1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فلسفہِ معراج اوررویت باری تعالیٰ

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از عاصم محمود, ‏25 جون 2012۔

  1. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    معراج کا اصطلاحی معنی۔
    معراج کا معنی ہے آقا علیہ سلام کا آسمانوں پر جانا اور آسمانوں کی آپکو سیر کرانا۔

    معراج جسانی تھا
    آپ علیہ سلام کا معراج جسمانی تھا۔
    حضرت عائشہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم معراج کی رات گم نہیں ہوا
    اور قرآن میں ارشاد ہے"وما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنۃ"
    "اور ہم نے جو جلوہ آپکو شب معراج آپکو دکھایا وہ صرف لوگوں کے کے لیے آزمائش تھا۔۔۔۔۔۔۔۔بنی اسرائیل:60
    اب اس دلیل کا مطلب یہ ہے کہ "الرویا " سے مراد خواب نہیں ہے بلکہ آنکھ سے دیکھنا مراد ہے اور عائشہ رضی اللہ کا مطلب ہے کہ آپکا جسم روح سے الگ نہیں ہوا تھا۔بلکہ مطلب ہے کہ جسمانی معراج تھا جسم اور روح ساتھ تھی۔اگر روحانی یعنی خواب کا ہوتا تو اس پر کفار کواعتراض کیا تھا انہوں نے تو انکار ہی جسم کا کیا تھا۔۔۔اور معراج کومسجد العرام سے مسجد اقسیٰ اور پھر زمیں سے آسماں تک جانا ہے۔
    علامہ سعید الدین مسعود بن عمر تفازافی ؛ شرع عقائد نسفی ؛ص 104-105؛
    اگر جسمانی نہ ہوتا تو کفار اس پر اعتراض ہر گز نہ کرتے۔
    حضرت صدیق کبر کا صدیق ہونا بھی اس بات پر تھا کہ سفر جسمانی تھا،
    سورۃ بنی اسرائیل ذکر معراج اور۔۔۔۔۔۔۔اسراء
    بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۔۔"سبخٰن الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السمیع البصیر"
    "پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بیندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے ارد گرد ہم نے بہت سئ نشانیاں دکھائیں بے شک وہی سننے والا وہی دیکھنے والا ہے
    بنی اسرائیل؛1
    اس آیت میں جو سفر نامہ ہے اس میں 7 سات چیزوں کا زکر ہے
    1-سفر کس نے کرایا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے
    2-کس نے سفر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آقا علیہ سلام نے
    3-سفر کہاں سے کیا۔۔۔۔۔۔مسجد حرام سے
    4-سفر کہاں تک کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک
    5-سفر دن میں ہوا یا رات میں۔۔۔۔رات میں
    6-سفر کتنی دیر میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرمایا "لیلا" رات کے تھوڑے سے حصے میں
    7-سفر کس لیۓ کیا۔۔۔۔۔۔۔تاکہ ہن ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں

    اسراء سے مراد ہے "رات کو بیداری میں لے جانا" اور یہ عربی زبان کا اصول ہے

    سبخٰن الزی اسراء۔۔۔۔۔۔کاہنات کی ہر چیز الزی ہے۔مگر اللہ نے یہاں لفظ سبخان بیان فرما کر بتا دیا کہ پاک ہے وہ زات جو لے گئی اپنے بندے کو اب یہاں آقا کوفرمایا اپنا بندہ یعنی ہر بندے سے جدا یعنی میرا بندہ۔۔۔تو معلوم ہوا کہ حالت بشریت میں معراج ہوا۔۔۔۔کیونکہ خود اللہ نے فرمایا کہ "پاک ہے وہ زات جو لے گئی اپنے بندے کو۔۔۔
    اب اگر کہا جاۓ کہ آقا علیہ سلام نہیں گۓ جسم کے ساتھ تو اعتراض اللہ پر کیا جاۓ کہ وہ لے کر جا نہیں سکتا۔۔۔۔۔ وہی خود رہا ہے کہ میں لے کر گیا ہوں۔۔۔
    یہاں لفظ عبد بیان کر کہ اللہ نے فرما دیا ہے کہ معراج جسمانی تھی اور لفظ اسراء کے معنی بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔

    لفظ عبدہ کے اسرار
    اس آیت میں اللہ نے فرمایا پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گیا۔یعنی غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں یہ کیاں نہیں کہا جو اپنے رسول کو لے گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول وہ ہے جو اللہ کی طرف سے بندوں کی طرف آۓ اور بندہ وہ ہے جو بندوں کی طرف سے اللہ کی طرف جاۓ۔اللہ نے حضرت یحیٰ کے کیۓ فرمایا :
    ان اللہ یبشراک یحیٰ مصدقا بکلمۃ من اللہ وسیدا و خصورا(اٰل عمران 39)
    اللہ نے آپکو یحیٰ کی بشارت دیتا ہےجو ( عیسیٰ) کلمۃ اللہ کے مصدق ہوں گے اورسردار ہوں گے اور عورتوں سے بہت بچنے والے ہوں گے۔
    یحیٰ کو سید کہا اور آپ کو بندہ کہا اسکی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سلطنت ، سیادت اور مالکیت حقیقت میں تو اللہ کی ہیں اگر بندے کو مالک کہا جاۓ تو یہ مجازی ہوگا۔مگر بندہ اسی لیۓ کہا کہ اللہ اپنے حبیب کا ذکر حقیقی وصف کے ساتھ کرے مجاز اور مستعار کے ساتھ نہ کرے فضیلت حقیقی وصف میں ہے مجاز میں نہیں۔
    تو فرمایا کہ میرا بندہ ، اب یہاں میرا بندہ فرما کر سب سے جدا اور حقیقی معنی میں اپنے حبیب کو بیان کر دیا کہ بندہ تو ہے مگر ویسا نہیں ہے جیسے تم ہو۔خبر دار اس کو اپنے جیسا نہ سمجھنا۔
    ثم دنا فتدلیٰ کے اسرار
    علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
    حضرت حسن بصری نے "ثم دنا فتدلیٰ" لی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہیں۔اسی طرح "ولقد راہ نزلۃ اخریٰ" میں ضمیریں اللہ کی طرف لو ٹائی ہیں۔
    اور امام حسن بصری نے قسم کھا کر فرمایا کہ آقا علیہ سلام نے اللہ کو دیکھا۔اور ثم دنا کا معنی فرماتے ہیں کہ آقا علیہ سلام اللہ کے قریب ہوۓ اور آپکا مرتبہ بلند ہو گیا۔اور فتدلیٰ کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے آپکوبالکیہ جانب قدس کی طرف کھینچ کیا۔اسی مقام کو فنا فی اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔(سید محمود الوسی ؛ روح المعانی؛ جلد 27 ص 45)

    امام بخاری حضرت انس بن مالک سے روایت لاۓ ہیں ثم دنا فتدلیٰ کی تفسیر میں۔۔۔۔۔۔
    ضتیٰ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتٰی پر آۓ اور اللہ آپکے قریب ہوا پھر اور قریب ہوا حتیٰ کہ اوہ آپ سے دو کمانون کی مقدار کے قریب رق گیا یا اس سے بھی قریب۔پھر اللہ نے آپ پر وحی کی جو بھی وحی کی۔۔۔۔۔(بخاری صحیح؛ ج 2؛ ص 1120)

    امام مکی اور اما ما وری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ اللہ اپنے حبیب کے قریب ہوا اور آپ پر اپنا حکم اور امر نازل فرمایااور نقاش نے امام حسن بصری سے روایت کیا ہے کہ رب العزت اپنے بندے سیدنا مخمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہوا پھر اور قریب ہوا اور پھر اللہ نے جو چاہا آپکو اپنئ قدرت اور عظمت سے دکھایا۔۔۔۔(قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی' الشفاۃ؛ج 1؛ ص 126)

    سورۃ نجم میں جبرائیل کا دیدار نہیں

    امام رازی لکھتے ہیں کہ" اگر یہ اعتراض کیا جاۓ کہ تم نے ان آیات کی تفسیر میں جو ضمیریں اللہ ک طرف لو ٹائی ہیں اور یہ معنی کیا ہے کہ اللہ رسول اللہ کے قریب ہوا ہے اور آُ نے اللہ کو دیکھا ،یہ احادیث کے خلافف ہےکیونکہ حدیث میں ہے جبرائیل نے آپکو اپنی ذات دکھائی اور مشرق بھر لیا، اس کا جواب یہ ہے کہ (امام رازی فرماتے ہیں)ہم نے یہ نہیں کہا کہ ایسا نہیں ہوا لیکن آیت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اس آیت سے اس واقعہ کی حکایت کا رادہ کیا۔حتیٰ کہ اس حدیث کی مخالفت لازم آۓ۔ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ جبرائیل نے آقا کو اپنی ذات دو مرتبہ دکھائی۔اپنے پر پھیلاۓ۔ اور مشرق کو بھر لیا۔لیکن سورۃ نجم اس واقعہ کی حکایت کے لیے نہیں۔۔۔۔۔(امام رازی؛ تفسیر کبیر؛ ج7؛ ص 703)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں