1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فیض کو ہم سے بچھڑے 32 برس بیت گئے

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏20 نومبر 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    فیض احمدفیض بیسویں صدی کے اُن خوش قسمت شعرا ءمیں سے ہیں جنہیں زندگی ہی میں بے پنا ہ شہرت و مقبولیت اور عظمت و محبت ملی ۔فیض احمد فیص کی شاعری میں جمال و محبت ہی نہیں ظلم کے خلاف جہاد کرنے اور انقلاب بپا کرنے کی خواہش کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔
    بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
    فیض جبرواستحصال کے دشمن تھے۔ عدل و انصاف کے داعی تھے۔ عوام کو انسانی قوتوں کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ وہ عوام جن سے قوموں کی کھیتیاں سرسبزوشاداب ہو جاتی ہیں۔ صنعت و حرفت پھلنے پھولنے لگتی ہے اور زندگی کے چشمے ابلنے لگتے ہیں۔ ان کی شاعری عوام کی اسی قوت کی ترجمان ہے
    اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بیی جیے جاتے ہیں
    زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
    ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
    لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
    اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
    اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم
    آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
    چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
    فیض نے ایک نیا مکتب شاعری قائم کیا، جہاں عشقیہ علامتیں سیاسی رنگ اختیار کر کے نیا پن پیدا کرتی نظر آتی ہیں۔ عشق اور سیاست کے امتزاج کے حوالے سے فیض کی نظموں سے ہے
    جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
    ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم
    لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیلِ غم
    اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
    دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
    ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

    (’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘، زنداں نامہ)

     

اس صفحے کو مشتہر کریں