1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فلسطین کی آبادی اور اسرائیلی

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏12 جولائی 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    غزہ ، غرب اردن ، اور مشرقی قدس کے علاقوں میں فلسطینی سرزمینوں میں فلسطینیوں کی آبادی کے اعداد وشمار کے ادارے نے دو ہزار تیرہ کے پہلے نصف تک ان علاقوں میں فلسطینیوں کی آبادی چوالیس لاکھ بتائی ہے ۔
    فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے آج اعلان کرتے ہوئے غرب اردن کے علاقے کی فلسطینی آبادی ستائيس لاکھ اور مشرقی قدس کے علاقے کی آبادی دس لاکھ اور غزہ پٹی کے علاقے کی آبادی سات لاکھ بتائی ہے۔
    فلسطینیوں کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چھپّن لاکھ فلسطینی مہاجرین دنیا کے مختلف ملکوں اور فلسطین کے ہمسایہ عرب ممالک میں زندگی بسر کررہے ہیں اس لحاظ سے فلسطینیوں کی مجموعی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ ہے جبکہ فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں میں اسرائیلیوں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے ۔
    نوائے ملت نیٹ فورم
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    فلسطینی مہاجرین کو اسی لئے اسرائیل واپس نہیں آتے دے رہا کہ یہودی آبادی فلسطینیوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ایک دفعہ فلسطینی لیڈوں نے کسی پورپین اخبار کو انٹرویو دیا تھا کہ اسرائیل ہمارے حقوق تسلیم نہیں کرے گا تو ہم علیحدہ ریاست کے دعوے سے دستبرداری کا اعلان کر کےایک ہی ریاست کا اعلان کر دیں گےیعنی اسرائیل کے شہری بن جائیں گے ۔تو اسرائیلی لیڈر چلا اٹھے تھے ،کہ ایساکبھی نہیں ہو سکتا اور نہ ہم ہونے دیں گے ۔کیونکہ اس طرح یہودی اقلیت میں بدل جائیں گے ۔اور الیکشن میں فلسطینیوں کی جیت ہو جائے اور فلسطینی پورے اسرائیل پر حکومت کریں گے۔
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    یہودی گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہے ہیں ، یعنی مقبوضہ فلسطین ، لبنان ، شام ، اردن مکمل ، مصر کا ڈیلٹا کا علاقہ ، ترکی ، عراق و ایران کے کچھ علاقے ، اور سعودی عرب میں مدینہ شریف و خیبر رتک کا علاقہ ، یہ سب اُن کے خیال کے مطابق گریٹر اسرائیل کا حصہ ہیں ، اور اس کے لیے اُنہیں نے کئی دہائیوں سے کام بھی شروع کر دیا ہے کہ جو اب واضع نظر آنے لگا ہے ، پچھلی صدی کے ابتداء میں ہونے والی دو عالمی جنگوں کے پیچھے بھی یہی مقصد تھا کہ جس کے بعد یورپ اور خصوصا برطانیہ اور امریکہ تو مکمل طور پر یہود کے پنجے میں آگئے ، برطانیہ کو استعمال کر کے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کا قیام اس سلسلے کی پہلی کڑی تھا ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں