1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فلسفی اور عاشق کا مکالمہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏19 اکتوبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,129
    موصول پسندیدگیاں:
    9,753
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    فلسفی اور عاشق کا مکالمہ
    احمد علی کورار

    عشق جب سر پہ سوار ہو تو آدمی سرکش بن جاتا ہے اور یہی عشق جب روح میں سرایت کرتا ہے تو آدمی آشفتہ سر بن جاتا ہے۔

    وہ چہرے پہ اک مغموم سی مسکراہٹ لیے میرے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
    سگریٹ پیئوگے؟
    نہیں، میں نے نفی میں سر ہلایا۔
    شراب کیا روانی سے پیتے ہو؟
    نہیں کبھی کبھی، میں نے صراحی سے مینا و قدح آبگینے میں انڈیلتے ہوئے کہا۔
    چہرہ شاہی پر خانہ ویرانی کے آثار اس بات کی نوید ہیں کہ جناب تشنہ کام محبت ہے۔
    تو آپ قیافہ شناس ہیں؟
    نہیں پیکرِ آدم۔
    مطلب؟
    افلاطون کہتا ہے کہ ایک گھنٹے کے کھیل میں آپ کسی شخص کے بارے میں ایک سال کی گفتگو سے زیادہ جان سکتے ہیں.
    اوہ فلسفی ہو…

    اُس نے سگریٹ کا کش لیا۔
    دھواں ہوا میں اچھالا،
    دھواں تھا، خورشید کی تمازت تھی یا آتش جاںسوز،
    میرا دم گھٹنے لگا۔
    قلب گداز پذیر ہونے لگا۔
    میں نے آزردگی سے آنکھیں بھینچ لیں اور کرسی کی پشت سے سر لگائے دھیما مسکرانے لگا۔
    ایک مسکراہٹ انسان کا چہرہ کتنے خوب صورت انداز میں بدل دیتی ہے۔
    آواز تھی یا کاٹ دار شمشیر!!
    میں خود کو ڈھیر ہوتے محسوس کرنے لگا۔
    کچھ دیر توقف کہ بعد وہ دوبارہ گویا ہوا۔

    میں نے مسکرانا چاہا تو ہونٹوں کے کساؤ نے مجھے بھینچ دیا۔
    مسکراہٹ اور دل کا بڑا ساتھ ہوتا ہے صاحب جیسے دامن اور چولی کا۔
    انسان زبردستی نہیں مسکرا سکتا اس کی مسکراہٹ میں اس کا دل رکھا ہوتا ہے۔
    وہ روانی سے بولتا جا رہا تھا۔
    اور مجھے خوشگواریت میں بھی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔
    میں طیش میں آ گیا، اپنی ہار بھلا کِسے گوارا ہوتی ہے۔

    تم فلسفیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ حالات کی نوعیت کا اندازہ ہوتا نہیں بس اپنا فلسفہ جھاڑ دیتے ہو۔
    تم لوگوں نے تو ہمیشہ عشق کو حقیر جانا ہے۔
    تمہاری کتاب میں محبت و عورت ہمیشہ پسماندگی کا شکار رہی ہے۔
    تم کیا جانو محبت کیا چیز ہے۔

    غم مت کھاؤ جو بھی تم کھو دیتے ہو وہ کسی نہ کسی شکل میں واپس آ ہی جاتا ہے۔
    رومی سے مستعار لینے کا شکریہ۔
    ایک استہزائیہ مسکراہٹ میرے لبوں کو چھو کر اوجھل ہوگئی۔
    مہاتما بدھ کہتا ہے کہ ماضی میں مت جیو، مستقبل کے خواب مت دیکھو، اپنے دماغ کو موجودہ لمحے پر مرکوز رکھو، زندگی سہل ہو جائے گی۔
    ہا ہا ہا ہا… سہل…. ایک مغموم سی مسکراہٹ نے میرے ہونٹوں کا طواف کیا۔
    کاش کہ مہاتما صاحب کو اندازہ ہوتا کہ زندگی ایک اِسرار ہے جتنا سمجھوگے اُتنی ہی مشکل ہوتی جائے گی۔
    اب اپنے فلسفی بھائی لاروش فوکو کو ہی دیکھ لو کہتا ہے ہجر عمومی جذبات کو جلا بخشتا ہے جیسے ہوا مشعلوں کو بجھاتی اور آگ کو اور بھڑکا دیتی ہے۔
    بھلا جذبات بھی کبھی عمومی ہوئے ہیں!! جذبات کا بھی کوئی رنگ و روپ اُبھرا ہے!! جذبات کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، جذبات کو محسوسیت ملے تو انفراق میں بھی لذت ملتی ہے۔

    تم زندگی سے اتنے بد گمان کیوں ہو۔؟
    میں زندگی سے بد گمان نہیں، بس زندگی سنسان سڑک جیسی لگ رہی ہے، دل کی زمیں اس سیارے جیسی ہے کہ جہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں۔
    وہ پھر گویا ہوا۔
    ولیم جیمز کہتا ہے یقین کر لو کہ زندگی جینے کے قابل ہے اور تمہارا یقین اسے حقیقت میں بدل دے گا۔
    میرا سر شدید درد سے پھٹا جا رہا تھا، دماغ کہ نہاں خانے ایک عجیب سے خلفشار کے زندان میں تھے۔
    میں فرار چاہ رہا تھا اور وہ مزید حرف گوئی کا متمنی تھا۔
    تبھی دوبارہ گویا ہوا۔

    اچھا چھوڑو یہ سب کچھ ، یہ دیکھو رنگ طلائی چوڑیاں, اُسے چوڑیاں بہت پسند ہے۔
    کِسے۔۔۔؟
    ارے میری جان کو۔
    اوہ اچھا۔
    وہ کہتی ہے کہ کانچ کے ان ٹکڑوں کا شور مجھے تمہاری محبت کا اسیر کیے رکھتا ہے اور میں اس شور میں تمہارے لمس کو اپنے اندر اُترتا محسوس کرتی ہوں۔
    میں نے ہوا میں ایک گہرا سانس خارج کیا۔

    آج اُس کی شادی کی پہلی سالگرہ ہے ناں، تو یہ چوڑیاں اُسے بطور تحفہ دوں گا۔
    کیا؟
    میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ وہ دوبارہ گویا ہوا۔
    یہ سوچ کر بڑی تکلیف اور اذيت ہوتی ہے کہ ہر کوئی وفا اور بے وفائی کے غم میں ڈوبا نظر آتا ہے۔
    عورت مرد کی بیوفائی پر اور مرد عورت کی بیوفائی پر رو رہا ہے۔
    چہروں، لہجوں اور الفاظ پر ویرانیاں چھائی ہوئی ہیں۔
    ہر کوئی اپنے دکھوں کا مداوا چاہتا ہے، دوسرے کو کوئی نہیں سننا چاہتا کہ اس کے اندر کیا چھپا ہوا ہے۔
    وہ کتنا بڑا درد چھپائے پھر رہا ہے۔
    دوسروں کا احساس ختم ہوگيا ہے۔
    ہر ایک کو بس اپنی پڑی ہوئی ہے۔

    یکدم صاعقہ نے ماحول کو لرزایا، بادل گرجا اور ایک موتی اُس کی آنکھوں سے نکل کر رخسار پر بہنے لگا۔
    وہ کہتی ہے کہ جب آپ کی یاد شدت اختیار کرے تو میں تصور میں آپ کے سینے سے لگ کر آپ کے پیار کے مضبوط قلعہ کے لمس کی چار دیواری میں دنیا و جہاں سے بےنیاز طمانیت کے سمندر میں ڈوب جاتی ہوں۔۔۔

    وہ چہرے پہ اک مغموم سی مسکراہٹ لیے بولتا جا رہا تھا۔
    جانتے ہو میں کتنی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہوں کتنا ہی تڑپتا کیوں نہ ہوں اُس کی کلائیوں میں دم توڑتی رنگ طلائی چوڑیوں کو جب سینے سے لگا کے اس کے روحانی پیار کے لمس کی لہروں کو محسوس کرتا ہوں تو ایک پرسکون ندی کی ماند شانت ہو جاتا ہوں۔
    اُس نے مینہ و قدح آبگینے میں انڈیلا، جام اُٹھایا اور سگریٹ نوش کرنے لگا۔

    ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺑﺎﮐﻤﺎﻝ ﺟﺬﺑﮧ ﮨﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﺮ ﺩﮮ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺟﺬﺑﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮐﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﺬﺑﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﺧﻼ ﮐﻮ ﺑﮭر نہیں سکیں۔

    ٹھیک ہے محبوب کی معیت محبت میں نکھار کا ذریعہ ہے، مگر محبت کبھی قربت کہ زاویے پر آ کر نہیں رُکتی، محبت وہ زینہ ہے جہاں ابتدا تو روح کرتی ہے مگر اختتام وجود کرتا ہے، محبت کبھی اگر مگر کے دائروں میں نہیں گھومتی، یہ ایک حصار ہے جو ذاتِ بشر کو فنا کر دیتا ہے۔

    وہ روانی سے بولے جا رہا تھا اور میں کرسی پر مبہوت بیٹھا اسے دیکھے اور سُنے جا رہا تھا۔

    محبت قربت کے نشے سے پاک ہوتی ہے، یہ تو موجودگی اور غیر موجودگی دونوں صورتی میں کسی کھیتی کی طرح من کی زمین پر لہلاتی رہتی ہے، کسی خوشبو کی طرح محض دھیان کو ہی حصار میں رکھتی ہے۔
    محبت خود پرستی سے مبرّا ہوتی ہے، یہ تو من و تو کا فرق مٹا دیتی ہے، بس دوسرے کے وجد میں،اس کی چاہ، اس کی خوشی میں ہمکتی رہتی ہے۔
    یہ وقت کے ساتھ بڑھتی ہے، ہر مشکل اور تکلیف سے گہری ہوتی جاتی ہے۔
    جب کہ جسمانی محبت گھٹتی جاتی ہے اور آخر ختم ہو جاتی ہے، بپھرے دریا کی مانند جو جتنی جلدی چڑھتا ہے اتنی جلدی اتر بھی جاتا ہے۔
    مُحبت ایک روحانی جذبہ ہے جبکہ قُربت جسمانی طلب!!
    قُربت کے طلب گار ہمیشہ نشے کی حالت میں رہتے ہیں، قُربت کی موجودگی و عدم موجودگی دونوں صورتوں میں۔
    جبکہ مُحبت جِس مَن میں بس جائے اُسے پاکیزگی کی خوشبو سے مہکا دیتی ہے۔ امر کر دیتی ہے۔
    اور جہاں محبت ہو وہاں قُربانی لازمی امر ہے کیونکہ محبت اور قُربانی لازم و ملزوم ہیں۔
    اور یہی محبت جیسے لازوال جذبے کی خوبصورتی بھی ہے۔
    محبت میں ٹوٹنا اور جھکنا آنا چاہیے نہ کہ خود پرست بن کر محبت کرو، محبت بانٹا آنا چاہیے نہ کہ اس کو قید کرنا۔

    اُس نے شراب کی صراحی سے مئے جام میں انڈیلتے ہوئے حلق سے نیچے اُتار دی، گہرا سانس خارج کیا اور سگریٹ کے دھوئیں سے کھیلنے لگ گیا۔
    کچھ دیر ہمارے درمیان خاموشی آ ٹپکی۔
    پھر خود ہی اس سکوت کو توڑتے ہوئے وہ یکدم کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا۔

    مجھے اب چلنا چاہیے، ہم بھی کہاں کی بحث لے کر بیٹھ گئے، بارہ بجنے میں ایک گھنٹہ باقی ہے، مجھے بارہ بجے سے پہلے یہ تحفہ اُس تک پہنچانا ہے۔

    وہ آگے بڑھا دروازے کے عین قریب پہنچتے ہی اچانک وہ مڑا اور مجھے دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔

    جہاں قربت روح سے ہو وہاں زمینی فاصلے لایعنی ہیں۔
    محبت اگر وصل یار کا نام ہوتا تو ہجر کے عذاب سہنے والے نہ ہوتے دنیا میں۔
    یاد رکھنا محبت ملنے بچھڑنے کی شرط سے مبرا ہوتی ہے۔

    وہ جس عجلت سے اُٹھا تھا اُتنی ہی سرعت سے جا چکا تھا۔ اب کمرے میں صرف میں تھا اور دھوئیں کا غبار۔

    آج میں جان چکا تھا کہ کبھی کبھی ہم دوسروں کو خوش کرنے میں اپنی شخصیت کو بھی مسخ کرنے سے گریز کیوں نہیں کر رہے ہوتے۔
    اور کبھی کبھی ناقابلِ برداشت درد کی انتہا پر رہتے ہوئے بھی ہمیں بظاہر مسکرا کر بات کیوں کرنا پڑتی ہے۔
    واقعی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم لکھ نہیں سکتے پڑھ نہیں سکتے سمجھا نہیں سکتے، صرف محسوس کر سکتے ہیں۔
    اور یہ محسوس کرنے کی حِس ہوتی تو ہر کسی میں ہے، مگر ہم اِس حس کو اپنی دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے کہیں دور بہت دور چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔
    یا پھر یہی کہنا ٹھیک ہوگا کہ مشینوں کے ساتھ رہتے رہتے مشین ہی بن چکے ہوتے ہیں۔
    احساس ختم تو نہیں ہوتے ہاں مگر یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ ہم ان احساسات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اور بنا کچھ محسوس کیے کئی اہم رشتوں کو شکوے شکایتوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

    میں اپنی جگہ کُرسی پر مبہوت بیٹھا اُس جاتے شخص کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ آخر تھا کیا، کوئی فلسفی، کوئی شاعر، کوئی عاشق یا پھر کوئی بہت بڑا مفکر۔
    بہرحال جو بھی تھا مجھے زندگی جینے اور رشتے نبھانے کا درس دے گیا تھا۔
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں