1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو یاد کیجئے

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏19 اپریل 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو یاد کیجئے
    18 اپریل 2017
    ayub.png

    اپنے والد میر داد خان کی دوسری بیوی کے پہلے بیٹے ، سابق صدر، فیلڈ مارشل اور سیاسی رہنما، سب سے کم عمری میں زیادہ رینکس حاصل کرنے والے فوجی ، پاکستان کے پہلے فوجی آمر،
    محمد ایوب خان 14 مئی 1907ء کو ہری پور ہزارہ کے قریب ایک گاؤں ریحانہ ، ہندکو پشتو گھرانے میں پیدا ہوئے ۔
    ابتدائی تعلیم سرائے صالح میں پھر گھر سے 5 میل کے فاصلے پر کاہل پائیں گاؤں کے سکول میں داخلہ لیا، جہاں خچر کی سواری پر جایا کرتے تھے۔
    1922ء میں میٹرک کرنے کے بعد علیگڑھ چلے گئے ۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ (انگلستان) سے فوجی تعلیم حاصل کی اور 1928ء میں کمیشن حاصل کیا۔

    جنگ عظیم دوم میں آپ نے بطور کپتان حصہ لیا ۔
    اور پھر بعد میں برما کے محاذ پر بطور میجر تعینات رہے ۔
    1947ء میں کرنل کے عہدے پر ترقی ملی‘ قیام پاکستان کے بعد انہیں بر یگیڈئیر بنا دیا گیا، اس وقت دسویں نمبر پر تھے ۔
    پھر 1948ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے سربراہ ۔
    1949ء میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر آپ کو ڈپٹی کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔
    1954ء میں جب محمد علی بوگرہ نے گورنر جنرل کی دعوت پر نئی وزارت تشکیل دی تو اس میں سکندر مرزا اور ایوب خان کو بھی شامل کیا گیا۔ یوں جنرل ایوب خان پاکستان کے وزیر دفاع بن گئے ۔

    جب اسکند مرزا نے 7 اکتوبر 1958 ء میں مارشل لاء لگایا تو آپ کو چیف مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر بنے۔
    صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا اختلافات بڑھے اور اسکندر مرزا کو معزول کر کے ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنھبال لی۔ قوم اس وقت سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی، اس لیے ایوب کے اس اقدام کو عوام نے سراہا۔
    17 فروری 1960ء کو ایوب خان ملک کے صدر منتخب ہوئے ۔ ایوب خان کو فیلڈ مارشل کے خطاب سے نوازا گیا۔
    ایوب خان نے اپنی نگرانی میں1961ء میں صدارتی آئین بنوایا ۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962ء میں الیکشن ہوئے ۔

    ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو کہ بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ اس وجہ سے ان انتخابات کو مشکوک کہا جاتا ہے۔
    ستمبر 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پوری قوم ایوب خان کی قیادت میں سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی۔
    جنوری 1966ء میں تاشقند کے مقام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس سے دونوں ملکوں کی افواج جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔

    صدر ایوب کے دور حکومت میں پاکستان نے دن دگنی رات چونگنی ترقی کی۔ اس کے باوجود عوام خوش نہ تھی، اور جمہوریت چاہتی تھی، اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کر دی، عوام کو جمہوریت کے فوائد گنوائے گئے، عوام کی ذہن سازی کی گئی، سب جماعتوں نے مل کر ان کے خلاف تحریکِ جمہوریت کا آغاز کر دیا۔

    ان کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں اور ہنگاموں کا آغاز ہوا، اسی دوران عوام میں ذوالفقار علی بھٹو مقبول ہوئے۔ پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا۔ صدر ایوب نے طاقت کے استعمال کی بجائے صدارت سے استعفٰی دے دیا، اور اقتدار25 مارچ 1969ء کو یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ ایوب خان کی ڈائری کے مطابق امریکہ براہ راست صورتحال کو خراب کرنے میں ملوث تھا ۔ امریکہ ایک زوال پذیر پاکستان چاہتا تھا تاکہ خطے میں بھارت ایک طاقتور ملک بنے جسے چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے ۔


    صدر ایوب خان 19 اپریل 1974ء کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ انہیں تمام فوجی اعزازات کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں ریحانہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ایوب خان مرحوم ایک قابل اور مدبر شخصیت تھے ان کے دور حکومت میں ملک کی خارجہ پالیسی بھی غیر جانبدار اصول پر کاربند رہی جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند ہو گیا۔ ایوب خان مرحوم نے اپنی سوانح عمری Friends not Masters کے نام سے تحریر کی تھی، جس کا اردو ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

    صدر ایوب خان پاکستانی تاریخ کی متنازعہ شخصیت ہیں، ان کو چاہنے والے اور ان سے نفرت رکھنے والے دونوں موجود ہیں ، انہوں نے جہاں پاکستان کی ترقی کے لیے بہت سے اقدامات کیے وہاں ان سے غلطیاں بھی ہوئیں ۔ حافظ شفیق الرحمن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ، وہ ایک جرنیل تھا۔ حقیقی جرنیل۔ وہ وطن عزیز کا پہلا بااختیار چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا۔ وہ بنیادی جمہوریت کے نظام کا خالق تھا۔ ایک دور میں وہ اس درماندہ و پسماندہ ملک کا صدر تھا لیکن اسکے دور میں پاکستان آج کی طرح درمانہ و پسماندہ نہیں تھا بلکہ اس کا شمار ایک تیزی سے ابھرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک میں ہوا کرتا تھا۔

    صدر ایوب خان فرقہ پرستی کو ناپسند کرتے تھے لیکن روحانیت کو پسند کرتے تھے۔ کوہ مری کے بزرگ جو کہ سید لعل شاہ کے نام سے مشہور ہوئے ان کاچرچا مری کے گردونواح میں دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ ان کی روحانیت کے کرشموں کا ذکر کیا جاتا تھا، پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خان ان کی دل سے قدر کرتے تھے، ان کا ذکر عقیدت کے ساتھ کرتے تھے ۔ ایوب خان نے جس محبت کا اظہار ان کی شخصیت کے بارے میں کیا ان سے بابا جی کی شہرت دور دور تک پھیلی ایوب خان ان کے کرشموں کا ذکر اکثر عقیدت کے ساتھ کرتے تھے ۔

    ہم ان کی زندگی کے ایک دلچسپ واقعہ پر کالم کا اختتام کر رہے ہیں ۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے بھانڈ منیر حسین المعروف ’’بھامنیر ‘‘ نے ایک اخبار کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایاکہ ان کے بیٹے گوہر ایوب کا ولیمہ ایوان صدر میں ہوا ، یہ وہ زمانہ تھا جب وہ بھارت کے ساتھ معاہدہ تاشقند کرکے لوٹے تھے ۔ ایسے میں ہم نے سیاسی جگت کے ذریعے ان پر تنقید کی ، مگر آفرین ہے کہ انہوں نے ناراض ہونے کے بجائے ہمیں انعام سے نوازا۔

    میرے اور بڑے بھائی اعجاز حسین کے درمیا ن مکالمہ ہوا جس میں ہم نے کہا کہ ایوب خان تاشقند سے واپس آئے ہیں اور فیصلہ بھی پاکستان کے حق میں ہوا ہے ، بھئی کیا فیصلہ ہوا ہے ؟ معاہدے کی رو سے کشمیر بھارت کا اور کشمیری پاکستان کے حصے میں آ گئے ہیں ، اس سے فائدہ کیا ہو گا؟ بھئی بہت فائدہ ہو گا کشمیریوں سے اکبری منڈی میں بوریاں اٹھوانے کا کام لیا جائے گا ، جب ہم نے یہ بات کہی تو پنڈال میں سناٹا چھا گیا سب نے سوچا کہ بھانڈوں کو اس سرکشی پر کم از کم عمر قید ہو گی لیکن جب ایوب خان نے قہقہہ لگایا تو یوں لگا جیسے ہر طرف قہقہوں کا طوفان آ گیا ہو۔


    (بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ متفق ہونا ضروری نہیں۔)

    تحریر: اختر سردار چودھری


     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں