اثر انداز ہوتے ہوں گے ۔ مجھے بادی النظر میں تو کوئی ناول نگار ہونا چاہئے کیونکہ نسیم حجازی کا کوئی ناول شائد ہی کبھی چھوڑا ہو ۔
    شائدانسان تخلیق سے متاثر ہو کر اس کے زیر اثر لکھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ کائنات کی تخلیق نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا ۔سمجھنے کی کوشش میں خالق ابھر کر عقل تصور میں سرایت کر گیا ۔ ہر تحریر کا مرکز خالق کائنات کی تخلیق سے متاثر صورت دکھائی دیتی ہے ۔ تحریر یں اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑتی جتنا تخلیق گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔کائنات ِ پھیلاؤ میں انسانی سوچ دھنس جاتی ہے ۔جہاں خالق کی تخلیق مخلوق کی ایجاد پر بہت بھاری ہو جاتی ہے ۔جیسے چاند پر ڈسکوری کا پہنچنا کمال نہیں ہے ۔ کمال تو یہ ہے کی ایک ننھا کمزور پودا سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر اپنا راستہ بناتا ہے ۔نظام حیات میں نظام کائنات جیسا تسلسل نہیں ۔ہنگامہ خیزی اور تجسس سے بھرا ایک عارضی پن پایا جاتا ہے ۔ اگر تخلیق کی قدر ہو گی تو خالق سے محبت ہو ہی جاتی ہے ۔


    سب سے جدا رنگ نو اللہ ہو اللہ ہو
    مراتب جہان میں خداۓ تو اللہ ہو اللہ ہو
    مائل ہے پردہ خیال پَر تَو اللہ ہو اللہ ہو
    پکار اٹھے خاک طور ہو اللہ ہو اللہ ہو


    تیری رحمتوں کا یہ اظفر اللہ اکبر اللہ اکبر
    تیری حکمت سےبھرےاحمر اللہ اکبر اللہ اکبر
    نورہلال سےپھیلے پیکر ازہر اللہ اکبر اللہ اکبر
    عرش پہ پیوست مجسم امبر اللہ اکبر اللہ اکبر

    تحریر و اشعار ! محمودالحق
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قدر ِ تخلیق میں محبتِ خالق

    ماشاءاللہ ۔۔۔کیا خوب لکھا ہے
    اگر تخلیق کی قدر ہو گی تو خالق سے محبت ہو ہی جاتی ہے ۔:wow::wow:
     
    بزم خیال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. محمد فیصل
    آف لائن

    محمد فیصل ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مارچ 2012
    پیغامات:
    1,811
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قدر ِ تخلیق میں محبتِ خالق

    بہت ہی زبردست لکھا ہے
     
    بزم خیال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں