1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فریدہ زین

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حیدرآباد کی خواتین افسانہ نگاروں میں فریدہ زین کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔

    فریدہ زین۲۳؍ اکتوبر۱۹۴۸ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ نامپلی گرلز اسکول سے میٹرک کیا اور بی اے عثمانیہ یونیورسٹی سے کرنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ تعلیم وتدریس سے فطری لگاؤ کی بنا پر فلاور زون ہائی اسکول ریڈ ہلز حیدرآباد کی بانی وسرپرست ہیں۔

    بھونگیر کے ایڈوکیٹ سیدزین العابدین صاحب سے شادی کے بعد فریدہ صاحبہ کو اپنے شوہر سے اور بھی تعاون ملا۔ ویسے تو فریدہ زین صاحبہ کو کہانیاں لکھنے کا شوق بچپن سے ہے۔ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں اس وقت سے وہ کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے ‘‘۔ ۱۹۷۰ء میں ماہنامہ بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے افسانے برصغیر کے مشہور ماہناموں میں چھتے آ رہے ہیں۔ جیسے :شمع،شاعر،بیسویں صدی،خاتون مشرق،سب رس، روبی، بانو،پونم، راشٹریہ سہارا حیدرآباد وغیرہ۔

    اب تک پانچ افسانوی مجموعے اور ایک مضامین کا مجموعہ منظر عام پر آ چکا ہے اور ایک ناولٹ ’’تلاش آدم‘‘ (قرآن و حدیث کی روشنی میں ) زیر ترتیب ہے۔

    فریدہ زین کے افسانوی مجموعے اس طرح ہیں۔

    (۱) سسکتی چاندنی (افسانوی مجموعہ)

    (۲) دل سے دار تک (افسانوی مجموعہ)

    (۳) اے گردش دوراں (افسانوی مجموعہ)

    (۴) دھرتی کا دُکھ (افسانوی مجموعہ)

    (۵) ایک حرف تمنا (افسانوی مجموعہ)

    فریدہ زین کا سب سے پہلا افسانوی مجموعہ ’’سسکتی چاندنی‘‘ ہے جو جون ۱۹۷۹ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کا پیش لفظ جیلانی بانو نے لکھا۔ مجموعہ ’’سسکتی چاندنی‘‘ میں گیارہ افسانوں پر مشتمل ہے جو حسب ذیل ہیں (۱) اک چراغ رہگذر (۲) شام جو ڈوب گئی (۳) شب غم سنور گئی (۴) شمع ہر رنگ میں جلتی ہے (۵) دست حنا (۶) ویراں ہے میکدہ (۷) بے نیازی حد سے گذری (۸) بہار دے کے خریدے گئے ہیں ویرانے (۹) ایک شیشہ اور ٹوٹا (۱۰) کانٹوں سے دل کے چاک سئے (۱۱) سسکتی چاندنی۔

    آل انڈیا ریڈیو کے نیرنگ پروگرام میں وقتاً فوقتاً ان کے افسانے نشر ہوا کرتے ہیں۔ ان کے ایک افسانے چراغ رہگذر کو دہلی میں اسٹیج شو کیا گیا۔

    فریدہ زین کے افسانوں کے مطالعے سے ان کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے افسانوی سفر کا آغاز رومان اور شاعرانہ انداز نگارش سے ہوا جس کی مثال ان کے افسانوں سے دی جاسکتی ہے۔ ان کے افسانوں میں سماجی شعور کے ساتھ ساتھ فرد اور سماج کی کشمکش کی صحیح عکاسی ملتی ہے۔ اپنے اطراف کے ماحول اور ذاتی تجربات و مشاہدات کو اپنے افسانوں میں سمونے کی کوشش کرتی ہیں۔

    ’’سسکتی چاندنی‘‘ ایک افسانہ بھی ہے اور اس مجموعہ کا عنوان بھی ہے۔ اس افسانہ میں ایک بدنصیب لڑکی چاند کی کہانی ہے جو حسن کی دولت سے بھی محروم ہے مگر اپنی انا اور خود داری پر جیتی ہے کسی کی ہمدردی و رحم کی بھیک کی محتاج نہیں۔ چاند کی خوبصورت بہن عفت کی شادی اس کے خالہ زاد بھائی صباحت سے ہوئی لیکن ایک بچے کو جنم دے کر اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔ چاند کو بچے سے والہانہ محبت دیکھ کر صباحت چاند کے سامنے شادی کی پیشکش رکھتا ہے۔ چاند نے صباحت سے کہا کہ آپ کو باجی سے محبت تھی اور مجھ سے ہمدردی۔ اس ہمدردی اور رحم کی بنا پر مجھ سے شادی نہ کیجئے۔ میری تمنائیں پوری نہ ہو سکیں اس کا مجھے غم نہیں۔ کوئی پھول پا کر نازاں رہتا ہے اور کوئی کانٹے پا کر خوش ہوتا ہے۔ ہم گڈو کی پرورش اور ازدواجی رشتے میں بندھ کر ہی نہیں بہن بھائی کے رشتے سے بھی کر سکتے ہیں۔

    فریدہ زین کے افسانوں کے کردار ایثار، قربانی کے جذبے ،پاکیزگی اور سمجھوتےو مفاہمت کو اُجاگر کرتے ہیں۔

    فریدہ زین کا دوسرا مجموعہ’’ دل سے دار تک‘‘ ہے جو ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ پروفیسر عنوان چشتی نے لکھا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں مندرجہ ذیل گیارہ افسانے شامل ہیں۔

    ۱۔ دل سے دار تک۔ ۲۔ خوابوں کے کھنڈر۔ ۳۔ چندا کی چاندنی۔ ۴۔ دل ایک سجدہ گاہ۔ ۵۔ پلکوں کی چھاؤں میں۔ ۶۔ منزل۔ ۷۔ بسیرا۔ ۸۔ گھونگھٹ کی آنچ۔ ۹۔ ہوکے رنگ۔ ۱۰۔ چشم نم۔ ۱۱۔ اور ہم اکیلے ہیں۔

    فریدہ زین ان افسانوں میں سماجی شعور، انسان سے ہمدردی، زندگی سے پیار، نفسیانی مشاہدہ، غریبوں اور مفلوک الحال کرداروں کے واقعات کی صحیح عکاسی کی ہے۔ ان افسانوں میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ کردار جو دن رات اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہے اس کے باوجود اس کو اپنا حق نہیں ملتا۔ ان کے افسانے ظلم کے خلاف شعور بیدار کرتے ہیں کہ اپنا حق مانگنے پر نہ ملے تو چھیننا چاہئے۔

    فریدہ زین کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’ اے گردش دوراں ‘‘ جو ۱۹۹۱ء میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کی قیمت صرف اٹھارہ روپئے ہے۔ اس مجموعہ میں بھی گیارہ افسانے ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں :

    ۱۔ اے گردش، دوراں۔ ۲۔ کوہ کن۔ ۳۔ کنارے بے وفا نکلے۔ ۴۔ یہ بتا چارہ گر۔ ۵۔ تلاش میں ہے سحر۔ ۶۔ خون پھر خون ہے۔ ۷۔ پتھر کا دور ۸۔ قاتل مسیحا ۹۔ وقتِ سفر یاد آیا۔ ۱۰۔ دل ڈھونڈ تا ہے۔ ۱۱۔ پھول انتظار کے۔

    ’’اے گردش دوراں ‘‘ کی کہانی غریب اور معصوم سات سالہ لڑکی گلابی کی ہے۔ جس کے پیدائش کے دوسرے سال ہی اس کا باپ گلابی اور اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا اس کی ماں بھی گلابی سے نفرت کرنے لگتی ہے کہ گلابی منحوس ہے۔ اس کی پیدائش پر اس کے شوہر سے ساتھ چھوٹ گیا۔

    گلابی کی ماں نواب صاب کے شاندار بنگلے میں بہ حیثیت ملازمہ گزر بسر کرتی تھیں۔ گلابی کی ماں کی طبعیت ناساز رہنے لگی تو گلابی کو اپنی جگہ رکھوا دی۔ گلابی اس گھر میں سارے گھر والوں کے کام جنگل کی ہرنی کی طرح اچھل اچھل کر کرتی لیکن گلابی کی پراہ کسی کو نہیں۔ ایک دن نواب صاحب کے دوست جو بمبئی سے آئے تھے گلابی کودو روپئے بخشش دیا۔ گلابی اس دن بہت خوش تھیں۔ کیوں کہ دس پیسے کو ترسنے والے ہاتھ پر آج دو روپئے تھے۔ وہ دو روپئے ماں کی دوا پر ہی خرچ ہو گئے۔ گلابی اپنے لیے کچھ بھی نہ لے سکی۔ گلابی سوچنے لگی روز ماں کو اس طرح روز دوائیاں ملتی رہی تو جلد سے جلد صحت ٹھیک ہو جائے گی۔ گلابی تو ہر روز مہمانوں کا انتظار رہنے لگا۔ جب بھی مہمان آتے ان کو مانگنے سے پہلے پانی پلا دیتی چائے پیش کرتی اور خاموش للچائی نظروں سے دیکھا کرتی مگر مقامی لوگ بخشش کیوں دیں گے۔ گلابی کی ماں نے کہا کہ کچھ پیسے دوا کے لیے بیگم صاحبہ سے مانگ کر لائے۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ پہلے ہی اگلے مہینے کی تنخواہ لے چکی اور اب کہاں سے دیں گے۔ گلابی کے پاس نکی بے بی کی اسکول کی فیس کے پیسے فراک میں تھے۔ اس دن بیگم صاحبہ نے گلابی کو بہت مارا پیٹا تھا نکی بے بی نے گلدان توڑ دیا اور الزام گلابی کے سرآ گیا۔ لیکن گلابی کو بیگم صاحبہ کی ڈانٹ کی پرواہ نہیں ماں کی فکر تھیں نکی بے بی کے فیس کے ۲۰ روپئیے لے کر گھر گئی ماں کی طبیعت بہت بگڑ چکی تھی۔ رحیمو چاچا کے رکشے میں دواخانہ لے جایا گیا۔ بتیس روپئے کی دوالی اور اٹھائیس بچے ہوئے تھے۔ وہاں ہاسپٹل میں بڑے سرکار آ گئے اور گلابی کے گال پر تھپڑ رسید کر کے کہا ’’چور کہیں کی‘‘ اسکول کی فیس چرا کر لے آئی۔ گلابی نے کہا میں چور نہیں ہوں۔ میں آپ کے پیسے کام کر کے واپس کروں گی۔ ادھر ڈاکٹر نے کہا کہ اس پیشنٹ کے ساتھ کون ہے۔ رحیمو چاچا بھاگ کر گئے۔ ڈاکٹر نے کہا معاف کرنا ہم اس پیشنٹ کو بچا نہیں سکے۔ گلابی نے اٹھائیس روپئے بڑے سرکار کے منہ پر پھینک دیئے۔ گلابی کے سر سے ماں کا آخری سہارا بھی چھوٹ چکا تھا۔

    فریدہ زین کے افسانوں میں تسلسل، روانی، سادگی، اسلوب کی نرمی برقرار رہتی ہے۔

    فریدہ زین کا چوتھا مجموعہ ’’دھرتی کا دکھ‘‘ ہے۔ ۱۹۹۴ء ڈسمبر میں ۵۰۰ کی تعداد میں یہ کتاب اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے جزوی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ اس مجموعے میں سترہ افسانے ہیں۔ ۱۔ جنبش لب۔ ۲۔ دھرتی کا دکھ۔ ۳۔ اشکِ سنگ ۴۔ جائے پناہ۔ ۵۔ نقشِ فریاد۔ ۶۔ دھماکہ۔ ۷۔ ایک شیشہ اور ٹوٹا۔ ۸۔ درد اور درماں۔ ۹۔ چاند پھر نکلا۔ ۱۰۔ دستِ حِنا۔ ۱۱۔ ٹکراؤ۔ ۱۲۔ کرچیاں۔ ۱۳۔ ویراں ہے میکدہ۔ ۱۴۔ پرواز۔ ۱۵۔ طوفان کے بعد۔ ۱۶۔ سائبان۔ ۱۷۔ ناآشنا۔

    فریدہ زین صاحبہ کی کہانیاں عموماً بیانیہ ہوتی ہیں۔ ان کو زبانو بیان پر قدرت حاصل ہے۔ ان کے افسانوں میں منظر کشی کا مشاہدہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں پہلے ہلچل ہوتی ہے، پھر درد کسک، اختتام میں المیہ ہوتا ہے۔

    فریدہ زین صاحبہ کا پانچواں افسانوں مجموعہ ’’ایک حرفِ تمنا‘‘ ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے جزوی تعاون سے شائع ہوا۔ اس میں کل پندرہ افسانے ہیں۔ ۱۔ ایک حرف تمنا۔ ۲۔ روزگار۔ ۳۔ سرائے کا نگہبان۔ ۴۔ شاہ کار۔ ۵۔ پھول کی پتی سے۔ ۶۔ مٹی بھر اناج۔ ۷۔ بارش میں بھیگا سورج۔ ۸۔ روپ بہروپ۔ ۹۔ چھاؤں سے دھوپ تک۔ ۱۰۔ بھرم۔ ۱۱۔ بے نام سی یہ رات۔ ۱۲۔ سیلاب۔ ۱۳۔ بار شبنم۔ ۱۴۔ دل گم گشتہ۔ ۱۵۔ کوہ کن۔

    اس مجموعہ میں چار افسانے محبت اور رومانی انداز کے ہیں۔ ایک حرف تمنا، سیلاب، چھاؤں سے دھوپ تک، بے نام سیرت۔ ان چار افسانوں میں محبت اپنے روپ بدلتی رہتی ہے۔ کرب تنہائی، آرزو، تمنا لئے ہوئے۔ مرد اور عورت کی محبت کی طالب تو کہیں شدید جذبہ انتقام۔ وہ اپنے افسانے کی بنیاد ایسے واقعہ پر نہیں رکھتی جو بعید از قیاس ہو۔ ان کے افسانوں میں نئے مسائل، نئے تجربوں کے ساتھ آگہی و بصیرت کی ایک مانوس فضاء ملتی ہے۔ ان کے یہاں تازگی ہے۔ مجموعوں میں شامل افسانوں کے مقابلے میں یہاں ان کا فن ارتقائی سفر میں تیزی سے پروان چڑھتا نظر آیا ہے۔

    فریدہ زین کے افسانے فنی اعتبار سے بہت ہی کامیاب افسانے ہوتے ہیں۔

    فریدہ زین کے مجموعۂ مضامین ’’ندائے قلم‘‘ کا ادبی جائزہ مضامین کے باب میں ملاحظہ فرمائیے۔

    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں