1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فکر آخرت اور علامات قیامت

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏29 اپریل 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    فکر آخرت اور علامات قیامت
    حرمین شریفین کے بعد دنیا کے سب سے بڑے

    شہر اعتکاف
    سے
    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
    کے خطابات سے اقتباس​

    اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُO
    (القمر، 54 : 1)


    ’’قیامت قریب آپہنچی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا‘‘۔

    یہ کلامِ رب کائنات ہے اور اس کا کلام ہے جس نے قیامت برپا کرنی ہے۔ اس کی بات سچی ہوتی ہے کبھی غلط نہیں ہوتی، اس کا وعدہ، اس کا اعلان حق ہوتا ہے۔ قیامت کے قریب آنے کا اعلان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کروایا گیا کہ قیامت قریب آپہنچی اور اس کی علامت یہ بیان کی کہ میرے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ قیامت کے قرب کی پہلی علامت تھی جو علی الاعلان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کے دستِ اقدس سے ظاہر سے ہونے والے عظیم معجزے کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :

    كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍO وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِO

    (الرحمن، 55 : 26، 27)


    ’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحب عظمت وجلال اور صاحب انعام واکرام ہے‘‘۔

    اس آیت کے اندر موجود پیغام یہ ہے کہ ہم باقی نہیں ہیں، ہم آئے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک نے چلے جانا ہے، ہم فانی ہیں۔ باقی صرف رب ذوالجلال نے رہنا ہے۔ ہم زندگی اس طرح گزار رہے ہیں جس طرح کوئی باقی رہ جانے والا زندگی گزارتا ہے، ہم زندگی اس احساس کے ساتھ گزار رہے ہیں کہ ہم نے گزرنا نہیں ہے، ہم نے باقی رہنا ہے حالانکہ اللہ نے اعلان فرما رکھا ہے کہ باقی صرف میں رہوں گا۔ ذہن میں خیال آتا ہے کہ جب قیامت قریب آپہنچی تو کیسے آئے گی اور کب آئے گی؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

    فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا.

    (محمد، 47 : 18)


    ’’تو اب یہ (منکر) لو گ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں (قریب) آپہنچی ہیں‘‘۔

    تم کیا انتظار کرتے ہو، کیا غفلت میں پڑے ہو کہ قیامت کب آئے گی، وہ یکلخت آجائے گی اور تمہیں ہوش بھی نہ ہوگا اور تمہیں بتا کر نہیں آئے گی لیکن تمہیں اتنا بتائے دیتے ہیں کہ اس کے قرب کی نشانیاں آچکی ہیں اور جب کسی کی آمد کی نشانیاں ظاہر ہوجائیں تو پھر اس کے اپنے آنے میں زیادہ دیر نہیں ہوتی۔ سو اب قیامت میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام کو یہ فرما کر آگے تشریف لے گئے کہ میں آگے جاتا ہوں تاکہ اپنی امت کے لئے تیاری کروں چونکہ بڑے مشکل مرحلے آنے والے ہیں اور ہمیں ان کا ادراک نہیں ہے۔ قیامت کا آنا ایک ہی حقیقت ہے مگر اللہ نے قرآن پاک میں اسے کثرت سے دہرایا ہے تاکہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوجائے لیکن ہم سب سے بڑھ کر اسی بات کو بھولے ہوئے ہیں۔

    إِنَّ السَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىO

    (طه، 20 : 15)


    ’’بے شک قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر جان کو اس عمل کا بدلہ دیا جائے جس کے لئے وہ کوشاں ہے‘‘۔

    اگر ظاہر کر دیا جائے کہ فلاں وقت میں قیامت آئے گی تو لوگ اسے دیکھ کر اپنے اعمال کا تعین کرلیں گے، اللہ نے صرف ایک بات بتا دی کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے لوگو! غفلت میں نہ رہنا لیکن ہم غفلت میں ہیں۔ قیامت کے آنے کے وقت کو رب چھپانا چاہتا ہے تاکہ لوگ صرف اتنی بات جان کر کہ قیامت آنے والی ہے اپنے عمل کو درست کرلیں، اپنی راہ سنوار لیں، اپنے اعمال کو درست کرلیں۔ پھر ارشاد فرمایا :

    اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَO

    (الانبياء، 21 : 1)


    ’’لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔

    اگر اللہ کے کہے ہوئے پر یقین آتا ہے تو قرآن سے بڑھ کر کوئی قول نہیں ہے جس کا یقین کیا جائے لیکن یہ بات ہمارے اندر جگہ نہ پاسکی اگر یہ بات ہمارے دل میں اتر جاتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوگو جو میں دیکھتا ہوں اگر تم دیکھ لو اور جو کچھ میں سنتا ہوں اگر تم سن لو تو تم ہنستے کم اور ہر وقت روتے نظر آتے اور تمہارا یہ حال ہو جاتا کہ تم شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں کی طرف نکل جاتے، تم پر دیوانگی طاری ہوجاتی۔

    چونکہ ہم دیکھتے اور سنتے نہیں ہیں اس لئے غافل ہیں، بے پرواہ اور بے خبر ہیں۔ پوری کائنات کے لئے قیامت کا وقت کونسا ہے اسے تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر جس کی موت آگئی اس کی قیامت اسی شام سے شروع ہوگئی چونکہ موت کے لمحے کے بعد پھر زندگی کو بدلنے کا موقع نہ رہے گا، زندگی ہی نہ رہے گی تو بدلنا کسے ہے۔ موت کے لمحے کے بعد خود کو سنوارنے کی کوئی مہلت نہ ہوگی، موت کے لمحے کے بعد اپنے اعمال درست کرنے کا کوئی وقت نہ ملے گا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اگلے سال اس موقع پر ہم میں سے کون ہوگا اور کون نہیں ہوگا، کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اس لئے جو وقت ملا ہے اس کو غنیمت جان لو اور زندگی بدلنے، اعمال کو سنوارنے کے فیصلے کو مؤخر نہ کرو۔

    ہمارے لوگ یعنی اہل سنت جن کو اللہ نے اچھے عقیدہ کی نعمت دے رکھی ہے اور عقیدت بھی اچھی دے رکھی ہے مگر عمل کی طرف سے الا ماشاء اللہ بہت غافل ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے وابستگان اس تصور کو وظیفہ بنالیں کہ ہم عرصہ محشر میں ہیں، حشر برپا ہوگیا ہے اور ہر کوئی نقارہ حشر بجنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس موقع پر اس شخص کے بارے میں سوچیں کہ جو حشر میں آ کھڑا ہوا ہے مگر اس کے پاس عمل کوئی نہیں، اس کے پاس کچھ ایسا سامان بھی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چہرہ دکھا سکے۔ اس کے پاس اتنا کچھ بھی نہیں کہ میزان (ترازو) پر کامیابی کی امید کرسکے۔ اس کے پاس اتنا سامان نہیں کہ پل صراط سے عافیت کے ساتھ گزرنے کا اہتمام کرسکے اس کے پاس اتنا سامان نہیں کہ اللہ کے سامنے حساب و کتاب کے لئے پیش ہوسکے۔ ایسے شخص کا حال کیا ہوگا۔

    ہر شخص یہ سوچے کہ یہ شخص میں ہوں، میری تیاری، میرے اعمال اللہ کے حضور پیش کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چہرہ دکھانے کے قابل ہوں اور قیامت قریب ہے۔ جب ہر شخص اس تصور کو آنکھوں کے سامنے رکھے گا تو بے پروائی ختم ہوجائے گی۔

    اب دیر کی گنجائش نہیں ہے، کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ میں ہی بیکار تھا کہ میری سنگت آپ کو بدل نہ سکی کاش کسی اچھے کی سنگت آپ کو مل جاتی کم از کم آپ بدل تو جاتے اگر کچھ لوگ نہیں بدلے تو قصور ان کا نہیں ہے بلکہ میرا نقص ہے، میں اس قابل نہ تھا۔ آؤ ہم مل کر ایک دوسرے کی لاج رکھ لیں۔ آپ مجھ پر پردہ ڈال دیں، میں آپ پر پردہ ڈال دوں۔ لوگو! اس وقت کو یاد کرو جب لوگ دفنا کر چلے جائیں گے، خاندان، اولاد اور بیوی بچے، جن کے لئے ہم زندگی گزار رہے ہیں، روح کے جسم کے اندر سے نکلتے ہی یہ احباب ایک شام بھی ہمیں گھر میں نہ رکھیں گے، جن کے لئے وراثت بناتے ہیں، مال کماتے ہیں، جن کے لئے آخرت بھول گئی اور دنیا میں کھوگئے، یہ سب ادھر رہ جائیں گے اور روانگی کے وقت ہاتھ خالی ہوں گے۔ آخرت کی کمائی کے علاوہ ساتھ کچھ بھی نہ جائے گا اور جن کے لئے سب کچھ کر رہے ہیں وہ شام بھی گھر میں نہ رہنے دیں گے۔ ۔ ۔ کہیں گے لاش گل رہی ہے، رنگ بدل رہا ہے، بو آئے گی اس لئے جلدی لے جاؤ، گھر سے نکال دیں گے۔ اس وقت وہ پیاری اولادیں، پیارے رشتے، محبت کا دم بھرنے والے کہاں گئے، پھر آپ کے ساتھ جائیں گے اور مٹی کے سپرد کرکے آجائیں گے، قبر کے اندر کوئی نہ جائے گا۔ یہ دنیا کی سنگتوں کا اختتام ہے۔ جن کے لئے زندگی گزاری ان کا ساتھ تو یہاں تک تھا۔

    مرنے والے اب اسی شام سے تیری قیامت آگئی اقتربت الساعۃ، تیرے حساب کا وقت آپہنچا، باقیوں کا اپنے اپنے وقت پر آتا رہے گا۔ اس لمحے حساب و کتاب کی جب ابتداء ہوگی تو ایک طرف فرشتے آئیں گے اور دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور دکھائی دے گا۔ وہ اس وقت بھی امتی کو نہ چھوڑیں گے، اس وقت امتی کو وہی ایک ہی سہارا نظر آئے گا، اب سوچیں کہ ہم ان کو بھی چہرہ دکھانے کے قابل ہیں یا نہیں۔ لوگو! جس کی تیاری اچھی نہ ہوگی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کو دیکھنے کے باوجود نہ پہچان سکے گا۔ ۔ ۔ ڈریں اس لمحے سے کہ کہیں زبان سے یہ نہ نکل جائے کہ یہ کون ہیں۔ اس تیاری کا وقت ابھی ہمارے پاس ہے، میں کم از کم 70 ہزار افراد بدلے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور اس تبدیلی کی نوعیت کے بارے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کرتا صرف ایک جملہ کہوں گا کہ ایسے افراد ہوں جب کوئی ان کو سنے، ان کے ساتھ بات کرے، ان کے ساتھ بیٹھے، ان کے ساتھ معاملہ کرے اور ان کو دیکھے تو کہے کہ کوئی اللہ والا آرہا ہے۔ صرف یہ پیمانہ ہے کہ لوگ دیکھیں تو کہیں کہ اللہ والا آرہا ہے۔ صالحین آرہے ہیں، کیا اجتماعی طور پر ہم میں سے کوئی الاماشاء اللہ اس قابل ہے کہ اس کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے اور یہ تاثر ابھرے کہ یہ اللہ والے ہیں، صالحین ہیں، اگر جواب نفی میں ہے تو اللہ سے معافی مانگیں کہ ہم ناکام ہوگئے۔

    آج سیدنا جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کرتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ اہل مجلس سے ایک وعدہ لیتے تھے اور فرماتے کہ وعدہ کرو کہ اگر تم بخشے گئے تو مجھے بخشوا لینا، میری بخشش کی سفارش کردینا اور اگر میں بخشا گیا تو تمہاری سفارش کردوں گا۔ اس لئے کہ حساب کا وقت قریب آپہنچا وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ اور وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ یہ زندگی اور یہ دنیا جس کے لئے ہم سب کچھ برباد کر رہے ہیں اور سب کچھ قربان کررہے ہیں اور جس کی خاطر ہم جی بھی رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں، قیامت کے مقابلے میں اس دنیا کی زندگی بہت کم ہے، اس دنیا کی مدت بارے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کا دن ہوگا، اللہ اہل محشر سے پوچھے گا :

    قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَO

    (المومنون، 23 : 112)


    ’’(ہم سے پوچھا جائے گا) ارشاد ہوگا کہ تم زمین میں برسوں کے شمار سے کتنی مدت ٹھہرے رہے ہو‘‘۔

    جب قیامت کی طوالت پر نظر پڑے گی تو اس وقت سمجھ آئے گی کہ اصل زندگی کیا ہے؟ اصل عرصہ حیات کیا ہے؟ وہ قیامت کی طوالت کو دیکھنے کے بعد کہیں گے۔

    قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَO

    (المومنون، 23 : 113)


    ’’ہم ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرے (ہوں گے) آپ اعداد وشمار کرنے والوں سے پوچھ لیں‘‘۔

    ان کا یہ جواب اس لئے ہوگا کیونکہ اصل زندگی کو تو اس سے قبل دیکھا نہ ہوگا۔ نیز قیامت کا دن 50ہزار سال کا ہوگا۔ ہم نے اس سے قبل سراب دیکھا ہے، دھوکا دیکھا ہے، ہم نے فریب و دجل کو اصل زندگی سمجھ لیا ہے اور اس کے دھوکے میں آگئے ہیں۔ شیطان نے دنیا اور اس کے اندر موجود اشیاء کو آراستہ کرکے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، جس وجہ سے ہم کسی اور شے کو دیکھتے ہی نہیں۔ ہم نے اس چار روزہ زندگی کو اصل زندگی سمجھ لیا ہے حالانکہ اصل زندگی موت کی شام سے شروع ہونے والی ہے۔
    کتب حدیث میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب لوگ 40 / 50 برس کو پہنچتے تو سب کام چھوڑ کر صرف آخرت کی تیاری میں لگ جاتے۔

    آج ہمیں اپنی زندگی کے 40 / 50 یا 60 سال نظر آرہے ہیں اور یہی دھوکہ ہے اس لئے کہ اگلے مرحلہ کو ابھی دیکھا نہیں ہے اور اس قلیل مدت کے عیش و آرام کے لئے سب کچھ جھونک دیا ہے اور جب اصل زندگی شروع ہوگی تو اس وقت پاس کچھ بھی نہ ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کتاب لکھے اور سارا کچھ اس کتاب کے دیباچے میں ذکر کر دے اور جب اصل کتاب شروع ہو تو اس کے پاس لکھنے کا کوئی مواد موجود نہ ہو۔ ہم نے اپنی ساری مساعی اس لمحے میں صرف کردی جب اصل زندگی شروع ہوگی تو کچھ بھی نہ ہوگا۔ ان کا یہ جواب سن کر کہ ہم ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرے، اللہ فرمائے گا :

    قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَO

    (المومنون، 23 : 114)


    ’’ارشاد ہوگا (ہاں) تم (وہاں) نہیں ٹھہرے مگر بہت ہی تھوڑا عرصہ کاش! تم (یہ بات) وہیں جان جاتے‘‘۔

    اللہ رب العزت نے جو جملہ وہاں ارشاد فرمانا تھا وہ ہمیں بتا دیا، یہ اس کا کرم ہے کہ اس امت کے لئے سارے پرچے پہلے ہی کھول دیئے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے، کسی اور امت کو یہ انعام نصیب نہیں ہوا حتی کہ قبر کی شام جو امتحان ہونا ہے وہ سوالات بھی بتا دیئے مگر ہم ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں اس کے ایک کرم کا بھی حیا نہیں، نہ شرم ہے نہ بھرم ہے۔ یہ جو تم آج کہہ رہے ہو کہ ایک دن یا اس کا تھوڑا حصہ ٹھہرے ہیں۔ اللہ رب العزت فرمائے گا ’’کاش تمہیں اس حقیقت کا اس وقت پتہ چل جاتا کہ اصل زندگی تو آگے آنے والی ہے جو تھوڑا سا لمحہ تھا اس پر سب کچھ صرف کردیا اور ان کے لئے صرف کردیا جنہوں نے مٹی میں دفنانے تک ساتھ دینا ہے‘‘۔
    پھر ارشاد فرمایا جائے گا۔

    أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَO

    (المومنون، 23 : 115)


    ’’سو تم نے یہ خیال کرلیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے‘‘۔

    اس کی طرف واپس پلٹ کر جانا، یہ بات ہمارے عقیدہ میں صرف اس حد تک ہے کہ صرف ذہن میں موجود ہے دل پر ثبت نہیں ہے۔ پھر ارشاد فرمایا :

    يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًاO

    (الاحزاب، 33 : 63)


    ’’لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرمادیجئے اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو‘‘۔ (جاری ہے)
     
  2. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    قیامت کے متعلق یقین کا فقدان

    قیامت کے متعلق یقین کا فقدان

    اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

    إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَO

    (المومن، 40 : 59)


    ’’بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ یقین نہیں رکھتے‘‘۔

    یقین نہ کرنا ہماری خرابی ہے، یقین دو طرح کا ہوتا ہے۔

    1۔ یقین اعتقاد
    2۔ یقین استحضار

    یقین اعتقاد کی نفی کافروں کے لئے ہے اور یقین استحضار کی نفی ہمارے حال کے لئے ہے۔ ہم ایمان کے درجے میں، عقیدہ کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔

    وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَO

    (البقره، 2 : 4)


    ’’اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں‘‘۔

    مگر اس یقین کا استحضار قلبی، استحضار ذہنی اور استحضار نظری نہیں بنتا۔ یعنی یہ کیفیت نہیں بنتی گویا آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ امام حسن بصری اور اس کے زمانے کے بہت سارے لوگ ایسے تھے جن کے بارے تابعین اور تبع تابعین لکھتے ہیں کہ اگر ان کے حال اور ان کے خوف و خشیت کی صورت کو دیکھ کر ایسا لگتا کہ شاید قیامت کے دن کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان پر یہ حال طاری رہتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاں ہر رات لوگوں کا ایک حلقہ جمع ہوتا اور ہر رات ذکر آخرت ہوتا اور آہ وبکار رہتی اور کئی بار حضرت عمر بن عبدالعزیز قیامت کے احوال کا سن کر تڑپتے، بے ہوش ہوکر گر پڑتے اور اہل مجلس ان پر پانی چھڑک کر ہوش میں لاتے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔ اس لئے کہ ہمارے قلب میں استحضار نہیں ہے، یقین عقیدہ میں ضرور موجود ہے مگر دل کو وہ پختگی نہیں جیسے آنکھوں سے دیکھ کر کسی چیز پر پختگی حاصل ہوتی ہے۔ اور پھر جب انسان کو استحضارِ نظری حاصل ہو تو اس کی کیفیات اور اثرات باطن پر وارد ہوتے ہیں اور وہ اثرات زندگی میں علامات بن کر ظاہر ہوتے ہیں جیسے کوئی جج کسی کو جرم کی پاداش میں سزائے موت دے دے اور وہ کوٹھڑی میں چلا جائے نیز سزائے موت کی تاریخ مقرر ہوجائے اب اس فیصلے سے لے کر پھانسی چڑھنے کے لمحے تک آپ اندازہ کریں کہ اس مجرم کا حال کیا ہوگا، اس کیفیت کو یقین کہتے ہیں۔ فیصلہ ہونے تک اس کا یقین نہیں تھا، تذبذب تھا، معلوم نہیں کہ چھوٹ جاؤں یا سزا ہوجائے یا سزائے موت ہوجائے یا عمر قید ہوجائے مگر جب فیصلہ سنادیا، تاریخ اور وقت مقرر ہوگیا اور جوں جوں وقت قریب آتا جاتا ہے اس کا ہر لمحہ قیامت بنتا جاتا ہے اس لئے کہ اسے جج کی طرف سے لکھے گئے فیصلے پر یقین ہے کہ یہ ہو کر رہے گا۔

    ایک ہم بھی قیدی ہیں، ہمارے لئے بھی اُس مصنف اعظم نے اعلان سنا دیا ہے کہ اقتربت الساعۃ تم غفلت میں ہو اور تمہارے حساب کا وقت قریب آگیا ہے۔ مگر کبھی بھی اس حساب کے وقت کے قریب آنے کے ذرہ بھر اثرات بھی ہماری زندگیوں پر وارد نہیں ہوتے، کبھی یہ نہیں ہوا کہ ہمارا دل لرز جائے۔ ۔ ۔ کبھی آنکھیں چھلک پڑیں۔ ۔ ۔ کبھی ہم تڑپ اٹھیں۔ ۔ ۔ کبھی اپنے اعمال اور احوال حیات بدلنے کا فیصلہ کرلیں کہ وقت قریب آگیا ہے، اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، ہمیں اس پیشی کا فکر ہی نہیں اور فکر اس لئے نہیں کہ یقین کی وہ کیفیت حاصل نہیں جو یقین اللہ چاہتا ہے۔ دلائل پر یقین ہے، عقائد پر یقین ہے، نظریاتی یقین ہے مگر وہ یقین نہیں جو کیفیت اولیاء اللہ کو نصیب ہوتی تھی۔ ارشاد فرمایا :

    وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَO

    (يٰسن، 36 : 48)


    ’’اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ (قیامت) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو‘‘۔

    اس بارے اعتقادی تشکیک کفار کو تھی اور اس تشکیک کا نتیجہ کہ انسان بے فکر ہوجاتا ہے یہ کیفیت ہم پر طاری ہے اور قیامت کے وقت کے قریب آجانے کے یقین نے ہماری ذہنی، فکری، قلبی استحضار کی کیفیت کی صورت ہماری زندگی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا اور اس یقین کے آجانے سے ہمارا جو حال ہونا چاہئے تھا ہم اس حال کی طرف ہی نہیں جارہے اور پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟۔ ارشاد ہوتا ہے :

    مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَO

    (يٰسن، 36 : 49)


    ’’وہ لوگ صرف ایک سخت چنگھاڑ کے منتظر ہیں جو انہیں اچانک آ کر پکڑ لے گی اور وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے‘‘۔

    موت اس قیامت کا تمثیلی نظارہ ہے، جس طرح موت کا لمحہ جب آئے گا تو کوئی اس لمحہ سے بچ نہیں سکتا اور دیکھتے ہی دیکھتے روح جب قفسِ عنصری سے پرواز کرتی ہے، اس کے سارے منصوبے، تیاریاں، دنیا کے حرص و لالچ، غیض و غضب، نفرتیں، کدورتیں، دوست احباب و رشتہ داروں سے حسد، بغض اور عداوتیں ختم ہوجاتی ہیں اور دنیا کی چاہتیں، رغبتیں، شہوتیں اور الغرض وہ تمام خواہشات جن کے لئے وہ مارا مارا پھرتا تھا چشم زدن میں موت کے لمحہ میں سب دھرے کا دھرا رہ گیا اور وہ شخص بے سہارا، بے آسرا رخصت ہوجاتا ہے۔ ہر روز ہم لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ہر روز ہم جنازے پڑھتے ہیں، ہر روز تدفین کرتے ہیں مگر اتنی بار موت کی صورت میں ہم قیامت کو دیکھتے ہیں مگر اس قیامت کا اثر ہمارے قلب و باطن پر نہیں ہوتا۔ موت کے آنے کے وقت بھی لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔ یہ دنیا کے جھگڑے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہماری ساری زندگی جھگڑوں، نفرتوں، کدورتوں کی ہے۔ مزید ارشاد فرمایا :

    فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَO

    (يٰسن، 36 : 50)


    ’’پھر تو وہ وصیت کرنے کے قابل بھی نہ رہیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس پلٹ سکیں گے‘‘۔

    اتنی مہلت بھی نہ ملے گی کہ کہیں کہ اے موت، اے لمحہ قیامت ایک لمحہ رک جا، میں ذرا وصیت کرلوں، سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے اور جب روزِ محشر کی ہولناکیاں دیکھیں گے تو کہیں گے :

    قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَO

    (يٰسن، 36 : 52)


    ’’ہائے ہماری کم بختی ہمیں کس نے ہماری خوابگاہوں سے اٹھا دیا (یہ زندہ ہونا) وہی تو ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ فرمایا تھا‘‘۔

    اس کریم کی کرم نوازیاں اتنی ہیں کہ ہر ایک بات بتا دی، ہمارا کام ہے صرف اس پر یقین کرنا اور پھر اس کے لئے تیاری کرنا، ہم نہ یقین کررہے ہیں نہ تیاری کررہے ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا :

    وَمَا يَنظُرُ هَؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍO

    (ص، 38 : 15)


    ’’اور یہ سب لوگ ایک نہایت سخت آواز (چنگھاڑ) کا انتطار کر رہے ہیں جس میں کچھ بھی توقف نہ ہوگا‘‘۔

    ہم سب لوگ انتظار کر رہے ہیں، موت کا بھی انتظار کررہے ہیں، قیامت کے لمحہ کا بھی انتظار ہے اور اس لمحہ میں کچھ بھی توقف نہ ہوگا، پھر سوچ بدلنے کی بھی مہلت نہ ہوگی، عمل بدلنا تو دور کی بات۔ ارشاد فرمایا :

    اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌO

    (الشوريٰ، 42 : 17)


    ’’اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل وانصاف کا ترازو بھی اتارا اور آپ کو کس نے خبردار کیا، شاید قیامت قریب ہی ہو‘‘۔

    پھر ارشاد فرمایا :

    وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِO

    (القمر، 54 : 50)


    ’’اور ہمارا حکم تو فقط یکبارگی واقع ہوجاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے‘‘۔

    موت، قیامت صغریٰ ہے، جس طرح آنکھ جھپکنے میں دیر نہیں لگتی، قیامت کے آنے میں دیر نہ لگے گی، برپا ہوجائے گی پھر ارشاد فرمایا :

    فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِO فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌO

    (المدثر، 74 : 8، 9)


    ’’پھر جب (دوبارہ) صور میں پھونک ماری جائے گی سو وہ دن یعنی روز قیامت بڑا ہی سخت دن ہوگا‘‘۔

    اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں جابجا فرما رہے ہیں کہ قیامت قریب آچکی اس لئے کہ اس کی علامات آچکی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان علامات کو اپنی مختلف احادیث میں بیان فرمایا۔ اس تمام گفتگو کا مقصود ’’قیامت قریب ہے‘‘ اس یقین کو دل و دماغ میں راسخ کرنا ہے اور جس کے دل میں ’’قیامت قریب ہے‘‘ کا تصور نہ بیٹھے وہ کم از کم یہ دل ودماغ میں بٹھالے کہ موت قریب ہے اور قیامت قریب ہے کا تصور سمجھ میں نہ آسکنے کی وجہ سے جو اپنے اندر تغیر احوال نہ کرسکے، اسکی سوچ معلق رہے، تذبذب میں رہے تو اسمیں تو کوئی شک نہیں کہ ایک قیامت وہ ہر روز دیکھتا ہے کہ موت قریب آچکی اور موت تو اتنی دور بھی نہیں جتنا ایک قدم کے بعد دوسرا قدم ہے۔ کسی لمحے بھی موت آسکتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرب قیامت کی علامات بیان فرمائیں، میں ان میں سے ان علامات کو بیان کروں گا جن کا تعلق ہماری زندگیوں سے ہے۔ قرب قیامت کی علامات کی کئی اقسام ہیں۔ ۔ ۔ واقعات کی شکل میں بھی علامات ہیں۔ ۔ ۔ حادثات کی شکل میں بھی علامات ہیں۔ ۔ ۔ جنگوں کے واقعات کی شکل میں بھی علامات ہیں۔ ۔ ۔ اس طرح زلزلوں کی شکل میں بھی علامات قیامت ہیں مگر میں اس وقت صرف ان اقسام میں ایک قسم لے رہا ہوں جن کا تعلق ہماری اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور روزمرہ زندگی سے ہے اور جن علامات کو ہم روز دیکھتے، سنتے اور تجربہ کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ علامات ظاہر ہوجائیں تو سمجھ لینا قیامت قریب آگئی ہے۔ (جاری ہے)
     
  3. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    مال کی کثرت

    مال کی کثرت

    عن ابوهريرة قال قال رسول الله لا تقوم الساعة حتي يقبض العلم وتکثر الزلازل ويتقارب الزمان وتظهر الفتن ويکثر الحرج وهو القتل حتي يکثر فيکم المال.

    (الصحيح البخاري، جلد : 6، ص : 2590، حديث : 6652)


    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک یہ علامات ظاہر نہ ہوں۔ علم اٹھا لیا جائے گا، (علم سے مراد علم نافع ہے اور دوسری حدیث میں ہے کہ جہالت عام ہوگی) زلزلے کثرت کے ساتھ ہوں گے، زمانہ متقارب ہو جائے گا (یعنی زمانے کی اکائیاں سکڑ جائیں گی) فتنے کثرت سے ظاہر ہوں گے، حرج (قتل و غارت گری) کثرت سے ہوگا اور مال کی کثرت ہوجائے گی‘‘۔

    خود دیکھ لیں کہ اگر گھروں میں مالی تنگدستی ہے تو اس کے اسباب اور ہیں، اس کے اسباب یا مہنگائی ہے یا ہمارا معیار زندگی ہے مگر مال کا اندازہ کریں کہ جو آمدنی آج سے 10 / 15 سال پہلے لوگوں کی تھی آج اس سے بڑھ کر ہے۔ اگر اس کے باوجود تنگدستی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے برکت اٹھ گئی ہے اور برکت اٹھنے کی کئی شکلیں ہیں کہ ہم نے وبال جان اپنے لئے زیادہ بنالئے ہیں۔ مال ہے مگر آسودگی و راحت وہ نہیں جو کم مال کے زمانے میں تھی۔ (جاری ہے)
     
  4. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    وقت کا سکڑنا

    وقت کا سکڑنا

    حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ

    من اشراط الساعة تقارب الزمان قيل يارسول الله صلي الله عليه وآله وسلم وما تقارب الزمان قال فتکون سنة کالشهر والشهر کالجمعة وتکون الجمعة کاليوم واليوم کالساعة.

    (الصحيح البخاري، جلد : 1، ص : 350، حديث : 989)


    ’’قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت زمانوں کا قریب ہو جانا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا یارسول اللہ زمانوں کا تقارب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمانے کی برکت اس طرح اٹھ جائے گی کہ ایسے لگے گا کہ سال مہینے کی طرح گزر گیا، مہینہ، ہفتہ کی طرح گزر گیا اور ہفتہ ایک دن میں گزر گیا اور ایک دن، ایک ساعت میں گزر گیا‘‘۔

    ہر شخص کہتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے یہ تقارب زمان ہے جو عملاً ہماری زندگیوں میں واقع ہوچکا اور یہ قیامت کی آمد کی نشانیوں میں ہے۔

    حضرت انس بن مالک سے مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ان بين يدي الساعة سنين کالشهور و شهور کالجمعة والجمعة کالايام والايام کالساعات والساعات کالشرر النار.

    (سنن ترمذي، جلد 4، ص 576، حديث 2332)


    ’’قیامت کے قرب کی علامت یہ ہے کہ سال مہینوں کی طرح گزر جائیں گے اور مہینے جمعوں کی طرح اور جمعے دنوں کی طرح اور دن لمحوں کی طرح اور لمحے آگ کی چنگاری کی مانند گزر جائیں گے‘‘۔ (جاری ہے)
     
  5. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    مال اور کتب کی کثرت

    مال اور کتب کی کثرت

    حضرت امام حسن بصری سے مرسلا روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ان من اشراط الساعة ان يفيض المال ويکثر التجار ويظهر العلم يعني الکتاب.

    (الصحيح البخاري، جلد 1، ص 44، حديث 85)


    ’’قیامت کے قریب آنے کی علامت یہ ہے کہ مال بڑھ جائے گا اور سوسائٹی میں تاجروں کی اکثریت ہوگی اور علم غالب ہوجائے گا یعنی کتابوں کی کثرت ہوگی (ایک حدیث میں لفظ التجارہ آیا ہے یعنی تجارت بہت بڑھ جائے گی اس کا مطلب ہے کہ مال بڑھ جائے گا، تجارت بڑھ جائے گی، معاشی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی، امیر، امیر تر ہوتے ہیں یا غریب، غریب تر ہوتے ہیں یہ نظام سلطنت ہے یہ الگ بات ہے مگر سوسائٹی میں آپ ملکوں کے بجٹ، ہر گھر کا بجٹ دکان کا بجٹ دیکھ لیں ہر چیز میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ معاشی پریشانی نہ ہوگی بلکہ فرمایا کہ مال کی کثرت ہوگی۔ سوسائٹی کے اندر ہر طبقہ کی آمدنی کا گذشتہ ادوار سے موازنہ کیا جائے تو ہر طرف مال کی کثرت نظر آئے گی اسی طرح علم کے غالب ہونے سے مراد کتابوں کی کثرت ہے، پبلیکیشنز زیادہ ہوں گی، آج مارکیٹ میں دنیا کے ہر سبجیکٹ پر کثرت سے کتب موجود ہیں۔ ’’بات کیسے کرنی ہے‘‘ صرف اس موضوع پر ہزارہا کتب مل جائیں گی، ’’کھانا کیسے پکانا ہے‘‘ ’’کپڑے کیسے پہننے ہیں‘‘ یعنی اس طرح کے معمولی معمولی موضوعات پر سینکڑوں کتب دستیاب ہیں۔ جس پر کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس پر بھی کوئی لکھے گا اس موضوع پر بھی کتابیں موجود ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف اشارہ کیا کہ کتابوں کی کثرت ہوگی مگر علم اٹھا لیا جائے گا، علم نافع نہ ہوگا۔ (جاری ہے)
     
  6. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    اہل مغرب کا غلبہ

    اہل مغرب کا غلبہ

    حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    لايزال اهل المغرب ظاهرين حتي تقوم الساعة.

    (صحيح مسلم، جلد 3، ص 1525، حديث 177)


    ’’جب مغرب کے لوگ غالب آجائیں گے تو سمجھ لیں کہ قیامت قریب آگئی‘‘۔
    اہل المغرب کے متعلق محدثین، شارحین نے مختلف تاویلات توجیہات اور تعبیرات کی ہیں، میرا موضوع اس وقت علمی تاویلات نہیں بلکہ اعمال و احوال کی تغیرات ہے اس لئے صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ کو لے رہا ہوں کہ یہ الفاظ سننے والے پر کیا اثر مرتب کرتے ہیں۔ دنیا کے حالات کی طرف دیکھتے ہوئے اہل المغرب کی مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (جاری ہے)
     
  7. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    قیامت کی قربت پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمثیل

    امام حسن بصری مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ’’دو انگلیوں کو آپس میں جوڑا اور فاصلہ نہیں کیا اور فرمانے لگے کہ میری مثال اور قیامت کی مثال ان دو انگلیوں کی طرح ہے (قیامت یوں قریب ہوچکی ہے)‘‘۔

    (مسند احمد، جلد 5، ص 331)

    ٭ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو انگلیوں کو جوڑا اور فرمایا کہ میری بعثت اور قیامت اس طرح جڑے ہوئے ہیں‘‘۔

    (الصحیح المسلم، جلد 2، ص 592، حدیث 867)

    ٭ قرب قیامت کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمثیل عطا فرمائی۔ اس طرح ایک موقع پر صحابہ سے ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا :

    ’’لوگو تم اور قیامت اس طرح قریب ہوگئے ہو جس طرح دو انگلیاں جڑی ہوئی ہیں‘‘۔

    (المستدرک علی الصحیحین جلد 4، ص 539، حدیث 8510)
     
  8. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    امانتوں کا نااہل افراد کو منتقل کرنا

    امانتوں کا نااہل افراد کو منتقل کرنا

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    اذا ضيعت الامانة فانتظرالساعة قال کيف اضاعتها يارسول الله صلي الله عليه وآله وسلم. قال اذا اسند الامرالي غير اهله فانتظر الساعة.

    (صحيح بخاري، ج 2، ص 961)


    ’’جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو صحابی نے کہا کہ یارسول اللہ امانتوں کے ضائع ہونے کا مفہوم کیا ہے‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
    ’’جب امانتیں، مسند، اقتدار اور اختیار، ذمہ داریاں ان لوگوں کو دی جانے لگیں جو ان کے اہل نہیں تو سمجھیں قیامت آگئی‘‘۔

    آپ پورے معاشرے پر نظر دوڑائیں ہر قسم کی امانتیں اور ذمہ داریاں ہم جن لوگوں کے سپرد کر رہے ہیں کیا وہ اس کے اہل ہیں۔
     
  9. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    علم کا اٹھ جانا

    علم کا اٹھ جانا

    حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ان من الشراط الساعة ان يذهب العلم ويظهر الجهل.

    (الصحيح البخاري، جلد 5، ص 2120، حديث 5255)


    ’’قیامت کی قربت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم چلا جائے گا اور جہالت چھا جائے گی‘‘۔

    آج وہ وقت ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی جاہل دکھائی دیتے ہیں۔ علم کے حاصل ہونے سے جس شعور کی توقع کی جاتی ہے وہ شعور پڑھے لکھے لوگوں میں بھی کمیاب ہے۔
     
  10. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    نافرمان اولاد، نااہل قیادت

    نافرمان اولاد، نااہل قیادت

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ حدیث جبریل کے آخر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ

    اخبرني ان امارتها قال اذا ولدت الامة ربتها واذا کانت الحفاة العراة رؤس الناس واذا تطاول رعاء الغنم في البنيان.

    (سنن ابن ماجه، ص 302)


    ’’یارسول اللہ مجھے قرب قیامت کی نشانیوں کی خبر دیں آپ نے فرمایا کہ کنیز اپنے آقا کو جنے گی (یعنی ماں باپ، اولاد کے تابع ہوں گے، آج معاشرے میں اولاد اور ماں باپ کا طرز عمل ہمارے سامنے ہے، اولاد، والدین کا حکم نہیں مانتی بلکہ والدین، اولاد کے تابع ہیں، والدین محکوم ہیں، اولاد حاکم ہے اور ننگے پیروں والے، لباس سے محروم لوگ دوسروں کے حاکم بن جائیں گے (یعنی امت کی قیادت نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی) اور بکریاں چرانے والے اونچے محلات تعمیر کریں گے (یہاں اپنی سرزمین عرب کی طرف اشارہ کیا ہے، المعجم الاوسط، جلد3، ص81، حدیث 2557 میں ہے کہ جب میرا وطن عرب صحرا کی بجائے نہروں اور باغات والا ہوجائے تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب آگئی)

    درج بالا نشانیوں پر اگرنظر دوڑائیں تو خود سوچیں کہ کیا کوئی ایسی نشانی ہے جو آج موجود نہ ہو اور دور رہ گئی ہو۔
     
  11. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    بلند و بالا عمارتوں کی کثرت اور ان پر تفاخر

    بلند و بالا عمارتوں کی کثرت اور ان پر تفاخر

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    لاتقول الساعة حتي يتطاول الناس في البنيان.

    (الصحيح البخاري، جلد 6، ص 2605، حديث 6705)


    ’’اس وقت تک قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ لوگ اونچی عمارتوں کے بنانے پر فخر کریں گے‘‘۔
     
  12. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ہارٹ اٹیک سے اموات کی کثرت

    ہارٹ اٹیک سے اموات کی کثرت

    امام شعبی نے المعجم الصغیر میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قیامت کے بہت قریب آجانے کی علامتوں میں سے کوئی خاص علامت کیا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    من الشراط الساعة موت الفجاعة.

    (المعجم الصغير، ج 2، ص 260، حديث 1132)


    ’’جب اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے زیادہ ہونے لگے تو سمجھ لو کہ قیامت قریب آگئی‘‘۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعت علم و معرفت اور پیشنگوئیاں بھی دیکھیں کہ اس وقت جب عارضہ قلب کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اس وقت اس تکلیف کو بیان کیا۔
     
  13. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    شریر لوگوں کا غلبہ اور صالحین کا اپنے آپ کو چھپانا

    حضرت حسان بن عطیہ (تابعی) سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    سيظهر شرار امتي علي خيارهم.

    (سنن الورده في الفتن، ج 4، ص 798، حديث 401)


    ’’میری امت کے نیک فطرت لوگوں پر شریر لوگ (ظالم، بدمعاش، چور) غلبہ پالیں گے‘‘۔

    نیک فطرت لوگوں پر اپنے وسائل، اپنی بدکرداری، اپنی بدمعاشی کے بل بوتے شریر لوگ جب غالب آجائیں، اقتدار و حکومت اور وسائل پر قبضہ کرلیں، معاشرے میں چھا جائیں تو سمجھ جانا قیامت قریب آگئی اور پھر فرمایا کہ اس کی انتہا یہ ہوگی۔

    حتي يستخفي فيه المومن کما يستخف فينا المنافق.

    ’’جس طرح منافق آج ہمارے زمانے میں اپنے آپ کو چھپاتا پھرتا ہے (اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا، ایمان کے لبادے اوڑھتا ہے اور شرم و حیا کے مارے چھپتا پھرتا ہے) میری امت میں وہ زمانہ آجائے گا کہ نیک، صالح، مومن، معاشرے میں چھپتے پھریں گے‘‘۔

    ہر طرف بدمعاش، بدکردار، بدکار لوگوں کی عزت ہوگی، لوگ انہیں رہنما بنائیں گے، حکمران بنائیں گے، وزیر بنائیں گے، ان کے پاس سوسائٹی کی عزت ہوگی، موثر طبقہ کہلائے گا جبکہ متقی، مومن، حلال کھانے والا جب ان کی مجلس میں بیٹھا ہوگا تو اپنے آپ کو چھپائے گا، وہ بدکردار لوگ اس کو حقارت و نفرت سے دیکھیں گے، اس کا مذاق اڑائیں گے کہیں گے یہ ہے وہ جو بڑا نیک ہے، حلال کھاتا ہے، طعنے دیں گے، نیکی طعنہ بن جائے گی، تقویٰ، پرہیزگاری طعنہ بن جائے گی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انورکی کیفیت کا اندازہ کریں کہ جب امت کو یہ بات بتارہے ہوں گے اس وقت قلب اطہر کے دکھ کا عالم کیا ہوگا کہ میری امت میں وہ زمانہ آجائے گا کہ جیسے منافق آج ہم سے چھپتا ہے اس طرح مومن، نام نہاد مسلمانوں میں بیٹھتے ہوئے چھپے گا۔ نیک کام کرنے والے احباب میں سے احباب حلیے بدل لیں گے، نماز کی ادائیگی کو لوگوں کے طعنے کی وجہ سے مؤخر کردے گا۔ ایمان عار بن جائے گا، ایمان میں سے جرات ختم ہوجائے گی۔ غیرت ختم ہوجائے گی، ایمان کا تفاخر ختم ہوجائے گا۔

    تحریک منہاج القرآن کے وابستگان اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرتے ہیں تو ان کے لئے نمونہ زندگی بھی سب سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لہذا ہمہ وقت ان کے ایمان میں جرات و غیرت اور ایمان کا تفاخر موجود ہونا چاہئے، زمانے کی خرابیوں اور طعن و تشنیع سے تنگ آ کر کبھی اسلام کے اقدار و شعائر کو پسِ پشت نہ ڈالیں۔ ان کے چہروں سے ہی یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہیں۔ اپنے چہروں کو سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سجالو، پھر اس چہرہ کا اثر باطن پر اور زبان پر ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا یارسول اللہ آپ قیامت کے دن اپنے امتی کو کیسے پہچانیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی کے ظاہر اعضاء جہاں جہاں وضو کا پانی لگتا ہے وہاں سے نور چمک رہا ہوگا، میں ان کے نور سے پہچان لوں گا۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمارے ساتھ جو اپنی پہچان جوڑ رکھی ہے وہ بھی نور سے متعلق ہے۔ لوگو! اپنے اندر نور پیدا کرو، ظاہر وباطن میں نور پیدا کرو اور نور عبادت سے آتا ہے۔ ۔ ۔ باتوں سے نہیں آتا، وعظ و تقاریر سے نہیں آتا۔ ۔ ۔ اللہ کے حضور سجدہ ریزیوں سے نور آتا ہے۔ ۔ ۔ طاعت، صدق و اخلاق، حضور کی سچی غلامی سے نور آتا ہے۔ ۔ ۔ پس ہر نوجوان اپنے چہرہ پر سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجا کر ابتدا کرے۔ میں نے کہا کہ میں ایک تبدیلی دیکھنا چاہتا ہوں اور وابستگان کی فکر اس لئے ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ کتنا وقت میں آپ کے اندر ہوں، مجھے فکر اس بات کی ہے کہ اگر میری زندگی میں آپ بدل نہ سکے تو معلوم نہیں میرے بعد آپ کو یہ باتیں کون بتائے گا۔ اللہ نے چاہا تو مجھ سے بہتر کوئی باتیں بتانے والا آجائے گا۔ لیکن میری آنکھیں چاہتی ہیں کہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو ایسا بدلا ہوا دیکھ لوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوجائیں۔ ۔ ۔ آپ کو ایسا بدلا ہوا دیکھوں کہ آپ کی چال، آپ کا کردار، آپ کی گفتار، آپ کا چہرہ، آپ کے اعمال، آپ کے حال، آپ کا معاملہ سب کچھ ایسا بدل جائے کہ۔ ۔ ۔ جو دیکھے وہ کہے کہ اللہ والے آرہے ہیں۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے غلام آرہے ہیں۔ ۔ ۔ صالحین آرہے ہیں۔ ۔ ۔ پھر لاج رہتی ہے۔ اگر نہ بدلے تو یہ سنگت کسی کام کی نہیں۔

    ٭ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی بتایا کہ

    ’’عرب خراب ہوجائے گا ان میں خرابی آجائے گی لوگوں نے پوچھا کہ یا امیرالمومنین ہر خیر کا منبع یہ ہیں تو ایسا کیوں ہوگا، آپ نے فرمایا کہ فاجر لوگ نیکوں پر غالب آجائیں گے (آپ سوسائٹی میں دیکھیں، ظلم وجبر، فسق و فجور، گناہوں، اخلاقی تباہی، کردار سوزی کی انتہا ہے) اور ہر قبیلہ اور ہر طبقہ کے منافق ان کے لیڈر ہوں گے‘‘۔

    ٭ عبداللہ بن عمرو العاص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے موقوفاً روایت کیا کہ
    ’’سوسائٹی میں نیک اور صالح لوگوں کو نیچا کردیا جائے گا، اشرار، کمینے لوگوں کو اونچا مقام دیا جائے گا اور ہر طبقہ، ہر قبیلہ کے منافق لوگ اس کے سردار بن جائیں گے‘‘۔

    (مجمع الزوائد، جلد7، ص 223)

    ٭ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔

    لاتقوم الساعة حتي يسأدُ کل قبيلة منافقوها.

    ’’اس وقت تک قیامت نہ آئے گی حتی کہ ہر قبیلہ کے منافق لوگ اس کے لیڈر ہوجائیں گے‘‘۔
    ٭ یہی حدیث مقطوعاً امام حسن بصری سے بھی روایت ہے۔ اسی طرح حضرت حذیفہ ابن یمان سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    لاتقوم الساعة حتي يکون اسأد الناس بالدنيا لکه ابن الکه.

    (سنن الترمذي ج 4، ص 493، حديث 2209)


    ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دنیاوی اعتبار سے لوگوں میں عزت دار لوگ وہ ہوں گے جو حرام زادے ابن حرام زادے، کمینہ ابن کمینہ، ذلیل ابن ذلیل ہوں گے‘‘۔

    دنیا گھٹیا لوگوں کے نسل میں منتقل ہوجائے گی، گویا نیک، متقی، پرہیزگار سے قیادت و سیادت و رہنمائی چھین لی جائے گی اور نسلاً بعد نسل باپ، بیٹا، پوتا، دنیوی اعتبار سے عزت ان کو ملے گی جو نسلاً کمینے ہوں گے۔ موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے کیا کوئی شریف آدمی الاماشاء اللہ اسمبلی میں جاسکتا ہے۔ ۔ ۔ کوئی شریف آدمی وزیر بن سکتا ہے۔ ۔ ۔ کوئی صالح آدمی آپ کا حکمران بن سکتا ہے۔ ۔ ۔ کوئی نیک، صالح سوسائٹی میں آپ کا لیڈر بن سکتا ہے۔ ۔ ۔
     
  14. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    عورتوں کی کثرت

    عورتوں کی کثرت

    حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ان من اشراط الساعة ان يقل الرجال ويکثر النسآء حتي يکون لخمسين امرأة قيم واحد.

    (الصحيح البخاري جلد 5، ص 2085، حديث 4933)


    ’’قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد کم ہوجائیں گے، عورتیں زیادہ ہوجائیں گی یہاں تک کہ ایک ایک مرد کے ذمہ 50 / 50 عورتیں ہوجائیں گی‘‘۔

    آج کسی بھی ملک / سوسائٹی کا اعدادو شمار چیک کرلیں، ہر سوسائٹی میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے، بچیوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی 53 فیصد عورتیں اور 47 فیصد مرد ہیں۔
     
  15. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    مساجد پر فخر کرنا

    مساجد پر فخر کرنا

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    لاتقوم الساعة حتي يتباهي الناس بالمساجد.

    ’’قیامت قائم نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں محض مساجد (کی کثرت تعداد اور حسن تعمیر) پر فخر کریں گے مگر روح نماز نہ ہوگی‘‘۔

    (الصحيح البخاري، ج 4، ص 493، حديث 1614)

    رہ گئی رسمِ اذاں روح بلالی نہ رہی
    فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی​
     
  16. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    حضور (ص) اور قیامت کے درمیان ادوار کی تقسیم

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قیامت کے درمیان ادوار کی تقسیم

    حضرت انس بن مالک سے موقوفاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    انها نبوة ورحمة ثم خلافة ورحمة ثم ملک عدود ثم جبرية.

    (المستدرک علي الصحيحين، ج 4، ص 520، حديث 8459)


    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اور قیامت تک کے دور کے درمیان تقسیم کردی اور فرمایا سب سے پہلے نبوت اور رحمت کا دور ہے، پھر خلافت اور رحمت کا دور ہے پھر نہایت سخت آمریت والی ملوکیت کا دور (بنو امیہ کے دور سے شروع ہوا اور موجودہ دور تک یہ ملوکیت، شہنشاہیت جاری ہے) پھر آمر اور جابر آئیں گے (فوجی حکمران اور اس کو ملوکیت سے الگ کیا اور یہ ڈکٹیٹرشپ کی طرف اشارہ ہے) پھر شیطانی نظام حکومت آئے گا‘‘۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کے قریب کا آخری زمانہ جو بتایا ہم اس کے کنارے پر ہیں ہم جبریت اور طاغوتی نظام حکومت کے درمیان ہیں۔ عالم کفر سازش کے ذریعے اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس دنیا میں جو نیا نظام لایا جارہا ہے اس کے ذریعے اسلام، ایمان، جہاد، یقین، تقویٰ سب کو ختم کیا جارہا ہے حتی کہ یہ چیزیں فوج کے نعروں میں سے بھی نکال دی گئی ہے، فوجی چھاؤنیوں سے بھی یہ عنوان مٹادیئے گئے ہیں، ان کے نصاب سے یہ الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ سوسائٹی میں سے مختلف طریقوں سے اسلام کی جڑیں کاٹ کر طاغوتی نظام لایا جارہا ہے۔ یہ قرب قیامت کی وہ علامتیں ہیں جو بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
     
  17. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    مزید علاماتِ قیامت

    مزید علاماتِ قیامت

    سیدنا علی بن ابی طالب ایک روز منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر فرمایا سلونی قبل ان تفقدونی ’’جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں دنیا سے چلا جاؤں‘‘۔

    (سنن الوردہ فی الفتن، ج 4، ص 839)

    آپ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تب کچھ لوگ کھڑے ہوئے انہوں نے خروج دجال اور علامات قیامت پوچھیں، ان علامات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

    ’’جب لوگوں کی نمازیں فوت ہونے لگیں (لوگ نمازوں کے تارک ہونے لگیں) روزوں میں غفلت ہونے لگے، جھوٹ کو (حکمتِ عملی سمجھ کر) جائز سمجھنے لگیں اور سود بے دریغ کھانے لگیں اور رشوت عام لینے لگیں اور عمارتیں اونچی اونچی بنائی جانے لگیں اور نفس کی خواہشوں کی پیروی ہونے لگے، دین کے ذریعے دنیا خریدی جانے لگے (اس کا مطلب ہے دین کو دنیا کے بدلے بیچا جانے لگے) اور خون ارزاں ہونے لگے (قتل و غارت عام ہونے لگے) اور خونی رشتے ٹوٹنے لگیں (صلہ رحمی ختم ہوجائے) اور حلیم، برداشت کرنے والے لوگوں کو کمزور سمجھا جانے لگے اور ظلم و جبر کرنے والے خوشی محسوس کریں اور فاسق و فاجر حکمران بننے لگیں اور خائن و بددیانت لوگ وزیر بننے لگیں اور ظالم لوگ ان کے نمائندے (کونسلرز اور ناظم) بن جائیں اور قرآن کے عالم اپنے عمل میں فاسق ہوجائیں (دین پڑھیں، پڑھائیں مگر قرآن کا نور ان کے سینے میں نہ رہے، قرآن کی لذت و حلاوت ان کی زندگیوں میں نہ رہے) اور ظلم و ناانصافی غالب ہوجائے اور خاندانوں میں کثرت سے طلاقیں ہونے لگیں اور کثرت سے لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہونے لگیں اور ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات تہمتیں لگانے لگیں اور قرآن خوبصورت چھپائے جانے لگیں اور مساجد کی تزئین و آرائش ہونے لگے اور مسجدوں کے مینار اونچے بنائے جانے لگیں (ان پر فخر کیا جائے) اور مسجدیں نمازیوں سے بھر جائیں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا وقت آئے گا کہ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوں گی مگر ان میں سے مومن کوئی ایک بھی نہ ہوگا جس کے دل میں ایمان ہو) اور عہد و وعدے توڑے جانے لگیں اور دل ایک دوسرے سے دور ہوجائیں، تجارت میں حرص بڑھ جائے (بیویاں بھی شوہروں کے ساتھ شریک ہوجائیں) عورتیں اپنی شکل و صورت میں مردوں جیسی بننے لگیں (جین پہننے لگیں، شرٹیں پہننے لگیں، بال کٹوانے لگیں، لباس دیکھ کر معلوم نہ ہو کہ مرد ہیں یا عورت) اور مرد، عورتوں کی طرح بننے لگیں (لباس ریشمی ہوں، بال لمبے ہوں، بول چال عورتوں کی طرح) اور کوئی کسی کو سوائے پہچان کے سلام نہ کرنے لگے (اجنبی کو سلام نہ کیا جائے) بھیڑیے کی کھالیں لوگ پہننے لگیں (دل بھیڑیے کی طرح اور بظاہر تقویٰ و پرہیزگاری کا لبادہ ہو) اور آخرت کے نیک عمل کے ذریعے دنیا کمائی جانے لگے (اعمال آخرت دنیا کا ذریعہ بن جائیں) اور علم، معرفت سے خالی ہوجائے‘‘۔

    آپ نے درج بالا 30 علامتیں بیان کرکے فرمایا کہ جب یہ چیزیں ظاہر ہوجائیں تو حضور کے ارشادات کے مطابق سمجھ لینا کہ دجال کے خروج کا وقت قریب آگیا اور قیامت سر پر آگئی۔ ۔ ۔ درج بالا گفتگو میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں تقریباً 75 علامات قیامت کے متعلق جانا، کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی ہے جس کے بارے ہم کہہ سکیں کہ یہ ابھی ظاہر نہیں ہوئی۔ کوئی کلی طور پر ظاہر ہوچکی اور کوئی جزوی طور پر ظاہر ہوچکی، کسی کی ابتداء ہوگئی اور کس کی انتہا ہوگئی کوئی وسط میں ہے۔ ہم اس زمانے میں ہیں جب اقتربت الساعۃ کا ڈنکا بج رہا ہے، نقارہ بج رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی، حساب کا وقت قریب آ گیا۔ جب صورت حال یہاں تک آپہنچے اور ہم علامات قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اس کے باوجود ہم نہ بدلیں اور بدلنے کا آغاز نہ کریں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم پھر ان پر ایمان ہی نہیں لائے، ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ داخل ہوتا تو ہمیں بدل دیتا۔

    میں امید کرتا ہوں کہ تحریک منہاج القرآن کے وابستگان کے اندر اس تبدیلی کا آغاز ہوجائے گا جو اقتربت الساعۃ سن کر ہونا چاہئے اور ہر وابسطہ، ہر رفیق اور ہر سننے والا بدل جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام نظر آئے۔ زبان سے کڑواہٹ ختم کردو، زبان میں مٹھاس پیدا کریں۔ ۔ ۔ عبادت کی لذت و حلاوت زندگی میں لائیں۔ ۔ ۔ جوان ایسے بن جائیں کہ رات کے اندھیرے میں اللہ کے حضور کھڑے ہونے والے ہو جائیں۔ ۔ ۔ راتیں آجائیں تو تم راہب لگو یعنی تمہاری لو ہر ایک سے کٹ کر اللہ سے جڑ جائے خواہ آدھ گھنٹہ ہی ایسا کرسکو۔ ۔ ۔ اور جب دن ہوجائے تو اللہ کے لئے راکب (سفر کرنے والے) لگو حلال تجارت بھی کرو، دین بھی پھیلاؤ اور اسلام کے فروغ کا حق ادا کرو۔ ۔ ۔ اور رات ہوجائے تو آنکھیں چھم چھم آنسو برسائیں۔ یہ تبدیلی پیدا کرو ہر کوئی یہ سوچے کہ کہیں ہم ان میں سے نہ ہوجائیں جن کو قیامت کے دن ان کی بداعمالیوں کے سبب منہ کے بل گھسیٹا جائے گا۔ ہم سب ایک دوسرے کا سبب بن جائیں اور روز قیامت ایک دوسرے کے شافع بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے ہمیں یہ خیرات دے کہ ہم فکر دنیا چھوڑ کر فکر آخرت کی زندگی کا آغاز کریں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں