1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فیض احمد فیض کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏23 جولائی 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فرشِ نومیدیِ دیدار (نظم)
    از فیض احمد فیض
    دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
    جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
    ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
    اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
    فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
    اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح
    ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں
    دل یہ کہتا ہے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں
    کوئی دروازہ عبث وا ہو نہ بیکار کوئی
    یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو
    محرمِ حسرتِ دیدار ہو دیوار کوئی
    نہ کوئی سایۂ گُل ہجرتِ گل سے ویراں
    یہ بھی کر دیکھا ہے سو بار کہ جب راہوں میں
    دیس پردیس کی بے مہر گزر گاہوں میں
    قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے
    پردۂ چشم پہ یوں اترے ہیں بے صورت و رنگ
    جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارشِ سنگ
    اور دل کہتا ہے ہر بار چلو لوٹ چلو
    اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ہو
    یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
    اور اُس صحن میں ہر سُو یونہی پہلے کی طرح
    فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
    تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
    آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
    دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو
    خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو
    راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
    حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
    تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
    صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
    ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے؟
    شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟
    دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟
    رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
    پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
    مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا

    آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
    اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

    ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
    گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا

    شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
    اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا

    اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
    تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا

    مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
    لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
    ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فیض احمد فیض

    دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
    درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
    آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
    تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
    جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
    یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے
    جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
    یہ خونِ شہیداں ہے کہ زرخانۂ جم ہے
    حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
    کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فیض احمد فیض

    ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
    پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
    کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
    خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
    تھے بہت بیدرد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
    تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
    دل تو چاہا پر شکستہ دل نے مہلت ہی نہ دی
    کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
    ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
    ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فیض احمد فیض

    گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
    چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
    قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
    کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
    کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
    کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
    بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
    تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
    جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
    ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
    مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شاعر کا جشن سالگرہ ہے شراب لا


    منصب خطاب رتبہ انہیں کیا نہیں ملا


    بس نقص ہے تو اتنا کہ ممدوح نے کوئی


    مصرع کسی کتاب کے شایاں نہیں لکھا


    فیض احمد فیض
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شرح فراق مدح لب مشکبو کریں

    غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں

    یار آشنا نہیں کوئی ٹکرائیں کس سے جام

    کس دل ربا کے نام پہ خالی سبو کریں

    سینے پہ ہاتھ ہے نہ نظر کو تلاش بام

    دل ساتھ دے تو آج غم آرزو کریں

    کب تک سنے گی رات کہاں تک سنائیں ہم

    شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں

    ہمدم حدیث کوئے ملامت سنائیو

    دل کو لہو کریں یا گریباں رفو کریں

    آشفتہ سر ہیں محتسبو منہ نہ آئیو

    سر بیچ دیں تو فکر دل و جاں عدو کریں

    ''تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

    دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں''
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا

    کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا

    تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی

    سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا

    اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے

    جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا

    تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے

    جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا

    اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے لیکن اب سے پہلے تو

    آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں