1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فوزیہ(ناولٹ) تحریر کنندہ ایم اے رضا maraza121@gmail.com

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از ایم اے رضا, ‏14 جنوری 2009۔

  1. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    خدارا خدارا اس لڑی میں کوئی پیغام مت دیں اگر دینے کی ضرورت پیش آئے تو عشق جنوں پیشہ کی لڑی میں عطاکریں ناول یا ناولٹ کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے اور اگر اس کے بیج کوئی اور کسی بھی قسم کی کوئی چیز (چاھے پیغام ہی(حائل ہو جائے تو اس کا اثر گم ہو جاتا ہے امید واثق ہے نہ تو کوئی ممبر اس کو محسوس کرے گا نہ برا جانے گا بھائی کی مجبوری ہی سمجھ لیں
    ------------------احقر العباد ایم اے رضا-----------------------------
     
  2. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: فوزیہ :titli: :titli:

    ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس کے والدین نے اسکا نام سے منسوب(فوزیہ/ کرکے رکھا مگر اس نے ساری زندگی میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کی اور اذیت ناک زندگی گزاری
     
  3. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    چاچا کرملی(کرم علی) او چاچا کرملی(کرم علی)مجھے دو روپے کی املی دے دے "او دھیے تو ھن نکی جئی بالکی نئیں توں ھن وڈی ہو گئیں ایں ----تے-----ھولی بولیا کر-----چاچے کرملی نے دو روپے کی املی تول کر کاغذ میں تہہ کر کے فوزیہ کو دیتے ہوے کہا تو فوزیہ بولی چاچا ابھی تو میں صرف چھٹی جماعت میں ہوں جب آٹھویں جماعت میں جاوں گی تو دیکھ لوں گی -اس نے املی لی اور گلی کی نکڑ کی طرف بھاگنے لگی ------"اوئے دھیے ھولی ٹر تو کڑی ایں منڈا نئیں "مگر اس نے چاچے کی آواز کو سنی ان سنی کیا اور گلی کا موڑ مڑ کر سکول جانے لگی ابھی اس نے سکول کے دراوزے سے اندر پاوں رکھا ہی تو ساتھ ہی تفریح بند ہونے کی بجنے والی گھنٹی کے ساتھ ہی اس کی سھیلیوں نے وہیں پے اسے پکڑ لیا تو اس نے تھوڑی تھوڑی املی سب میں بانٹی اور باقی مٹھی میں رکھ کر واپس کلاس میں چلی گئی
    "فوزیہ پتر" فوزیہ پتر"فوزیہ پتر"اسکی اماں کی آواز نے اسے خیالوں سے چونکا دیا اور وہ خیالوں کے بھنور سےباھر آتے ہوئے بولی"ج ی جی جی اماں"پتر دراوزے تے ویکھ کوئی آیا اے" زینب نے کہا "جی اماں جا رہی ہوں"کہہ کر وہ دروازے کی طرف گئی-----دروازہ بند کر کے کنڈی لگا کر واپس آتے ہوئے کہا "اماں فقیر تھا چلا گیا"پتر اہناں نوں خالی نہیں بھیجی دا اہیہ بڑے پنچے ھوندے نے"زینب بولی"اونہوں اماں اتنے پنچے ہوئے ہوتے تو بھیک مانگ رہے ہوتے زیرلب کہا اور کہہ کر اندر کمرے میں چلی گئی اور اپنی آٹھویں جماعت کی کتابیں دیکھ کر سوچنے لگی "کیا اماں مجھے نوویں جماعت میں داخلہ لے کردے گی یا مجھے بھی اماں کی طرح بس آٹھویں جماعت پاس کا انعام ملے گا "کیوں نہیں میں ضرور پڑھوں گی میں نے پورے سکول میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں مجھے کون روک سکتا ہے پڑھنے سے میں ضرور پڑھوں گی آگے ہر صورت مجھے کوئی نہیں روک سکتا میں پڑھوں گی -----خود سے باتیں کرتے اچانک اسکی نظریں کمرے کی اندرونی سیلی دیواروں کے (گویا) برسوں پرانے بوسیدہ کاغذپڑھنے لگی گویا وہ اس کے لیے نویں جماعت کا وہ نصاب ہو جس کا اس نے امتحان دینا ہے اسی اثنا میں اس کے کندھے پر دباو پڑتے ہی------------to be continued
     
  4. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    -------اس نے والدہ کا ہاتھ سمجھا مگر دباو اپنے وقت سے طویل ہوا تو اس نے مڑ کر دیکھا
    "سجو تو"
    "جی میں"
    تو کب آئی فوزیہ نے پوچھا
    اچھا جی مابدولت کے دروازہ پیٹنے اور اندر آنے تک موصوفہ کو پتا ہی نہیں چلا کیا ہٹ دھرمی ہے "نہیں نہیں میرا مطلب ہے سسرال سے کب آئی فوزیہ نے پوچھا تو اس کا چہرہ قدرے مرجھا گیا مگر وہ چھپاتے ہوئے بولی "کل ہی آئی ہوں بس ذرا گھر کے کام کاج اور دیگر وجوہات کی بنا پر فراغت نہ مل سکی آج ذرا فرصت ملی تو دوڑی آئی تیری طرف
    "بہت اچھا کیا"
    میں بھی آج کل کچھ زیادہ ہی پریشان ہوں فوزیہ نے کہا اور فورآ اسکو اپنی چارپائی پر سرھانے کی طرف بٹھا کر خود پائینتی کی طرف بیٹھ گئی اور یک زبان ہو کر پرتکلف الفاظ کی بھر مار کر دی "سجو کیا کھائے گی،پیے گی،وغیرہ وغیرہ
    "اوئے بس بس تو تو لگتا ہے مجھے کھلا پلا کر بھرپور مارنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہو
    "سنا ہے تمھارے ہاتھ کی چائے بہت مشہور ہے"سجو بولی"
    تمھیں کیسے پتا چلا فوزیہ نے پوچھا
    "چاچی میہداں (حمیداں) بتا رہی تھی کہ فوزئی اتنی اچھی چائے بناتی ہے کہ جواب نہیں"سجو نے بتایا
    اچھا چل تو بیٹھ میں تیرے لیے چائے بنا کر لاتی فوزیہ نے کہا اور اٹھ کر دروازے کی طرف چل دی لکڑی کے دروازے سے وہ چھجے نما ٹین کی چھت والے برآمدے میں داخل ہوئی اور اس تکون نما 7مرلے کے گھر کی چار دیواری کے ایک کونے پر بنے کوٹھری نما باورچی خانے کی طرف چل دی---------------(جاری ہے)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں